معارفِ تھانویؒ

بغیر خلوص کے علم دین فائدہ سے خالی نہیں:

             جو لوگ کہتے ہیں کہ انگریزی سیکھنا برا ہے، تو آج کل کے طالب علموں کو عربی سیکھنا بھی اچھا نہیں؛ کیوںکہ اس میں ان کی کون سی نیت اچھی ہے؟ دونوں سے مقصود دنیا ہے ۔بس دونوں بُرے ہوئے، یہ سب تلبیسات ہیں ،دونوں ہرگز برابرنہیں ؛کیوںکہ علومِ محمودہ حدیث و قرآن عربی پڑھنے والے کی زبان سے ادا ہوں ،کان بھی سنے گا اس میں غور وفکر بھی کر ے گا، تو اس کے ساتھ ایک ہادی تو موجود ہے ،کبھی تو اثر پڑے گا اور اصلاح ہو جائے گی، مگر انگریزی میں کوئی امید بھی اصلاح کی نہیں۔ بڑ اکھلافرق ہے۔

            اول تو اس کی کوشش کرنا چاہیے کہ پہلے ہی سے تحصیل علم میں نیت خالص ہو۔ اور اگر کسی کی نیت ابھی خالص نہ ہو تو اس کو چھوڑ نا ہرگز نہیں چاہیے۔ امید ہے کہ کبھی اخلاص حاصل ہوجائے گا، اس لیے اہل اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کام کرتا ہے، گوریاہی سے ہو؛اس شخص سے اچھا ہے جو کام کرتاہی نہ ہو ؛کیوں کہ کبھی نہ کبھی ریا بھی جاتی رہے گی اورعمل رہ جائے گا۔ مثلاً: ایک شخص بے چبائے کھانا کھاتا ہے، تو اس سے یہ نہ کہا جائے کہ کھاتے کیوں ہو ؟ہاں یہ ضرور کہا جائے گا کہ اچھی طرح چبا کر کیوں نہیں کھاتے۔

 (دعوات عبد یت: ج۱۹/۷۷، الد ین الخالص)

علما کی فضیلت عمل کی وجہ سے ہے:

            آپ حضرات علم کی دولت کی وجہ سے حضراتِ انبیاکے وارث ہیں ۔چناںچہ ارشاد ہے ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘ اور یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس کو ہر ذی علم نے بڑی خوشی سے تسلیم کر لیا ہے۔ اس میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حضراتِ انبیا علیہم السلام میں کمالِ علمی کے ساتھ کوئی دوسرا کمالِ عملی بھی تھا یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا ؛کیوںکہ اگر انبیا علیہم السلام میں بھی کمال عملی نہ مانا جائے تو پھر کس کے اندر مانا جائے گا ؟کیوںکہ وہ حضرات تو افضل مخلوقات ہیں۔ پس یہ کہنا ضروری ہوگا کہ انبیا میں اس درجہ کمال عملی تھا کہ کسی دوسرے میں ہونا ممکن نہیں ۔جب یہ بات ثابت ہوچکی تو اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وراثت کی وجہ صرف کمال علمی ہے یا کمال عملی بھی اس میں داخل ہے۔

             ہم جو غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف کمال علمی وجہِ وراثت نہیں ہوسکتا؛اس لیے کہ جو عالم بے عمل ہیں ہم ان میں کوئی شانِ مقبولیت نہیں پاتے ؛حالاںکہ وارث نبی ہونے کے لیے مقبول ہونا ضروری ہے۔ مثلا: ابلیس کہ وہ بہت بڑا عالم ہے اور دلیل اس کے عالم ہونے کی یہ ہے کہ وہ علما کے اغواکی تدبیر کرتا ہے اور بسا اوقات اس میں کام یاب بھی ہو جاتا ہے۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ کسی شخص کے خیالات کو وہی بدل سکتا ہے، جو کہ خودبھی کم از کم اس کے برابر ماہر تو ہو ،جس کے خیالات بدلنے کی کوشش ہے ۔قانون دان کو وہی شخص دھوکہ دے سکتا ہے، جو کہ خودبھی قانون جانتا ہو۔ تو شیطان کا علما کے اغوا میں کام یاب ہونا صاف بتا رہا ہے کہ وہ بھی بہت بڑا عالم ہے، لیکن اس کا جوانجام ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

            علمائے بنی اسرائیل؛ جن کی نسبت ’’انتم تتلون الکتاب‘‘ ارشاد ہے۔مگران کی بدانجامی کا ذ کر خود قرآنِ پاک میں مذکور ہے اور جگہ جگہ ان لوگوں کی مذمت فرمائی گئی ہے؛ حتی کہ کسی فرقے کی اتنی مذمت قرآن پاک میں نہیں، جتنی بنی اسرائیل کی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ صرف کمالِ علمی وراثت کی وجہ نہیں؛ بل کہ عمل کی بھی ضرورت ہے؛کیوںکہ بدوں عمل کے قبولیت نہیں ہوتی اور غیر مقبول وارثِ انبیانہیں ہوسکتا۔ اس کو رسول مقبول نے ایک حدیث میں نہایت وا ضح فرما دیا ہے۔ فرماتے ہیں: العلماء ورثۃ الأنبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درہما ولکن ورثو العلم فمن اخذہ أخذ بحظ وافر.

            اس حدیث میں علم کو حظِ وافر فرمایا ہے اور علم حظِ وافر اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب مقرون با عمل ہو۔نری صفت علم کو حظ وافرنہیں کہہ سکتے ؛کیوںکہ اس کا وبالِ جان ہونا خود حدیث میں مذکورر ہے۔ ان من العلم لجہلا.

اسی طرح کلام مجید میں ارشاد ہے:

            {ولقد علموالمن اشتراہ مالہ فی الآخرۃ من خلاق ولبئس ماشروابہ أنفسہم لو کانوا یعلمون}تو حدیث میں ایسے علم کو جہل فرمانا اور آیت میں ’’علموا‘‘ کے بعد’’ لو کانوا یعلمون ‘‘ فرمانا صاف بتلاتا ہے کہ یہ علم کے درجہ میں بھی قابل ِاعتبار نہیں۔ پس اچھی طرح واضح ہوگیا کہ علم بلاعمل حظِ وافر نہیں ہوسکتا؛ کیوںکہ جوعلم عقاب سے نہ بچا سکے وہ حظ وافر کیا ہو گا ؟حظ وافر وہی علم ہوگا جو کہ مقرون بالعمل ہو،مطلق علم وراثت کی وجہ نہیں ہوگا۔

(دعوات عبدیت ص ۹،۱۰ ج۱۳)