عفت وپاکدامنی

ہذہ أخلاقنا                                                                                    ۱۲/ ویں قسط:

 ترجمانی : الطاف حسین اشاعتی/استاذ جامعہ اکل کوا

عفت کے معنی کی وضاحت:

            ” عفت “عربی زبان میں بری عادات وخصائل اور ناپسندیدہ اقوال وافعال سے بچنے، ہر ایسی چیز سے جو حلال کے زمرے میں نہ آتی ہو،اجتناب کرنے،خوبیوں کو اپنانے اور ان پر ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہنے کے وسیع مفہوم کو حاوی ہے۔”رجل عفیف، امرأة عفیفة“ایسے پاکباز اور باحیا مرد وعورت کو کہتے ہیں، جو اپنے نفس کو قابو میں رکھیں اور برائی وبے حیائی اور ان کے مقدمات سے بھی بچے رہیں۔جب عفت کا اہم ترین کردار اور اصلی جوہر برے اعمال کے ارتکاب سے رکنا قرار پایا تو لا محالہ یہ رکاوٹ نیک اعمال کی انجام دہی کا باعث اورسبب ہوگی۔

الاِسْتِعْفَافُ(پاک دامن رہنا):

            قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

            ﴿ وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ نِکَاحًا حَتّیٰ یُغْنِیَہُمُ اللَّہُ مِن فَضْلہ ِ﴾ (النور: ۳۳)

             ترجمہ: اور جن لوگوں کو نکاح کا مقدور نہیں، انہیں چاہیے کہ ضبط سے کام لیں،یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کردیں۔

            مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نکاح کے سامان سے محروم ومعری ہوں، تو جب تک خدا تعالی مقدور دے، اس وقت تک اپنے نفس کو قابو میں رکھیں اور عفیف وپارسا رہنے کی کوشش کریں۔

            اِس آیت کریمہ میں لفظ ” ولیستعفف“ عفت سے نکلا ہے، جس کا مفہوم پارسائی اختیار کرنا، زنا اور اس کے مقدمات دونوں سے بچنا اور اپنی حفاظت کے لیے خاص اہتمام کرنا ہے۔

العَفَافُ(پاکدامنی،پارسائی ):

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے سامنے عجز ونیاز مندی کے عالم میں دعاگو ہیں: ” اللَّہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْہُدیٰ وَالتُّقٰی وَالْعفافَ والْغِنٰی“(رواہ مسلم)اے بار ِالٰہا! میں آپ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور بے نیازی کا خواستگار ہوں۔آپ علیہ السلام کی اس مبارک دعا میں لفظ ”العفاف“پاکدامنی، پارسائی اور خواہشات نفسانی سے بچنے کے جذبے کے معنی میں مستعمل ہے۔

عفت کی تعریف:

            امام جاحظ ( ۱۶۳-۲۵۵ ھ) جو لغت اورادب کے بڑے امام ہیں، وہ عفت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عفت نفس کو خواہشات سے روکنے اور ان چیزوں پر قناعت واکتفا کرنے پر آمادہ کرنے کو کہتے ہیں، جو اسے صحیح سلامت اور تندرست باقی اور ہلاکت و بربادی سے اسے محفوظ رکھیں۔ نیز ہر قسم کی لذتوں میں حدتجاوزی سے اجتناب اور جادہٴ اعتدال پر قائم رہنے کو عفت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔گویا کہ عفت تعمیرِ سیرت انسانی کے لیے ایک بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے معرّی ہو کر انسان؛ انسانیت کے دائرے سے نکل کر حیوانیت وبہیمیت کی حد اسفل کوجا پہنچتا ہے۔

قرآن کریم میں عفت اور اس کے مشتقات کا ورود:

            قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف سیاق وسباق کے تحت متعدد معانی میں آیا ہے۔مگر اُن تمام مقامات پر ضبط، صبراور امتناع کا معنی ہویدا ہے۔

التَّعَفُّفُ(لوگوں سے سوال کرنے سے احتیاط کرنا ):

            یہ لفظ ضرورت واحتیاج کے باوجود دوسرں کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بہت سے فقیر ومحتاج مسلمان ایسے ہیں جو فقیری اور محتاجگی کی آخری حدوں پر بھی لوگوں کے سامنے دست طلب دراز نہیں کرتے، اللہ رب العزت ہی سے مانگتے اور سوال کرتے ہیں۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ﴿ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِیْنَ أُحْصِرُوا فِيْ سَبِیْلِ اللَّہِ لَا یَسْتَطِیْعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ أَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُم بِسِیْمَاہُمْ لَا یَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ، وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّہَ بِہِ عَلِیْمٌ ﴾(البقرة:۲۷۳)

            ترجمہ: اصل حق اُن حاجت مندوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں گھِر گئے ہیں۔ ملک میں چل پھر نہیں سکتے، ناواقف انہیں غنی خیال کرتا ہے، ان کی احتیاطِ سوال کے باعث، تو انہیں ان کے بُشرہ ہی سے پہچان لے گا۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور تم جو مال خرچ کرتے ہو، اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔

            یعنی ان کی غیرت و خودداری یہ گواراہی نہیں کرتی کہ وہ لوگوں سے سوال کریں۔اپنی پریشانی کی کہانی لوگوں کوسناتے پھریں۔یہ لوگوں سے مانگنے سے بہت بچتے ہیں اور جو کچھ دوسرے لوگوں کے پاس ہے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ بل کہ جس حال میں اللہ نے انہیں رکھا ہے، اسی پر راضی برضا ہیں۔ اور اپنی خستہ حالی ،زبوں حالی اور بے مائیگی بر صبر کیے بیٹھے ہیں، ناواقفوں کواس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ لوگ خوش حال ہیں محتاج ومستحقِ امداد نہیں۔

            آیت مبارکہ میں یہ لفظ مدح وتوصیف میں آیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اپنی حالتِ زار، بے بسی، محتاجی، فقروافلاس اور عجز وبے مائیگی کے بارے میں صرف اور صرف اللہ ہی سے سوال کرنا چاہیے۔ اور لوگوں کا دست نگر بننے سے اپنے آپ کو بہت بچانا چاہیے، گرچہ بباطن حالات کتنے ہی دگرگوں ہو، مگربہ ظاہر اپنے آپ کو لوگوں سے مستغنی اور بے نیازہی رکھنا چاہیے:

خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں

زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

            عفیف وپاک دامن بنیں جو شخص اپنے آپ کوعفیف وپارسا رکھنا چاہے گا، توپھر اللہ رب العزت بھی اس کی مدد فرمائیں گے۔ اوراسے عفیف وپارسا رکھیں گے اور اسے لوگوں کا دست نگر اور محتاج نہیں بننے دیں گے۔ اس لیے کہ سنت اللہ ہے کہ ”الجزاء من جنس العمل “ (جیسی کرنی ویسی بھرنی) اور ”أنا عند ظن عبدي بي“ (میں بندے کے گمان کے مطابق اس سے برتاؤ کرتا ہوں)۔

ایک عفیف وپارسا صحابی:

             حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم پر فقر وفاقہ کے کچھ حالات آئے:تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنے احوال و کوائف بیان کرو اوراپنی حاجت براری کی درخواست کرو۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بعجلت آپ کی جناب عالی میں حاضر ہونے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ علیہ السلام خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ چناں چہ سب سے پہلے آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والے جو کلمات میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے: ” وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَِّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ “(یعنی جو شخص عفیف بننا چاہے گا اللہ اسے عفیف بنا دے گا اور جو کوئی استغنا اختیار کرے گا اللہ اسے مستغنی کر دے گا) چناں چہ میں آپ کے یہ کلمات مبارکہ سن کر آپ علیہ السلام سے کچھ مانگے بغیر ہی واپس آگیااور میں نے کہا: میں کیوں عفیف بننے کی کوشش نہ کروں کہ اللہ مجھے عفیف بنادے! اس کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی اپنی کسی ضرورت کے متعلق سوال نہیں کیا۔پھرہم پر دنیا امڈآئی،قریب تھا کہ ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لے۔

آیت کریمہ میں ایک لطیف اشارہ:

            قرآن عظیم نے اسی آیت میں اہل ثروت اور مال دار مسلمانوں کو یہ لطیف اشارہ بھی دے دیا کہ انہیں ایسے لوگوں کی تلاش وجستجو کرکے، ان کی حاجت براری کی سعی بلیغ کرنا چاہیے۔ اور ان کی پہچان ان کے چہرے مہرے، لباس کی ہیئت اور ان کے چہروں پرفقروفاقہ کی وجہ سے ضعف ونقاہت کے آثار سے اہل بصیرت کو بہ خوبی ہوسکتی ہے۔ چناں چہ ایسے عفیف، پارسا، خدا رسیدہ لوگوں کی تلاش اور ان کی ضرورت کا تکفل بہت بڑے خیر کا کام ہے، جس کے لیے ہمیں کوشاں رہنا چاہیے، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین!            (جاری …)

۱۶