علومِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک بے مثال علمی کارنامہ

دوسری قسط :                              مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ  

’’ الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الإمام أبی حنیفۃ ‘‘  ۲۰ جلدوں میں

(ذخیرہ حدیث کے باب میں ایک بہترین اضافہ )

امام صاحب کی مرویات کو جمع کرنے کی علما کی تمنا اور آرزو:

            مذکورہ علما ئے محدثین نے امام صاحب کی احادیث کو اپنے اپنے طور پر جمع کیا ، مگر ضرورت تھی ایک انسائیکلو پیڈیائی انداز میں امام صاحب کی احادیث کو جمع کرنے کی جس سے دو فائدے ہوں ، ایک تو امام صاحب پر جو بہتان ہے قلیل الحدیث ہونے کا وہ علمی انداز میں زائل ہو۔ اور دوسرا اسی بہانے امام صاحب کی منتشر دسیوں ہزار احادیث ایک جگہ جمع ہوجائے؛ تاکہ طاعنین اور حاسدین کی زبان بند ہوجائے۔ ویسے تو امام صاحب کے تلامذہ ہی سے اس کام کا آغاز ہوگیا تھا ، البتہ ہمارے آخری دور میں سلفیت کے دعوے داروں نے کچھ زیادہ ہی سر اٹھایا اور بہتان سے تمسخر تک پہنچ گئے ، تو پچھلے تقریباً سوسال سے علمائے احناف یہ تمنا کررہے تھے کہ اب تو یہ کام کسی بھی صورت میں ہونا چاہیے ۔ علامہ عبد الحی فرنگی محلی نور اللہ مرقدہ نے خاص طور پر اس جانب توجہ دلائی تھی اور اپنی کتاب ’’ تذکرۃ الراشد ‘‘ میں لکھا : ’’ اگر کوئی مصنف امام صاحب کے تلامذہ اور آپ کے قریبی دور میں لکھی گئی حدیث کی کتابوں پر نظر کرے، تو امام صاحب کی سیکڑوں نہیں بل کہ ہزاروں احادیث پائے گا ،جس کو آپ نے اپنے اساتذہ سے روایت کی ہیں ۔

(مقدمۃ موسوعۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ)

            علامہ ظفر احمد عثمانی نے بھی تحریر کیا کہ ’’ اگر امام صاحب کی منتشر احادیث کو جمع کیا جائے تو حدیث کی ضخیم کتاب وجود میں آسکتی ہے ۔ (مقدمہ اعلاء السنن )

            مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری نے تحریر کیا ،جو لوگ امام صاحب کی طرف صرف ۱۷؍ احادیث کی نسبت کرتے ہیں وہ سراسر غلط ہے ، اس لیے کہ آپ کے تلامذہ ہی کی کتابوں میں سیکڑوں احادیث موجود ہیں اور حدیث کی دیگر کتابوں میں جوہیں وہ مستزاد ۔ (مقدمۃقلائد الازہار)

            مفتی فخر الدین الغلائی نے ’’سعی السلام مجمع احادیث ابی حنیفۃ الإمام ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ امام زاہد الکوثری نے کوشش کی کہ امام صاحب کی احادیث یکجا کی جائے ، مگروہ نہیں کرسکے بل کہ امام جلال الدین السیوطی نے بھی ’’ تبییض الصحیفہ ‘‘ میں تمنا ظاہر کی کہ میں امام صاحب کی احادیث کو جمع کروں گا ، مگر شاید وہ نہیں کرسکے۔

            اسی طرح علامہ ابو الوفاء الأفغانی نے بھی کوشش کی مگر نہ ہوسکا ، اس کے بعد انہوں نے مولانا عبد الرشید النعمانی کو یہ کام سپرد کیا ، مولانانے کام شروع کیا مگر مکمل نہ کرسکے ۔ اس طرح یہ کام قرض کے طور پر علمائے احناف کے ذمہ باقی رہا ، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے اس عظیم کام کو محدثِ عصر( تلمیذ محدث کبیر علامہ حبیب الرحمن الاعظمی) مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم کے مقدر میں لکھ دیا اور الحمد للہ طویل جد و جہد کے بعد اب یہ کام مکمل ہوچکا ہے ، بس اب یہ طباعت کے مرحلہ میں  ہے ۔ کام کی تفصیل کچھ یوں ہے :

موسوعہ کے مرتب  اور جامع مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم کا تعارف :

            حضرت مولانا لطیف الرحمن صاحب قاسمیؔ در اصل ہمارے آخری دور کے بزرگوں کے منظور نظر رہے ہیں، حضرت نے اپنی عالمیت کی ابتدائی تعلیم جامعہ ہتھورہ باندہ سے حاصل کی ،جہاں عارف باللہ حضرت قاری صدیق صاحب باندوی نور اللہ مرقدہ کے آپ خاص توجہ کے مرکز رہے ۔ اس کے بعد دارالعلوم سے آپ نے دورہ ٔحدیث شریف کیا ۔ آپ کی صلاحیت اور صالحیت کی وجہ سے آپ اپنے اساتذہ کی توجہ اپنے جانب مرکوز کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعد جب علم حدیث سے آپ کو شغف زیادہ ہوا تو آپ نے محدث کبیرحضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ سے استفادہ کیا۔ حضرت نے بھانپ لیا کہ یہ بندہ کام کا بنے گا ، لہٰذا آپ پر خاص توجہ دی اوراس طرح آپ کو علم حدیث اورمخطوطات کی تحقیق میں درک حاصل ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے ، اللہ نے آپ کو آج سے تقریباً ۳۰؍ سال قبل مکہ پہنچادیا اور آپ کا تعلق پیر طریقت حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی نور اللہ مرقدہ سے ہوگیا ، بس پھر کیاتھا اللہ نے آپ سے وہ کام لیا، جس کی عصر حاضر میں امت محمدیہ کو ضرورت تھی اوروہ یہ ہے :

            ’’ الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ ‘‘

             در اصل آپ جامع شریعت وطریقت ہیں ، ہمارے متعدد بزرگوں سے آپ کواجازت خلافت حاصل ہے ۔ بندے کا حضرت سے تعلق کافی پرانا ہے ، بل کہ آپ کا عارف باللہ قاری صدیق صاحب باندوی ؒ کی مناسبت سے والد صاحب سے بھی گہراربط رہا ہے ۔ بندے نے سالِ گزشتہ جب آپ ہمارے برادرِ کبیر مولانا سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد تشریف لائے ،تو کہا کہ حضرت ہم الاستاذ الزائر کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں، جس کا آغاز آپ سے کرتے ہیں ۔ حضرت نے وعدہ کیا اور شوال کے اخیرمیں تشریف لائے تو دورۂ حدیث شریف میں ’’ امام ابو حنیفہ اور علم حدیث ‘‘ کے عنوان سے آپ کا محاضرہ رکھا ،جو الحمد للہ انتہائی مفید رہا ، جس میں آپ نے ’’الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفۃ ‘‘کا تذکرہ کیا تو بندے نے مناسب جانا کہ اس کا تعارف آنا چاہیے۔

موسوعہ پر کام کی نوعیت:

            آپ نے اپنی تالیف کے مقدمہ میں اپنے کام کی نوعیت اس طرح بیان کی کہ امام صاحب رحمہ اللہ کی مرویات پر جو کام شروع کیاگیا تھا ،یہ اس سلسلہ کی پندرہویں کتاب ہے ۔ اس سے قبل جو مسانید پر تحقیق کا کام ہوا ہم اس کے مقدمہ میں یہ وعدہ کرتے چلے آئے ہیں کہ امام صاحب کی مسانید کی تحقیق در اصل آپ کی مرویات کے انسائیکلوپیڈیا کے پیش خیمہ کے طور پرہے ۔ ان شاء اللہ اپنے باب میں ایک خاص اضافہ کی حیثیت رکھے گا اوربعد میں آنے والوں کے لیے امام صاحب کی مرویات کے باب میں اہم مصدر اور مرجع بنے گا ؛ جس میں بندے نے احادیث کی تمام کتابوں کو کھنگالاہے،خواہ وہ مسانید ہوں یا سنن یاصحاح یاجوامع یا مصنفات یا مستدرکات یا معاجم یا اجزاء یا مشکل آثار یا کتب الزوائد یاکتب اطراف وغرائب یا کتب رجال یا تاریخ یا طبقات وتراجم وغیرہ ۔ غرض یہ کہ قرون اولی اور اس کے بعد احادیث پر جو بھی اور جس نوعیت کابھی کام ہوا ہو اس سے مکمل استفادہ کرکے امام صاحب کی مرویات کو وہاں سے ایک  جگہ جمع کیا جائے گا ۔دونوں کاموں کی جلدوں کی مجموعی تعداد ۴۰؍ سے متجاوز ہوگی ۔

علم حدیث کے باب میں ایک بے مثال اضافہ:

            گویا امام صاحب کی مرویات کا اتنا عظیم ذخیرہ پہلی بار یکجا جمع ہوکر زیور طباعت سے آراستہ ہونے جارہا ہے ۔ اللہ اسے اس کے شایان شان طبع ہونے کے اسباب مہیا فرمائے ۔آمین !جب کہ یہ تو محض مرویات کا وہ حصہ ہے جو موجودہ مطبوعات اور مخطوطات میں ہے ، البتہ امالی ابو یوسف میںاحادیث بکثرت تھی ، لیکن اس کا ایک معنی قلمی نسخہ تھا جومصر کے سفر میں علامہ کوثری کے ساتھ تھا وہ سمندر کی نذر ہوگیا ۔

موسوعہ کے محرک :

            آپ نے مقدمہ میں تحریر کیا کہ در اصل علامہ عبد الرشید نعمانی نور اللہ مرقدہ نے آج سے تقریباً ۲۵؍ سال قبل مکہ مکرمہ (زادہا اللّٰہ شرفا وکرماً )میں ایک ملاقات کے دوران یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ امام صاحب کی مرویات کو جمع کرنا چاہیے۔احیاء المعارف النعمانیہ حیدر آباد نے علامہ زاہد کوثری اورڈاکٹر حمید اللہ وغیرہ کو شامل کر کے اس کے لیے مسانید جمع کرنا شروع کیا اور کئی شیوخ کے نسخے جمع بھی کرلیے ، مگر اس وقت یہ کام کسی وجہ سے نہیں ہوسکا تھا ، البتہ مولانا لطیف الرحمن صاحب کے بیان کے مطابق احیاء المعارف النعمانیہ کے ذمہ داروں نے اس کام میں بھر پور تعاون کیا اور جو بھی مسانید کے نسخے ان کے پاس تھے سب فراخ دلی کے ساتھ استفادہ کے لیے مرحمت فرمائے ، جس پر میں ان کا بے حد ممنون ہوں ۔ 

کام کو دو مرحلوں میں انجام دیا گیا :

            مولانا لطیف الرحمن صاحب بہرائچی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ در اصل میں نے اس کام کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ۔

مرحلہ اولیٰ :

             پہلے مرحلے میں امام صاحب کی تمام مسانید پر تحقیق کرکے اس کی طباعت کے لیے تیار کیا، جس کے لیے آپ نے دنیا بھرکے کتب خانوں کی خاک چھانی، خاص طور پر ہندستان ، پاکستان ،مصر، ترکی، روس ، انڈونیشیااورسعودی وغیرہ جاکر مخطوطات کی فہرست کو کھنگالا اوراس فن کے ماہرین سے رابطہ کرکے استفادہ کیا ، جس کے نتیجے میں متعدد مسانید اور متعدد معبتر ترین نسخے ہاتھ لگے ، خاص طور پر

(۱)…مسند حارثی ۔

 (۲)… فضائل الامام ابی حنیفہ لابن ابی  العوام۔

  (۳)… مسند ابی حنیفہ لابن خسرو۔

              اور ان تینوں کی طباعت بھی الحمد للہ عمل میں آئی ۔ان کے ایسے نسخے حاصل کیے جو جامعین کے دور کے بالکل قریب ہو۔ اور اس کے علاوہ بھی امام صاحب کی مندرجہ ذیل دیگر مسانید پر تحقیق کا کام مکمل ہوچکا ہے۔

            ۱-المسند لابن المقری ۔

            ۲-المسند للثعالبی ۔

            ۳-المسند لابی نعیم ۔

            ۴-کشف الاثار الشریفۃ للحارثی۔

            ۵-جامع المسانید للخوارزمی۔

            ۶-الآثار لابی یوسف۔

            ۷-الآثار للإمام محمد بن الحسن الشیبانی۔

            مرحلہ ثانیہ :  دوسرے مرحلے میں تمام کتب حدیث اور اس کے متعلقات کتب سے امام صاحب کی مرویات کو جمع کرنے کا کام کیا گیا۔

            الحمدللہ ۱۵؍ سالہ اس جہد مسلسل کے بعد تقریباً ۱۰۴؍ کتابوں سے امام صاحب کی ۱۰۶۱۳؍ (دس ہزار چھ سو تیرہ )مرویات جمع ہوگئیں ہیں۔

محدثین احناف پر جو قرض تھا گویا ادا ہوگیا :

            اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے مولانا لطیف الرحمن صاحب سے ایک عظیم علمی خدمت لی ہے ، اللہ اسے شرف قبولیت سے نوازے ۔ علمائے احناف پر امام صاحب کا ایک قرض تھا گویا وہ ادا ہوگیا ۔ مولانا نے اپنی کتاب کے مقدمہ میںاشارہ کیاہے کہ امام صاحب کے تلامذہ اور متبعین نے آپ کی مرویات پر کافی کام کیا ہے ، مگر افسوس کہ اس میں سے اکثر دنیا کے مختلف کتب خانوں میںمخطوطات کی صورت میں موجود ہیں اور مولانا ان میں الاہم فالاہم کی رعایت کرتے ہوئے اسے تحقیق کرکے شائع کرنے کے لیے تیار کررہے ہیں ۔اور بہت سارا ذخیرہ عالم اسلام پر مختلف زمانوں میں ہوئی یلغار کے نتیجہ میں ضائع ہوگیا ۔

امام صاحب کے پاس پانچ لاکھ احادیث کا ذخیرہ تھا :

             ورنہ امام صاحب نے خود ایک موقعہ پر کہا ہے کہ’’ أن تعمل بخمسۃ أحادیث انتخبتہا من خمس مأئۃ الف حدیث ۔‘‘ (وصیۃ للامام الاعظم ابی حنیفۃ لابنہ حماد: ۱۰۱)

            اے میرے بیٹے حماد تو ان پانچ حدیثوں پر عمل کر، جن کو میں نے پانچ لاکھ احادیث میں سے چناہے ۔

            اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کم ازکم پانچ لاکھ تو احادیث تھیں۔ مولانا لطیف الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ پیر طریقت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب کو اس عبارت پر اطمینان نہیں تھا، تو بندے کو مکلف کیا کہ وہ اس کی تحقیق کرے۔الحمدللہ ! اس رسالہ کے دسیوں قلمی نسخوں سے تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ امام صاحب نے یہ بات بیان کی ہے کہ میں نے پانچ لاکھ احادیث سے پانچ کو منتخب کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں اور یہ عبارت بے غبار ہے ۔

            اب اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس دعوے میں امام صاحب منفرد اور اکیلے نہیں ہیں ، بل کہ امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے بھی اس طرح کے دعوے کیے ہیں ۔مگر ہمیں تو کہیں ان کی کتابوں اور مرویات میں اتنی بڑی تعداد نہیں ملتی! تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے جو زیادہ مستدل اور معتبر سمجھی ان کو جمع کیا بقیہ کو ترک کردیا ، تو امام صاحب کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا !!!۔ اور دوسری بات یہ بھی کہ تاتاری فتنہ کے زمانہ میں جو کتابیں دریابرد کی گئیں وہ سب سے زیادہ احناف کی رہی ہوں گی ، کیوں کہ کوفہ اور بغداد اس زمانہ میں فقہ حنفی کے مرکز تھے ، تو ہوسکتا ہے کہ بہت سی کتابیں اس میں ضائع ہوگئی ہوں ۔ واللہ اعلم بحقیقۃ الحال!

            ایک اور موقع پر امام صاحب نے کہا یحی بن نصرابن حاجب کہتے ہیں : سمعت ابا حنیفۃ رحمہ اللہ یقول عندی صنادیق من الحدیث ما اخرجت منہا الا الیسیر الذی ینتفع بہ ۔

(مناقب ابی حنیفۃ بحوالہ وصیۃ للامام الاعظم ابی حنیفۃ لابنہ حماد)

            ایک اور موقعہ پر یحی کہتے ہیں : دخلت علی ابی حنیفۃ فی بیت مملوء کتباً فقلت ما ہذہ ؟ قال ہذہ احادیث کلہا وماحدثت بہ الا الیسر الذی ینتفع بہ فقلت حدثنی ببعضہا فاملی علی ۔ (بحوالہ مذکورہ بالا)

مولانا نے ایک انجمن سے زیادہ کام کیا :

            حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ کہا کرتے تھے کہ اسلامی تاریخ میں بعض شخصیتیں ایسی گزری ہیں کہ جنہوں نے اکیلے اتنا کام کیا جسے پوری پوری انجمن بھی آسانی سے انجام نہیں دے سکتی ۔ میرا ماننا ہے (کا تب ھذہ السطور حذیفہ وستانوی)کہ مولانا لطیف الرحمن صاحب دامت برکاتہم بھی ایسی شخصیتوں میں سے ایک ہیں ۔