تلاوت و تالیانِ قرآنِ کریم کی فضیلت

 

مولانا سفیان دربھنگوی         

(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

                قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی ایسی کتاب ہے، جس کو ذاتِ اللہ کی طرح بقا حاصل ہے۔قرآنِ کریم کا خادم، چاہے جس پہلو سے خدمت ہو فضیلت و برکت کاحامل ہے۔جس طرح اللہ، رسول، والدین،اولاد اور پڑوسی کے حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح ہم پر قرآنِ کریم کے بھی حقوق ہیں اور وہ پانچ ہیں:

قرآنِ کریم کے پانچ حقوق:

                (۱)قرآنِ کریم پر ایمان لانا:

                ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب بلا ریب من جانب اللہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک بغیر کسی کمی زیادتی کے پہنچی ہے۔

                (۲)قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا:

                تلاوت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ کریم کو پڑھا جائے اور اپنے بچوں کو پڑھایا جائے،اس کا معمول بنایا جائے۔

                (۳)قرآنِ کریم کو سمجھنا:

                سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا فرمایا ہے اس کو جاننا۔یہ جاننا ترجمہ و تفسیر سے بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بہتر ہے کہ معتبر عالم سے سمجھا جائے۔

                (۴)قرآنِ کریم پر عمل کرنا:

                عمل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن یا احادیث میں جو احکام ہیں، جس کو حضراتِ فقہانے سمجھا اور سمجھایا ہے اس پر عمل کرنا۔

                (۵)قرآنِ کریم کے پیغام کو عام کرنا:

                پیغام کو عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ نے سیکھا اور معتبر عالم سے جانا، اس کو احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچانا؛تاکہ لوگ بھی اس پر عمل کریں۔

                قرآن کریم کا پہلا حق اس پر ایمان لانا، تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم اہل ایمان ہیں اور سات چیزوں پر ہمارا ایمان ہے، ان میں ایک اللہ تعالیٰ کی کتابیں بھی ہیں۔

                قرآنِ کریم کا دوسرا حق اس کی تلاوت کرناہے۔لہٰذا فضائلِ تلاوت و تالی سے متعلق کچھ باتیں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کررہاہوں اس امید کے ساتھ کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ان شاء اللہ ہم سب اس پر عمل کرکے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔

                تلاوتِ قرآنِ کریم کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعثت سید الانبیاء علیہ الصلاة والسلام کے مقاصد میں سے ایک تلاوتِ قرآنِ کریم ہے، جس کو قرآنِ کریم نے تین مقامات پر بیان کیا :

                سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی صورت میں بیان کیا :

                ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھمْ رَسُوْلاً مِّنْھمْ یَتْلُوْا عَلَیْھمْ ایتِکَ﴾( البقرة: ۱۲۹)

                اے ہمارے رب! ان میں بھیج ایسا رسول انہی میں سے، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے۔

                اس کے بعدفرمایا: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ﴾(ال عمران:۱۶۴)

                اس بات میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر احسان فرمایا،اس وقت جب ا س نے بھیجا ان کے درمیان ایسا رسول انہی لوگوں میں سے ،جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔اسی طرح سورہٴ جمعہ میں بھی اس مضمون کو بیان کیا ۔

                ایک اورجگہ مقصدِ ارسالِ رسول کے تحت بیان کیا:﴿کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ ایتِنَا﴾(البقرة:۱۵۱)

                جیسا کہ ہم نے بھیجا تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک ایسا رسول جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتاہے۔

                ان تمام آیات پر آپ غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ نبی کو مبعوث کرنے اور رسول کو بھیجنے کے مقاصدِ اربعہ میں سے ایک مقصد تلاوتِ قرآنِ کریم ہے۔اس سے ہم قرآنِ کریم کی تلاوت کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات میں تلاوتِ قرآنِ کریم کی فضیلت و اہمیت کو بیان کیا گیا ہے،جیسے:﴿اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتابِ ﴾(العنکبوت:۴۵)۔

                اسی طرح بہت ساری احادیث میں بھی تلاوت اور تالی کی فضیلت کو بیان کیاگیا ہے۔

چند احادیث اوراقوالِ سلف پیش خدمت ہیں

قرائے قرآن کی عقلیں بڑھاپے میں بھی بے کار نہیں ہوتیں!

                عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ: أَبْقَی النَّاسِ عُقُوْلاً قُرّآءُ الْقُرْانِِ“

(نقلہ محمد بن الجزری فی النشر،ج:۱،ص:۴)

                ترجمہ: عبد الملک بن عمیر کہتے ہیں کہ قرائے قرآن کی عقلیں سب لوگوں سے زیادہ باقی اور صحیح و سالم رہتی ہیں(یعنی ان کی عقلیں بڑھاپے میں بھی بحال رہتی ہیں)۔

قرآنِ کریم پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہو گا:

                عَنْ أنسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ:”إِذَا أَحَبَّ أَحَدُ کُمُ أَنْ یُحَدِّثَ رَبَّہ فَلْیَقْرَأ الْقُرانَ“۔(رواہ الخطیب وصاحب الفردوس)

                ”فَاِنَّ الْقُرْآنَ الْکَرِیمَ ھوَرِ سَالةُ مِنَ اللّہِ تعالی لِعِبَادِہ فَکَاَنَّ الْقَارِیٴ یَقُولُ: یَا رَبِّ قُلْتَ کَذَا وَکَذَا فَہوَ مُنَاجِ لِلّہِ تَعَالی“۔(تلاوة القرآن المجید ص:۳۸۔۳۹)

                ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی شخص یہ چاہیے کہ وہ اپنے رب سے مناجات اور گفتگو کرے، اس کو چاہیے کہ قرآن شریف کی تلاوت کرے۔

                 وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم بندوں کی طرف خداوندی پیغام ہے گویا قاری بزبانِ حال یہ کہتا جاتا ہے، اے رب! آپ نے بات یوں ارشاد فرمائی اور یوں۔ تو اس لحاظ سے گویا وہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور مناجات کا شرف حاصل کر رہا ہے۔ (خطیب – دیلمی)

تلاوت قرآن سب سے افضل عبادت:

                 رَوَی البَیْہَقِیُّ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ:”أَفْضَلُ عِبَادَةِ أُمَّتِیْ تِلَاوَةُ القُرْآنِ“(تلاوة القرآن المجید،ص:۳۶)

                ترجمہ: بیہقی نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ ولم کا یہ ارشاد روایت کیا ہے کہ میری امت کی سب سے افضل عبادت قرآن پاک کی تلاوت ہے۔

جنت میں قرآن کی محمدی اور خدا وندی تلاوت، تمام اہل جنت کی لطف اندوزی کا ذریعہ ہوگی۔

مقربین اہل جنت روزانہ دو مرتبہ دیدار و تلاوتِ الٰہی سے محظوظ و مشرف ہوں گے:

                رَوَی التَّرْمِذِیُّ الْحَکِیمُ عَنْ بُرَیْدَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّةِ یَدْخُلُوْنَ عَلَی الْجَبَّارِ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ فَیَقْرَأُ عَلَیْہِمُ الْقُرْآنَ وَقَدْ جَلَسَ کُلُّ امْرِیٍ مِنْہُمْ مَجْلِسَہ الَّذِی ہُوَ مَجْلِسُہ عَلَی مَنَابِرِِالدُرِّوَالْیَاقُوْتِ وَالزَّمُرُّدِّ وَالذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ بِالأَعْمَالِ فَلا تَقَرُّ أَعْیُنُہُمْ قَطُّ کَمَا تَقَرُّ بِذٰلِکَ وَلَمْ یَسْمَعُوا شَیْئًا أَعْظَمَ مِنْہُ وَلَا أَحْسَنَ مِنْہُ ثُمَّ یَنْصَرِفُوْنَ إلی رِحَالِہِمْ وَقُرَّةِ أَعْیُنِہِمْ نَاعِمِینَ إِلَی مِثْلِہِ مِنَ الْغَدِ“۔

(انظر الفتح الکبیر:۱:۳۸۱۔تلاوة القرآن المجید مع التعلیق،ص:۵۰)

                حکیم ترمذی نے بریدہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عالی نقل کیا ہے کہ اہلِ جنت روزانہ حضرت جبار (اللہ رب العزت)کے پاس دو مرتبہ جائیں گے اور رب تعالیٰ ان کے سامنے قرآنِ پاک کی تلاوت فرمائیں گے اور اُن میں سے ہر جنتی اپنے اعمال کے درجہ کے موافق موتی یاقوت زمرد اور سونے چاندی کے منبروں کی ایک مخصوص نشست گاہ پر قرار پذیر ہوگا (اور بغیر سیٹ کے یوں ہی ایک بھی نہ ہو گا) تو اہل جنت کو تلاوتِ الٰہی سے جس قدر حظ ولطف اور آنکھوں کی ٹھنڈک حاصل ہو گی، اُس قدر کسی بھی نعمت سے حاصل نہ ہوگی۔ اور ایسی عظیم اور حسین آواز آج تک اُن کے سننے میں نہیں آئی ہوگی، پھر اگلے روز ایسی ہی نعمت کے حصول تک وہ لوگ خوش بخوش اپنی منزلوں اور فرحت بخش نعمتوں کی طرف لوٹ جائیں گے۔ (حکیم ترمذی)

تلاوت قرآنی والے گھر، عرش الٰہی تک، چراغوں کی طرح منور اور روشن نظر آتے ہیں:

                رَوَی الْحَکِیمُ التَّرْمِذِیُّ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ وَأبِی الدَرْدَاءِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا مَرْفُوعًا: إِنَّ بُیُوتَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ لَمَصَابِیحُ إِلَی الْعَرْشِ یَعْرِفُہَا مُقَرِّبُوْا السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ یَقُولُونَ: ہَذَا النُّورُ مِنْ بُیُوتَاتِ الْمُؤْمِنِینَ الَّتِی یُتْلٰٰی فِیہَا الْقُرْانُ“۔(انظر کنز العمال۱: ۵۵۴ – تلاوة القرآن المجید مع التعلیق)

                ترجمہ:حکیم ترمذی نے ابو ہریرہ اور ابو الدردا رضی اللہ عنہما سے مرفوعاًروایت کی ہے کہ بے شک مومنوں کے مکانات، عرش الٰہی تک چراغوں کی طرح روشن ہیں۔ ان گھروں کو ساتوں آسمانوں کے مقرب فرشتے پہچان لیتے ہیں اور آپس میں یہ کہتے ہیں کہ یہ نور مومنین کے ان گھروں سے آرہا ہے، جن میں قرآنِ کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔ (حکیم ترمذی)

جو شخص قرآن کریم پڑھے اور اسکی روکی ہوئی چیزوں سے نہ ر کے وہ بدترین لوگوں میں سے ہے:

                رَوَی النِّسَائِیُّ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ عَامَ تَبُوْکٍ وَہُوَ مُسْنِدٌ ظَہْرَہ إِلی نَخْلَةٍ فَقَالَ أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ النَّاسِ وَشَرِّ النَّاسِ؟

                إِنَّ مِنْ خَیْرِ النَّاسِ رَجُلًا عَمِلَ فِی سَبِیلِ اللَّہ عَلَی ظَہرِ فَرَسِ أَوْ عَلَی ظَہرِ بَعِیرِہ أَوْ عَلَی قَدَ مَیْہ حَتّی یَأْتِیَہ الْمَوْتُ وَإِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ رَجُلًا فَاجِرًا جَرِیئًا یَقْرَأُ کِتَابَ اللّہِ وَلَا یَرْعَوَیْ – أَی لَا یَنْکَفُّ- وَلَا یَنْزَجِرُ عَنِ الْقُبْحِ الَّذِی نَہی عَنْہ القُرانُ“۔(ورواہ احمد والحاکم وصححہ.تلاوة القرآن المجید ص۱۳۲)

                ترجمہ: نسائی نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے غزوہٴ تبوک کے سال خطبہ ارشاد فرمایا: جب کہ آپ اپنی پشت مبارک کھجور کے ایک درخت کے ساتھ لگائے ہوئے تھے، سوفرمایا کیا میں تمہیں بہترین لوگوں اور بدترین لوگوں کے متعلق خبرنہ دیدوں؟

                یقینا وہ شخص بہترین لوگوں میں سے ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے گھوڑے یا اُونٹ کی پشت پر یا اپنے قدموں پر عمل بجالا یا حتی کہ اس کی موت آجائے۔ اور یقینا وہ فاسق اور نڈر آدمی بدترین لوگوں میں سے ہے، جو کتا ب اللہ پڑھتا ہے اور باز نہیں آتا ہے یعنی جن بُری باتوں سے قرآن نے منع کیا ہے، ان سے نہیں رکتا اور ڈانٹ قبول نہیں کرتا۔ (نسائی، احمد، حاکم)

تلاوت قرآن والا گھر مبارک اور آفات سے دور ہوتا ہے اس میں فرشتے آتے ہیں اور گھر میں انوار و برکات کا دور دورہ ہو جاتا ہے:

                رَوَی الإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرِ الْمَرْوَزِیُّ بِإِسْنَادِہ عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ مَرْفُوعًا:إِنَّ الْبَیْتَ اِذا قُرِیٴَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ حَضَرَتْہُ الْمَلَائکةُ وَتَنْکَبَتْ – أَی تَبَاعَدَتْ – عَنْہُ الشَّیَاطِیْنُ وَاتَّسَعَ عَلَی أَہْلِہ وَکَثُرَ خَیْرُہُ وَقَلَّ شَرُّہ وَإِنَّ الْبَیْتَ إِذَا لَمْ یُقْرَأَفِیہِ الْقُرْآنُ حَضَرَتْہُ الشَّیَاطِیْنُ وَتَنَکَّبَتْ عَنْہُ الْمَلَائِکَةُ وَضَاقَ عَلَی أَہْلِہ وَقَلَّ خَیْرُہُ وَکَثُرَ شَرُّہ“۔(تلاوة القرآن المجید،ص:۴۰)

                امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی سند کے ذریعہ انس رضی اللہ عنہ سے یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ جب گھر میں قرآن شریف پڑھا جائے، تو اُس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور شیاطین اُس مکان سے دور بھاگ جاتے ہیں اور اپنے رہنے والوں کے لیے وہ گھر فراخ و کشادہ ہو جاتا ہے۔ اس میں خیر اور بھلائی زیادہ ہو جاتی ہے اور شر و فساد کم ہو جاتا ہے اور جب گھر میں قرآن شریف نہ پڑھا جائے، تو اس میں شیاطین حاضر ہو جاتے ہیں اور فرشتے اس مکان سے دور بھاگ جاتے ہیں اور رہنے والوں کے لئے وہ گھر تنگ اور چھوٹا ہو جاتا ہے اس میں خیرو برکت کم ہو جاتی ہے اور شر وفسادزیادہ ہو جاتا ہے۔(محمد بن نصر)

خوشحالی کا حقیقی مستحق با عمل قاریٴ قرآن ہے:

                عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ خَیْثَمَةَ قَالَ إِنَّ امْرَأَةً مَرَّتْ بِعِیسٰی ابْنِ مَرْیَمَ فَقَالَتْ طُوْبٰی لِبَطْنٍ حَمَلَتْکَ وَثَدْیِ أَرْضَعَکَ فَقَالَ عِیسٰی لَا بَلْ طُوبٰی لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمَلَ بِہ“۔

(بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز،ج:۱ص:۶۴)

                ترجمہ: اعمش حضرت خیثمہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے ایک عورت کا گزر ہوا تو اس نے کہا خوش حالی و مبارکبادی ہو، اُس پیٹ کے لئے جس نے آپ کو اُٹھایا اور اُس پستان کے لئے جس سے آپنے دُودھ پیا۔ اس پر عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا؛ بل کہ خوشحالی و مبارک بادی ہو اُس شخص کے لیے جس نے قرآن ِکریم پڑھا اور پھر اُس پر عمل کیا ۔

قرآن ِمجید کی زیادہ تلاوت زنگ آلوددلوں کا علاج اور صفائی کا ذریعہ ہے:

                 عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّ اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ ہٰذِہِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَءُ الْحَدِیدُ إِذَا أَصَابَہُ الْمَاءُ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا جَلَاؤُہَا قَالَ کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْاٰنِ“۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان – مشکوة المصابیح ج:۱ص:۱۸۹)

                ترجمہ: ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اِن دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، جیسا کہ لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ دریافت کیا گیا یا رسول اللہ! تو پھر اُن دلوں کی صفائی کی کیا صورت ہے؟ فرمایا موت کو کثرت سے یا د کرنا اور قرآن شریف کی زیادہ تلاوت کرنا۔

                فائد ہ:گناہوں کی کثرت اور اللہ جل شانہ کی یاد سے غفلت کی وجہ سے دلوں پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور دلوں کا آئینہ دھندلا ہو جاتا ہے اور کلام پاک کی تلاوت اور موت کی یاد ان کے لئے صیقل اور صفائی کا کام دیتی ہے اور قرآن شریف دلوں کی بیماری کو اور ان سے رنج وغم اور فکرو تشویش و پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔

 فائدہ: قرآن اور موت دو واعظ ہیں:

                حضور اقدس صلی اللہ علیہ تم نے ارشاد فرمایا کہ دو واعظ چھوڑتا ہوں ہے ایک بولنے والا دوسرا خاموش۔ بولنے والا قرآن شریف ہے اور خاموش موت کی یاد۔

نماز میں تین آیتیں پڑھنا بہترین دولت ہے ،جو تین حاملہ بڑی موٹی اونٹنیوں سے بھی افضل ہیں:

                عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أیُحِبُّ أَحَدُ کُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَی أَہْلِہ أَنْ تَجِدَ فِیہِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ؟ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ فَثَلَاثُ آیَاتٍ یَّقْرَأُ بِہِنَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلَوٰتِہ خَیْرٌ لَّہ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامِ سِمَانٍ۔(رواہ مسلم – فضائل قرآن)

                 ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ گھرواپس آئے تو تین اونٹنیاں حاملہ بڑی اور موٹی اس کو مل جائیں؟ہم نے عرض کیا بیشک!(ضرور پسند کرتے ہیں) حضور نے فرمایاکہ تین آیتیں جن کو تم میں سے کوئی نمازمیں پڑھ لے وہ تین حاملہ بڑی اور موٹی اونٹنیوں سے افضل ہیں۔

تلاوتِ قرآن کے وقت آسمان کے اور اللہ کی رحمت و قبولیت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:

                رَوَی الطَّبَرَانِیُّ فِی الْأَوْسَطِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ لِخَمْسِ لِقِرَائَةِ الْقُرْآنِ وَلِلِقَاءِ الزَّحْفَیْنِ – أَی الصَّفَیْنِ صَفِ الْمُسْلِمِینَ وَصَفِ الْکَافِرِینَ – وَلِنُزُولِ الْقَطْرِ وَ لِدَعُوَةِ الْمَظْلُومِ وللاذان“۔

(کما فی الفتح الکبیر واصلہ – تلاوة القرآن المجید ،ص:۹۹)

                 ترجمہ:طبرانی نے معجم اوسط میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ پانچ اوقات میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:

                (۱) قرآن پاک کی تلاوت کے وقت۔

                (۲)جنگ میں مسلمانوں اور کافروں کی صف بندی کے وقت۔

                (۳) بارش ہونے کے وقت۔

                (۴)مظلوم کی دُعا کے وقت۔

                (۵)اذان کے وقت۔(طبرانی)

نماز کے اندر تلاوت کا زیادہ ثواب ہے نیز تلاوت تمام اذکار اور نفلی عبادتوں سے افضل عبادت ہے:

                عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:قِرَاء ةُ القُرْآنِ فی الصَّلَاةِ أَفْضَلُ مِنْ قِرَائَةِ الْقُرانِ فِیْ غَیْرِ الصَّلٰوةِ، وَقِرَاءَ ةُ الْقُرْآنِ فِی غَیْرِ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ مِنَ التَّسْبِیحِ وَالتَّکْبِیرِ، وَ التَّسْبِیحُ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ وَالصَّدَقَةِ أَفَضلُ مِنَ الصَوْمِ وَالصَوْمُ جُنَّةٌ مِّنَ النَّارِ۔

(رواہ البیہقی فی شعب الایمان – فضائل قرآن)

                ترجمہ: حضرت عائشہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ نماز میں قرآن شریف کی تلاوت بغیرنماز کی تلاوت سے افضل ہے اور بغیر نماز کی تلاوت تسبیح اور تکبیر سے افضل ہے اور تسبیح صدقہ سے افضل ہے اور صدقہ نفلی روزے سے افضل ہے اور روزہ ڈھال ہے آگ سے۔

 فائدہ:موازنہٴ تلاوت و ذکر:

                 تلاوتِ قرآن ہر اس غیر ماثور ذکر سے افضل ہے، جو کسی خاص مو قع و محل میں وارد و منقول نہ ہوا ہو۔ رہا ماثور و وارد شدہ ذکرِ مخصوص، مثلاً :جمعہ کی رات میں یا جمعہ کے دن بعد عصر درود شریف سواس سے تلاوتِ قرآن افضل نہیں ہے، بلکہ وہاں تلاوتِ غیر مطلوبہ کے مقابلہ میں وہ مطلوبہ ذکرِ مخصوص افضل ہوگا اور جہاں دو اذکارِ ماثورہ جمع ہوجائیں، مثلاً: عید کی رات میں جو جمعہ کی رات بھی ہو تکبیر اور درود شریف وہاں ان دونوں میں سے قلیل الوقوع ذکر مقدم ہوگا۔مثلاً: درج بالا صورت میں درود شریف کے مقابلہ میں تکبیر کو تر جیح ہوگی۔

 (قالہ صاحب فتح العلام بحوالہ حاشیة التبیان ص:۲۴،۲۵ وھوکلام نفیس جدا اقلما تجدہ فی کتابٍ)

فائدہ: تلاوتِ قرآن پرنیکیوں کے چار در جات:

                حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ: جس شخص نے نماز میں کھڑے ہو کر کلام پاک پڑھا اس کو ہر حرف پر سو نیکیاں ملیں گی اور جس نے نمازمیں بیٹھ کر پڑھا ،اسے پچاس نیکیاں اور جس نے بغیر نماز کے وضو کے ساتھ پڑھا اس کے لیے پچیس نیکیاں اور جس نے بغیر وضو کے پڑھا اس کے لیے دس نیکیاں اور جو شخص پڑھنے والے کی طرف کان لگا کر سنے اس کے لیے بھی ہر حرف کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔ (احیاء)

تلاوتِ قرآن، دنیا میں نور اور آخرت میں ذخیرہ ہے:

                عَنْ أَبِی ذَرٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَوْصِنِیْ۔ قَالَ عَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَإِنَّہُ رَأْسُ الْأَمْرِ کُلِّہ۔ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ! زِدْنِی قَالَ عَلَیْکَ بِتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ فَإِنَّہُ نُوْرٌ لَکَ فِی الْأَرْضِ وَ ذُخْرٌ لَکَ فِی السَّمَاءِ“۔(رواہ ابن حبان فی صحیحہ، فی حدیث طویل -فضائل قرآن)

                ترجمہ: حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ سلم سے درخواست کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ حضور نے فرمایا کہ تقویٰ کا اہتمام کرو کہ وہ تمام امور کی جڑ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی ارشاد فرمادیں۔ تو حضور نے فرمایا کہ تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرو کہ دنیا میں یہ نور ہے اورآخرت میں ذخیرہ۔

 (ابن حبان)

جنتیوں کوتلاوتِ الٰہی کے وقت یوں محسوس ہوگاکہ گویا انہوں نے آج تک کسی سے قرآن سنا ہی نہیں:

                رَوَی السِجِزِّیُّ فی الابانة عن انسٍ رضی اللّٰہُ عَنْہُ مَرْفُوعًا: کَاَنَّ النَّاسَ لَمْ یَسْمَعُوا الْقُرْآنَ حِینَ یَتْلُوْہُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ فِی الْجَنَّةِ وَرَوٰی صَاحِبُ الْفِرْدَوْسِ۔عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کَاَنَّ الْخَلْقَ لَمْ یَسْمَعُوا الْقُرْآنَ حِیْنَ یَسْمَعُونَہ مِنَ الرَّحْمٰن یَتْلُوہُ عَلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“۔

(انظر الفتح الکبیر ۲:۳۱۵- تلاوة القرآن المجید مع التعلیق،ص:۵۱)

                ترجمہ: سجِزِّی نے اِبانہ میں انس رضی اللہ عنہ سے یہ مرفوع حدیث روایت کی ہے کہ جب اللہ پاک جنت میں اہل جنت کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت فرمائیں گے، تو انہیں یوں محسوس ہوگا کہ گویا آج تک انہوں نے قرآن پاک کسی سے سنا ہی نہیں ہے اور صاحب الفردوس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ جب قیامت کے دن جنت میں حضرت رحمن، مخلوق کے سامنے قرآنِ کریم کی تلاوت فرمائیں گے اور اہلِ جنت اس تلاوت کو سنیں گے تو انہیں اس قدر لذت اور فرحت محسوس ہوگی کہ گویا انہوں نے آج تک کسی سے قرآن پاک سنا ہی نہیں ہے۔

سوتے وقت کوئی سی سورت پڑھنے والے قاری کی ملا ئکہ حفاظت فرماتے ہیں:

                رَوَی التِرْمِذِیُّ عَنْ شَدَّادِ بْنِ اَوْسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:”مَا مِنْ مُسْلِم یَأْخُذُ مَضْجَعَہ فَیَقْرَأَ سُورَةً سُورَةً مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا وَکَّلَ اللَّہُ لَہُ مَلَکًا فَلَا یَقْرَبُہ شَییٴٌ یُؤْذِیْہِ حَتَّی یَہَبَّ مِنْ نَوْمِہِ مَتٰی ہَبَّ“۔(وَرَوَاہُ أَحْمَدُ بِلَفْظِ بَعَثَ اللّٰہُ لَہُ مَلَکًا یَحْفَظُہ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ تُؤْذِیہِ حَتَّی یَہَبَّ مَتَی ہَبَّ“۔

(قَالَ الْمُنْذِرِی وَرُوَاةُ أَحْمَدَ رَوَاةُالصحیح – تلاوة القرآن المجید ص:۵۳۔۵۴)

                ترجمہ: ترمذی نے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان بھی اپنے بسترپر لیٹتے وقت کتاب اللہ کی کوئی سی سورت بھی پڑھ لے اُس پر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرما دیتے ہیں، جو اُس کے نیند سے بیدار ہونے تک کسی بھی موذی چیز کو اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا خواہ وہ جب بھی بیدار ہو۔ اور امام احمد نے یہ مضمون ان الفاظ میں روایت کیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیج دیتے ہیں،جو ہر موذی چیز سے اس کی حفاظت کرتاہے، حتی کہ وہ اپنی نیند سے بیدار ہو جائے، جب بھی بیدار ہو۔ (ترمذی)

تلاوت کردہ آیت قیامت میں نور ہوگی اور سامع کے لئے کئی گونہ نیکی ہوگی:

                عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:”مَنِ اسْتَمَعَ إِلٰی آیَةٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَةٌ مُّضَاعَفَةٌ وَمَنْ تَلَاہَا کَانَتْ لَہُ نُورًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ“

(رواہ احمد – فضائل قرآن)

                ترجمہ: ابوہریرہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کوئی آیت کلام اللہ کی بغور سنی ،اس کے لیے کئی گونہ نیکی لکھی جاتی رہتی ہے اور جس نے کسی آیت کی تلاوت کی اس کے لیے وہ آیت قیامت کے دن نور ہوگی۔ (مسند احمد)

                فائدہ: محمد ثین نے سند کے اعتبار سے اگرچہ اس میں کلام کیا ہے کہ حسن بصری کے شاگرد عبادہ بن میسرہ کو بعض نے غیر ثقہ کہا ہے۔ نیز حسن بصری نے بقول جمہور حضرت ابو ہریرہ سے سماع نہیں کیا ہے، مگر مضمون بہت سی روایات سے موید ہے کہ کلام پاک کا سننا بھی بہت آجر رکھتا ہے؛ حتی کہ بعض لوگوں نے اسکو پڑھنے سے بھی افضل بتلایا ہے (لیکن یہ قول مرجوح ہے۔)

کھڑے ہو کر نماز میں تلاوت کرنے سے ہر حرف پر سو نیکیاں اور سو درجات:

                مَنِ اسْتَمَعَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ ظَاہِرًا: کُتِبَتْ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَمُحِیَتْ عَنْہُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَہُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ، وَمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فِی صَلَاةِ قَاعِدًا: کُتِبَتْ لَہُ خَمْسُوْنَ حَسَنَةً، وَمُحِیَتْ عَنْہُ خَمْسُونَ سَیِّئَةً وَرُفِعَتْ لَہُ خَمْسُوْنَ دَرَجَةً وَمَن قَرَأحَرْفاً مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ قَائِمًا کُتِبَتْ لَہُ مِائَةُ حَسَنَةٍ وَمُحِیَتْ عَنْہُ مِائَةُ سَیِّئَةٍ وَرُفِعَتْ لَہُ مِائَہُ دَرَجَةٍ: وَمَنْ قَرَا فَخَتَمَہُ کَتَبَ اللّٰہُ عِنْدہ دَعْوَةً مُسْتَجَابَةً أَوْ مُؤَخَّرَةً“۔(رواہ ابن عدی فی الکامل و البیہقی فی الشعب عن عبد اللہ بن عباس – کنز العمال ج:۱ص:۵۴۲۔“۔(فضائل حفاظ القرآن،ص:۷۹)

                ترجمہ: جس نے ایک حرف اللہ کی کتاب سے قرآن میں بن دیکھے صرف یاد سے سنا، اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور دس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کئے جاتے ہیں اور جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف نماز میں بیٹھ کر تلاوت کیا،اس کے لیے پچاس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور پچاس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور پچاس درجات بلند کئے جاتے ہیں اور جس نے کتاب اللہ سے ایک حرف نماز میں کھڑ ے ہو کر تلاوت کیا، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کے سو گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور سو درجے بلند کر دیے جاتے ہیں اور جس نے قرآن پاک پڑھا ،پھر اس کو ختم کیا (یعنی مکمل قرآن پڑھا) اللہ تعالیٰ ختم قرآن کے وقت ایک دعا فی الحال قبول ہونے والی یا بعدمیں قبول ہونے والی لکھ دیتے ہیں۔ (کامل ابن عدی وغیرہ)

قاریٴ قرآن نکمی عمر سے محفوظ رہتا ہے:

                رَوَیْنَا عَن ابْنِ عَبَّاسِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ مَنْ قَرَأ الْقُرْآنَ لَمْ یُرَدَّإِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا وَذٰلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی:﴿رَدَدْنٰہُ أَسْفَلَ سَفِلِینَ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا﴾ قَالَ إِلَّا الَّذِینَ قَرَءُ وْا الْقُرْآنَ“۔(رواہ فی کتاب النشر الکبیرج:اص:۴)

                ترجمہ: محقق جزری فرماتے ہیں: ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اُن کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو قرآن پڑھے وہ اُس ارذلِ عمر سے محفوظ رہتا ہے، جس میں انسان علم کے بعد بے علم ہو جاتا ہے۔اور﴿ثُمَّ رَدَدْناہُ اَسْفَلَ سَفِلِینَ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا﴾کے معنی بھی ابن عباس کے نزدیک یہی ہیں، یعنی پھر ہم منکر و بدفطرت انسان کو پستی کی حالت والوں سے بھی پست تر کر دیتے ہیں، مگر جو ایمان لائے اور پھر انہوں نے قرآن پڑھا کہ انہیں ہم ایسی حالت بدسے محفوظ رکھتے ہیں۔ (نشر کبیر)

قرآن شریف کی تلاوت، بغیر محنت کے ایسی نفع مند آسان تجارت ہے کہ کم سے کم ایک حرف پر دس نیکیوں کے برابر ثواب ملتا ہے، معنی سمجھ کر پڑھے خواہ بغیر سمجھے ہی:

                رَوَی التِرْمِذِیُّ وَغَیْرُہُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولَ:”مَنْ قَرَا حَرْفًا مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَلَہ بِہ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِہَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیمٌحَرْفٌ“۔

(تلاوة القرآن المجید ص:۳۷)

                ترجمہ: ترمذی وغیرہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب پاک کا ایک حرف پڑھے اُس کے لیے اس حرف کے بدلہ میں ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برا برملتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ پورا(الٓمٓ) ایک حرف ہے، بل کہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔ (ترمذی وغیرہ اور ترمذی کہتے ہیں حسن صحیح)

                فائدہ: جن حروف کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے مثال میں ذکر فرمایا: یعنی (الٓمٓ) ان کے معنی ہر شخص نہیں سمجھ سکتا ؛بلکہ بڑے بڑے علمابھی ان کی یقینی مراد سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان حروف کی تلاوت پر تیس نیکیوں کا ملنا اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن مجید کی تلاوت خواہ معنی و مفہوم سمجھ کر کی جائے یا بلا سمجھے ،ہر طرح یہ نیکیوں کے ملنے اور بارگاہِ الٰہی میں تقرب اور نزدیکی کا سبب بنتی ہے۔

                فائدہ: بیہقی کی روایت میں ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ”بسم اللہ“ ایک حرف ہے بل کہ(ب۔ س۔ م)یعنی علیحدہ علیحدہ حروف مراد ہیں۔

تلاوتِ قرآن پاک کے لیے توفیق و طاقت و آسانی مانگی جائے:

                یُدْفَعُ عَنْ مُسْتَمِعِِ الْقُرْآنِِ بَلْوَی الدُّنْیَا وَ یُدْفَعُ عَنْ قَارِیٴِ القُرْاٰنِ سُوْءُ الْاٰخِرَةِ وَاسْتِمَاعُ اٰیَةٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ خَیْرٌ مِنْ کَنْزِ الذَّہَبِ وَلَقِرَاءَ ةُ آیَةٍ مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ أَفْضَلُ مِمَّا تَحْتَ الْعَرْشِ لِأَنَّہ کَلامُ اللّٰہِ تَکَلَّمَ بِہِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ فَمَنْ اَلْحَدَ فِیْہِ أوْ قَالَ بِرَأْ یِہ فَقَدْ کَفَرَ وَلَوْلَا أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَ یَسَّرَہ عَلٰی اَلْسُنِ الْبَشَرِ لَمَا قَدَرَ أَحَدٌ أَنْ یَتَکَلَّمَ بِکَلامِ الرَّحْمٰنِ وَہُوَ قَوْلُہُ تَعَالٰی: ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ﴾۔(مسند الفردوس)

                ترجمہ: قرآن سننے والے سے دنیا کی مصیبت ہٹادی جاتی ہے اورقاریٴ قرآن سے آخرت کا عذاب ہٹا دیا جاتا ہے۔ کتاب اللہ کی ایک آیت سننا سونے کے خزانہ سے بہتر ہے اور کتاب اللہ کی ایک آیت کی تلاوت عرش کے نیچے کی تمام اشیا سے افضل ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل اس کا تکلم فرمایا۔ جس نے اس میں بے دینی پیدا کی یا اپنی رائے داخل کی ،اس نے کفر کیا اور اگر اللہ عز وجل لوگوں کی زبان پر اسے آسان نہ کرتے تو کسی کے بس میں نہ تھا کہ وہ کلام اللہ کو پڑھ سکتا اور اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قول ہے ”ہم نے قرآن کو یاد کرنے اور پڑھنے کے لیے آسان کر دیا ،پس کوئی ہے یاد کرنے والا اور پڑھنے والا“؟

 (مستفاد از فضائل حفاظ القرآن)