ہندستان کے مسلمان اور حکومت ہند کا سیاہ ترمیمی شہریت بل

اداریہ:                                       

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی#

            جس وقت میں یہ تحریر قلمبند کررہا ہوں، پورا ملک مظاہروں اور احتجاجات میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ایک طرف عوام حکومت کے نئے ترمیمی شہریت بل کے خلاف بلا تفریقِ مذاہب میدان میں کود پڑی ہے ، دوسرے طرف پولیس کی اپنی طاقت کاناجائز استعمال اور تیسری طرف حکومت کی ایک غیر اہم غیرضروری ترمیم بل پر ضد؛ ایک ایسا بل ،جس میں ملک کا کوئی فائدہ نہیں ، بل کہ اقتصادی عظیم خسارہ ہے ۔ بس اپنے سیاسی مفادمیں وہ بل ملک کی دستور کی روح پر شب خون کے علاوہ کچھ نہیں ۔

وکاس کے بجائے وناش:

             اگر آپ بغور جائزہ لیں تو اس حکومت نے ملک کا وکاس کے بجائے وناش کیا ہے۔ اب تک کوئی ایک فیصلہ بھی ڈھنگ کا نہیں ، جس سے ملک کو کسی بھی میدان میں فائدہ ہوا ہو۔ صرف کاغذ کے شیر اور سفید جھوٹ ببانگ دہل بولنے کے ان کا کوئی کام نہیں رہا ۔

            اس سے قبل بغیر کسی منصوبے کے نوٹ بندی ، جس فیصلے نے ملک کی عوام کو ہر اعتبار سے توڑ کر رکھ دیا ۔ ملک کا کچھ فائدہ تو نہیں ہوا ،بل کہ ایسا نقصان کہ جس کے بارے میں ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ۲۰/ سال تک بھی اس نقصان کی بھر پائی ممکن نہیں ہوسکے گی ۔اس کے بعد جی ایس ٹی (GST )نے بھی اقتصاد کی رہی سہی کسر پوری کردی اور کریلا و ہ بھی نیم چڑھا کا رول ادا کیا ۔ آخر سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ؟ تو میرا سمجھنا ہے کہ اس میں ترجیحات کے تعین اور عدم تعین کو بڑادخل ہے ۔

 عوام میں بیداری لانے کی سخت ضرورت:

            ہمارے ملک کی عوام میں بیداری لانے کی سخت ضرورت ہے ۔ انہیں بتایا جائے کہ تم ایک ایسے عظیم ملک کے باشندے ہو، جو سیکولرزم ،جمہوریت اور عظیم دستور کے اعتبار سے دنیا میں مشہور ہے ۔ ہندستانیوں کو دنیا میں اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک میں بڑا طبقہ امن پسند اور بھائی چارگی کا دلدادہ ہے ، وہ ملک میں مذہبی نفرت کو بالکل پسند نہیں کرتا ۔ مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ جو ہندستان کی تاریخ کے بہت بڑے ماہر تھے ، انہوں نے کہیں لکھا ہے کہ اس ملک کی مٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بسنے والے امن و امان کے خوگر ہوتے ہیں۔

سیاست دانوں کی پالیسیاں ملک میں بد امنی کا سبب:

             یہ تو ان سیاست دانوں کی پالیسیاں ایسی ہیں جو ملک میں بد امنی کو فروغ دیتی ہیں ۔ اس لیے کہ وہ اُن انگریزوں کے پروردہ ہیں، جنہوں نے انیسویں صدی کے ایک ایسے ملک کو جو امن اور سالمیت میں بے مثال تھا ، آپس میں ”لڑاوٴ اور حکومت کرو“ کی پالیسی کے تحت بیسویں صدی میں آر ایس ایس کو ان کے آقاوٴں نے استعمال کرکے فساد کا آغاز کروایا ۔ آپ غداروں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کون غدار تھے؟ یہ تو ہندتو اکا محض ایک ڈھونگ ہے ، ورنہ خود اس کے بنیاد ڈالنے والے ساور کر وغیرہ ہندو مذہب سے نا واقف تھے ؛بل کہ ناستک اور ملحد تھے ۔ اس لیے کہ وہ انگریزوں کے ایجنٹ تھے ؛انگریزوں کو جب محسوس ہوگیا کہ اب تو یہ ملک انہیں چھوڑنا ہی پڑے گا،تو ان کو کھڑا کیا؛ تاکہ وہ ان کے خطوط پر ان کے جانے کے بعد کام کریں ۔ اسی لیے گوڈسے نے بابائے قوم گاندھی جی کو قتل کیا ، کیوں کہ یہ انگریزاس ملک کو سیکولر نہیں بل کہ ہندو راشٹر کے طور پر دیکھنا اوربنانا چاہتے تھے ، مگر ان کوان کی آرزو پوری ہوتی نظر نہ آئی ۔

            بہر حال چوں کہ اس ملک کو ہندو مسلم سکھ عیسائی سب نے مل کر آزاد کروایا تھا ، لہٰذا اسے سیکولر جمہوریہ کے طور پر بنانے کا فیصلہ کیاگیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کو پاکستان ہجرت کرنے سے سب نے مل کر روکا ، اسی لیے آج بھی پاکستان کے مقابلہ میں ہندستان میں مسلمان زیادہ ہیں اور اب مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی حرکت سراسر ناانصافی ہے ،اگر ایسا کرنا تھا تو اسی وقت کرتے اور تقسیم بھی اسی اعتبار سے کرتے !!!!؛بہر حال اب اس طرح کی سازش اس ملک میں نہیں چلے گی اوریہ سیکولر جمہوریہ ہی رہے گا۔

ملک ایک بارپھر اتحاد اور بھائی چارگی کی طرف:

            ان سب کے ساتھ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ”بی ۔جے۔ پی“ کے پروجنوں اور بڑوں کا آزادی میں کوئی حصہ نہیں ، بل کہ وہ تو اس ملک کو انگریزوں کا غلام ہی رہنے دینا چاہتے تھے ۔ یہ تو ملک کی قسمت اچھی کہ ہندومسلم اتحاد نے آگے بڑھ کر آزادی کی تحریکیں چلائیں ، مگر افسوس کہ آزادی کے ۷۳/ سال بعد ہندستان کے باشندوں کو ایک اور آزادی کا سامنا ہے ۔ پہلی گوروں سے تھی اور اب چوروں سے آزادی کی تحریک کا طبل بج چکا ہے ۔ اس وقت ۲۱/ تاریخ کو جب میں اپنا یہ اداریہ لکھ رہا ہوں ،ملک کے ۸۰/ فیصد سے بھی زائد حصے سڑکوں پر آچکے ہیں ۔ ان شاء اللہ ایک بار پھر اس ملک کے باشندے یہ ثابت کرر ہے ہیں کہ یہ ملک ”ہندتوا وادی“ تحریکوں کو ناکام بنانے میں ایسے ہی کام یاب ہوجائے گا ،جیسے اس وقت انگریزوں کی ہزار کوششوں کے باوجود ہندو،مسلم، سکھ نے آپسی اختلاف کو ختم کرکے بھائی چارگی قائم کی اور پھر ملک کو آزادی دلاکر دم لیا ۔ بالکل اسی طرح ۲۰۱۹ء میں بھی اللہ کے فضل سے آپسی دوریاں ملک کے باشندوں میں ختم ہورہی ہیں اور ایک بار پھر سب مل کر ملک کے غداروں اور انگریزوں کے ایجنٹوں سے ملک کو بچانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

قابلِ مبارک باد ہیں جامعہ ملیہ اور ملک کی دیگر دانش گاہوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ:

            میں مبارک باد دیتا ہوں جامعہ ملیہ اور ملک کی دیگر دانش گاہوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ کو ؛جنہوں نے اپنے جمہوری حق کو حاصل کرنے اور ملک کے دستور کو بچانے کے لیے مورچہ سنبھال لیا ہے اور ان شاء اللہ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک یا تو بغیر کسی ترمیمی دلاسے کے مکمل طور پر ختم نہیں کی جائے گا یا پھر حکومت بے دخل کردی جائے گی ۔ اس لیے کہ ملک کے آئین اوردستور میں مذہبی بنیاد پر تفریق کا کوئی تصورہی نہیں ہے ۔ یہ ہمارا ہوم منسٹر ۱۳۰/ کروڑ آبادی والے تہذیب وثقافت کے حامل ملک کے باشندوں کو بے وقوف بنارہا ہے ۔ کیا امت شاہ اور اس کے وزیروں کو ملک کے باشندے اسی لیے منتخب کرکے لائے تھے کہ وہ اپنی من مانی چلائے اور اس کے وزرا آنکھیں بندکر کے اس کا ساتھ دیں ۔ ملک کے لیے حکومت ہوتی ہے نہ کہ حکومت کے لیے ملک ۔جمہوری نظام کے مطابق جمہوریت کہا جاتا ہے۔

Goverment of the people by the people for the people.

عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ عوام کے لیے۔ اور یہاں تو عوام کی مرضی کے خلاف بل پر بل پاس ہورہا ہے ، مگر اس کا انجام ان ظالموں کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ !

دستورِ ہند میں شہری حقوق کے تحت چھے آزاد یوں کی ضمانت:

            اوریہاں تو عوام سڑکوں پر آگئی ہے اور حکومت تانا شاہی کررہی ہے ؛جب کہ ملک کے دستور کے اعتبار سے عوام کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے مظاہروں اور احتجاجات کا حق حاصل ہے ۔ دستور ہند کی دفعہ ۱۹/میں شہری حقوق کے تحت چھے آزاد یوں کی ضمانت دی گئی ہے، جوحسب ذیل ہیں:

            ۱- آزادیٴ اظہارِ رائے ۔

            ۲- بدون ہتھیار اجتماع کی آزادی ۔

            ۳- آزادیٴ تنظیم ۔

            ۴- بھارت میں سفر کی آزادی ۔

            ۵- بھارت کے کسی بھی خطے میں سکونت کی آزادی ۔

            ۶- پیشہ، کاروبار اور تجارت کی آزادی ۔

تکبر کے نشے میں دھت حکومت کا عوام کے حقوق پر ظلماًطاقت کا استعمال :

            ایک طرف عوام اپنے اسی آئینی حق کو استعمال کرکے آئین پر ہورہے حملے کے خلاف احتجاج کرتی ہے، تو دوسری طرف تکبر کے نشے میں دھت؛ مودی اور امت شاہ ان پر کہیں ۱۴۴/ نافذ کرتی ہے تو کہیں ان پر گولیاں چلاتی ہے، تو کہیں ان پرآنسو گیس چھوڑتی ہے، تو کہیں لاٹھیوں سے انہیں پیٹتی ہے ۔ اب تک ۲۰/ سے زائد لوگوں کے مارے جانے کی خبر ہے ۔یوپی میں پولیس نے بغیر آنسو گیس یا بغیر گولیوں کے استعمال کیے سیدھا پرامن احتجاج کرنے والوں کے سروں اور سینوں پرگولی ماری ہے اور تقریباً ۲۳/ نوجوان اس میں شہید ہوچکے ہیں ۔ ان شاء اللہ ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ہزاروں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ملک کے بے شمار باشندوں کو زخمی کردیا گیا ہے۔

            پولیس ان ریاستوں میں؛ جہاں بی جے پی کی حکومت ہے یہ سب کررہی ہے ۔ جب کہ غیر بی جے پی ریاستوں میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی جارہی ہیں ۔ مگر الحمدللہ امن کے ساتھ۔

مظاہرین پر پولیس کی بربریت :

            بدقسمتی سے قانون کے ان رکھوالوں کا شعبہ محکمہ پولیس دراصل عوام میں شروع سے اب تک دہشت اور ناانصافی کی علامت بن چکا ہے اور اس تصور کو کوئی توڑ نہیں سکا۔ لوگ دور ہی سے پولیس والوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں اگرچہ وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہوں۔ ہندوستان اور خصوصا” یوپی اور دہلی پولیس شروع سے اپنے کارناموں کی وجہ سے بدنام ترین ہے اور اسکی وجہ پولیس کا نہایت سنگدلانہ اور بے رحمانہ رویہ ہے۔پچھلے کئی دن سے میڈیا کے ذریعہ بے شمار کارہائے نمایاں سامنے آچکے ہیں جہاں پولیس گردی سے بے شمار لوگ اپنی جانیں اور اپنی عزتیں گنوا بیٹھے ہیں۔ زیرِ حراست لوگوں کی موت کے پے درپے واقعات نے عوام کو مزید خوفزدہ کررکھا ہے۔

            قانون تو سب کیلئے یکساں ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی محکمہ ہو۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں‘ لیکن ستم یہ ہے کہ ہندوستان میں خصوصاً قانون کی نظر میں سب ہرگز برابر نہیں ہے۔ یہاں بھی طاقتور کا سکہ چلتا ہے۔ پولیس خود کو ہی قانون کہتی ہے اور سمجھتی ہے انکی نظر میں انکے بنائے ہوئے اصول ہی عوام پر لاگو ہوتے ہیں اور وہ خود بھی ان سے بالاتر ہیں کیا ایک شخص اپنی حدود کو کراس کرتے ہوئے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جلاد اور قصاب بن کر انسانوں کو بے رحمی سے مارے گا!!!! اور تشدد کرے گاتو کیا اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوگا؟ اس شعبہ کی نگرانی آخر کس کے سپرد ہے؟ ان کو ان کے مظالم سے ہاتھ روکنے والا کیا کوئی ہاتھ نہیں ہے؟ان کو ان کے اصل فرائض سے آشنا کرنے والی کوئی ٹیم، کوئی سربراہ ہیں؟ کوئی ہے جو انکے اصل فرائض سے ان کو آگاہ کرتا رہے!؟!

اب قومی سطح پر اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے اور اس شعبہ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

            یہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یہاں معمولی سرزنش سے کام بننے والا تو ہرگز نہیں ہے۔ سختی سے ان کیلئے بھی قوانین بنانے اور اْن پر تیزی سے عمل درآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم میڈیا میں کچھ سرگرم خبریں سنتے ہیں۔ اْن پر کچھ دن گرما گرم بحث بھی کرتے ہیں اور پھر سب کچھ فراموش کردیتے ہیں۔ اصل میں پہلی فراموشی مزید ڈھیل کا سبب بن جاتی ہے اور نظام پھر سے پہلے والی ڈگر پر چلنے لگتا ہے۔ ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑتے ان مظالم کیلئے اب خاموشی اختیار نہیں کرنی بلکہ اس لئے تب تک دبتی آواز بلند کرنا ہوگی جب تک خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آجاتے۔

عوام کی یہ خاموشی بہت مشکلات لیکر آئیگی:

            سڑکوں اور شاہراہوں پر سیکورٹی چیکنگ کے نام پر کبھی پریشان کیا جاتا ہے تو کبھی تھانوں میں بندغریب اور لاچار پولیس کی شاندار کارکردگی کا نشانہ بنتے ہیں اب لوگ تھانے جاکر نہیں تھانے سے کوسوں دور رہ کر خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔

            میں اس وقت براہِ راست پولیس والوں کو درخواست کرنا چاہونگا اور حکومتِ وقت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ پولیس کو اپنے سیاسی مفاد میں ہر گز استعمال نہ کرے۔

            پولیس تو معاشرے کے محافظ ہیں ان لوگوں کو تحفظ دیجئے۔ گناہ گاروں کو ضرور پکڑئیے اور اْن سے حسب منشا اپنی حدودوقوانین کے اندر رہ کر سزائیں بھی تجویز کیجئے‘ لیکن خدارا عام عوام کے دل سے اپنی دہشت اور خوف ختم کرکے انکے مسائل کو سنئے اور ان کا سدِ باب کیجئے کہ آپکی ذمہ داریاں بہت بھاری اور اہم ہیں۔ایک طرف دہلی پولیس نے طلبہ کو بے رحمی سے مارا اور یوپی پولیس نے تو تمام حدود پارکردیے دسیوں کو ماردیا اور اوپر سینہ زوری یہ کہ جمہوری حق کے لیے احتجاج کرنے والوں کوفسادی گردان کر ان پر لاکھوں کے جرمانہ عائد کررہی ہے۔

            ایک 11ماہ کے بچے کے والدین کو ایک ہفتے سے پولیس والے مظاہروں سے پکڑ کر لے گئے ہیں وہ بچہ رورو کر نڈھال ہے مگر حکومت اور پولیس پر اس کا کوئی اثر نہیں!!!!یہ سب کیا ہورہاہے؟!؟

            جن لوگوں کو پولیس نے بیقصور موت گھاٹ اتار دیا جن گاڑیوں کو پولیس نے خود نقصان پہنچایا جس کی وڈیوز موجود ہے اس کا کیا؟ ان پر کوئی کاروائی نہیں؟! مگر پولیس بھی اور ظالم حکومت بھی سمجھ لے کہ یہ آواز اب دبنے والی نہیں۔

            عوام عدم تعاون این آرسی ،سی اے اے، اور این پی آر کے ساتھ پولیس اور حکومت کے ان مظالم کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرے۔

یہ بِل سراپا خسارہ ہے:

            آخر حکومت کیوں اس پر بضد ہے ؟جب کہ اس بل سے ملک کو خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ آسام میں NRC کے لیے حکومت نے ۳/ کروڑ افراد کے لیے ۵۰/ ہزار ملازمین کو ۶/ سال تک لگاتار محنت کروایا ،جس میں حکومت کے ۳/ ہزار کروڑ اور عوام کے ۸/ ہزار کروڑ صرف ہوئے اور نتیجہ کیا نکلا؟ کچھ بھی نہیں!!!۔ ۱۹/ لاکھ افراد اس کی زد میں آئے ۔”کھودا پہاڑ نکلا چوہا “والی بات ہوگئی۔اب اگر یہی صورتِ حال پورے ملک کی ہوگی تو کیا ہوگا؟اگر ایک باشندے پر آسام کے حساب سے ۴/ ہزار بھی خرچ ہو تو ۱۳۰/ کروڑ پر تقریباً ۵ / لاکھ کروڑاور خرچ ہوگا۔ ہمارے ملک کے کروڑوں باشندے کمانے کے لیے ملک سے باہرہیں، ان کے آنے کا خرچ ، غربت کے ماروں کی نوکریوں کا مسئلہ، جو لوگ ملک ہی میں اپنی ریاست چھوڑ کر دیگر دور دور کی ریاستوں میں مقیم ہیں، ان کے آنے جانے کا خرچ ۔ جب ۳/ کروڑکے لیے ۶/ سال لگ گئے تو ۱۳۰/ کروڑ کو تو دسیوں سال بھی کم پڑیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ NRC سے پورے ملک میں افراتفری ہوگی ۔ پیسے پانی کی طرح بہہ جائیں گے، لوگوں کی زندگیاں کھپ جائیں گی اورملک تباہی کی طرف جائے گا اور کچھ بھی نہیں ہوگا !!!

            یہاں ہمارے ہندو برادران بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ غدار اور دھوکہ باز حکومت آپ کو بھی دھوکہ دے رہی ہے ، اس لیے کہ اگر کوئی غیر مسلم برادرِ وطن بھی اگر اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکے گا تو چلو مان لیا اسے شہریت مل جائے گی ، مگر ایک تو حکومت اس پر احسان جتلائے گی ۔ دوسرا اس کے نام پر ملک میں جو کچھ ہوگا اس کاکوئی اعتبار نہیں رہے گا ۔ مثلاً: اسے ۲۰۱۹ء میں شہریت ملے گی تو اس سے قبل کی اس کی ڈگریوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ، ان کی جو زمین وغیرہ اس سے قبل کی خریدی ہوئی ہوگی ، اس پر بھی ان کی ملکیت نہیں رہے گی ۔

حکومت کو عوام کے جمہوری حق کی خاطر اس بل کو فوری واپس لینا چاہیے:

            لہٰذا حکومت اپنی عوام کے جمہوری حق کی خاطر اس بل کو مکمل طورپر واپس لے ۔ اس سے قبل آدھار کارڈ کے لیے لائن میں لگوایا ، اس کے بعد الیکشن کارڈ کے لیے لائن لگوایا۔ اب جب عوام نے سب کچھ کرلیا تو کہہ رہے ہیں کہ ان کا اعتبار نہیں ، نہ پاسپورٹ کا نہ آدھار کارڈ کا نہ پین کارڈ کا ۔ اور کبھی ۱۹۵۶ء توکبھی ۱۹۷۲ء تواب دباوٴ کے بعد ۱۹۸۶ء کے کاغذات جمع کرو ۔ اور آج ۲۵/ تاریخ کی صبح اخبارات کے سرخیاں ہیں NRCنہیں بل کہ NRP ہوگا ۔ عوام اچھی طرح سمجھ لے کہ یہ محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے، ان کا اگلا قدم اس کے بعد NRC ہی ہوگا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اولاً :ملک کے باشندوں کی جو گنتی ہر دس سال میں ہوتی ہے اس کا بھی ابھی وقت نہیں آیا۔ اور دوسرا اس فارم میں ترمیم ہوئی ہے اور اس میں ایک خانہ ایسا ہے، جس میں والدین کے بارے میں ہے کہ: ان کی تاریخِ پیدائش لکھیں اور برتھ سرٹیفکٹ بھی دیں،یہ تو NRC ہی ہوا ، لہٰذا اس وقت اس کی بھی مخالفت ہونی چاہیے ۔

            ہمارے ہی ملک میں ایساکیوں ؟ امریکہ جیسے ملک میں بچے کے پیدا ہوتے ہی کسی دوسرے ملک والے ہوں تب بھی پاسپورٹ جاری کردیا جاتا ہے اوریہاں اپنے ملک کے ہوکر بھی اجنبی بتایا جارہا ہے ۔ عجیب خواہ مخواہ کا ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے۔

ہندستانی تاریخ کی سب سے بے حس حکومت:

            ایسی بے حس اور لاپرواہ حکومت تو ہندستان کی تاریخ میں انگریزوں کے بعد پہلی بار آئی ہوگی، جس کو اپنے ملک کے باشندوں کی ذرہ برابر کوئی پرواہ نہیں۔ نہ اس کے نزدیک ان کے وقت کی کوئی قیمت ہے، نہ ان کے مال کی، نہ ان کے جان کی، نہ ان کے مستقبل کے قیادت کرنے والے کالجوں میں پڑھنے والے نوجوانوں کی ۔ آپ ذرااندازہ لگائیں کہ ۱۳۰/ کروڑ لوگوں کا کتنا وقت اور کتنا مال نوٹ بندی کے وقت برباد کیا؟ اس کے بعد انہیں آدھار کارڈ میں لگادیا ، یہاں بھی وقت برباد ، مال برباد ۔ اس کے بعد الیکشن کارڈ لایا وہاں بھی یہی صورتِ حال ۔ اس کے بعد کیش لیس انڈیا کے نام پر بینکوں میں سخت قوانین ، نہ لوگ اپنی کمائی کے پیسے اپنے گھر میں رکھ سکتے ہیں نہ بینک میں ۔ ملک کے ڈیولپ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ اور GSTلاگو کردیا،اور وہ بھی ۲۸/ فیصد سے لے کر ۵۰/ فیصد تک اور دنیا میں کہیں اتنی بری مقدار میں GST نہیں ہے جس سے معیشت کو مزید نقصان پہنچا ۔ اس کے بعددیکھو تو راستوں کے ٹھکانے نہیں اور ٹرافک کے سخت قوانین لاگو کردیے۔

حکومت کا ملک کی تعلیم اور سڑکوں سے غفلت قابل افسوس!

            کبھی ملک کی تعلیم کے بارے میں نہیں سوچا ! سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی درجہ خستہ ہے۔ ہندوستان کا آئین ہر ہندستانی شہری کے بنیادی حق کے طور پر تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ آزادی کو سات دہائیوں سے زیادہ گزر جانے کے بعد بھی، ہندوستان کا تعلیمی نظام اپنے شہریوں کو اس بنیادی حق کی فراہمی میں ناکام رہا ہے۔ اگرچہ تعلیم کے نظام کو دور کرنے والے بہت سارے نظامی وسائل موجود ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے ان وسائل کو بروقت استعمال کر کے مسائل کودور کرنے کی ذمہ داری نہیں نبھائی جارہی ؛ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر اپنے فرائض میں ناکام رہی ہے۔

تعلیم پر سرکاری اخراجات:

            مرکزی حکومت کی طرف سے مالی سال 2019۔20 کے لئے تعلیم پر موجودہ اخراجات ہندوستان کی جی ڈی پی کا 0145فیصد تک آتا ہے اور تعلیم پر خرچ کرنے کا حصہ حکومت کے اخراجات کا314 فیصد ہے۔ جدت اور ترقی کے لئے فنڈز میں اسی اضافے کے ساتھ، تعلیم پر سرکاری اخراجات کو سالانہ جی ڈی پی کے 6-7 فیصد تک بڑھایا جانا چاہئے۔

            تعلیم ایک عوامی حق ہے اور اسے سب تک یکساں طور پر قابل رساں ہونا چاہئے اور اس کے حصول میں رکاوٹ آئین کی واضح خلاف ورزی ہے۔

            سینٹرل بورڈ برائے سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) نے اگست 2019 میں نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ،جس میں امتحانات کی فیسوں میں 24/ مرتبہ اضافہ ہوتا ہے۔اس وقت پوری قوم میں تعلیمی بحران ہے۔ اسکول کی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم تک، ان مسائل کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

راستے کابرا حال: راستے بنانے کی فکر نہیں اور فاسٹ ٹریک کا قانون۔ راستوں کا ایسا برا حال ہے کہ مومبائی سے اکل کوا 450/ کیلومیٹر کے لیے آٹھ گھنٹے لگتے ہیں اور انکلیشور سے اکل کوا 120کیلومیٹر کو ۳/ گھنٹے لگتے ہیں اور ٹول ٹیکس کا پوچھو ہی مت۔ ۵۰/ کیلو میٹربھی نہیں ہوئے کہ ٹول ٹیکس اور راستے ویسے ہی ۔

             غرضیکہ ملک کا امن وامان پامال کردیا ، نفرتوں کے بیج بوئی ، عوام کا مال برباد کیا اور خود مودی بلاوجہ ایک ملک سال میں دو دو بار جارہا ہے ۔ امریکہ میں ہمارے پیسوں سے پروگرام کیے جاتے ہیں ،وزیر خارجہ تو جیسے کوئی ہے ہی نہیں۔اورمودی تو لگتا ہے گھومنے کے لیے ہی کرسی پر براجمان ہے ۔

اقتصادی گراوٹ کی وجہ کر عوام کی خود کشی:

            ملک کی اقتصادی حالت اتنی نازک ہے کہ ہندستان کے بہت سارے باشندے خود کشی پر آمادہ ہوگئے ہیں ۔ ابھی ابھی چند واقعات پیش آئے ، جس میں خود کشی کرنے والے کی آخری تحریر میں صاف تھا کہ ہم نے حکومت کی پالیسی سے تنگ آکر یہ آخری قدم اٹھایا ہے ۔ ایک رکشا چلانے والے نے آخری تفصیلات میں صاف کہا کہ ایک تو بڑی مشکل سے تھوڑا بہت کماتا تھا، پھرپولیس پکڑ کے اس پر ڈنڈا مار کر وہ بھی لے لیتی تھی۔ اس سے میں معاشی حالت سے تنگ آکر اور حکومت کی پالیسیوں سے پریشان ہوکر یہ آخری قدم اٹھارہا ہوں ، ورنہ مجھے گھریلو کوئی ڈپریشن نہیں ۔ ملک کا تیزی کے ساتھ اقتصادی اعتبار سے کمزور ہونے کا آپ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ۲۰۱۴ء میںGDP میں ڈالر کی قیمت ۵۸/ تھی اور آج ۷۲/ کے پار ہے۔ اب تو آر بی آئی نے بھی کہا کہ GDP اور نیچے جائے گی اور ملک میں مزید مہنگائی بڑھے گی ۔ لگتا ہے کہ صرف نعروں میں یہ حکومت ملک کو تباہ کردے گی ۔ ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ امن و امان ختم ، اقتصادی بحران کا خطرہ یقینی ، تعلیم پر کوئی توجہ نہیں ، روٹی کپڑا اور مکان سے لوگ محروم ، نوکریاں دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہیں ، سیکولرزم خطرے میں اوررشوت عروج پر ہے۔

            حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک دنیا کی تیزی سے ترقی کرتے اقتصادی ملکوں کی فہرست سے بھی خارج ہوچکا ہے ۔ ملک فساد زدہ اور جنسی استحصال کی فہرست میں بہت آگے آچکا ہے ۔

ترجیحات کے غلط تعین کا نقصان:

            اب اس پسِ منظر میں ملک کا کیا بھلا ہو گا ، ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس لیے کہ ترجیحات کا غلط تعین ہورہا ہے ۔ ترجیحات کا صحیح تعین (Determination of Priorities )نہیں ہوتا تو افراد ہی نہیں ریاستوں پر بھی تباہ کن نتائج کا سامنا ہوتا ہے ، جس سے غلط جگہ پر محنت ،قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف ملک اورقوم کے اصل مسائل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔

مذہبی سیاست سے عوام کو ہوشیار ہونا ہوگا:

            ہم ہندستانی مکمل طور پر اس مرض کا شکار ہیں اور سیاست داں؛ مذہب کے نام پر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ نادان ہیں وہ لوگ جو اُن کے فریب میں آکر یہ قصور کررہے ہیں۔کچھ نا سمجھ اسے ہندوراشٹر بننے کا گولڈن چانس سمجھ رہے ہیں،ہندوراشٹر بن جانے سے کیامل جائے گا ؟، بل کہ مزید دنیا میں ملک کی شبیہ خراب ہوگی۔ جیسا کہ آج NRC کے بعد ہی ہوچکی ہے اور انٹر نیشنل میڈیا ہمارے اتنے عظیم ملک کا مذاق اڑا رہی ہے اورکہہ رہی ہے کہ یہ وہی عظیم ملک ہے ،جس کے دستورکو دنیا کاعظیم جمہوری دستورکہا جاتا ہے !!؟ یہ وہی ملک ہے ،جس میں گنگا جمنی تہذیب کے گن گاتے لوگ تھکتے نہیں تھے ؟ تو دیکھوکہ اب وہ کس سمت جارہاہے ؟ ؟؟

ملک کے اہم مسائل :

            ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ، جمہوریت ہلاکت کے دہانے پر ، دم توڑتی معیشت ، بے لگام میڈیا ، تعلیمی پسماندگی ، فرقہ پرستی ، مذہبی وسیاسی عدم برداشت اور حکومت کی نا انصافیاں ۔ملک کا سب سے سنگین مسئلہ پارلیمنٹ اور منتخب نمائندگان کا غیر مہذب ہونا اور وزیر اعظم سے لے کر تمام چھوٹے بڑے وزرا کی غیر سنجیدہ زبان کا استعمال فخر سمجھا جاتاہے۔ وہاں کی عوام کا کیا حشر ہوگا ،جہاں اتنے عظیم ملک کا وزیر اعظم ہی یہ کہے کہ” میں لباس سے لوگوں کو جان لیتا ہوں“ تو وہ دوسروں کو کیاسکھائے گا ؟جیسے ترجیحات کے عدم تعین سے افراد اور ریاست کو بے تحاشا نقصان پہنچتا ہے، تو اس کے مقابلہ میں ترجیحات کے تعین سے بے شمار فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ۔

سب سے پہلے ہم اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کی کوشش کریں:

            ترجیحات سے مراد ایسے عمل اور اقدامات ہوتے ہیں ،جو کسی قوم یا معاشرے کے بنیادی مسائل کی وجوہات کے خاتمے اور اُس کو ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کی خاطر طے کی جاتی ہیں۔ ترجیحات انفرادی بھی ہو سکتی ہیں اور اجتماعی بھی۔ ترجیحات کی فہرست مرتب کرنے کے بعد مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے جاندار حکمت ِعملی بنانا بھی ایک بنیادی اہمیت کا حامل عمل ہے۔

            ترجیحات ہی سے قوموں اور معاشروں کے منزل کا تعین ہوتا ہے۔ آئیڈیل معاشرے کا خواب دیکھنے والوں کے ترجیحات کی فہرست میں علم، تعلیم و تربیت اور فنِ تحقیق کو اولیت اور مستقل جگہ ملتی ہے (اور مسلمان کے لیے ان میں سب سے پہلے ایمان میں رسوخ ، اسلامی تعلیمات پر عمل، اللہ کے سامنے آہِ سحر گاہی اور دعا۔ گویا کہ اسبابِ ظاہریہ مقدور بھر اور مسبب الاسباب پر ؛یعنی اسباب ِروحانیہ کو اختیار کرنا ارجح الترجیحات؛ یعنی سب پر مقدم اور اوّل ہے۔)

             خصوصاً تغیرات زمانہ او ر حالات کے جبر کا شکار ہونے والی اقوام یا معاشرے؛ ترجیحات کے از سر ِنو تعین میں در اصل اپنی اجتماعی کوتاہیوں اور غفلتوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے سامنے جاپان اور جرمنی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جنہوں نے اپنی نئی ترجیحات طے کرکے خود کو پہنچنے والے دو عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں کا بڑی حد تک کام یابی کے ساتھ مداوا کیا، جو انتہائی سبق آموز ہیں۔

            کسی قوم یا معاشرے کی نجات کے لیے ترجیحات کا تعین آسان کام نہیں!!! اس کے لیے انہیں زندگی کے تمام ظاہری اور پوشیدہ گوشوں کا سائنسی انداز ِفکر کے ساتھ (اور روحانی اسباب کا قرآن و حدیث کی روشنی میں)دقیق جائزہ لینا ہوتا ہے۔ جو اقوام اور معاشرے اپنے زوال کی تحقیق کرکے نتائج اخذ کرتی ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی آئندہ نسلوں کے بہتر مستقل کے لیے ترجیحات کے تعین سے غفلت نہیں برتتی، وہ ضرور سرخ رو ہوتی ہیں۔

            اس کے برعکس ؛جو اپنی اُفتاد کی زیادہ تر ذمہ داری اپنے مخالفین یا دُشمن پر عائد کرکے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی روش اختیار کرے، ایسے معاشرے میں رفتہ رفتہ شرافت، خدمت، سچائی، ایثار اور باہمی تعاون کی قدریں بے معنی ہوکر شکم پروری کی قبیح روایت جڑ پکڑنے لگتی ہیں۔ اخلاقی اقدار کی نابودی ہی سے معاشرہ اپنی منزل کھودیتا ہے۔

موجودہ تناظر میں ترجیحات کے تعین کی ناگزیر ضرورت ہے:

            ہندوستانی معاشرے کے اہل ِدانش کا ایک کڑا امتحان ہے ۔خاص طور پر مسلمانوں ،دلتوں اور بچھڑی ذاتیوں کا‘ کہ وہ معروضی حالات کا بلا واسطہ اور باریک بینی سے جائزہ لے کر ہمارے آج اور مستقبل کے لیے درکار ترجیحات کے تعین پر غور و خوض کرے۔ لیکن اس کی نوعیت اور انداز ویسی ہی ہونی چاہیے، جس طرح آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خلوص اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

برادران وطن آئیے! بامقصد زندگی گذارتے ہیں:

            جولوگ زندگی کو منظم، متوازن، موٴثر، مستعد اور با مقصد گزارنا چاہتے ہیں، ان کو وقت کے بہتر استعمال، تضیع اوقات اور اپنی سستی وکاہلی،ٹال مٹول اور کاموں کو ادھورا چھوڑنے کی عادت کو ختم کرکے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اور ہوم ورک کے اصول جاننا بھی ضروری ہیں۔

            اگر آپ ایک اچھی اور کام یاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو آپ اپنے روز مرہ کے کاموں کی ترجیحات متعین کریں۔ کام یاب زندگی کے لیے ترجیحات کا تعین لازمی شرط ہے۔مربوط اور کام یاب زندگی کا اصول ہے کہ ہر روز صبح کے وقت اپنا دن بھر کا منصوبہ بنالیں، ہر کام کے لیے پہلے سے وقت کا تعین کرکے وقت کو بچایا جا سکتا ہے، تمام کاموں کے لیے زیادہ اور کم اہم کام کے حساب سے ترتیب بنانا اور اپنے کاموں اور مصروفیات کی چیک لسٹ بنانا ضروری ہے۔

            زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی صحت، توانائی اور قوتِ کار کا خاص خیال رکھیں۔جو چیزیں اور سرگرمیاں عموماً تنگ کرتی ہیں، ان کاموں کی تیاری میں ان کا حل تلاش کریں، زندگی میں غیر ضروری کاموں کو کرنے سے گریز کریں، اپنے کام کو شروع کرنے کے لیے مکمل کرنے تک بیچ میں کام نہ روکیں، اپنے اوقاتِ کار کا صحیح استعمال کریں۔

اوقات کو فضول کاموں میں ضائع نہ کریں، اپنے اوقات کو پرائم اور نان پرائم میں تقسیم کریں:

            شخصیت، تنظیم، ذات، مقاصد زندگی کا تعین، احساسِ ذمے داری، کردار، رویہ، عادات، صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی ٹولز اینڈتکنیکز، ذاتی، تعلیمی، خاندانی، معاشی و معاشرتی زندگی، زندگی کی لینز کا تصور، منظم، متوازن، موٴثر اور مستعد زندگی کے ذریعے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیسے کر سکتے ہیں۔

            زندگی میں کام یابی کے لیے وقت کا بہتر استعمال انتہائی اہم ہے،مگر افسوس کہ ہم بے کار کاموں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

رشوت خوری ملک میں عروج پر:

            غرض یہ کہ حکومت ہند اور باشندگان ہند کو NRC وغیرہ ۔غیر اہم اور غیرضروری مسائل کو چھوڑ کر ضروری مسائل کو ترجیح دینے کی سخت ضرورت ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے بھارت رشوت خوری میں ایشیا میں سب سے آگے ہے۔ رپورٹ ۷۰/ فیصد رشوت خوری بتلاتی ہے ، مگر حقیقت میں ۱۰۰/ فیصد رشوت خوری ہوتی ہے ۔ پولیس اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر گاڑیوں میں رشوت وصول کرنے میں لگی رہتی ہے ۔ اگر پاسپورٹ کی انکوائری آئے تب بھی ہزار پندرہ سو جب تک نہ دئے جائیں کوئی کام ہوتا ہی نہیں ۔ ملک میں جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا اور صحافت کا ننگا ناچ کسی پر مخفی نہیں۔ اکثر اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر جانبداری کا ثبوت دیا جاتا ہے ،گویایہ حکومت کی گود میں بیٹھی ہوئی ظلم کا ساتھ دے رہی ہے، جب کہ میڈیا جمہوری نظام میں ترقی کا اہم ترین ستون ہوتا ہے ۔

            تعلیم اور خاص طور پر سرکاری اسکولوں کا تو براحال ہے ۔ تعلیم کو تجارت بنا دیا گیا ہے ، بعض لوگ اگر خدمت کے نام پر تعلیم کو فروغ دینا چاہیں تو نہیں کرسکتے ، کیوں کہ اس کے لیے شرائط اور تنخواہوں کا معیار اتنا بلند ہوتا ہے،جس کو خدمت گزار نہیں کرسکتا ۔

احتجاج آخری دم تک جاری رہنا چاہیے:

            غرض یہ کہ ملک کی عوام ایک بار جوا حتجاج پر اتری ہے ، تمام اصلاحات کراکر ہی دم لے ، ورنہ مودی جیسا کذاب تو کبھی پیدا ہواہی نہیں اور لگتا ہے نہ کبھی ہوگا۔ بولتا ہے دہلی سے ۱۰۰/پیسہ نکلتا ہے اور جگہ پر پورا ۱۰۰/ پیسہ پہنچتا ہے؛ جب کہ ۲۰/ یا ۳۰/ پیسہ کا کام بمشکل ہو ا تو ہوا‘ورنہ وہ بھی نہیں ؛جھوٹ تو کوئی ان سے سیکھے ۔

مسلمان اس ملک میں تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہو:

             اقلیت کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہو، ورنہ جرم ضعیفی کی پاداش میں اکثریت کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بننا عین متوقع ہے۔ اتحاد کے لیے جلسے تو کیے جاتے ہیں ،مگر خود اس جلسہ کے منتظمین برداشت اور رواداری کے مزاج سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ ترجیحی بنیاد پر اتحاد کے لیے برداشت اور رواداری کا مظاہرہ اہم ہے ،جو آپ بغیر کسی جلسہ کے اپنے مابین کر سکتے ہیں۔

            تالیف قلب کے قبیل کے وہ تمام امور؛ جسے بہت پہلے سے کیا جانا چاہیے تھا اب گاہے بگاہے خوشامدی کے پیرایہ میں کیا جا رہا ہے۔ وقت رہتے ہوئے ترجیحی بنیاد پر دینی حمیت کے ساتھ کیے جانے سے یہ بہت بڑا انقلابی عمل ثابت ہوتا اور ہو سکتا ہے۔

حکومت کو آزادی کی خاطر مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے:

             یہاں کی حکومت کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ملک کی آزادی میں سب سے بڑا حصہ مسلمانوں کا ہے ،یہی نہیں بل کہ قانون ساز کمیٹی میں بھی اپنے حقوق کے لیے ہم مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ۔

            آزادی کے پندرہ دن بعدہی 29اگست1947کو طے کیا گیا کہ آزادہندستان کا اپنا آئین بنایاجائے،جس میں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو اور ان کی خوش حال اور پرامن زندگی کی ضمانت بھی۔اس مقصد کے لیے دستورساز اسمبلی نے سات افراد پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی،جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔اس کمیٹی نے دو سال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تین سال کی مسلسل محنت کے بعد ملک کا آئین تیار کیا،جسے ملک کی پارلیمنٹ نے منظور کرکے نافذ کردیا۔اس آئین کی رو سے ہمارا ملک جمہوریہ ہندکہلایا۔(آزادی سے جمہوریت تک:۹۰۱)

دستورسازی کے لیے محنت وکوشش کرنے والوں میں مسلمان اور علمائے کرام بھی شامل تھے:

            اس ملک کو امن ومحبت کا گہوارہ بنانے اور جمہوری اقدارپر تعمیر کرنے میں اہم کوششیں رہی ہیں۔اگر دستورسازی کے موقع پر علمائے کرام نے دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا اور ملک کو جمہوری انداز میں تشکیل پانے پر زور نہ دیا ہوتا تو اس ملک کا امن وسکون غارت ہوجاتا۔ اور نہ صرف مسلمانوں ، بل کہ دیگر برادران ِوطن کو بھی مذہبی تنگ نظری وتعصب پسندی کا نشانہ بننا پڑتااور حقوق واختیارسے محروم ہوکر مجبور ولاچار کی طرح رہنا پڑتا۔لیکن ان لوگوں کی قربانیوں اور ملت کے تئیں ان کی بے لوث فکرمندیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے،جہاں ہرمذہب والااپنی مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہا ہے۔اور جہاں ہونے والے ظلم کے خلاف، ناانصافیوں کے خلا ف،آئینی اختیارات کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کا حق حاصل ہے،اس ملک کی تعمیر وترقی، اس کی سالمیت،امن ومحبت اورتہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے تگ ودو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

            یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ تحریکِ آزادی کے مجاہدین میں مسلمانوں کے ناموں کو نکال دیا گیااور گنے چنے چند نام رہ گئے ہیں اورکتابوں،نصابوں اور تعلیم گاہوں سے لے کر جلسوں،اجتماعوں اور قومی تقریبوں تک میں مسلمانوں کے تذکروں کو حذف کردیا گیا۔اسی طرح دستو رسازی میں مسلمانوں نے کس طرح اپنے علم،صلاحیت،فکر اور محنت کو لگایا ہے اس کو بھی تاریخ کے صفحات سے بالکل الگ کردیا گیا۔بل کہ ہم مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے ،جنہیں یہ بالکل بھی نہیں معلوم کہ مسلمانوں نے بھی دستورسازی میں حصہ لیااور اس کے لیے کوششیں کیں۔

مسلمانوں کا دستور سازی میں اہم کردار:

            مسلم ممبران دستور سازی کی تلاش کے دوران ایک نہایت تحقیقی مواد دستیاب ہوا،جسے محترم رمیض احمد تقی نے غیر معمولی تحقیق سے جمع کیااور تقریبا ۵۳/ مسلم ممبران کے نام شمار کروائے،جسے جاننا چاہیے۔چناں چہ ہم یہاں ان کی اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں۔وہ اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:کہ میں نے اپنی تلاش وتتبع کے بعد اس مختصر مقالے میں35مسلم ارکانِ قانون ساز مجلس کے اسمائے گرامی کوذکر کرنے کا التزام کیاہے:(1) مولانا ابوالکلام آزاد (11 نومبر 1888۔ 22 فروری 1958) ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم(2) عبدالقادر محمد شیخ(3) ابوالقاسم خان (5 اپریل 1905۔ 31 مارچ 1991) جو A.K خان سے زیادہ مشہورتھے، آپ بنگالی وکیل، صنعت کار اور سیاستدان تھے۔(4) عبدالحمید(5) عبدالحلیم غزنوی (1876۔1953)آپ ایک سیاستداں، تعلیمی اور ثقافتی امور کے سرپرست اور زمینداربھی تھے۔(6) سید عبدالرؤف(7) چوہدری عابد حسین(8) شیخ محمد عبداللہ (دسمبر 1905۔8 ستمبر1982)(9) سید امجد علی (1907۔ 5 مارچ1997)(10) آصف علی (11مئی 1888۔ 1 اپریل1953)آپ پیشے سے ایک وکیل تھے۔ آپ پہلی بار ہندستان کی طرف سے امریکہ کے سفیر مقرر ہوئے اورکئی سال تک اڑیسہ(اوڈیشہ) کے گورنر بھی رہے۔(11) بشیر حسین زیدی (1898۔ 29 مارچ 1992) عام لوگوں میں آپB.H. زیدی سے زیادہ معروف تھے۔(12) بی پوکر) (B.Pocker صاحب بہادر (1890۔1965) آپ وکیل اور سیاستداں تھے۔(13) بیگم عزیز رسول (1908۔2001) سیاستداں اور قانون ساز اسمبلی میں واحد مسلم خاتون۔(14) حیدر حسین(15) مولانا حسرت موہانی(معروف شاعر،مجاہدِ آزادی،اردوئے معلی کے بانی ومدیر)(16)حسین امام(17) جسیم الدین احمد(18) کے ٹی ایم احمد ابراہیم(19) قاضی سید کریم الدین۔ ایم اے، ایل ایل بی (19 جولائی 1899۔14 نومبر 1977) (20) کے اے محمد(21) لطیف الرحمن(22) محمد اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندستانی سیاستداں تھے، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن تھے،کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاںآ پ کو”قائدِ ملت“ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔(23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن،جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پرآزادیٴ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے)۔ (24) محمد اسماعیل خان(25)(مولانا) محمد حفظ الرحمن سیوہاروی(26) محمد طاہر(27) شیخ محمد عبداللہ) 5 دسمبر 8۔1905ستمبر (1982 سیاستداں اورصوبہ جموں و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے۔(28) مرزا محمد افضل بیگ (29) مولانا محمد سعید مسعودی(30)نذیر الدین احمد(31) رفیع احمد قدوائی (18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954)معروف مجاہدِآزادی،کانگریسی لیڈراورآزادہندستان کے پہلے وزیرمواصلات)(32) راغب احسن (33) سید جعفر امام(34) سر سید محمدسعد اللہ (21 مئی 1885۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر اعلی۔ (35)تجمل حسین۔(ازمضمون:قانون ساز مجلس اور مسلم ممبران)

            یہ ان عظیم لوگوں کے نام ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے قانون سازی میں ترجمانی کی اور بعض تو وہ ہیں ،جنہوں نے بھرپور انداز میں ملک کوجمہوری بنانے اور مسلمانوں کے حقوق وتحفظات کے لیے ناقابل فراموش کردار اداکیا۔مولاناحسرت موہانی  جو اس کے ایک اہم رکن تھے اور جنہوں نے دستور سازی میں قابل قدر جدوجہد کی ہے اور بڑھ چڑھ کر مناسب ومفید دفعات کے لیے آخر وقت تک لگے رہے۔مولانا حسرت موہانی  نے دستور ساز اسمبلی میں عائلی قوانین جو مسلمانوں کی نسبت تھے،اس کے تحفظ کے لیے بھی موثر انداز میں اظہار کیا۔

            دیکھا آپ نے! ہمارے ملک کے لیے کہاں کہاں مسلمان اپنی خدمات کے لیے کھڑا نہیں ہوا !!!؟؟ اور آج اسی سے ہندستانی ہونے کا ثبوت مانگا جارہا ہے ۔

ملک کو عظیم اورانوکھی تعمیرکا تحفہ دینے والے مسلمان ہی ہیں:

            ملک کو دنیا کے عظیم تعمیری نمونے بھی مسلمانوں نے دیے … ملک کو آزاد بھی مسلمانوں نے کیا … اس ملک کو دنیا کا امیر ترین ملک بھی مسلمانوں نے بنایا… اور اس کو محفوظ ترین بھی مسلمانوں ہی نے بنایا تھا …۔

ملک کو بھائی چارہ اور انصاف کا مثالی نمونہ ‘مسلمانوں نے ہی بنایا:

             مسلمانوں نے ملک میں بھائی چارہ اور انصاف کی بہت سی مثالیں قائم کی، جو تاریخ کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہیں ۔ مسلمانوں کے دور میں برادرانِ وطن کو اپنے مکمل اثرو رسوخ کے باوجود بڑی بڑی وزارتوں پر براجمان کیا۔ یہاں موقع نہیں ورنہ میں تفصیل کے ساتھ اس پر روشنی ڈالتا، پھر بھی ہمارے مفتی عبد المتین صاحب نے مئی ،جون ،جولائی۲۰۱۷ء کے شاہر اہ علم میں بعنوان” مسلم سلطنتوں میں ہندو امرا اور مذہبی رواداری “ لکھا ہے، اس کا مطالعہ ضرورکرنا چاہیے اور ہندو بھائیوں کو بتا نا چاہیے کہ مسلمان کس طرح اپنے دور۸۰۰/سالہ طویل دور میں برادرانِ وطن کو محبت کے ساتھ لے کر چلے۔ نہ کہ ایسا کیا جیساآج آزادی کے بعد ایک مختصرسی مدت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے، جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہاہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ ملک تنزلی کا شکار ہورہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو ؟مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور باشندے ہیں اور ملک اپنے باشندوں سے ہی جانا اور پہچانا جاتا ہے ؛ اس لیے ملک کے باشندوں کو نقصان پہنچانا درحقیقت ملک کو ہی نقصان پہنچانا ہے۔

مسلمانوں کو موجودہ حالات میں کیا کرنا چاہیے؟

            اب یہاں سوال یہ کہ مسلمانوں کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے تو اس کے لیے دو طرح کی ترتیبیں بتائی جارہی ہیں ۔ایک تو ظاہری اور دوسری باطنی ۔ چوں کہ اسلام ہمیں اسباب اختیار کرنے کا مکلف کرتا ہے ۔ ”اعقلہا “ پہلے اسبابِ ظاہریہ اختیار کریں۔ اس کے بعد ”توکل علی اللہ“ اللہ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ ۔

مسلمان کن اسبابِ ظاہریہ کو اختیار کریں:

۱-احتجاج کے حق کو استعمال کریں: ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور یہاں ہمارے اسلاف نے دور بینی سے کام لیتے ہوئے قانون اور دستور سازی میں بھر پور حصہ لیا اور تمام افراد نے ہمیں یہ حق دیا کہ ہم جب حکومت کاکوئی کام ہمارے حقوق کے خلاف دیکھیں تو مظاہرہ اور احتجاج کریں اور اپنے حق کا مطالبہ کریں ، لہٰذا مکمل اور پرامن طریقہ سے اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنا احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں؛ جب تک کہ یہ سیاہ ترمیمی شہریت ایکٹ واپس نہ لے لیا جائے ۔ ورنہ جس طرح یہ حکومت ہمیں گھیرنے کی کوشش کررہی ہے، اس سے اس کی نیت کا صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمیں بے دخل کرنا چاہتی ہے ۔ ایک طرف ملینوں غیر مسلموں کو شہریت دینے کی بات کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھتی ہے اور دوسری جانب آبادی کنٹرول کرنے کا پلان بناتی ہے ؟ !!! یہ کیسا تضاد ہے ۔ اپنے ملک کے باشندوں کو آبادی بڑھانے سے روکنے کی کوشش اور دوسرے کے ملینوں کو جگہ دی جارہی ہے ؛ ایسا کیوں ؟؟ملک کے اصل باشندوں سے اپنی شہریت ثابت کرنے کا مطالبہ ایسے باشندوں سے جن کے آباواجداد نے اپنی جانیں لاکھوں کی تعداد میں ملک کی آزادی کے لیے قربان کی اور جولوگ دوسرے ملک سے آرہے ہیں بغیر کسی ثبوت کے انہیں شہریت دی جائے یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟اپنوں پر ظلم اور دوسروں پر رحم و کرم کا ڈھونگ اسی کو انصاف کہتے ہیں ؟

             اس لیے کہ اس کا ٹارگیٹ صرف اور صرف مسلمان ہیں ۔ اور اب جب دیکھا کہ احتجاج نے سر اٹھا یا ہے تو کبھی اس میں ترمیم کی تو کبھی مسلمانوں کو اسے نہ ڈرنے کی بات کہنا شروع کردیا ؛ اس لیے ان کے جھانسے میں نہ آکر آخری دم تک اس بل کے خلاف متحد ہوکر ملک کے کونے کونے میں احتجاج جاری رکھیں اور بالکل نہ ڈریں! ان کی ہوا نکل جائے گی اور ان شاء اللہ یہ احتجاج ضرور اثر دیکھائے گا اور اللہ انہیں غارت کرے گا ۔ ویسے بھی یہ لوگ ملک میں سمٹنے لگے ہیں ؛جیسا کہ جھارکھنڈ کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے اور وزیرِ اعظم کی زبان پر بالکل یقین نہ کریں ان جناب کو تو دھوکہ دینے ،بے وقوف بنانے اور جھوٹ بولنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں ۔

            اب جب پورے ملک میں احتجاج جاری ہے تو حکومت نے NRC کا انکار کرنے کے لیے NPR کا سر کیولر جاری کیا ہے ، جب کہ یہ محض نام کا دھوکہ ہے ۔ پہلے CAB لائے پھر CAA بنایا ،اس کے بعد NRC کی بات کی اور اب NPRلائے ،جو ماہرین کے مطابق NRC کی نام بدلی ہوئی شکل ہے ؛لہٰذا آنکھوں میں دھول جھونکنے اور ۱۳۰/ کروڑ عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اور اپنے کچھ چمچوں کی ریلیاں نکال کر اس کی موافقت کا ڈھونگ رچا جارہا ہے ۔

 این آر سی کا نقصان ہندو بھائیوں کو بھی ہوگا:

             شیا م میرا ، سنگھ NRC کے بارے میں شاندار تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

            این آر سی کی حمایت میں بولنے سے پہلے ایک بار اپنا مطالعہ درست کر لیجیے۔ خود مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں:

            ۱- 30 کروڑ لوگ بے زمین ہیں یعنی ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔(یہ اعداد و شمار ارون جیٹلی نے پارلیامنٹ میں بتایا تھا ؛جب وہ ‘PMMY،پردھان منتری مُدرا یوجنا’ لاگو کررہے تھے) سوال اٹھتا ہے کہ جب 30/ کروڑ لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے تو وہ کس زمین کے کاغذات NRC میں پیش کریں گے؟

            ۲- 170 لاکھ لوگ بے گھر ہیں، یعنی ان کے پاس رہنے کے لیے گھر ہی نہیں ہے؛ کوئی فٹ پاتھ پر سوتا ہے، کوئی جھگی جھونپڑی بنا کر، کوئی فلائی اوور کے نیچے اور کوئی ‘رین بسیرا’ میں۔ ایسا میں نہیں کہہ رہا، مرکزی سرکار کی جانب سے سروے کرنے والا ادارہ NSSO کہہ رہا ہے۔ اب اگر ان لوگوں کے پاس مکان ہی نہیں ہے تو کیا وہ ان فٹ پاتھ یا فلائی اوور کے کاغذات NRCمیں دکھائیں گے کہ وہ کون سے فٹ پاتھ پر یا کس فلائی اوور کے نیچے سوتے ہیں؟

            ۳- اس دیش میں 15کروڑ خانہ بدوشوں کی آبادی ہے۔آپ نے شاید بنجارے، گاڑیا، لوہار، باوریا، نٹ، کال بیلیا، بھوپا، قلندر، بھوٹیال وغیرہ کے نام سنے ہی ہوں گے۔ ان کے رہنے ٹھہرنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا؛ آج اِس شہر میں تو کل اُس شہر میں۔ جب ٹھکانہ ہی نہیں تو کون سے کاغذات؟ ایک دو بکریاں اور اوڑھنے بچھانے کے کپڑوں کے سوائے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ تو کیا امیت شاہ ان کی بکریوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے بتائیں گے کہ ہارمونیم کی طرح ان کے باپ،بکری بھی وراثت میں چھوڑ کر مرے تھے؟

            ۴- اس دیش میں 8 کروڑ 43 لوگ آدیباسی ہیں، جن کے بارے میں خود سرکار کے پاس ناکافی اعداد و شمار ہوتے ہیں (مردم شماری:2011)۔

            ۵- آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1970 میں ملک کی شرح خواندگی 34 فیصد تھی یعنی 66 فیصد لوگ ان پڑھ تھے، بالفاظِ دیگر اس ملک کے 66 فیصد اجداد اور بزرگوں کے پاس لکھائی پڑھائی کا کوئی دستاویز ہی نہیں ہے۔ آج بھی تقریباً 26 فیصد یعنی 31 کروڑ لوگ ان پڑھ ہیں، جب اسکول ہی نہیں گئے تو انھوں نے مارک شیٹ کس بات کی رکھی ہوگی؟

            تو بات یہ ہے میرے دوستو! اپنے اندر کے کٹرپن کو تھوڑا ڈھیلا کیجیے اور اپنے گاؤں، شہر کے سب سے کمزور پچھڑے لوگوں کے گھر وں پر نظر دوڑائیے اور سوچیے کہ ان کے پاس ان کے دادا، پردادا کے کون کون سے کاغذات رکھے ہوں گے؟ کیا شہریت ثابت نہ کرپانے کی صورت میں ان کے پاس اتنی دولت ہوگی کہ یہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ لڑسکیں؟

            چنانچہ این آر سی جیسا غیر ضروری، فضول اور توہین آمیز قانون صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، اس بات کو آپ جتنی جلدی سمجھ پائیں،اچھا ہوگا۔ آسام میں بھی جو ہندو شروعات میں بہت پھدک رہے تھے، وہی این آر سی لاگو ہونے کے بعد اپنے ہی دیش میں ‘گھس پیٹھیے’ ہوگئے ہیں۔ وہ بھی شروعات میں کہہ رہے تھے کہ آسام میں ایک کروڑ گھس پیٹھیے ہیں، جب کہ 19 لاکھ لوگ ایسے نکلے جو دستاویز کی بنیاد پر اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے، اس میں بھی 15 لاکھ تو ہندو ہی ہیں، اب وہی ہندو این آر سی کے نام سے بھی کانپتے ہیں اور اسے رد کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں۔ہمارے ٹیکس کے پیسے جو غارت ہوئے سو ہوئے لیکن ہاتھ کیا آیا؟ غریب سے غریب آدمی کو اپنا سارا کام دھندا چھوڑ کر وکیلوں کے چکر لگانے پڑے، سر درد جھیلا، بے عزتی برداشت کی اور آخر میں ایک بھی آدمی آسام سے باہر نہیں گیا۔

            آپ کے دماغ میں یہ چھوٹی سی بات آخر کیوں نہیں گھستی کہ سرکار آپ ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے ملک میں سرکس کرانے جا رہی ہے جہاں جانوروں کی طرح آپ کو بھی لائن میں لگ کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ ہندوستانی ہیں۔ لائن میں لگنے کے سوا کیا آپ کے پاس کوئی دوسرا کام باقی نہیں بچا؟ کبھی آدھار کارڈ کے لیے لائن، کبھی نوٹ بدلنے کے لیے لائن، کبھی جی ایس ٹی نمبر کے لیے لائن اور اب خود کو اس ملک کا شہری ثابت کرنے کے لیے لائن۔سرکار کس کے لیے بنائی تھی؟ لائن میں لگنے کے لیے؟ کیا کالا دھن، اسکول، یونیورسٹی، روزگار، اسپتال؛ سب کام نمٹ گئے؟

اس کے بعد یہ بھی جانتے چلیں کہ NPR کو روکنا کیوں ضروری ہے ؟

            NPR مودی کابینہ نے بروز منگل ۲۰۲۱ء کی مردم شماری اور قومی آبادی کے رجسٹر کو اپڈیٹ کرنے کی منظوری دے دی۔مردم شماری ۲۰۲۱ء میں شروع ہوگی ، لیکن این، پی، آر کا کام اپریل ۲۰۲۰ء سے ستمبر ۲۰۲۰ء تک آسام کے علاوہ تمام ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں چلے گا۔

            وزیر ِداخلہ نے ۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے لیے آٹھ ہزار سات سو چوپن (8,754)کروڑ روپئے اور این پی آر کو اپڈیٹ کرنے کے لیے تین ہزار نو سو اکتالیس(3,941) کروڑ روپئے خرچ کرنے کی تجویز کو بھی منظوری دے دی ہے ۔

این پی آر یعنی قومی آبادی کا رجسٹر کیا ہے ؟

            این پی آر عام طور پر ہندستان میں رہنے والے رہائشی یا عام مکینوں کا ایک رجسٹر ہے ۔ ہندستان میں رہنے والوں کے لیے این پی آر کے تحت اندراج لازمی ہے ۔ ہندستانیوں کے ساتھ ساتھ ہندستان میں مقیم غیر ملکی شہریوں کے لیے بھی یہ لازمی ہوگا ۔ این پی آر کا مقصد ملک میں رہنے والے لوگوں کے شناخت کا ڈیٹا تیار کرنا ہے ۔ آپ کو یہ دل چسپ بھی لگ سکتا ہے ؟

کیا این پی آر ملک بھر میں این آر سی لانے کے لیے پہلا قدم ہے ؟

            امت شاہ نے این پی آر پر کہا :کسی کی شہریت جانے والی نہیں ہے ۔

            نتیش کمار نے کہا: کہ بہار میں این آر سی کا کیا کام ہے ؟

            ممتا بینر جی این پی آر کی مخالفت کیوں کررہی ہے ؟

            پہلا این پی آر ۲۰۱۰ء میں تیار کیا گیا تھا اور اسے اپڈیٹ کرنے کا کام گھر گھر جاکر سروے کے ذریعے کیا گیا ،ا ب اسے ایک بار پھر سے اپڈیٹ کرنے کا کام ۲۰۲۱ء میں اپریل سے دسمبر تک ۲۰۲۱ء کی مردم شماری میں گھروں کی فہرست سازی کے مرحلے کے ساتھ جاری رہے گا ۔

عام رہائشیوں کا کیا مطلب ہے ؟

            سیٹیزن شپ رولس ۲۰۰۳ء کے مطابق ایک عام رہائشی وہ ہے جو پچھلے چھ مہینوں سے ہندستان کے کسی علاقے میں رہ رہا ہے یا اس سے زیادہ وقت تک رہنا چاہتا ہے ۔ این پی آر کے تحت تیار کیے جانے والے ڈیٹا بیس میں آبادیاتی معلومات کے ساتھ بایومیٹرک کی تفصیلات بھی لی جائے گی ۔

            اس کے تحت آدھار کارڈ ، موبائل نمبر ، پین کارڈ ، ڈرائیونگ لائسنس ، ووٹر آئی ڈی اور ہندستانی پاسپورٹ نمبر کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے گی ۔

            آدھار کا اشتراک سپریم کورٹ کے اپنے اصول کے مطابق کیا جائے گا۔ آبادیاتی معلومات میں شخص کا نام ، گھر کے سربراہ کے ساتھ تعلقات ، والدین کا نام ، شوہر اور بیوی کا نام ، جنس ،تاریخ پیدائش ، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ، پیدائش کی جگہ ، قومیت ، موجودہ پتہ اور موجودہ پتہ پر کتنے عرصے تک رہنا ہے ، پیشہ اور تعلیمی ڈگری کے بارے میں معلومات حاصل کی جائے گی ۔

            ۲۰۱۰ء کے این پی آر میں پندرہ پوائنٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تھا ، اس میں والدین کی تاریخ پیدائش اور اس کے علاوہ گذشتہ مقام کی رہائش کے بارے میں معلومات نہیں مانگی گئی ۔ این پی آر ۲۰۱۰ء میں ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں ڈیٹا اکٹھا کیاگیا تھا۔

ہندستانی مردم شماری کیا ہے ؟

            آبادی مردم شماری میں گنتی کی جاتی ہے ۔ یہ ہر دس سال بعد ہوتا ہے ۔ مردم شماری ۲۰۲۱ء بھارت کی سولہویں مردم شماری ہے ۔ پہلی مردم شماری ۱۸۷۲ء میں ہوئی تھی ، تاہم یہ آزادی کے بعد آٹھویں مردم شماری ہوگی؛ موبائیل ایپ کو پہلی مرتبہ دو ہزار اکیس مردم شماری میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

این پی آر اور این آر سی میں کیا فرق ہے ؟

            این پی آر ، این آر سی سے مختلف ہے ۔ غیر ملکی شہری این، آر، سی میں شامل نہیں ہے ۔ شہریتی قانون ۱۰/ دسمبر ۲۰۰۳ء کے ذریعے مطلع کرتے ہوئے این آرسی کے بارے میں کہا گیا تھا ، جس میں ہندستانی شہریوں یا ہندستان سے باہر رہائش پذیر ہندستانی شہریوں کا ایک رجسٹر تیار کرنے کا انتظام ہے ۔منگل کو وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ این، پی، آر اور این آر سی کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ این پی آر کا ڈیٹا این آر سی میں استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ لیکن وزارت داخلہ کی ۱۹-۲۰۱۸ء کی سالانہ رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ این پی آر۔ این آر سی کا پہلا مرحلہ ہے ۔ تاہم مرکزی وزیر ”پرکاش جاوڑیکر “نے کہا ہے کہ این پی آر آبادی کا اندراج ہے نہ کہ شہریت کا رجسٹر۔

آین پی آر کی مخالفت کیوں ہورہی ہے ؟

            بہت سی سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ این پی آر کو این آر سی سے الگ نہیں دیکھا جاسکتا ۔ اسی طرح سی، اے، اے۔ کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ اسے این آر سی سے جوڑ کر ہی دیکھنا چاہیے ۔ فارورڈ بلاک کے MLA علی عمران رامز نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے مدلل بیان دیا ہے ۔ ”اگر آپ این آر سی کو روکنا چاہتے ہیں تو پہلے این پی آر کو روکنا ہوگا ۔“

            مردم شماری کے نام پر دونوں کو نافذ کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ اگر کوئی ریاستی حکومت این آر سی کے خلاف ہے تو پہلے اسے این پی آر کو روکنا چاہیے ۔

            ۲۳/جولائی ۲۰۱۴ء میں اس وقت کے وزیر مملکت کرن رجیجو نے راجیہ سبھا میں ایک تحریری جوا ب میں کہا تھا :” حکومت نے ہندستانی شہریوں کا قومی رجسٹر بنانے کافیصلہ کیا ہے ۔“ یہ این پی آر کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا جائے گا ۔لہذا بالکل دھوکہ نہ کھائیں ،جو ہماری جماعت حمایتی کوشش کر رہی ہے ،وہ غلط ہے اس کا بھی بائیکاٹ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

پچھڑی قوموں کے ساتھ تعلق بہتر کریں:

            ۲- آدیواسی ،دلت اور دیگر پچھڑی غیر مسلم برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں، انہیں اپنے سے قریب کریں ، اگر ہوسکے تو تالیف ِقلب کے عنوان سے ان کی لازمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں آگے آئیں ؛ ان کو اگر کھانے پینے کی تکلیف ہے تو انہیں غذائیں تقسیم کریں ، انہیں کپڑے دیں ، ان کے بچوں کو جو ہوسکے دیں تو امید ہے کہ وہ مصیبت کی گھڑی پر ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے اور ملک میں اکثریت ایسوں کی ہے ۔

            اب ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہے‘ تو ہم مندرجہ ذیل کام کریں :

ہنگامی طور پر مسلمانوں کو 4 پلیٹ فارم قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے:

             اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کے اسلامی تشخص کو ہندستان میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں توہم مسلمان ہنگامی طور پر چار پلیٹ فارم کھڑے کریں:

             # مسلم دلت سیاسی پلیٹ فارم۔

            #مسلم دلت صحافی پلیٹ فارم۔

            #مسلم تعلیمی پلیٹ فارم۔

            #مسلم دلت قانونی پلیٹ فارم ۔

سیاسی پلیٹ فارم کی ذمہ داریاں:

 کم از کم ہمارے 80/ 100 نمائندے اور دلت کے بھی 130/170 نمائندے الیکشن میں کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچنے چاہیے اور یہ کسی دوسری بڑی پارٹی کے سہارے نہیں، بل کہ متحدہ پلیٹ فارم کے ذریعے۔

صحافی پلیٹ فارم کی ذمہ داریاں:

 صحافت میں بھی یہی ہونا چاہیے اور ایک بڑا نیوز چینل قایم ہونا چاہیے، جس پر رویش کمار اور ان جیسے بے باک بولنے والوں کو دعوت دینی چاہیے، ساتھ ہی ملک کے حالات پر باریکی کے ساتھ نظر ہو ؛نیز مسلم دلت اور دستورِ ہند کے خلاف ہونے والے واقعات کو خوب اچھی طرح کوریج کرنا چاہیے۔

تعلیمی پلیٹ فارم کی ذمے داریاں:

 تعلیمی پلیٹ فارم پر مدارسِ اسلامیہ میں اتحاد، طریقہٴ تعلیم کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش، حالاتِ حاضرہ کے اعتبار سے مضامین کو نصاب کا حصہ بنا کر اس پر مواد تیار کرنے وغیرہ پر غور ، اسی طرح اسکول اور کالج میں پڑھائے جارہے نصابوں کا جائزہ اور سیکولرازم کے خلاف مواد کی نشاندہی، کالج اور ہاسٹل میں مسلمان طلبہ کی دینی تعلیم و تربیت پر غور و خوض، مکاتب اسلامیہ کی تعلیم کو مؤثر بنانے کی فکر، طلبہ کی کونسلنگ اور گائیڈنس، آئی پی ایس، یو پی ایس، اور نیٹ کے لیے بھرپور تیاری کا نظام، ذہین طلبہ اور سائنس دانوں کے لیے اچھے پلیٹ فارم مہیا کرنا، پسماندہ علاقوں میں آباد مسلمانوں کے لیے معیاری اسکولوں کا قیام، اردو اسکولوں کے اساتذہ کی دینی و تعلیمی تربیت کا نظم، مسلمانوں کو بڑی بڑی کمپنیوں میں ملازمت کی فراہمی کا انتظام، اس طرح کے امور کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا۔

قانونی پلیٹ فارم کی ذمے داریاں:

 قانونی پلیٹ فارم کا کام عوام اور تعلیمی اداروں میں دستورِ ہند اور قوانین سے واقفیت کی مہم چلانا، اچھے وُکلا تیار ہوں اس کے بارے میں سوچنا، جو پیسے سے زیادہ ملت اور انسانیت کا درد رکھتے ہوں۔ ملک کے کسی بھی خطے میں مسلم دلت پر کوئی ظلم ہو یا آفت آ پڑے تو قانونی مدد فراہم کرنا،’ لا‘ کالجز کے قیام کے بارے میں سوچنا۔

 دلت مسلم اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے!

             ہمارے علما نے آزادی کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا جو راستہ اختیار کیا، اب مسلمانوں کو موجودہ حالات میں دلت اور بچھڑے سمجھے جانے والے اقوام کے ساتھ اتحاد کرنا ہوگا، ان شاء اللہ جس طرح ہمارے اسلاف حضرت شیخ الھند اور حضرت مدنی وغیرہ نے اپنی فراستِ ایمانی سے کام لے کر مسلمانوں کے مستقبل کو اس ملک میں بچانے میں کامیابی حاصل کی، ہمیں بھی اللہ کامیابی سے ہم کنار کرے گا اور ہماری نسلیں ہمیں دعائیں دیں گی، جیسے ہم اپنے اکابرین کو دعائیں دے رہے ہیں۔

باطنی اور روحانی اسباب اختیار کرنا بھی ضروری:

۱۔ ایمان کو مضبوط بنانا ضروری ہے :ان کاموں کے ساتھ ہمیں چند باطنی اور روحانی اسباب بھی اختیار کرنے ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:

            ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے ۔ دلی سکون صرف اللہ تعالی پر ایمان لانے سے میسر ہوتا ہے اور ایمان نہ رکھنے والا دل سدا ڈر و خوف میں مبتلا رہتا ہے، کمزوری اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے، اور کبھی اس کو قرار نہیں ملتا ہے۔ وہ ایمان جس سے انسان کو نجات ملتی ہے وہ اللہ کی ذات پر یقین ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ سچے دل کے ساتھ یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالی ہر چیز کا پروردگار ہے، وہی اس کا مالک و خالق ہے، وہی تنہا اس بات کا مستحق ہے کہ اسی کے لئے نماز و روزہ رکھا جائے، دعا و دوا کے لئے اسی کو پکارا جائے، امید و بیم اور خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کی جائے۔ وہی ساری باکمال صفات سے متصف ہے، اور ہر کمی و عیب سے پاک ہے۔

            اللہ تعالی کی ذات پر ایمان: انصاف، آزادی، علم و معرفت، ہدایت، راحت و سکون اور روحانی اطمینان کی طرف لے جانے والا نور ہے۔

            شریعت میں:ایمان دل سے اعتقاد، زبان سے اقرار اور اعضا سے عمل کا نام ہے، جو اطاعت سے زیادہ اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے.

            جب یہ بات معلوم ہوگئی، تو اب یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ کے دربار میں عمل کے قبولیت کی بنیاد ایمان ہے؛ اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:پھر جو بھی نیک عمل کرے، اور وہ مومن بھی ہو ۔ (الانبیاء: 94)

ایمان کی اہمیت و فضیلت

            اللہ کے ہاں سب سے افضل و پاک عمل ایمان ہے، چناں چہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا:اے اللہ کے رسول: کونسا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ تعالی کی ذات پر ایمان رکھنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔(اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)

            ایمان دنیوی و اخروی سعادت و ہدایت کا ذریعہ ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:سو جس شخص کو اللہ تعالی راستے پر ڈالنا چاہے، اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتا ہے (الانعام: 125)

            ایمان مومن کو گناہوں سے دور رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:یقینا جو لوگ ایمان ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔(الاعراف: 201)

            قرآن کا اعلان ہے : ﴿وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوْٴمِنِیْنَ ﴾․

            مفسر قرآن حضرت مولانا عبد الحمید سواتی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:اصول کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اہلِ اسلام کو جب کبھی کوئی پریشانی لاحق ہوجائے ، تو انہیں فوراً اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ایمان کے تقاضے میں کہاں کمزوری واقع ہوئی ہے ؛ لازماً کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوئی ہوگی ۔ قادسیہ کی جنگ کے سالار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ، دورانِ جنگ جب بعض مورچوں پر مسلمانوں کو کچھ پریشانی لاحق ہوئی تو آپ نے مجاہدین کو جمع فرمایا اور کہا : اے لوگو! میں سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ کمزوری کسی گناہ کی وجہ سے واقع ہوئی ہے،ضرور ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے ،جس کی ہمیں تلافی کرنی چاہیے ۔

             آوٴسب مل کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائے گا؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا ۔ تین دن رات تک متواتر جنگ ہوئی ، آخر اللہ نے فتح عظیم عطا فرمائی ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم ایمان پر قائم رہے تو تم ہی غالب رہوگے ۔

            مولانا عبید اللہ سندھی  فرماتے ہیں: کہ بر صغیر میں مسلمانوں پر جب زوال آیا ، تو وہ دل برداشتہ نہیں ہوئے ، بل کہ انگریز جیسی جابر طاقت کے سامنے ڈٹ گئے ، انہوں نے مسلمانوں کو ہر طریقے سے تنگ کیا ، وہ طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے ، مگر دین کا دامن تھامے رہے اور ایمان کی حقانیت پر حرف نہیں آنے دیا ، یہی و ہ صفت ہے کہ جس کے ذریعے انسان کا نسمہ پاک ہوتا ہے اور بارگاہ خداوندی میں پہنچ کر اس کے فیضان سے مستفید ہوتا ہے۔

            شیخ الاسلام علامہ شبیر صاحب عثمانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:﴿وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوْٴمِنِیْنَ ﴾․

            (دیکھنا) سختیوں سے گھبراکر دشمنانِ خدا کے مقابلے میں نامردی اور سستی پاس نہ آنے پائے ۔پیش آمدہ حوادثات ومصائب پر غمگین ہوکر بیٹھ رہنا مومن کو شیوہ نہیں ۔ یاد رکھو! آج بھی تم ہی معزز وسربلند ہو کہ حق کی حمایت میں تکلیفیں اٹھارہے اور جانیں دے رہے ہو اور یقیناً آخری فتح بھی تمہاری ہے ، انجام کار تم ہی غالب ہوکر رہوگے ؛ بشر طیکہ ایمان وایقان کے راستے پر مستقیم رہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل وثوق رکھتے ہوئے اطاعت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ سے قدم پیچھے نہ ہٹاوٴ۔ اس خدائی آواز نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا اور پژمردہ جسموں میں حیات ِتازہ پھونک دی اور نتیجہ یہ ہوا کہ کفار جو بظاہر غالب آچکے تھے ، زخم خوردہ مجاہدین کے جوابی حملہ کی تاب نہ لاسکے ۔ اور سر پر پاوٴں رکھ میدان سے بھاگے۔ (تفسیر عثمانی)

            معلوم ہو اکہ ایمان کو مصائب کے موقع پر مزید مضبوط کیاجائے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر زور دیاجائے ۔ اب ایمان میں پختگی کیسے پیدا ہوگی ؟

ایمان میں پختگی پیدا کرنے کے ذرائع:

            ۱- قرآن کریم کو تفکر اور تدبر کے ساتھ پڑھنا ۔

            ۲- فرائض یعنی نماز وں کے ساتھ نوافل ، سنن اور مستحب نمازں کا اہتمام کرنا ۔

            ۳- ذکر اللہ کا اپنے آپ کو عادی بنانا ، ہر موقع پر اس موقع کی سنتوں اور دعاوٴں کا اہتمام کرنا۔

            ۴- اپنی نفسانی خواہشات پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو ترجیح دینا ۔

            ۵- تزکیہٴ نفس اور صحبتِ صالحین کا اہتمام کرنا ۔

            ۶- اللہ کی ظاہری وباطنی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا ۔

            ۷- ایسی چیزوں سے دور رہنا، جو گناہوں میں مبتلا کرتی ہوں ، جیسے موبائل میں لگے رہنا ۔

            ۸- اچھے اخلاق اختیار کرنا ۔

            ۹- فضائل ِایمان پر جو احادیث وارد ہوئی ہیں، اس کا بار بار مذاکرہ کرنا ، خاص طور پر مفتی نعیم صاحب کی کتاب فضائل ِایمان کا مطالعہ کریں ، ائمہ بھی اس کی تعلیم کریں ۔

            ۱۰- سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ اور سلف ِصالحین کی سیرتوں کو پڑھنے کا التزام کرنا۔

            ۱۱- اللہ سے لَو لگاکر دعائیں کرنا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے ایک موقع پر فرمایا کہ ڈاکٹر عبد الحی صاحب نے فرمایا: کہ نیکی کی توفیق کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے؛ جیساکہ اصحاب کہف نے کی تھی : ﴿إِذْ أَوَی الْفِتْیَةُ إِلَی الْکَہْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً وَہَیِّءْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ﴾(الکہف:10)اصحابِ کہف بھی ہماری طرح ایمان ہی کی آزمائش میں مبتلا ہوئے تھے اور ظالم حکمراں سے تنگ آکر پہلے اسباب اختیار کیے اور کہف میں چلے گئے اور پھر مطمئن نہیں ہوئے ، بل کہ اللہ سے دعا کی کہ اے ہمارے پرور دگار ! ہم پر اپنی خصوصی رحمت نازل فرما اور ہماری اس صورتِ حال میں ہمارے لیے ہدایت اور بھلائی کا راستہ مہیا فرمادیجیے ۔ ہم بھی اس دعا کا کثرت سے ورد کریں۔ ان شاء اللہ اللہ سب آسان کردے گا اور ہدایت اور توفیق کے راہیں کھول دے گا ۔

 نفس اور اپنی اصلاح کا ایک آسان نسخہ:      

            شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدتقی صاحب نے اصلاحی خطبات میں لکھا ہے کہ نفس اور اپنی اصلاح کا ایک آسان نسخہ امام غزالی  نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے :

            ۱- معاہدہ ومشارطہ ۔ ۲- دعا ۳- مراقبہ ۴- محاسبہ ۵- معاقبہ

معاہدہ اور مشارطہ: یعنی صبح اٹھے تو نفس کے ساتھ یہ طے کرے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزاروں گا ان شاء اللہ ۔

دعا: یعنی جب اللہ سے دعا کرے’﴿رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً وَہَیِّءْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا﴾(الکہف:10)اے اللہ! میرے اوپر اپنی خصوصی رحمت نازل فرما اور ہدایت کے فیصلے فرما۔

مراقبہ:جب عمل کرے تو اللہ کی ذات کا استحضار رکھے اور محض اس کی رضا کا خیال دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

محاسبہ :اوررات میں سونے سے پہلے اپنے اعمال کا ہمیشہ محاسبہ کرے کہ میں نے کتنے اچھے کام کیے اور کتنے غلط ۔

معاقبہ: یعنی اگر گناہ اور غلط کام ہوئے ہوں تو اس پر توبہ کرے اور نفس کو کوئی سزا دے تاکہ آئندہ نہ کرے۔

            خلاصہ یہ کہ کل ملاکر مندرجہ ذیل ظاہری وباطنی اسباب اختیار کرنے کے لیے ہندستان کے مسلمانوں کو تیار ہوجانا چاہیے ؛ ورنہ ان کا وجود اس ملک میں مشکل ہوجائے گا ۔ اب غفلت نہیں چلے گی۔

            ۱۔ پہلے تو اپنی بد اعمالی پر اللہ کے روبرو رونا گڑگڑانا اور معافی کے خواستگار ہونا ہے،اللہ غفور رحیم ہے۔رجوع اور انابت الی اللہ کی کیفیت ہر دم اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ یہ حکمرا ں بس ہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ ہیں۔

            ۲۔ دوسرے یہ کہ تمام مسلمانوں کو بلا لحاظ مذہب ومسلک یکساں اور یکجا ہونا ہے، اگر چہ حالات نے تمام مسلمانوں کو یکجا کردیا ہے، وہ اس وقت اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ باہم سر جوڑ کر اپنے مسائل کا حل کریں، جس کی واضح مثال توقیر رضا صاحب کی دار العلوم کی علما اور اکابر سے ملاقات ہے، اسی طرح تمام فرقوں اور جماعتوں بحیثیت ایک رسول کے امتی کے یکساں ویکجا ہونا ہے۔اور مسلمان پرسنل بورڈ کے پینل تلے سب کا یکجا ہو کر مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کے معاملے میں لا ء کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے عائلی مسائل میں عدمِ مداخلت کے تعلق سے جمع کردہ دستخطوں کی پیش کشی کے موقع سے سب نمائندو ں کا پیش ہونا ہے۔

            ۳۔ اپنے دعوت کے فریضے کو اچھی طرح سمجھنا ہے، ہمیں خیر امت کا لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ ہم دوسروں کی نفع رسانی کے لئے مبعوث کیے گئے ہیں، اس لئے دعوت کے فریضہ کو اپنے برادران وطن میں نہایت حکمت اور خوبی کے ساتھ پیش کرنا ہے، جس کا نقشہ قرآنِ کریم میں یوں بتایا گیا، یعنی حکمت اور موعظت کے ذریعے اسلام کی حقانیت اور سچائی کو اس طرح ثابت کرنا ہے اور برادران وطن کے ساتھ اچھے اور خوب تر انداز میں اسلام کے دلائل اور حقانیت کو ثابت کرنا ہے، کہ وہ بجائے ہم سے دشمنی کے دوستی پر آمادہ ہوجائیں۔یہی وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم غیروں کے دلوں میں جگہ بناسکتے ہیں۔

            ۴۔ یہ کہ ہمیں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہو کر اپنے وجود کوملک کے لئے مفید ثابت کرنا ہے کہ ہم میں کچھ ماہر انجنیر، ڈاکٹر، سائنس دان او رماہرین علوم وفنون کچھ ایسے ہوں کہ جن کے ذریعے تمام ملک وقوم بلا تفریق خدمت کرسکیں، لیکن اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ یہ افراد ساتھ میں دینی ذہن کے حامل ہوں، ورنہ دین بیزای کے اس ماحول میں دین بیزا ر شخص امت ِمسلمہ کے لئے مفید نہیں؛ بلکہ مضر بن جائے گا۔آج ملک کٹر ذہنیت رکھنے والے ہندوستا ن میں ہمارے وجود سے ہی بیزا ر ہیں، ہم اپنے عمل سے اور اپنے کام سے اور ملک اور قوم کی خدمت کے ذریعے اپنا وجود ثابت کریں۔ہمیں اپنے کچھ انجنیر، کچھ ڈاکٹر س اور سائنسداں ایسے پختہ کار اور ایمان وعقیدہ کے حامل اور ملک کے وفادار پیدا کرنے ہیں، جن کے چلے جانے سے یہ ملک تہی دامن اور پسماندہ ہوجائے ااور اپنی بے بسی اور یتیمی کو محسوس کرے۔جس کے لئے دینی ماحول میں عصری تعلیم کا ٹھوس اور مضبوط نظام قائم کرنا ہے۔

            ۵۔ حالات اور مشکلات کے اس دور میں مسلمانوں کو دینی وعصری تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہو کر سیاست میں سرگرم حصہ لینے کی ضرورت ہے، چھوٹے اور بڑے پیمانے پر سیاست میں حصہ لے کر اپنی قوت وطاقت کو ثابت کر کے بجائے حالات سے سمجھوتہ کرنے یاحالات کو اپنے حق میں کرنے کی درخواست کر نے کے ہم خود اس پوزیشن میں آجائیں کہ ہم خود حالات بناسکیں گے، جس سیاست میں ملکی حالات اور مسلمانوں کے تناسب اور سیاست میں شامل ہو کر ملک اور جمہوریت کے حق میں جو بہتر ہوسکتا ہے اس کے لئے جدوجہد کرنا ہے، جس کی تائید وثوثیق بڑے بڑے علماء کرتے ہیں،اس طرح سیاست کے سرگرم مولویوں اور علماء کی ہمت افزائی کر رہے اور غیر بھی اس کی ترغیب دے رہے کہ کب تک یہ کاسہ لیسی کی پالیسی اپنائے رہیں گے۔ بی جے پی اور آریس یس نے بھی اپنا سفر یکلخت طئے نہیں کیا؛ بلکہ انہوں نے 1925ء سے ہندوراشٹر بنانے کی جدوجہد شروع کی تھی، آج تقریباً ایک صدی پر مشتمل ان کی جدوجہد حقیقت کا روپ دھار رہی ہے تو اس میں تعجب خیزی کی بات کچھ نہیں ہے۔

            ۶۔ میڈیااس دور کی وہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، آج جو ملک کے حالات ہیں یہ میڈیا کی دَین ہے، سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا تو کوئی میڈیا سے سیکھے، ذہن ودماغ میں وہی بات بیٹھتی ہے جس کی میڈیا گردان کرتا ہے، آج کل 90فیصد میڈیا پر حکمراں طبقہ قابض ہے، 10فیصد جو میڈیا مثبت ذہنیت رکھتا ہے اس کی آواز نقارخانے میں طوطے کی آواز ثابت ہورہی ہے،یہ جس کو چاہے دیش بھگت ٹھہرادیں اور جس کو چاہیں دہشت گرد اور مجرم بنا کر پیش کریں، آج ہندواور مسلمانوں میں جو نفرت کا بیج بویا جارہا ہے یہ میڈیا کی دین ہے، جس میں یہ خصوصاً مسلمان حکمرانوں کے دور حکومت میں ہندؤوں کے ساتھ نا انصافی، ان کے مندروں کے توڑنے،ہندو عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے، مردوں کو غلام بنا کر رکھنے، بابری مسجد کے رام مندر کی غصب کردہ زمین پر بنائے جانے (جب کہ اگرتاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تمام الزامات سراسر بے بنیاد ہے بل کہ تہمت ہے ،مسلمانوں نے تو اس ملک کو اور ملک کے غیر مسلم باشندوں کو بھی اپنا سمجھ کر ترقی کی بام عروج پر پہنچایا ہے)اور مسلمانوں کوگاؤ ماتا کے قاتل ،اس طرح کی زہر افشانی کے ذریعے ہندؤوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں، اس لئے میڈیا کی طاقت وقوت اور اس کے ذہن سازی میں کردار کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔مسلمانوں میڈیا کے ذریعے اپنی آواز کو مضبو ط کرو۔

            ۷۔ ان احوال میں ہمت ہار کر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہنا ہے، قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے، تم کمزور نہ پڑو، اور نہ غم زدہ ہو، اگر تم حقیقی مومن رہوگے تو کامیابی تمہارے ہی قدم چومے گی،(آل عمران: ۹۳۱) یعنی اللہ کے ساتھ لو لگانے کے ساتھ میدانِ عمل میں سرگرم عمل ہونا ہے، اپنے اعمال کی درستگی کے ساتھ مذکورہ بالا میدانوں میں کام کرنا ہے، تب کہیں جاکر کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں گے، اور ایک جگہ فرمایا: اگر تمہیں زخم پہنچے ہیں تو تمہارے مد ِمقابل کو بھی اس طرح کے زخم پہنچے ہیں، یعنی تمہارے جو مد ِمقابل ہیں وہ بھی چوٹ کھائے، انہیں بھی ناکامیوں اور نامرادیوں سے واسطہ پڑا ہے، ایک لخت اس منزل تک نہیں پہنچے، اس کے پیچھے انہوں نے جدوجہد کی ہے، کوشش کی ہے، ہم آپس میں بس ایک دوسرے سے دست وگریباں اور خوابِ خرگوش میں مدہوش رہے ہیں، مد مقابل نے میدان میں جٹ کر کام کیا ہے، جس کا یہ پھل ملا ہے، آج علامہ اقبال کے اس عقابی روح کی ضرورت ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے انہیں اپنی منزلیں آسمانوں میں

            غرض یہ کہ مومن سربلند رہتا ہے، جب تک اس کا ایمان مضبوط ہو اور اطاعت ِرسول سے اس کی زندگی سرشار ہو ۔محض اللہ کے فضل سے ،اتنی تفصیل اس لیے لکھی ہے ؛تاکہ ان نازک حالات میں علما اور عوام کے لیے یہ تحریررہنما ثابت ہو ۔ اللہ ہر طرح کی آزمائش سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہم سے راضی ہوجائے ۔NRC کی مصیبت سے ہمیں نجات دے اور اپنے ایمان کو مضبوط بنانے اور اطاعت رسول پر آگے آنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین یارب العالمین !