میرے والد میرے مربی

 مولانا عبدالرحمن ملی ندوی

 استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اکل کوا

میرے والد میرے مربی

            میرے والد ماجد جناب شیخ محمد چاند رحمة اللہ علیہ کا انتقال مورخہ ۱۷/ ۴/ ۱۴۴۶ ھ مطابق2024 23/8/بروز جمعرات بعد نماز مغرب مختصرعلالت کے بعد ہوا ، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔

 موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی بھی ذی شعور انسان کو نہیں ہو سکتا ، کل نفس ذائقة الموت۔ اور کوئی انسان یہ نہیں جانتا کہ وہ کب اور کس جگہ مرے گا، لیکن حسن خاتمہ کی بلا شبہ ایک اہمیت ہے اور وہ مسلم ہے۔ والد صاحب رحمة اللہ علیہ گرچہ کوئی عالم و حافظ نہ تھے لیکن بزرگوں اور اہل دل مشائخ سے تعلق کے سبب دیندار اور پابندِ شریعت ضرور تھے، بس قرآن خاں تھے اور تقریبا 40 سال ممبئی شہر کے سیوڑی علاقے میں مکتب کی مدرسی کی، قرآن کریم سے گویا والد صاحب کو عشق تھا ،گھر اور مسجد میں اکثر اوقات تلاوت میں گزارتے ہم بھائی بہنوں کو قرآن سے تعلق رکھنے کی ہمہ وقت تاکید کرتے، باوجود یہ کہ والد صاحب کی عمر 90 سال سے متجاوز تھی لیکن شخصی معاملات میں آخر تک کسی کے محتاج نہ رہے اور خدا تعالی کا نام لیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔صاحب نسبت بزرگوں حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب جونپوری مولانا سید ابرار الحق صاحب ہردوئی سے خصوصی تعلق رہا، اکثر انہی بزرگوں کے واقعات سنایا کرتے تھے، بندہ کی تعلیمی زندگی کو کامیاب بنانے میں حضرت والد صاحب کا ہی اہم رول اور کردار رہا ہے، ممبئی میں رہتے ہوئے کئی بزرگوں سے ملاقاتیں کروائی گرچہ بچپن کی زندگی عدم شعور کی زندگی ہوتی ہے۔

            میرے والد میرے لیے ایک سایہ دار درخت تھے جب تک سایہ میں رہے سایہ کی اہمیت جان نہ سکے اور اب جب سایہ ختم ہو گیا ہے تو دھوپ کا احساس ستائے جا رہا ہے ۔             عام طور پر نوجوانوں کو اپنے بوڑھے والدین کا احترام یاد نہیں رہتا، جوانی کے جوش میں والدین کی جانب سے ملنے والے پیار کو بھول جاتے ہیں، اور روپیہ پیسہ اس نوجوان کو والدین سے دور کر دیتا ہے، کبھی کبھار تو پاگل پن کی حد تک والدین کی محبت کو اولاد غصہ اور چہرہ کے بگاڑ کا شکار بنا دیتے ہیں، پیسہ کمانا بُرا نہیں ہے بلکہ مطلوب ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ أنت و مالک لأبیک

میرے والد صاحب میرے لیے استاد بھی تھے، مربی بھی تھے، مصلح بھی تھے اور مشفق باپ بھی، کبھی کبھار ہمارے طالب علمانہ بیان پر بہت خوشی کا اظہار کرتے اور فخریہ کہتے کہ میرا بیٹا ہے اور پھر تنہائی میں تربیت کرتے ہوئے کہتے کہ تم نے یہ بات کہاں سے کہی۔ مزاج میں اصول پسندی تھی لیکن اس سے زیادہ پدری محبت و شفقت کا اظہار کرتے ، قرآن کریم کی تلاوت گویا عادت سی بن گئی تھی۔

            جامعہ اور رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کی اکثر عافیت طلبی کرتے، ہزاروں دعائیں دیتے۔

            والد صاحب رحمة اللہ علیہ بہت سادہ مزاج، سادہ گفتار، عبادت و ریاضت کے پابند تھے، اللہ تعالی ان کی بشری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور اعلی علیین میں بہترین جگہ عطا فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے۔

 اجڑ کر بھی محبت کے زمانے یاد رہتے ہیں

 اجڑجاتی ہے محفل مگر چہرے یاد رہتے ہیں