(سنہرے بول)تیسری قسط:
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی
نیکیاں برباد نہ کریں!
امام غزالی فرماتے ہیں:
غیبت ایسی آگ ہے،جو طاعات کو جلاکر خاکستر کردیتی ہے اور غیبت کرنے والا شخص ایسا ہے؛ جیسے اس نے (منجنیق) ایک توپ نصب کیا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی نیکیوں کو مغرب ، مشرق ، دائیں بائیں پھینک کر ضائع کیے جارہا ہے۔
کثرت ِمتبعین معیار حق نہیں!
متبعین (ماننے والے، پیچھے چلنے والے )کی کمی زیادتی سے حق اور باطل کی پہچان نہیں ہوتی؛کیوں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
نوح علیہ السلام نے۹۵۰/ سال دعوت دی ،لیکن ان کے ماننے والے بہت تھوڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۲۳/ سال دعوت دی اور آپ کی پیرو کار ایک بڑی امت ہے۔
حالاں کہ نوح علیہ السلام کا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ایک اللہ کا ہی دین ہے۔
آئیے عہد کریں!!
جس طرح آپ کے قدم زمین پر نشان چھوڑتے ہیں؛ اسی طرح آپ کی زبان دل پر اثر چھوڑتی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ،ان باتوں کاالتزام کریں کہ
- کسی پر ظلم نہی کریں گے۔
- کسی کی چغلی نہیں کھائیں گے۔
- کسی کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔
- کسی سے خود کو برتر نہیں جانیں گے۔
- ہم سب کو رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔
دل کی دوا!!
یحیٰ ابن معاذ نے فرمایا:
دل کی دوا پانچ چیزے ہیں:
- تلاوتِ قرآن غور وفکر کے ساتھ
- پیٹ کا کچھ خالی رہنا
- نماز تہجد
- وقت ِسحر گڑ گڑا کر دعا کرنا
- نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا
(صفت الصفوة)
ہر حال میں سکون!
شیخ سلیمان العلوان کہتے ہیں:
زمانہ اور حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے،کبھی تندرستی ہے تو کبھی بیماری،کبھی مالداری ہے تو کبھی غریبی،کبھی واہ وائی ہے تو کبھی سر نگوئی۔
ان تمام کے بیچ تقویٰ ہی حقیقی سعادت وخوش حالی ہے۔
جس نے تقویٰ کو اپنا ڈھال بنایا تو حالات کے تھپیڑے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
سب سے بڑی نعمت!
سفیان بن عیینہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کلمہٴ توحید”لا الٰہ الا للّٰہ“ کی معرفت سے بڑھ کر کوئی نعمت عطا نہیں کی۔
کیوں کہ کلمہ ٴ ”لا الٰہ الا للّٰہ“بندوں کے لیے آخرت میں ایسا ہوگا ؛جیسے دنیا میں پانی۔
(حلیة الاولیاء)
زندگی دوبارہ نہیں ملنے والی!
قبر والوں کی تمنائیں اور آرزو آج ہمارے سامنے ہیں،تو کیوں ہم زندگی رہتے ،ان کو حاصل کرنے کی فکرنہیں کرتے!
ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ،یہ زندگی دوبارہ نہیں ملنے والی۔
شان سپاہِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم
امام احمد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین………
- ان سے محبت سنت ہے۔
- ان کے حق میں دعا عبادت ہے۔
- ان کی اقتداء وسیلہ ہے۔
- ان کے نقش ِ پا کی پیروی فضیلت ہے۔
(السنة الامام احمد)
ایک اہم ادب!
کسی کے گھر میں داخل ہوں تو اندھے بن کر،اور وہاں سے نکلیں تو گونگے ہوکر۔
کسی کے گھریلومعاملات کی چھان بین آپ کوزیب نہیں۔
اور وہاں دیکھی اور سنی گئ چیزوں سے آپ کو کوئی غرض نہیں۔
سب سے اچھی قید اور موت!
سب سے اچھا قیدی وہ ہے،جوغیرتِ دین وملت کے لیے لڑتا ہے اور اسلام کو ظالموں کے ظلم سے بچاتا ہے۔ اورسب سے عمدہ موت اس مسلمان کی ہے،جو حمیتِ دین وملت کے لیے دشمنانِ اسلام اور فرزندانِ شیطان سے بر سر ِپیکار ہے۔
لفظِ معافی!
لفظ معافی وہ مرہم ہے، جو پرانے سے پرانے اور گہرے سے گہرے زخموں کو بھر دیتا ہے۔
آپسی دوریوں،نفرتوں اور گھٹن کو پاٹ دیتا ہے۔ اور بڑی سی بڑی رکاوٹوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔
معافی میں پہل کریں! اپنوں کو نہ کھوئیں!
لوگ کیا کہیں گے؟!
انسان ساری زندگی یہ سوچ کر گذارتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؛ حالاں کہ انسان ماں کے پیٹ میں تنہا ہوتا ہے،دنیا میں بھی تنہا آتا ہے اور دنیا سے تنہا ہی جاتا ہے۔
قبر میں بھی اکیلا جائیگا،قبر کے سوال کا جواب بھی اکیلا ہی دے گااورتنہا ہی قبر سے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
اس کا حساب وکتاب بھی تنہا ہو گا۔ جنت میں داخل ہوگا توبھی اکیلااور جہنم میں جائے گا توبھی اکیلا۔
اِس دنیا اور اُس جہاں میں کوئی کام نہیں آنے والا۔
تو پھراے انسان! توکیوں لوگوں کو دیکھ کراور ان کی پرواہ کرکے زندگی گذارتا ہے؟!
عمدہ نتیجہ، پختہ یقین!
ایک دانا(عقلمند) نے اپنے ایک ساتھی سے کہا:
میں جب بھی صدقہ کرتا ہوں میرا مال بڑھ جاتا ہے۔
اس کے ساتھی نے بھی صدقہ کا تجربہ کرنے کے بعد اس داناسے کہا میرا مال تو کم ہوگیا۔
حکیم نے جواب دیا:میں یہ عمل اللہ پر یقین کے ساتھ کرتا ہوں،اور تونے تجربہ کے لیے کیا۔
نتیجہ:نقص عمل میں نہیں ہوتا،یقین میں ہوتا ہے۔
حرام رواج پاجانے سے حلال نہیں ہوتا!
حرام ہمیشہ حرام ہی رہے گا،چاہے پوری دنیا اسے کرنے لگے۔
آپ دنیا کو نہ دیکھیں،آپ شریعت کے مکلف ہیں۔
دنیا اور اہل دنیا کو چھوڑیں!روز ِقیامت آپ کو اپنے رب کے حضور حساب کے لیے تنہا حاضر ہونا ہے۔
﴿وَ کُلُّہم اتِیہ یَومَ القِیمَةِ فَرْدًا﴾ (مریم)
”اور قیامت کے دن ان میں سے ایک ایک شخص اس کے پاس اکیلا آئے گا۔“
بیماری،دوا، اور شفاء:
ربیع ابن خیثم نے اپنے شاگردوں سے کہا،تمہیں معلوم ہے کہ:
بیماری کیا ہے؟دوا کیا ہے؟ اور شفاء کیا ہے؟
اور پھر بتایا:گنا ہ یہ بیماری ہے۔
استغفار یہ دوا ہے۔
اور شفاء یہ ہے کہ توبہ کرنے کے بعد آپ دوبارہ گناہ نہ کریں۔
سب سے بڑی مصیبت!
شیخ عبد العزیز طریفی کاقول ہے:
ایک جاہل بھی اپنے اچھے اخلاق سے عالم سی عزت پا لیتا ہے۔اور ایک عالم اپنی بد خُلقی (برے اخلاق) کی وجہ سے جاہلوں سی رسوائی اٹھاتا ہے۔
لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ انسان جاہل بھی ہو اور بد اخلاق بھی۔
نتیجہ: اخلاق ہے تو علم بھی سود مند ہے،ورنہ عالم اور جاہل میں کیا فرق!!
دل کو نرم کرنے والا عمل!
کسی شخص نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ دل کس طرح نرم ہوگا؟
آپ نے مختصر سا عمل بتایا اورکہا:
قبرستان جایا کرو!
اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو(اس کی خیر خیریت،دلجوئی،اچھی تعلیم وپرورش وغیرہ)
قیمتی وصیت:
لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
اے بیٹے!جسے اپنی زبان پر قابو نہ ہو وہ شرمندگی اٹھاتا ہے۔اور جوبے جا بحث ومباحثہ میں لگا رہتا ہے،اسے ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔
اور جو برے کوساتھی بناتا ہے،اس کے شر سے خود بھی نہیں بچ پاتا۔
اور جونیک وکار کو دوست رکھتا ہے،سکون وراحت پاتا ہے۔
کیاغلامیٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جینا قبول ہے؟
”غلامیٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موت بھی قبول ہے“
اس جملے کے تناظر میں دیکھنے کی دعوت فکر!!
کیا آج کے مسلمان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ غلامی رسول میں موت تو قبول ہے؛ لیکن کیا غلامیٴ رسول میں زندگی بھی قبول ہے؟
جب کہ دنیا میں بھیجنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر زندگی گذارے۔
(ماخوذ از محاسن اسلام ملتان)
گمنام کون؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ حقیقی گمنامی کیا ہے؟
دراصل گمنامی یہ ہے کہ دنیا میں تو آپ کا خوب شہراہو،ہر طرف آپ کے نام کا ڈنکا بجتا ہو۔
لیکن اللہ کے یہاں آپ کی کوئی حیثیت نہ ہو۔
سب سے زیادہ تعجب خیز شئ:
فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا:
سب سے زیادہ تعجب خیز شئ کیا ہے؟
آپ نے جواب دیا:وہ دل جسے اللہ کی معرفت (پہچان)حاصل ہو۔
اور پھر وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔
(ادب الدنیا والدین)
آپ کیا بورہے ہیں!
نقشِ قدم ہمیشہ اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
اس لیے انسان کو اس کی فکر ہونی چاہیے کہ وہ اپنے پیچھے کیا چھوڑ رہا ہے۔
وہ گلاب بور ہا ہے یا کانٹا؟!
بہترین انسان:
کسی اہل دل کا قول ہے:
لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے،جو شہوت کو اپنے دل سے نکال پھینکیں۔
اور اپنے رب کی طاعت و خوشنودی کے لیے اپنے نفس سے بغاوت کر بیٹھے۔