آنکھ کو نقصان پہنچنے کے اندیشہ سے غسل اور وضو کے بجائے تیمم کرنا

سوال:  کسی شخض کی آنکھ کا آپریشن ہوگیا ہے اور ڈاکٹر نے اس کو۴۰؍دن تک نہانے سے منع کیا ہے، اور کہا ہے کہ اگر آپ ۴۰؍دن سے پہلے نہائیں گے ،تو آپ کی آنکھ کو نقصان ہوسکتا ہے ،تو ایسی صورت میں اس شخص کو اگر حاجت ہوجائے تو کیا کرنا چاہئے؟ غسل کرلینا چاہئے یا تیمم سے پاک ہوجائے گا؟ یا کوئی اور صورت ہو تو تفصیل سے بتائیں!

الجواب وباللہ التوفیق :  آنکھ پر پانی پہنچنے کی بناء پر نقصان کا اندیشہ ہو، تو آنکھ پر مسح کرے، اگر آنکھ پر مسح کرنا ممکن ہو، ورنہ چھوڑدے(۱)اور بقیہ بدن پر پانی بہانا لازم ہے، اور اگر پورے بدن پر پانی بہانے کی وجہ سے آنکھ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، تو پھر اس صورت میں تیمم کرسکتا ہے ۔(۲)

والحجۃ علی ما قلنا:

(۱) ما في ’’ رد المحتار علی الدر المختار ‘‘ : ویجوز أن یصح مسحہا ولو شدت بلا وضوء وغسل دفعاً للحرج ، ویترک المسح کالغسل إن ضر وإلا لا یترک ۔( در مختار) ۔

(۱/۴۰۷، کتاب الطہارۃ ، مطلب الفرق بین الفرض العملي والقطعي والواجب ، ط : دار الکتاب دیوبند)

ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : إذ زادت الجبیرۃ علی رأس الجرح إن کان حل الخرقۃ وغسل ما تحتہا یضر بالجراحۃ ، یمسح علی الکل تبعاً ، وإن کان الحل والمسح لا یضر بالجرح لا یجزئہ مسح الخرقۃ بل یغسل ما حول الجراحۃ ویمسح علیہا لا علی الخرقۃ ، وإن کان یضرہ المسح ولا یضرہ الحل یمسح علی الخرقۃ التي علی رأس الجرح ویغسل حوالیہا وتحت الخرقۃ الزائدۃ ، إذ الثابت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا۔

(۱/۳۲۶ ، کتاب الطہارۃ ، باب المسح علی الخفین ، ط : دار الکتاب دیوبند)

(۲) ما في ’’ کنز الدقائق مع البحر ‘‘ : یتیمم لبعدہ میلا عن ماء أو لمرض ۔

(۱/۲۴۱، باب التیمم ، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت)

وما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : بأن یخاف اشتداد مرضہ لو استعمل الماء ۔ (۱/۲۴۵، باب التیمم)

ما في ’’ الدر المختار مع رد المحتار ‘‘ : وقال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللّٰہ : أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ۔ (در مختار) ۔ قولہ : (أو حاذق مسلم) أي إخبار طبیب حاذق مسلم غیر ظاہر الفسق ، وقیل عدالتہ شرط ۔ (۱/۳۵۲)

ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : لو کان المحدث یجد الماء إلا أنہ مریض یخاف إن استعمل الماء اشتد مرضہ أو ابطاء برئہ تیمم ۔ (۱/۲۸، الباب الرابع في التیمم ، ط : مکتبہ زکریا سہارنپور) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی۔ ۴/۱۲/۱۴۲۹ھ

(فتویٰ نمبر: ۱۵۰۔رج:۲)