انوار نبوی
(کرونا وائرس)وبائی امراض
وجوہات ،احکامات اور ہدایات حدیث نبوی ا کی روشنی میں
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی
وبائی امراض کی تاریخ:
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ،عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ سَمِعَہُ یَسْأَلُ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ مَاذَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الطَّاعُونِ، فَقَالَ:أُسَامَةُ، قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الطَّاعُونُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلَی طَائِفَةٍ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَوْ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِہِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْہُ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا یُخْرِجْکُمْ إِلَّا فِرَارًا مِنْہُ.
ترجمہ:(عامر نے) اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کو اسامہ بن زید سے یہ پوچھتے سنا تھا کہ طاعون کے بارے میں آپ نے نبی کریم ﷺ سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ طاعون ایک عذاب ہے ،جو پہلے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجا گیا تھا یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ ایک گزشتہ امت پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے جب کسی جگہ کے متعلق تم سنو (کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے) تو وہاں نہ جاؤ؛ لیکن اگر کسی ایسی جگہ یہ وبا پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ ابوالنضر نے کہا یعنی بھاگنے کے سوا اور کوئی غرض نہ ہو تو مت نکلو۔(کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان۔صحیح بخاری حدیث نمبر: 3473)
کرونا وائرس کیا ہے؟
جب ہم اس بیماری کو شریعت اور تاریخ کی عینک سے دیکھتے ہیں ،تویہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے؛صرف اس کا نام الگ ہے ،چوں کہ اس ترقی یافتہ دور میں بیماری کی تشخیص اور تعریف کے لیے اسے نام دے دیا جاتا ہے اور یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ حدیث وتاریخ کی کتابوں میں بھی اس کاثبوت ہے،جیسے: طاعونِ عمواس۱۸ھء،طاعون مغیرہ بن شعبہ۴۹ھء،طاعون مصر۶۶ھء،طاعون ابن زبیر۶۹ھء، طاعون عدی بن ارطاة۱۰۰ھء،طاعون غراب۱۲۷ھ ؤغیرہ(بحوالہ :الطاعون فی العصر الاموی)ایک لمبی فہرست ہے۔دراصل ہم جب لغت میں طاعون کے معنی دیکھیں گے تو ساری بات سمجھ میں آجائے گی۔
”طاعون “: ایک وبائی بیماری ہے، پلیگ ، جس میں ران یا بغل یا گردن میں ایک پھوڑا نکلتا ہے ، اس میں سخت سوزش ہوتی ہے؛ اکثر آدمی اس بیماری میں دوسرے یا تیسرے روز مرجاتا ہے ۔ طاعون وبائی بیماری سے مرنے کو اور ہر وبائی بیماری کو بھی کہتے ہیں ۔فناء امتی بالطعن والطاعون ، میری امت کی تباہی نیزہ بازی (یعنی آپس کی جنگ) اور طاعون سے ہوگی (مطلب یہ ہے کہ اکثر میری امت کے لوگ جنگ یا طاعون سے ہلاک ہوں گے۔)(لغات الحدیث عربی اردو : ص ۲۵)
لغت سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ طاعون کسی خاص مرض کا نام نہیں؛ بل کہ ہر وبائی مرض کو طاعون کہا جاتا ہے۔صرف فرق یہ ہے کہ قرن اول میں وبائی امراض کے لیے طاعون کے ساتھ علاقے کا نام یا قبیلے کے سردار کا نام وغیرہ لگا دیا جاتا تھااور ہمارے زمانے میں مختلف علاقوں میں پھیلنے والی بیماری کو وہاں کی طرف سے متعین کردہ نام سے جانا جاتا ہے؛جیسے ۱۳۳۰ ء میں پیدا ہونے والے وبائی مرض ”پلیگ ڈیتھ“ نے ۱۰ کروڑ سے زائد انسانوں کو اپنا لقمہٴ اجل بنایا؛اسی طرح چیچک ،ملیریا ،فلوزاور ڈینگو(برڈ فلوز وغیرہ)یہ سب وبائی امراض ہیں۔
جنگ عظیم اول میں جنگ کی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق۴/ سے ۵/ کروڑ افراد ہلاک ہوئے ؛ لیکن ملیریا سے ۱۰ /کروڑ سے زائد افراد موت کے منھ میں چلے گئے۔اسی طرف نبی پاکﷺ نے اشارہ کیا ہے:” لا تفنی امتی الا بالطعن والطاعون“(مسند احمد)اور اب چائنا میں ”ایبولا“ کے بعد کرونا وائرس نے سر اٹھا یاہے۔لوگوں نے اس دور میں ان وائرس اور بیماریوں کی وجہ خود شیطان نما انسانوں کے دخل کو قرار دیا ہے۔وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں،ایمان تو ہمارا یہی ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیرکچھ نہیں ہوتا اور اللہ کی تکوین میں ہی یہ ساری چیزیں ہیں، خواہ عامل انسان ہی کیوں نہ ہواور ہمارے لیے جو احکامات اور بشارتیں ہیں وہ ہر صورت میں ہیں ۔یہ امت بڑی خوش نصیب ہے کہ اس کے دین میں ساری چیزیں روزِ اول ہی سے بتادی گئی ہیں اور احکامات وہدایات کے ساتھ ہی مزید خوش خبری بھی دی گئی ہیں۔
طاعون کفار وفساق کے لیے عذاب ہے، سچے موٴمنین کے لیے رحمت ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّاعُونِ فَأَخْبَرَنِی أَنَّہُ عَذَابٌ یَبْعَثُہُ اللَّہُ عَلَی مَنْ یَشَاءُ، وَأَنَّ اللَّہَ جَعَلَہُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِینَ لَیْسَ مِنْ أَحَدٍ یَقَعُ الطَّاعُونُ فَیَمْکُثُ فِی بَلَدِہِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا یَعْلَمُ أَنَّہُ لَا یُصِیبُہُ إِلَّا مَا کَتَبَ اللَّہُ لَہُ إِلَّا کَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِ شَہِیدٍ.
ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے بھیجتا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو مومنوں کے لیے رحمت بنادیا ہے۔ اگر کسی شخص کی بستی میں طاعون پھیل جائے اور وہ صبر کے ساتھ اللہ کی رحمت سے امید لگائے ہوئے وہیں ٹھہرا رہے کہ ہوگا وہی ؛جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھا ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔(کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان۔صحیح بخاری حدیث نمبر: 3474)
تشریح: پہلی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کی تاریخ بیان کی ہے کہ یہ وبا سب سے پہلے بنی اسرائیل پر آئی تھی، جب بنی اسرائیل شہر میں داخل ہونے لگے تو ان سے کہا گیا کہ عاجزی کے ساتھ اور گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، مگر وہ اکڑتے ہوئے اور سرینوں کے بل گھسیٹے ہوئے اور ”حطة“ کے بجائے ”حنطة“ کہتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے، تو یہ عذاب ان پر مسلط کیا گیا۔ طاعون اسی عذاب کا باقی ماندہ ہے ، جو کبھی کبھی نمودار ہوتاہے اور دوسری حدیث سے معلوم ہوا کہ طاعون کفار وفساق کے لیے عذاب ہے، سچے موٴمنین کے لیے رحمت ہے۔ اگر وہ طاعون میں وفات پائے تو شہید کا ثواب ملے گا۔ (تحفة القاری: ۸۳)
حَدَّثَنَا یَزِیدُ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ عُبَیْدٍ أَبُو نُصَیْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَسِیبٍ مَوْلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَانِی جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام بِالْحُمَّی وَالطَّاعُونِ فَأَمْسَکْتُ الْحُمَّی بِالْمَدِینَةِ وَأَرْسَلْتُ الطَّاعُونَ إِلَی الشَّامِ فَالطَّاعُونُ شَہَادَةٌ لِأُمَّتِی وَرَحْمَةٌ لَہُمْ وَرِجْسٌ عَلَی الْکَافِرِینَ
ترجمہ:حضرت ابوعسیب سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میرے بعد جبرائیل بخار اور طاعون کو لے کر آئے ۔میں نے بخار کو مدینہ منورہ ہی میں روک لیا اور طاعون کو شام کی طرف بھیج دیا اب طاعون میری امت کے لیے شہادت اور رحمت ہے اور جب کہ کافروں کے لیے عذاب ہے۔
(باب: حضرت ابوعسیب (رض) کی حدیثیں۔حدیث نمبر: مسند احمد)
طاعون میں مرنے والا مومن شہید ہے:
الشُّہَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِیقُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَالشَّہِیدُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ، وَقَالَ: لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ یَجِدُوا إِلَّا أَنْ یَسْتَہِمُوا لَاسْتَہَمُوا عَلَیْہِ.
ترجمہ: پھر آپ نے فرمایا کہ شہداء پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں مرنے والے، پیٹ کے عارضے (ہیضے وغیرہ) میں مرنے والے اور ڈوب کر مرنے والے اور جو دیوار وغیرہ کسی بھی چیز سے دب کر مر جائے اور اللہ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) شہید ہونے والے اور آپ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں شریک ہونے کا ثواب کتنا ہے اور پھر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو کہ قرعہ ڈالا جائے تو لوگ ان کے لیے قرعہ ہی ڈالا کریں۔(باب: ظہر کی نماز کے لیے سویرے جانے کی فضیلت کا بیان بخاری ۔حدیث نمبر: 653)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الطَّاعُونُ شَہَادَةٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ.
ترجمہ: انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :طاعون کی موت ہر مسلمان کے لیے شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔(باب: اللہ کی راہ میں مارے جانے کے سوا شہادت کی اور بھی سات قسمیں ہیں۔بخاری حدیث نمبر: 2830)
مطعون شہید کیسے ؟
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہید تو اصطلاح فقہا میں وہ ہے جو کسی معرکہ میں مارا جائے اور اس پر نشانات بھی ہوں یا اسے اہل حرب یا اہل البغی یا ڈاکووٴں نے قتل کیا ہو یا مسلمانوں نے جسے ظلماً مار ڈالا ہو اور یہ تعریف مبطون ، مطعون وغیرہ پر تو صادق نہیں آتی تو یہ شہید کیسے ہوگئے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قتیل فی سبیل اللہ کے علاوہ، جن حضرات کے بارے میں احادیث میں یہ وارد ہوا کہ وہ شہید ہیں ، تو ان کی شہادت باعتبار اجر ہے۔ یعنی ان حضرات کو بھی شہید حقیقی کے برابر اجر سے نوازا جائے گا۔
چناں چہ علمانے لکھا ہے کہ شہید کی تین قسمیں ہیں:
۱- شہید فی الدنیا والآخرة: اور وہ یہ ہے کہ اعلائے کلمة اللہ کے لیے ، جہاد کے لیے آدمی جائے اور شہید ہوجائے۔
۲- شہید فی الدنیا فقط : اور وہ یہ ہے کہ آدمی میدان جنگ میں تو مارا گیا، لیکن وہ اعلائے کلمة اللہ کے لیے نہیں گیا تھا، نام و نمود وغیرہ کے لیے گیا تھا اور وہاں قتل ہوگیا۔ یا یہ کہ پشت پھیر کر بھاگ رہا تھا اور مارا گیا یا غنیمت کے مال میں خیانت وغیرہ کی تھی اورمارا گیا۔
۳- شہید فی الآخرة :کہ کوئی آدمی دیوار کے گرنے سے مرجائے یا جل جائے یاپیٹ کی بیماری کا شکار ہوکر انتقال کرجائے وغیرہ ۔
اس تیسری قسم پر دنیا میں تو شہید کے احکام جاری نہیں ہوں گے یعنی شہید ِحقیقی کے برخلاف ان کو کفن بھی دیا جائے گا اور غسل بھی ، لیکن آخرت میں ان سے شہید والا معاملہ کیا جائے گا اور ان کو شہید کی طرح اجر دیا جائے گا۔ اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا امت ِمحمدیہ علی صاحبہا الصلوة والسلام پر خاص فضل وکرم ہے کہ قتیل فی سبیل اللہ کے علاوہ جن افراد کو شہادت کے رتبے کا حامل قرار دیا گیا ہے، اس میں ان کی تکالیف اور ان تکالیف پر صبر کو مد نظر رکھا گیا اور اس کی وجہ سے ان کے گناہ معاف کردیے گئے اور ان کے اجروثواب میں زیادتی کی گئی ہے۔(کشف الباری:۲۷۲،۲۷۱)
کرونا وائرس وجوہات:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَامَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ، خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ،وَأَعُوذُ بِاللَّہِ أَنْ تُدْرِکُوہُنَّ،لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَةُ فِی قَوْمٍ قَطُّ،حَتَّی یُعْلِنُوا، بِہَا إِلَّا فَشَا فِیہِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ، الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمُ الَّذِینَ مَضَوْا،وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِینَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاةَ أَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوا وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللَّہِ،وَعَہْدَ رَسُولِہِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیہِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللَّہِ،وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ إِلَّا جَعَلَ اللَّہُ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ.
ترجمہ:عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو۔
۱- پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔
۲- دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
۳- تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاة ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے، تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔
۴- چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔
۵- پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔ (حدیث نمبر: 4019 سنن ابن ماجہ)
حدیث میں بیان کردہ پانچوں پیشین گوئیوں کو دیکھیں اور عصر حاضر کے حالات پر نظر کریں توکرونا وائرس اور دیگر تمام مصائب کی وجہ اور حل آپ کے سامنے ہوگا۔
وبائی امراض فتنوں کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی:
عوف بن مالک نے بیان کیا کہ میں غزوہٴ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ قیامت کی چھے نشانیاں شمار کرلو۔میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی ؛جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہوگی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہوگا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن اور عام ہوگا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا، جو اس کی لپیٹ میں نہ آگیا ہوگا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہوگی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اَسیّ جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہوگی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)۔(باب: دغا بازی کرنا کیسا گناہ ہے؟بخاری شریف حدیث نمبر: 3176)
حرام جانورکھانے کا وبال عقل ونقل کی روشنی میں:
اس دور میں عموماً تمام جگہ کے لوگ اور خصوصاًچین کے لوگ حلال حرام جانور کی تمیز تو درکنار ؛زندہ اور مردہ کے فرق کو بھی بھلا بیٹھے ہیں مذبوحہ اور غیر مذبوحہ کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے؛نتیجتاً قدرت خداوندی وبائی امراض کی شکل میں ایسے لوگوں کو متنبہ کرتی ہے کہ فطرت سے بغاوت نہ کرو ورنہ سخت نقصان اٹھاوٴگے۔اسلام نے ایسے جانوروں کے کھانے سے سخت منع کیا ہے جن کا گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
حرمت نقل کی روشنی میں: اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحمَ الخِنزِیرِ(البقرہ 173)
”اس نے ہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت“۔
حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
نَہَی النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ اکْلِ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السَّبُعِ(مسلم شریف 4988)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں (نوک دار دانت) والے ہر درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، انَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ کُلِّ ذِی مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرِ(مسلم شریف 4996)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے (کو کھانے) سے منع فرمایاہے۔
حرام جانور کی حرمت عقل کی روشنی میں:
خنزیر یعنی خوک نجاست کی طرف بہت مائل ہوتاہے ۔خصوصاً انسان کا فضلہ یعنی براز اس کی خوراک ہے، اس کا گوشت اسی نجاست سے پیدا ہوتا ہے ۔ پس اس کا گوشت کھانا گویا اپنی نجاست کھانا ہے۔نیز اس کا گوشت کھانے سے انسان پر فوراً سوداوی امراض حملہ آور ہوتے ہیں۔
مردار کے اندر ایک خطرناک زہر ہوتا ہے، جس کا نتیجہ انسان کے لیے اچھا نہیں ہوتا؛ چناں چہ جتنی مردار خور قومیں ہیں، ان کی زبان اور عقل موٹی اور بھدی ہوتی ہے۔
خون کے اندر اس قسم کا زہر ہوتا ہے ،جس سے اعصاب کو تشنج ، فالج اور استرخا ہوجاتا ہے۔
وجہ حرمت کتے اور بلی کی:
وہ حیوانات‘ جن کی سرشت وفطرت میں ذلت اور گڑھوں میں چھپا رہنا پایا جاتا ہے مثلاً :چوہا اور دیگر حشرات الارض وغیرہ جو اس قسم کے جانور ہیں، وہ سب حرام ہیں اور ان کی وجہ حرمت یہ ہے کہ ان کا کھانے والا انہی جانوروں کے اوصاف اور خصلتیں قبول کرتا ہے۔ دوسری وجہ حرمت ان جانوروں کی یہ ہے کہ تمام حشرات الارض میں سمی مادہ(زہریلامادہ) ہوتا ہے، ان کے کھانے سے انسان ہلاک ہوجاتا ہے۔
خلاصہ وجوہ حرمت حیوانات واشیائے محرمہ:
وہ تمام جانور جو حرام کیے گئے ہیں ان کی وجوہِ حرمت حسب ذیل ہیں :
۱- خباثت وگندگی۔
۲- درندگی؛ یعنی ایسے جانوروں کے کھانے سے انسان درندہ طبع بن جاتا ہے۔
۳- شیطانی امور سے مشابہت۔
۴- سمیت ؛بعض جانور وں میں یہ چیزیں زہر دار ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔
۵- بد اخلاقی یعنی بعض ایسے جانوروں کے کھانے سے انسان میں بد اعتقادی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں جیسے ما اہل لغیر اللہ کا کھانا۔(احکام اسلام عقل کی نظر میں : ص ۲۷۹، ۲۸۰، ۲۸۲، ۲۸۵، ۲۹۰)
آج کا مہذب حیوان ہر اس جانور سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے ،جس پر گوشت کا اطلاق ہو سکے، اس لیے وہ ایسے جانوروں کا گوشت بھی نہایت شوق سے کھاتا ہے، جو صحت انسانی کے لیے نہایت مضر اور نقصان دہ ہے؛مگر اپنی حیوانی بھوک مٹانے کے لیے صحیح غلط کی تمیز کیے بغیر ہر اس جانور کو اپنی خوراک بنا لیتا ہے، جو طبعی طور پر ایک اچھا آدمی کبھی بھی پسند نہیں کرتا۔
کرونا وائرس احکامات اور ہدایات:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ عُمَرَ خَرَجَ إِلَی الشَّأْمِ فَلَمَّا کَانَ بِسَرْغَ بَلَغَہُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ فَأَخْبَرَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا سَمِعْتُمْ بِہِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْہُ.
ترجمہ: عمر شام کے لیے روانہ ہوئے، جب مقام سرغ میں پہنچے، تو آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے؛ پھر عبدالرحمٰن بن عوف نے ان کو خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم وبا کے متعلق سنو کہ وہ کسی جگہ ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی ایسی جگہ وبا پھوٹ پڑے ؛جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے بھی مت بھاگو (وبا میں طاعون اور ہیضہ وغیرہ سب داخل ہیں)۔
(باب: طاعون کے متعلق جو روایتیں منقول ہیں، ان کا بیان۔صحیح بخاری حدیث نمبر: 5730)
طاعون زدہ علاقے میں صبر اور تقدیر پر یقین کے ساتھ رکنے کا حکم:
حضرت عائشہ نے خبر دی کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب تھا، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا اس پر اس کو بھیجتا تھا ؛پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنین (امت محمدیہ کے لیے) رحمت بنادیا ۔اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے ،جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا اس کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اور پھر طاعون میں اس کا انتقال ہوجائے تو اسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔ حبان بن حلال کے ساتھ اس حدیث کو نضر بن شمیل نے بھی داؤد سے روایت کیا ہے۔(باب: طاعون میں صبر کرنے والے کے اجر کا بیان۔صحیح بخاری حدیث نمبر: 5734)
یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا اور انہیں عائشہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا اور اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اسے بھیجتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنادیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہر میں ہے ،جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں صبر کئے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔(صحیح بخاری ،تقدیر کا بیان حدیث نمبر: 6619)
طاعون اب بھی باقی ہے:
حضرت اسامہ بن زید رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :یہ (طاعون) درد یا بیماری ایک عذاب ہے ،جس کے ذریعہ تم سے پہلی بعض قوموں کو عذاب دیا گیا ؛پھر یہ ابھی تک زمین میں باقی ہے ،کبھی چلا جاتا ہے اور کبھی آجاتا ہے پس جو کسی علاقہ میں اس کی اطلاع سنے تو وہ اس جگہ نہ جائے اور جو اس زمین میں موجود ہو جہاں یہ واقع ہوجائے تو اس سے بھاگتے ہوئے وہاں سے نہ نکلے۔
(باب: طاعون بدفالی اور کہانت وغیرہ کے بیان میں۔حدیث نمبر: 5777۔ سنن ابوداؤد)
مسئلہ: طاعون زدہ علاقہ سے بھاگنا نہیں چاہیے اور وہاں جانا بھی نہیں چاہیے؛ کیوں کہ اسباب مرض سے بچنا شریعت کی تعلیم ہے۔
طاعون زدہ علاقہ سے بھاگنے کی ممانعت تین وجوہ سے ہے:
پہلی وجہ : اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ کوئی بیماری بالذات دوسرے کو نہیں لگتی، اللہ چاہیں تو لگے گی ورنہ نہیں، پس طاعون زدہ علاقہ سے بھاگنا اس عقیدہ کے منافی ہے۔
دوسری وجہ: اسلام کی بنیادی تعلیم پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے، جب کہ تقدیر پر راضی رہنا ایمان کا جز ہے، بھاگنے والے کا گمان یہ ہوتا ہے کہ یہاں مرجائے گا اور یہاں سے نکل جائے گا تو بچ جائے گا؛ حالاں کہ تقدیر میں موت لکھی ہے تو ہر جگہ آئے گی اور نہیں لکھی ہے تو کہیں بھی نہیں آئے گی۔
تیسری وجہ: اگر سب تندرست بھاگ کھڑے ہوں گے تو بیماروں کا کیا ہوگا؟ اوربیمار بھی بھاگ نکلیں گے تو سارا ملک وبا کی زد میں آجائے گا۔ علاوہ ازیں جو خود کو تندرست سمجھ رہا ہے ،کیا ضروری ہے کہ وہ تندرست ہو، ممکن ہے وہ بھی طاعون سے متاثر ہوچکا ہو، پس جب ان جراثیم کے ساتھ دوسری جگہ جائے گا تو وہاں بھی طاعون شروع ہوجائے گا۔ اس لیے وبا کا ایک جگہ رہنا ہی مناسب ہے؛ البتہ طاعون کے علاقہ سے کسی ضرورت سے نکلنا جائز ہے۔(تحفة القاری:ج/۷ ص/۸۴)
کرونا وائرس کی نشاندہی کے لیے موبائل ایپ متعارف:
چینی ماہرین نے کرونا وائرس کی نشاندہی کرنے والی ایپلیکیشن متعارف کرادی ہے، جس کی مدد سے متاثرہ لوگوں کی شناخت بہ آسانی ہوسکے گی۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کی معاونت کے لیے ماہرین نے ’کلوز کانٹیکٹ ڈیٹیکٹر‘ نامی ایسی ایپ تیار کی ہے، جو قریب میں موجود کرونا وائرس کے مریض کی نشاندہی کرے گی۔یہ ایپ قریب میں موجود ایسے کسی بھی شخص کی نشاندہی کرے گی جو کرونا وائرس سے متاثر ہو گا۔
احتیاطی تدابیر:
آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہلک امراض سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ مسلمانوں کو متعدی اور وبائی بیماریوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا چاہیے اور ایسا کرنا ہرگز توکل کے خلاف نہیں ہے۔توکل کی اصل حقیقت یہی ہے کہ اسباب عالم کو اختیار کیا جائے اور اَسباب کو موثر بالذات ماننے کی بجائے اللہ عزوجل سے امید لگائی جائے ،جو مسبب الاسباب ہے۔وبائی امراض سے احتیاط جہاں ضروری ہے وہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ ایسے امراض میں مبتلا افراد سے نفرت نہ کی جائے ؛بل کہ ان کے ساتھ اپنائیت کا برتاوٴ کیا جائے؛ جیسا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھا کر ایک برتن میں کھانا کھلایا۔(ابن ماجہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس پیارے عمل کا مقصد یہی ہے کہ وبائی امراض سے احتیاط ضرورکی جائے، مگر مریضوں سے نفرت نہ کی جائے تاکہ ان کے دل میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ چناں چہ آج بھی ڈاکٹر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
وائرس کا تعلق سانس سے ہے، اس لیے اس سے بچاؤ کے لیے منہ اور ناک پر ماسک پہنیں۔
کاموں سے فارغ ہوکر ہاتھ صابون سے دھوئیں، نزلہ اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔
کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک پر کپڑا رکھیں۔
جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔
الحمد للہ! جو شخص نماز پنج گانہ کا اہتمام کرتا ہے کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کی سنت پر عمل کرتا ہے، اس کے لیے یہ تدابیر معمول کا حصہ ہیں،اس کے علاوہ ایسی بیماریوں اور مصیبتوں سے نجات کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دعا بھی منقول ہے،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھے اوریہ دعا پڑھے:
دعا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً۔
ترجمہ: سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔ تو وہ زندگی بھر اس وبا سے محفوظ رہے گا۔(ترمذی شریف حدیث نمبر۱۳۴۳)
لہٰذا کسی بھی بیماراور تکلیف زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ لیں ان شاء اللہ تعالیٰ اس بیماری سے محفوظ رہیں گے۔اہل دنیا کو بھی ہماری دعوت ہے کہ وہ آغوش اسلام میں آئیں اور قدرت خداوندی کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں اسی میں انسانیت کی معراج اور کام یابی ہے۔