وابستہ رہ شجرسے امیدِبہاررکھ

مفتی عبدالقیوم مالیگانوی/استاذجامعہ اکل کوا

وابستہ رہ شجرسے امیدِبہاررکھ

 فتنوں کی پیش گوئی:         

            دورِ فتن کی پیش گوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی تھی کہ تم پرفتنے ایسی تیزی سے آئیں گے، جیسے تاریک رات کے تُکڑے ایک کے بعدایک لگاتارآتے رہتے ہیں۔چناں چہ ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ”تاتی علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم“یعنی قرب قیامت کے وقت فتنے اس تیزرفتاری کے ساتھ آئیں گے کہ ایک فتنہ سے مامون بھی نہ ہونے اوردگرگوں ہوتے حالات کوسمجھنے بھی نہ پائیں گے کہ دوسرافتنہ سامنے آ کر کھڑا ہو جائے گا اورسلسلوں کی یہ بھیانک کڑی قیامت تک چلتی رہے گی۔

ہم بھی اسی دوراہے پرکھڑے ہیں:

            محترم قارئین عظام:ہم بھی اسی دورفتن اورقرب قیامت کے زمانہ میں سانسیں لے رہے ہیں،جس میں فتنوں نے ہمیں ہرطرف سے گھیررکھاہے۔ایسے توفتنوں کی فہرست بہت لمبی اورمفصل ہیں،البتہ کچھ فتنے ؛ جنھوں نے براہِ راست ہمارے ایمان اورہمارے توحید،نیزعقیدہ ختم نبوت کومتزلزل کیا،وہ اس زمانے کا ”فتنہٴ شکیلیت‘ ‘ہے، جس کی مدت کچھ ۱۸/۲۰/سال ہوچکی ہے اوردس ہزارسے زائدافراداس کی زد میں آ کر ایمان ختم کر چکے ہیں۔ ہنوز اس کی تباہی تیزرفتارہوچکی ہے۔مختلف مضامین اورتقاریروخطبات اورمجالس کے ذریعہ سے حضرات علمائے کرام اس کی حقیقت وشناعت،انجام سے واقفیت اورمعلومات امت کے سامنے پیش کر رہے ہیں، جوحضرات علمااوراہل علم کی ذمہ داری ہے۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ امت ان باتوں کوسنے اور ان پر کان دھرے اورپھرراہ عمل سے اپنے ایمان ویقین کی حفاظت کاانتظام کرے ۔

شکیلی فتنہ کی آماجگاہ:

            شکیل بن حنیف جوریاست بہار،ضلع دربھنگہ کے ”عثمان پور“گاوٴں سے تعلق رکھنے والااورپیشے کے اعتبار سے کمپیوٹرانجینئرہے۔قومی راجدھانی دہلی کے مشہورومعروف محلہ” نبی کریم “سے ۲۰۰۴ء میں اس جعل سازی اور پروپیگنڈے کا کاروبار شروع کیا۔اس ناہنجار کادعویٰ یہ ہے کہ میں مہدی موعودہوں۔پھراس کایہ دعویٰ بھی ہے کہ میں عیسیٰ مسیح ہوں۔ان دعووں کاجھوٹ اور باطل ہونا بالکل جُگ ظاہراورروشن ہے،جس پردلائل کے انبار لگانے اورخامہ فرسائی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی چند موٹی موٹی اور آسان دلیلیں ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں،جس سے اس کی کذب بیانی،دروغ گوئی اورمکاری بھی صاف طورسے سمجھ میں آجائے گی۔

چنددلائل کامطالعہ:

            پہلی دلیل:یہ ہے کہ ایسی خلل دماغی کامالک اورایک نئے فتنہ کاموجدبہارکاباشندہ ہے ،جب کہ مہدی علیہ مدینہ کے ہوں گے۔دوسری دلیل: یہ کہ اس کانام مع ولدیت شکیل بن حنیف ہے، جب کہ مہدی علیہ السلام کانام مع ولدیت محمدبن عبداللہ ہے۔تیسری دلیل:یہ کہ اس کاچہرہ اورظاہربالکل بدصورت اور ناقابل دیدہے،جب کہ مہدی خوب صورتی اورحسن میں نبی کے مشابہ ہوں گے۔چوتھی دلیل :یہ ہے کہ اس نے اپنے مہدی ہونے کاخوددعویٰ کردیا،جب کہ مہدی اپنے مہدی ہونے کادعویٰ خود نہیں کریں گے،بلکہ لوگ انھیں تلاش کریں گے اوران کوپہچان کران سے اس امت کی قیادت قبول کرنے کی درخواست کریں گے۔ اس وقت آسمان سے بھی یہ آوازآئے گی کہ ہاں یہی مہدی ہے۔پانچویں دلیل:یہ ہے کہ یہی عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کازمانہ ہوگا،جوملکِ شام میں دمشق کی مسجدکے مناروں سے دوفرشتوں کے سہارے زمین پر اتریں گے اوراسی وقت حضرت مہدی بھی مدینہ سے ملک شام چلے جائیں گے۔اس لیے کہ اسلام سمٹ کر مدینہ میں محدود ہو جائے گااورملک شام پربھی عیسائیوں کاغلبہ اور تسلط ہوگا۔چناں چہ مہدی علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملیں گے اورامامت کی درخواست کریں گے۔ لیکن حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ نمازکی امامت آپ کی ہے۔ میرا کام اورمشن تودجال کوختم کرناہے ۔ چناں چہ آپ مہدی علیہ السلام کی امامت میں نمازاداکریں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مشن کے مطابق مقام ”لُد“ میں دجال کوختم کریں گے اورپوری روئے زمین پراسلام کاغلبہ ہو جائے گا۔چالیس سال مکمل امن اور اسلام کے ساتھ گذریں گے اوراس کے بعدقیامت آئے گی۔

اتنی بات ہی کافی ہے:

            کیاایسے جھوٹے اورمکارکوسمجھنے کے لیے اتنی باتیں کافی وشافی نہیں ہیں؟اگرعقل کی ترازوکاپلڑا برابر اور احساس زندہ ہو تو اتنا بھی بہت ہے،لیکن اس کے باوجودحالات حاضرہ کامطالعہ کریں تومعلوم ہوگاکہ ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں اس کے ماننے والے اوراس کے ناپاک ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی تعداددس ہزارسے متجاوز ہوچکی ہے اوریہ فتنہ برابرپھل پھول رہاہے۔

اس کی وجہ وہی ہے:

            جسے قرآن کریم نے صدیوں پہلے عرب کی سرزمین پرنازل ہوکر بتلادیاتھا۔ارشادربانی ملاحظہ کیجیے:﴿وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّہُ الَّذِیْنَ امَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنافِقِیْنَ۔﴾کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کے فتنوں اورآزمائشوں سے دو چار کرکے اس امت کے پکے اور کچے ایمان والوں کوآزمائیں گے اورکھرے کھوٹے میں خط امتیازکھینچاجائے گا۔ دونوں؛مومنین ومجرمین اورمنافقین ومسلمین کوایک ہی لائن میں ہرگزکھڑا نہیں کیاجائے گا۔حق وباطل کی تمیز کرنے کے لیے نشانیاں قائم کی جائیں گی۔ ان کو ہانکنے کے لیے ایک ہی لاٹھی کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں ارشادفرماتے ہیں:﴿ اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ۔﴾

اب چھٹائی ہورہی ہے:

            اس لیے بجاطورپراورپورے یقین کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ زمانہ بھی؛زمانہٴ امتیازاورچھَٹائی کا دورہے،جس میں چھٹائی کا سلسلہ شروع ہواہے۔اس میں منافقین اوراہل ایمان الگ الگ ہو جائیں گے۔ جو ایمان میں متزلزل اورتعلیمات اسلام کوقبول کرنے اوراس پرعمل کرنے کے سلسلہ میں شکوک وشبہات،اوربے ہودہ اعتراضات کے مریض ہیں،وہ ایسے فتنوں میں جکڑے جائیں گے اوربے ایمانی ان کامقدرہوگی۔جن کو تشکیک کا مرض لاحق نہیں ہے،اُن کوحلاوت ایمانی کی چاشنی عطاکی جائے گی۔وہ ایسے فتنوں سے متاثرنہیں ہوں گے اوران آندھیوں میں بھی ثابت قدم رہیں گے،بلکہ اُن کاایمان مزیدپختہ ہوگا،جس کی طرف قرآن کریم نے ﴿یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ۔﴾رہ نمائی فرمائی ہے۔کہ اللہ تعالیٰ کامل ایمان والوں کودنیاوآخرت میں اپنے کلمہ سے ثابت قدم رکھتے ہیں۔

سب سے بڑاخسارہ:

            کسی انسان کے لیے اس سے بڑی بدنصیبی اورمحرومی بھی کیاہوسکتی ہے کہ زندگی بھرمسلمانوں میں رہے اورپھر ایک دن دولت ایمان ہاتھ سے چلی جائے، اس سے بڑھ کرخسارہ اورگھاٹاکیاہوسکتاہے،اس پرکوئی بھی غور کرکے سمجھ سکتاہے۔ اس کوقرآن نے ”خسر الدنیا و الآخرة“سے تعبیر کیا ہے۔دنیابھی گئی اورآخرت بھی تباہ ہو گئی۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے کسی شاعرنے کہاہے کہ

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

            اس لیے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ کافرہونے سے زیادہ خطرناک اورموجب وبال مرتدہوناہے۔اوربہ قول علما اس کاقتل واجب ہے۔اس لیے کہ اس نے اسلام کودیکھا،پرکھاہے اوراس کی نعمتوں سے بہرہ ورہوا، پھر بھی اس کا انکارکر دیا۔ایساشخص زیادہ بڑامجرم ہے اوراسی وجہ سے قابل گردن زدنی ہے۔

نسلوں کے ایمان کی فکرلازمی ہے:

            اس لیے ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کے ساتھ اس کی حقیقت کوسمجھنابھی ضروری ہے ۔ساتھ ہی اپنے اہل خانہ ،اپنی اولاداورنسلوں کے ایمان کی فکرلازمی ہے۔پیغمبروں کی سب سے بڑی فکر؛جووقت اخیرمیں بھی اُن کو دامن گیررہی وہ یہی تھی ۔اس لیے قرآن میں ہمیں ایک دعاسکھلائی گئی ہے،جودراصل بقائے ایمان یاحفاظتِ ایمان کی اصل ہے:﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔﴾ اے ہمارے رب!جب آپ نے ہمیں ہدایت اورایمان عطاکردیاہے توپھراس کے بعدہمارے دلوں میں ٹیڑھاپن ؛یعنی گم راہی نہ ڈالنا۔یعنی دولت ایمان دینے کے بعداس کوپھرہم سے چھین نہ لینا،ہم آپ کی رحمت کے محتاج ہیں اورآپ خوب دینے والے ہیں۔

            اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ،ہماری نسلوں اورتمام اہل ایمان کے ایمان کی پوری حفاظت فرمائے ۔ دور حاضر میں حشرات الارض کی طرح پھیلنے والے اورآئندہ کے تمام فتنوں سے حفاظت فرماکرایمان اورنغمہٴ توحیدکے ساتھ اپنی حسین ترین جنت ؛جس کے متعلق ارشادقرآنی ہے: ﴿عرضہا کعرض السمآء والارض اعدت للمتقین۔﴾کااولین داخلہ نصیب فرمائے۔

 ”فتنہٴ شکیلیت“سے بچنے کانسخہ:

            لیکن اس ”فتنہٴ شکیلیت“اوراس جیسے دیگرفتنوں سے حفاظت کاکیانسخہ ہے؟تواس سلسلے میں یہ یادرکھیں کہ اولاً ہم اللہ سے دعامانگتے رہیں،لیکن اسی کے ساتھ حضرات علمائے گرامی قدراہل اللہ اوراہل علم کے ساتھ دوستی،محبت اوران کی مجالس میں شرکت اوران کی صحبت بہت ضروری اورلازم ہے۔اگراس رخ پرنہیں چلیں گے تو پھر گم راہی کے غارمیں گرجاناکچھ مشکل بھی نہیں ہے۔

علمائے کرام؛امت کے ڈاکٹرس ہیں:

            اس لیے کہ اہل علم کواللہ نے کتاب وسنت کاعلم عطاکیاہے۔جتنی معرفت ان حضرات کوفتنوں کی ہوگی اتنی کسی اورگروہ کوصبح قیامتت تک نہیں ہوسکتی۔اورچوں کہ حضرات علمائے وارثینِ انبیاہیں اورانبیا؛جس طرح امت کادرداپنے سینے میں رکھتے ہیں،وہی حال حضرات علمائے کرام کابھی ہوتاہے۔وہ امت کی ہرحالت زار پر بے زارنہیں،بلکہ بے قرارہوتے ،زار وقطارروتے ،کڑھتے اوراس کے ازالہ کی ہرممکن کوششیں کرتے ہیں۔ گویا کہ علمااِس امت کے اطبااورحکماہیں،جنھیں مرض کی تشخیص بھی آتی ہے اوراس کاآپریشن بھی خوب اچھی طرح کرنا جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرفتنہ کی کوشش ہوتی ہے اورفی الوقت اس”فتنہٴ شکیلیت“کی بھی یہی محنت وکوشش جاری ہے کہ امت کے ایمان کو ختم کرنے کے لیے علماسے اُن کاکنکشن کاٹ دیاجائے،تاکہ ان کے عزائم کی راہ میں کوئی حائل نہ ہونے پائے او ر ان کایہ ناپاک مشن سوفی صدکام یاب ہو۔ان کی حقیقت اور انجام بدسے کوئی آگاہ کرنے اور ہلاکت وبربادی کے گڑھے سے نکالنے والانہ ہو۔

سنت یوسفی کی تازہ مثال:

            چناں چہ اورنگ آباداوردیگرمقامات پرحضرات علماکوسنت یوسفی زندہ کرنے کاموقع ملااوراس فتنہ کا تعاقب کرتے ہوئے ان کوجیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی جاناپڑا۔ایک اورکام حفاظت کاجو ہمیں کرنا ہے،وہ یہ کہ ہرمحلہ میں اپنی مقامی مسجد کے واسطے سے ایک کاوٴنسلنگ سینٹرقائم کیاجائے،جس میں نوجوان، بچوں اور بچیوں کو دین کے عقائد،ایمانیات اور بنیادی تعلیم (Basic Education)سے آگاہ کیاجائے ۔اسی کے ساتھ اسلام کی عظمت ،اس کی ہر زمانے میں افادیت پرخاطرخواہ مواد پیش کیاجائے،تاکہ بالخصوص عصری تعلیم یافتہ نوجوانوں کاطبقہ اس سیلاب کی زدمیں نہ آنے پائے۔

اسلام دنیاکی ترقی میں حائل ہے:

            کیوں کہ سچائی اورحقیقت یہ ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ دین کی بنیادی اورضروری باتوں سے بھی نابلد اورناواقف ہیں۔کچھ تووہ ہیں،جواس کوبالکلیہ غیرضروری سمجھتے ہیں توکچھ ایسے حضرات بھی ہیں،جنھیں اپنے شغل اور تجارت سے فرصت نہیں۔اورجن گھرانوں میں اللہ کے فضل سے دنیاوی وعصری تعلیم کاتھوڑاخمار،بلکہ بخارہے تو پھر وہاں کی حالت بالکل ناگفتہ بہ ہیں۔

            اُن کے دلوں میں اسلام اوراس کاسسٹم ایک غیرضروری ،بلکہ دنیاکی ترقی میں ایک سد سکندری اورآڑہے اوروہ اسلام کوفرسودہ اوردورحاضرکی ترقیات سے متصادم اورمقابل سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن وہ اسلام ،اس کی کسی نہ کسی تعلیم اورنظام پرشکوک وشبہات کے تیشے چلاتے اوربے جا اعتراضات کی بوچھاڑکرتے رہتے ہیں۔ایسے دین بے زاراورمغرب نوازافرادکی کاوٴنسلنگ توبے حدضروری ہے۔ورنہ یہ طبقہ تو کسی دن ایمان اوراسلام کو الوداع بھی کہہ سکتاہے۔

اخیری بات:

            ان مذکورہ ہدایات کے ساتھ اپنے گھروں میں دس سے پندرہ منٹ بلاناغہ کسی دینی کتاب کی تعلیم علماکے مشورہ کے ساتھ ہوتی رہے ،جس میں اپنے اہل خانہ کے سامنے روزانہ اللہ ،اس کے رسول اورصحابہ کاتعارف آتا رہے اوراسلام کتنی قربانیوں کے ساتھ ہم تک آیا۔اس کے لیے صحابہ نے کتنی مشقت جھیلیں؛بتلایاجائے ۔ہمیں اس کواگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے کیاکیاکرناہے،تاکہ ہمارے اندراسلام کی قدراوراحساس ذمہ داری جاگے۔ ایمان اوراسلام کی نعمت گراں مایہ ہمارے سینوں کی گہرائیوں میں اترجائے اوراللہ ہم کواس کی حلاوت اور حقیقی لذت سے مالامال فرمائے ۔آمین!

ہمارے تین اساتذہ:

            یہ اخیری بات خِتام مِسک کے طورپربہت اہم ہے۔اس لیے کہ تعلیم کے تین اساتذہ اورمعلمین ہوتے ہیں۔ایک کتابِ غیرناطق۔دوسراناطق معلم اورتیسراماحول۔اِن میں تیسرامعلم؛ماحول دونوں پرحاوی اورغالب ہوتا ہے ۔لہٰذاباہرکے بدعقیدہ اورتعفن زدہ بدبودارماحول سے بچانے کے لیے گھرمیں ماحول کی پاکیزگی اورایمان وعقیدہ کی تازگی کی فضاضروری ہے۔چناں چہ کسی صاحبِ بصیرت نے بڑی حقیقت پرمبنی بات لکھی ہے۔”ہمارے بچے اورماتحت ہم جوکہتے ہیں،وہ نہیں کرتے،بلکہ ہم جوکرتے ہیں وہ کرتے ہیں“۔             اس لیے گھروں میں اپنے کردار واخلاق اورزبانی معاشرت کواسلام وشریعت کے سانچے میں ڈھالنا بہت ضروری ہے ۔اللہ مجھے ،آپ اورتمام امت کوراہِ عمل پرچلائے اورہرظاہری وباطنی فتنہ سے حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین یارب العالمین!