طالب علم کومنکسرالمزاج ہونا چاہئے:
میرے بھائیو! میں آپ سے بس اتنی درخواست کرتا ہوں کہ آپ کتابوں کے ساتھ لگے رہیں۔ اور جب تک کوئی سبق آپ کو سمجھ میں نہ آئے آپ مطمئن ہوکر سونہ جائیں، آپ استاذ کے پاس جائیں، ان کی خدمت کریںاور کہیں کہ حضرت آپ نے سبق بہت محنت سے پڑھایا، لیکن میری فہم میں ابھی تک نہیں آسکا، میں کمزور ذہن کا ہوں۔ ایک تو طریقہ یہ ہوتا ہے کہ حضرت آپ نے تقریر کی ہم کو کچھ سمجھ میں نہیں آئی، اور ایک طریقہ ہے جو میں نے بتایا۔
میرے ساتھ ڈابھیل میں ایک پٹھان پڑھ رہے تھے، نور الانوار کا سبق تھا، حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پڑھاتے تھے، تو دو تین دن تک وہ پٹھان بیٹھا رہا اور اس کے بعد خدا جانے اس کو کیا سوجھی تو ایک دم غصہ میں صوفی صاحب کو کہنے لگا کہ اللہ قسم کیساپڑھاتا ہے؟ تم انگریزی میں تقریرکرتا ہے ہم کچھ نہیں سمجھتا، صوفی صاحب کو اس جملے سے بہت تکلیف ہوئی، تو صوفی صاحب نے کتاب بند کر دی اور فوراً کہا :اٹھ جاؤ! تم میرے پاس سے میں تم کو سبق نہیں پڑھا تا ،ہم سب کو نکال دیاصوفی صاحب نے ۔تو یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ استاذ کوآپ ایسا کہیں، بلکہ استاذ کے سامنے یہ کہیں کہ حضرت آپ نے بہت اچھی تقریرفرمائی میں ذہن کا کمزور ہوں ،میں آپ کی بات کو پکڑنہیں سکا، آپ اگر ایک مرتبہ اورتقر یرفرما دیں یا کسی اور اسلوب سے مجھے سمجھا دیجئے۔اس طرح کہنے سے استاذ کو برا بھی نہیں لگے گا اور وہ دوبارہ سمجھا بھی دیں گے۔
طالب علم کو منکسرالمزاج ہونا چاہیے۔اس کے اندر تواضع ہو نی چا ہیے، وہ لینے والا ہے اور لینے والے کے اندر تو اضع ہونی چاہیے۔لینے والا ایسازورنہیں لگا سکتا، اس لیے ان سے پوچھیں ،ان سے اجازت لیں، حضرت طبیعت میں انشراح ہو تو میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، وہ کہیں کہ ہاں! پو چھو، تب آپ پوچھیں ۔تو یہ آداب ہوتے ہیں، طلباکو چاہیے کہ اس طرح پہلے اپنے آپ کو جھکائیں، اور جھکانے کے بعداستاذ سے جو چیزنکلوانی ہے وہ نکالیں۔ ایک مرتبہ سمجھ میں نہ آئے تو دوسری مرتبہ پوچھیں، یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی تقریر میں ہر طالب علم سمجھ جائے۔