مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی
مغربی سائنس مسلم معاشرے کے مادی، ثقافتی اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے:
مغربی سائنس کے علمی ہونے کے باعث اُس کے تباہ کن اثرات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مغربی سائنس کی ایجادات و اکتشافات بلاشبہ خیرہ کن بھی ہیں۔ اسی مغربی سائنس کے طفیل مغربی تمدن کو ناقابل تصور اقتدار و دولت حاصل ہوئی ہے اور اسی سائنس کی بدولت عام آدمی کو بڑی حد تک دشواریوں،تکالیف،غربت اور بے کسی سے نجات مل گئی ہے۔ سفر، ذرائع، مواصلات اور نشر و اشاعت کی سہولیات اب عام اور آسان ہوگئی ہیں۔ یہ کارنامے کسی اعتبار سے بھی کم نہیں ہیں۔
لیکن اہم بات یہ نہیں کہ مغربی سائنس عملی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی سائنس ایک مخصوص تصور ِکائنات سے وابستہ معاشرے ہی کی ضروریات کو پورا کرنے پر قادر ہے، اس سائنس کا اصل مقصود؛ مغربی تمدن کو غالب کرنا ہے، خواہ مغربی سائنس کو غیر مغربی معاشرے ہی میں کیوں نہ استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سائنس کو اختیار کرنے کے بعد ایک معاشرے کی سستی نقالی کا عکاس بن جاتا ہے۔ اس طرح یہ تصور عام ہوتا جارہا ہے کہ مغربی سائنس اور مغربی تمدن دونوں آفاقیت کے حامل ہیں۔
مغربی سائنس کی اصل دل چسپی اپنی بقا اور توسیع ہے۔ اسی باعث وہ اپنی تمدنی اور معاشرتی جڑوں کو ہر جگہ مضبوط کرنے کو اولین اہمیت دیتی ہے۔ مغربی سائنس اس عمل کو بلا تکلف اور مشینی انداز میں انجام دیتی ہے۔ اس عمل کے طریقہٴ کار کو Giya Fond نے اس طرح بیان کیا ہے:
سائنس اور ٹیکنالوجی کا انحصار سرمایہ پر ہے۔ وسائل کی دست یابی میں خاصی دشواری پیش آتی ہے، متبادل اشیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جاتا ہے اور یہ انتخاب بڑی حد تک نظریات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرناایک طفلانہ فعل ہوگا۔ غرضیکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ضمن میں انتخاب میں ہمیشہ تعصب اور جانبداری کارفرما ہوتی ہے۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ معاصر سائنس داں ہمیشہ مغربی معاشرے ہی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ فکری برتری کے حصول کے لیے مفروضات میں ہمیشہ اختلاف ہوتا اور فیصلوں میں تعصب کا دخل ہوتا ہے۔ نئے سائنسی قوانین وحی نہیں ہوتے ،بل کہ وہ مطالعہٴ کائنات کے دوران برآمد ہونے والے متعدد متبادل نتائج کے مظہر ہوتے ہیں۔کسی ایک متبادل کا انتخاب آسان نہیں ہوتا اور اس انتخاب میں حقیقت سے قریب تر ہونے یا صاحبِ اقتدار حلقوں کی خواہشات کو بھی مد نظر نہیں رکھا جاتا ہے، بل کہ سائنس سائنس دانوں اور سماج کے مابین تعاملات کسی متبادل کو منتخب کرنے کا معیار ٹھہرتے ہیں۔ بہرکیف! یہ متبادلات محدود ہی ہوتے ہیں، جسمانی غلامی کی مانند ذہنی غلامی بھی شدید اور جابرانہ ہوتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی اقدار و روایات غیر منضبط ترقی او ر ڈارونی ارتقا اور مادیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ اِس ضمن میں صالح عناصر کی اہمیت برائے نام ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی جدید ایجادات خود مرکزی اور بڑے پیمانے کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہیں۔
چوں کہ مغربی سائنس ایک غیر معاشرے کی ضروریات سے وابستہ ہے اس لیے یہ مُسلم ثقافت و تمدن کے تقاضوں کو ہرگز پورا نہیں کرسکتی؛ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں مغربی سائنس کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں اور اسی باعث دنیائے اسلام میں سائنس کی مد پر صرف کیے جانے والی رقم کے قلیل ہونے کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن یہ امر محض ایک سنگین مرض کی علامت ہی ہے۔ اور یہ مرض مُسلم معاشرے میں نہیں، بل کہ سائنس کی اجنبی ماہیت اور مزاج کی غیریت میں پایا جاتا ہے۔
مسلم معاشرے کو لاحق ضروریات اورسائنس کے پیش کردہ حل کے مابین زبردست تفاوت کا مظہر سرمایہ اور مزدور سے متعلق امور بھی ہیں۔مغربی سائنس کی رو سے کم از کم مزدور اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے ،جب کہ مسلم ممالک میں مزدوروں کی بہتات اور سرمائے کی قلت عام ہے ۔ مسلم معاشرے کو روز مرہ کی ضروریات درپیش ہیں، جب کہ مغربی سائنس کثیر توانائی کی مدد سے اعلیٰ درجے کے وہ حل پیش کرتی ہے جو مسلم معاشرے کے لیے سود مند نہیں ہیں۔ مسلم ممالک میں اسہال اور Schistosomiasis کے امراض عام ہیں اس کے برخلاف مغربی سائنس پھیپھڑوں کے سرطان ، امراض ِقلب اور تشریح وجراحت کے نئے نئے تجربات سے متعلق ہے۔ مسلم ممالک میں صحت سے متعلق بنیادی مسائل یہ ہیں : آبادی کی کثرت اورحفظان صحت کے اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بچوں اور بوڑھوں کی ایک بڑی تعداد ہیضہ اورملیریا جیسے امراض کا شکار ہوتی ہیں؛ جب کہ مغربی سائنس کو بیش از بیش سروکار Aid Herpls ٹیسٹ ٹیوب بے بی اور نطفے کے برف آمیختہ انجماد جیسے نکات سے ہے ۔ زیادہ ترمسلم ممالک میں ایک سنگین مسئلہ کھانا پکانے کا ایندھن ہے جب کہ مغربی سائنس کو نیو کلیر میزائل اور Breeder Reactor جیسے امور سے دل چسپی ہے۔
مسئلہ محض نکات کی تقدیم وتاخیر ہی کا نہیں ہے ۔ مسلم معاشرے کے ایسے روحانی ، ثقافتی اور ماحولیاتی تقاضے بھی ہیں، جن کو مغربی سائنس کسی حال میں پورا نہیں کرسکتی ۔ حج کے موقع پر مغربی سائنس وٹیکنا لوجی کے پیش کردہ حل کے استعمالات کو اس نکتے کی وضاحت کے لیے بہ طور مثال پیش کیا جاسکتا ہے ۔ حج کے موقع پر ماحولیات سے متعلق مسائل بہ ظاہر تو آسان نظر آتے ہیں ، یعنی ہر سال مکے اور مدینے کی زیارت کے خواہش مند افراد کی رہائش، آمد ورفت اور دیگر ضروریات کو اِس طرح پورا کرنا کہ مقدس مقامات کا ماحول محفوظ رہے ۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے ان مسائل کا اضافہ ، بل کہ ان مقدس مقامات کا ماحول بھی یکسر تبدیل ہوگیا ہے اور یہ مقامات مغربی معاشرے کا ایک حصہ معلوم ہوتے ہیں ۔
نظریہٴ تقلیل کی مدد سے ثقافتی اور روحانی تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی طرح یہ نظریہ پیچیدہ معاشرتی مسائل کو بھی حل کرنے سے قاصر ہے، گزشتہ ۵۰/ سال سے Schistosomiasis کا مر ض مصراور سوڈان میں عام ہے ،لیکن اِس مرض کا کوئی تشفی بخش حل اب تک اس لیے دریافت نہیں ہوسکا ہے کہ اُن امراض سے متعلق طبی مطالعات میں ان ممالک کے مخصوص حالات مثلاً :آب پاشی ، تعلیم ،دیہی ترقی جیسے نکات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ نظریہٴ تقلیل پر کار بند علوم کی رو سے زراعت ایک طرز زندگی نہیں، بل کہ ایک متعین مسئلہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں زراعتی تحقیقات اب تک بے سود ثابت ہوئی ہیں۔ ان تحقیقات میں زیادہ اصرار بہتر فصل ، بیج کی نئی قسموں ، جراثیم کش ادویہ اورزود اثر کھاد کے استعمال پر دیا جاتا ہے اور زراعت کے معاشرتی پہلووٴں کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔
مغربی سائنس اورمسلم معاشرے کو لاحق مادی، ثقافتی، معاشرتی اور روحانی ضروریات کے مابین فرق کی مزید تفصیل بیان کی جاسکتی ہے ۔ دنیا کے دیگر ممالک میں خواہ وہ ہندستان اور برازیل ہوں، سعودی عرب ، لیبیا اور قبل از انقلاب کا ایران؛ ان ملکوں میں سائنس کا تجربہ اظہر من الشمس ہے ۔ ہندستان اور برازیل نے سائنس اور ٹیکنا لوجی کو اپنے ہاں فروغ دیا ،جب کہ سعودی عرب ، لیبیا اور ایران نے مغربی سائنس وٹیکنا لوجی کو خریدا تھا ۔ اپنے ایک خاص مضمون میں اس موضوع پر میں نے تفصیل کے ساتھ اظہار خیال اور تجزیہ کیا ہے ۔
(جاری ……)