(مدیر شاہراہ علم ومدیر تنفیذی جامعہ اکل کوا) حذیفہ غلام محمد صاحب وستانویؔ
اللہ رب العزت نے اس عالمِ فانی کو حضرتِ انسان کی آزمائش کے لیے وجود بخشا، اگر انسان کو پیدا کرنے کا یہ خدائی پروگرام نہ ہوتا، تو اللہ رب العزت اس حیرت انگیز کائنات کو معرضِ وجود میں ہرگز نہ لاتے، لہٰذا انسان کے لیے ابتدائے آفرینش سے امتحان وآزمائش رکھ دی گئی ہے، گویا انسان اور آزمائش لازم و ملزوم ہیں۔
جب یہ حقیقتِ مطلقہ ٹھہری،تو آزمائش، مشکلات اور چیلنجز سے انسان دو چار نہ ہو یہ نا ممکنات میں سے ہے؛ اسی لیے آپ حضرتِ انسان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے کہ وہ آزمائش سے عبارت ہے یا نہیں!؟ جب یہ ثابت ہو گیا،تو اب شکوہ شکایت کی کوئی گنجائش نہیں۔
اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کیا مشکلات ہیں؟ اس کی نوعیت کیا ہے اور اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ تو آئیے ایک بار انسان اور چیلنجز کا تاریخی اعتبار سے جائزہ لیتے ہیں، اس کے بعد عصر جدید کے چیلنجز کو معلوم کر کے اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ اسے جانتے ہیں۔اللہ ہمیں صحیح سمجھنے اور لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین یا رب العالمین
ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام نے چیلنجز کا مقابلہ کیسے کیا؟
اللہ کی ذات ارحم الراحمین ہے، سب سے زیادہ رحم کرنے والے اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو آزمائش میں ڈالنے سے پہلے آزمائش کا مقابلہ کرنے کے اسباب اور صلاحیت سے نوازا، جس کا علم قرآن کریم کے قصہئ تخلیقِ آدم سے ہوتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو علم کی دولت عطا فرمائی:(وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّہَا)”اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ہر چیز کا نام سکھلایا۔“ گویا آپ کو علم سے آراستہ کیا اور یہ بتایا کہ ہر قسم کے چیلنجز سے انسان اگر نمٹنا چاہتا ہے تواس کے لیے”علم“ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام بہت سارے چیلنجز سے دوچار ہونے والے تھے؛ لہٰذا پہلے”علم“ دے کر گویا مقابلہ کا سامان مہیا کرا دیا اور اسی علم کی برکت سے حضرت آدم علیہ السلام نے سب سے عظیم چیلنجز ”اللہ کی ناراضگی“ کو دور اور”رضامندی“کو حاصل کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔
جب آپ سے چوک ہوئی اور بطورِ سزا زمین پر بھیج دیے گئے، تو آپ نے اپنے چوک کا اعتراف کیا، زیادہ عقلی گھوڑے نہیں دوڑائے، جیسا کہ شیطان نے کیا تھا اور انانیت پر اترآیا تھا کہ(اَناَ خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ) کہ ”میں آدم سے بہتر ہوں، آپ نے مجھے آگ سے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا“، بل کہ اعترافاً کہہ دیا:
(رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ)۔
”اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا، اگر آپ ہمیں نہیں بخشیں گے اور ہم پر رحم نہیں کریں گے،تو ہم خسارہ اٹھانے والے ہو جائیں گے۔“
یہ فرق تھا اللہ کے براہِ راست دیے ہوئے علم اور بالواسطہ ملے ہوئے علم کا۔ آدم علیہ السلام کو اللہ نے براہِ راست علم دیا تھا، تو وہ بابرکت تھا، جس سے آپ میں تواضع آیا تھا، لہٰذا آپ نے ”انا انا“ کی پکار نہ لگا کر بڑے ادب کے ساتھ کہا: اے ہمارے رب! ہم نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ اور شیطان کا علم براہِ راست نہیں تھا، لہٰذا اس میں کبراور انانیت کا اثر آیا۔
انسانی تاریخ کے اس پہلے قصے سے مندرجہ ذیل اسباق چیلنجز کے مقابلے کے لیے حاصل ہوئے:
۱- اپنی نظر ہر حال میں اپنے رب اور خالق پر ہو، اپنے اوپر نہ ہو۔ تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور بڑے سے بڑے مسئلے کو انسان حل کر لے جاتا ہے۔
۲- پہلے اپنی کمی پر نظر ہونی چاہیے، جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا۔(ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا) تقدیر کا رونا یا کسی اور پر اپنی غلطی کو ہرگز نہ تھوپے؛جیسا کہ شیطان نے کیا۔(بِمَا اَغْوَیْتَنِیْ) تو نے مجھے راستے سے الگ کر دیا۔
۳- کسی بھی بڑے سے بڑے مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ کے سامنے دست بدعا ہو اور اسی سیپہلے مغفرت مانگے؛ تاکہ اگر اس مشکل کا سبب اپنی کمی ہو، تو اللہ اسے معاف کر دے اوردور کر دے۔(وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا) سے اس جانب اشارہ ہے، جب کہ شیطان نے کہا:(وَاَنْذِرْنِیْ اِلی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ)۔
۴- ”وترحمنا“سے اشارہ کیا کہ، اگر کوئی وجہ بھی ہو اس مشکل کی تو تو رحم فرما کر دور فرما دے۔ اللہ اکبر!
۵-(لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ) اگر تو ہی معاف نہ کرے اور رحم نہ کرے، تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔
گویا سیدنا وجدّنا وجدُّ البشر حضرت آدم علیہ السلام نے کلی اعتماد مسبب الاسباب اللہ کی ذات پر کیا،تو نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عرصے کے بعد اللہ نے ان پر رحم کیا اور جنت میں دوبارہ جگہ دے دی؛لہٰذا اولادِ آدم کے سامنے دو ہی راستے ہیں:
ایک حضرت آدم علیہ السلام کا راستہ: جس میں کلی اعتماد اللہ کی ذات پر ہے۔
دوسرا شیطان ِ مردود کا راستہ: جس میں کلی اعتماد اپنی ذات پر ہے۔
تو آئیے! اب ہم بھی اپنے زمانے کی تحدیات اور چیلنجزکو جانتے ہیں اور پھر اس سے کیسے نمٹاہے، اللہ کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے اسے جانتے ہیں۔
عصرِ جدید کے چیلنجز:
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ ہمہ گیر چیلنجز کا دور ہے؛البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہم پہلے لوگ ہیں، جن کو ان چیلنجز کا سامنا ہے،بل کہ قیامِ عالم سے اب تک ہر زمانہ کے لوگوں کو اسی سے ملتے جلتے مشکلات سے دوچار ہونا پڑاہے۔
حضرتِ انسان کی زندگی ہی عبارت ہے امتحان، ابتلا، آزمائش، مشکلات، مسائل اور چیلنجز سے۔ مگر جیسا کہ بتایا گیا کہ اللہ نے ان مسائل، مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اسباب ہمیشہ مہیا کیے ہیں،بس انسان کا کام ہوتا ہے کہ اسے معلوم کر کے اپنے آپ کو ان سے بچائے اور مقصد ِحیات کو حاصل کر کے اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرے۔ قرآن و حدیث میں انہیں چیلنجز کو فتنوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تو آئیے! پہلے بیماریاں جانتے ہیں، پھر ان شاء اللہ! علاج معلوم کریں گے، جیسے ڈاکٹر پہلے جسمانی بیماری جانتا ہے،پھر علاج کرتا ہے۔ یہ فتنے باطنی بیماریاں ہیں، ان کو جاننے کا کام علما کا ہے اور علاج بھی وہی بتائیں گے۔
قرآنِ کریم کا اعلان ہے:
(فَاسْءَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ)
”اہلِ ذکر سے دریافت کرو، اگر تم علم نہ رکھتے ہو۔“
اکیسویں صدی کے فتنے اور چیلنجز:
اس صدی کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے۔ اللہ کی حکمت بھی بڑی عجیب ہے کہ وہ انسان کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو ہوشیار تصور کرنے والے انسان! تجھے اپنے اوپر ناز ہے؟ اور تو اپنے علم اور تجربہ کو ہی اپنی کامیابی تصور کرتا ہے؟ تو ذرا اپنے طور پر ایسے مسائل حل کر کے بتا!ہم بھی دیکھتے ہیں کہ تو کامیاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اسی لیے رب ذوالجلال نے ایسے حالات پیدا کیے کہ مسلمان تنزلی کا شکار ہوا، اور مغرب و دیگر اقوام غالب آئی اور دنیاوی عروج حاصل کیا۔ نقل و حمل اور ایک دوسرے سے رابطہ کے وسائل کا اختراع کرنے میں اس نے کوئی کسر اور کمی نہیں چھوڑی، جس سے زندگی اور عیش کے ہر ممکن اسباب و سامان اس نے ایجاد کر لیے، طرح طرح کے آرام دہ اشیا، مکانات، کھانے پینے کی بہتات،ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے تیز سے تیز تر وسائل، علم، معلومات اور ایک دوسرے سے رابطہ کے ایڈوانس ذرائع بنا لیے، مگر ان سب کے بعد بھی نہ دنیا میں امن قائم ہو سکا اور نہ انسان کو چین و سکون کی نعمت میسرآسکی۔
تویہ بات ثابت ہو گئی کہ قلبی سکون،بل کہ ظاہری امن و امان بھی اسلام کو چھوڑ کر کسی بھی تہذیب کے پاس نہیں ہے۔ انسانی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے، تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ:
”جب جب بھی انسان نے انفرادی یااجتماعی زندگی میں اپنا رشتہ وحی کے ذریعے حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے بعد ان کے صحیح متبعین کے ساتھ مضبوط رکھا، یہ دنیا گلِ گلزار رہی اور جب بھی انسان نے اپنی ذات پر اعتماد کیا اور وحیِ الٰہی سے رشتہ کمزور کیا یا توڑ دیا، اس کے لیے دنیا جہنم بن گئ، چاہے اس کے پاس کتنا ہی مال و دولت، کتنی ہی عقل، کتنا ہی علم و تجربہ کیوں نہ رہا ہو۔ نمرود سے لے کر فرعون، ہامان، قارون، شداد، ابو جہل، قیصر و کسریٰ، صلیبی، ہلاکو، تاتاری،صیہونی اوردورِ جدید کے بُش، کلنٹن، ٹونی بلیر، اوباما، ٹرمپ، بائیڈن، نتن یا ہو، سوفسطائی فلاسفہ اور جدیدیت و ما بعد جدیدیت کے سائنس داں، سب ضلالت وگمراہی کے دلدل میں پھنسے رہے۔
قرآنِ کریم نے اس بارے میں بڑی جان دار تعبیر استعمال کی ہے:
(وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ)۔
کبھی کہا: (لَعَمْرُکَ اِنَّہُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُوْنَ)۔
کبھی کہا: (وَیَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ)۔
قرآنِ کریم کے اسلوب ِبیان،تعبیرات اور حقائق پر ہزاروں جان قربان،قرآن سرکشوں کے لیے چند الفاظ استعمال کرتا ہے،جو ہو بہوان پر صادق آتے ہیں۔
طغیان۔سکرۃ۔یعمہون
”طغیان“ کے معنیٰ سرکشی۔”یعمہون“ کے معنیٰ دل اور باطن کا اندھا پن۔”سکرۃ“کے معنیٰ نشہ۔
آج بھی آپ ان طاغوتوں میں یہ اوصاف بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔خیر اگر ان آیات پر کلام کیا جائے،تو مضمون بہت طول پکڑ جائے گا،پھر کسی موقع پر ان شاء اللہ۔
عصر جدید کے چیلنجز،ماہرین و مفکرین کے نقطۂ نظر سے:
بنی نوعِ انسان کو مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہر زمانے میں رہا ہے، جن کو حل کرنے کے لیے دنیا کے ہر خطے اور ہر عہد میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی اور رسول بھیجے، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ مکمل ہو گیا اور انسانوں کی رہنمائی کے لیے کتاب وسنت کو رہتی دنیا تک کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ اب جو بھی مسائل اور چیلنجز در پیش ہوں گے، ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں پیش کرنا علمائے امت کی ذمہ داری ہے۔
(عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز:۷)
اسلام دیگر مذاہب کی طرح مزعومات کامذہب نہیں ہے؛ بلکہ عقلی مذہب ہے۔ جس میں عصر حاضر کے چیلنجز کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔(عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز:۹)
عصر حاضر میں اسلام کو جو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں، ان کو’اسلام‘ کا چیلنج کہیں یا مسلمانوں کا؟ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، تو اس کی تعلیمات تو ابدی و آفاقی ہیں، جو ہمارے سامنے موجود ہیں اور بقول ڈاکٹر مراد ہوف مین اس وقت دنیا میں اسلام ہی الٹرنیٹو ہے، جس کا اظہار انہوں نے اپنی مشہور تصنیف”Islam the only altemate“ میں کیا ہے۔ حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں، جو صورت ِحال ابھر کر سامنے آرہی ہے اور جس طرح کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل انسانیت کے سامنے آئے دن پیش آرہے ہیں، ان کے حل کی صلاحیت کسی بھی نظریے اور مذہب میں نہیں ہے، تو یہ بات بالکل طے ہے کہ مستقبل اسلام کاہے اور یہ بات بھی طے ہے کہ چیلنج اسلام کے سامنے نہیں؛ بلکہ حاملین اسلام کے سامنے ہے۔ دراصل یہ تمام چیلنجز ہمارے لیے ہیں؛ تا کہ معلوم ہو سکے کہ عصر حاضر میں اسلامی تعلیمات کوپیش کرنے میں ہم کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یعنی اہم مسئلہ یہ ہے کہ حاملین اسلام جو ہیں وہ دنیا کے سامنے کس طرح سے اپنے آپ کو پیش کریں کہ ان کی بات پراعتماد ہو، اعتبار ہو اور وہ اس فریضے کو بحسن وخوبی ادا کر سکیں، جو اُن پر عائد ہوتا ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ اور وہ کامیاب اور مناسب بھی ہے یا نا مناسب اور ناکام؟ کیوں کہ عصر حاضر میں اسلام کے لیے جو چیلنجز در پیش ہیں،وہ ہر لحاظ سے بہت زیادہ ہیں اور اسی لحاظ سے امکانات بھی بہت ہیں۔
(عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز:۵۱تا۶۱)
عصر حاضر میں اسلام کو در پیش چیلنجز:
عصر حاضر میں اسلام کو در پیش چیلنجوں کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے عصر حاضر کو سمجھناضروری ہے۔ چیلنجوں اور مسائل کے حوالے سے عصر حاضر کو دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آج کے علاوہ آنے والے کل کو بھی یعنی قریبی مستقبل کو بھی دیکھا جائے۔ اس حوالہ سے جب ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور معمولی تبدیلیوں کا دور نہیں ہے بلکہ بہت بڑی،دور رس، ہمہ گیر اور تیز رفتار تبدیلیوں کا دور ہے۔
ا- عصر حاضر کی کچھ انقلاب آفریں خصوصیات
گزشتہ چند صدیوں سے دنیا کے حالات پر ٹکنالوجی کا بڑا گہرا اثر ہے۔ تمدن اور تمدنی احوال ہی نہیں بلکہ افکار ونظریات اور سیاسی و معاشی فلسفے بھی ٹکنالوجی کے ذریعہ ہونے والی تمدنی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی ایک ایسے تمدن کی پیداوار تھی، جو بھاپ کے انجنوں، تیل کے کارخانوں اور ٹیلی ویژن و ٹیلی فون کی ایجادات کے ذریعہ وجود میں آیا تھا۔ عصر حاضر کی ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹکنالوجی اور بایو ٹکنالوجی ہے۔ اس انفوٹیک اور بایوٹیک انقلاب کے نتیجہ میں ایک بالکل نئی دنیا پیدا ہو رہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی، اس نئی دنیا اور اس کی ترقیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی،اس کے لیے ایک نئے نظام، نئے اصولوں اور قدروں کی ضرورت ہے۔
بایوٹیک اور انفوٹیک کے امتزاج کے نتیجہ میں آنے والا انقلاب ایک ہمہ گیر انقلاب ہوگا۔ اندازہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی تبدیلیاں، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور ہمہ گیر ہوں گی جو صنعتی انقلاب نے پیدا کی تھیں۔ صنعتی انقلاب نے انسانوں کو فطرت اور فطری وسائل پر غیر معمولی کنٹرول عطا کیا تھا؛جبکہ بایوٹیک اور انفوٹیک انسانوں کے اندرونی نظاموں پر کنٹرول فراہم کر رہے ہیں؛ حتی کہ انسانی خیالات کو مشینوں کے زیر سایہ لا رہے ہیں۔ ہم بہت تیزی سے ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں بگ ڈاٹا Big Data سب سے بڑی تمدنی قوت بن جائے گا۔ اور ایک ایک انسان کی ایک ایک لمحہ نگرانی (surveillance)، اور اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت فراہم کرے گا، جہاں حکمرانی اور بڑے فیصلے الگورتھم کریں گے اور اس کے نتیجہ میں الگو کریسی (Algocracy) بلکہ اس سے آگے بڑھ کرالگورتھمک ڈکٹیٹر شپ (Algorithmic Dictatorship) کی راہیں ہموار ہوں گی، جہاں آگمینٹیڈ ریالٹی (Augmented Reality) کا انقلاب میڈیا کو انسانی افکار و خیالات بلکہ تصورات پر تک غیر معمولی کنٹرول فراہم کرے گا، جہاں بلاک چین (Block Chain) مالیات، سارے مالیاتی نظاموں اور لین دین کے تمام معروف طریقوں کو درہم برہم کر کے رکھ دے گی اور جہاں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی حامل مشینوں پر انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا قدم منحصر ہوگا۔ اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ اس نئی دنیا میں، دور جدید کی، یعنی صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہونے والے دور کی ہر چیز غیر متعلق ہوتی جارہی ہے، جن لوگوں کی ٹکنالوجی کے ان انقلابات پر نظر ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صورت ِحال بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سی تبدیلیاں پہلے ہی کافی آگے بڑھ چکی ہیں اور جانے انجانے ہم سب کی زندگیوں پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ آزادی، جمہوریت، ملکوں کی خود مختاری، پرائیویسی اور اس جیسی بے شمار قدریں، جنہوں نے بیسویں صدی پر حکومت کی تھی، اور جن پر جدید انسان کو فخر تھا، اب تیزی سے ٹکنالوجی کی حرارت میں تحلیل ہوتی جا رہی ہیں۔ صنعتی انقلاب نے ماحولیاتی بحران پیدا کیا تھا۔ یہ بحران آج بھی انسانیت کا سنگین مسئلہ ہے،لیکن اب جبکہ ٹکنالوجی کی رسائی انسانی دماغ، انسانی اعصاب اور انسانی نفس کے انتہائی اندرون تک ہونے لگی ہے، اس کے نتیجہ میں انسانیت کا ما حولی نظام (ecosystem) کس بحران سے دو چار ہو گا؟ اس کا تصور کرنا بھی آج ممکن نہیں ہے۔
ان حالات میں بے شک دنیا کو ایک نئے نظام اور نئے اقدار کی ضرورت ہوگی۔ مستقبلیات کے ایک مشہور ماہر ’یوال نو ہیراری‘ کی مشہور کتاب اکیسویں صدی کے اکیس سبق (Lessons for the 21st Century 21) کے پہلے باب کا عنوان ہے، مایوسی (Disillusionment)۔ مصنف نے گزشتہ صدی کے احوال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے دنیا کے حالات تین بڑے عالمی نظریات (Stories Grand) کی کشمکش سے عبارت تھے، یعنی فسطائیت (ایک قوم کے غلبہ کا نظریہ)، کمیونزم
(معاشی مساوات کا نظریہ) اور لبرلزم (آزادی اور جمہوریت) دنیا میں اپنی بالا دستی کی لڑائی میں مصروف تھے۔ اس طرح۹۳۹۱ء میں تین نظریات دنیا پر حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد فسطائیت دنیا کے اسٹیج سے غائب ہوگئی۔ اور۹۶۹ ۱ء میں صرف دو نظریات باقی رہ گئے۔ ۱۹۹۱ء کے آتے آتے کمیونزم بھی غائب ہو گیا اور صرف لبرل ڈیموکریسی باقی رہ گئی اور تاریخ کے خاتمہ کی پیش گوئی کی جانے لگی؛ لیکن۸۰۰۲ء کے مالیاتی بحران اور۶۱۰ ۲ء میں ٹرمپ کے انتخاب اور بریگزٹ وغیرہ جیسے واقعات نے بالآخر لبرل ڈیموکریسی کو بھی دنیا کے اسٹیج سے رخصت کر دیا ہے اور۹۱۰۲ء کے آتے آتے یہ صورت حال بن گئی کہ دنیا سے سارے عالمی نظریات رخصت ہو گئے اور دنیا ایک نئے عالمی نظریہ کی تلاش میں ہے۔
نئے عالمی نظریہ میں مذہب کا رول:
یہ نیا عالمی نظریہ کیا ہوگا؟ اس کے سلسلے میں کم از کم یہ بات اب بڑے پیمانہ پر تسلیم کی جانے لگی ہے کہ اس کی تشکیل میں مذہب اور مذہبی قدروں کی اہمیت بہت زیادہ ہو جائے گی۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے چند سال قبل کہا تھا کہ اکیسویں صدی کی دنیا میں مذہب اور مذہبی عقیدہ کی وہی مرکزی اہمیت ہوگی، جو بیسویں صدی میں سیاسی نظریات کی تھی۔ اور یہ کہ آج کی دنیا کو جن قدروں کی ضرورت ہے، وہ مذاہب ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
”Religious faith will be of the same significance to the 21st Century as political ideology was tothe 20th Century,”
بین الاقوامی امور کے ماہر مشہور مصنف اور دانشور اسکاٹ ایم تھا مس نے اپنی شہرہئ آفاق کتاب The Global Resurgence of the Religion میں دعویٰ کیا ہے کہ مذہب اور مذہبی عقیدہ اکیسویں صدی کے عالمی نظام کی روح (Soul World) ہوگا اور یہ کہ بیسویں صدی’آخری جدید صدی‘ (Century The Last Modern)ثابت ہوگی، یعنی وہ نظریات جنہوں نے صنعتی انقلاب کے بعد کے جدید دور پر حکومت کی تھی اکیسویں صدی میں غیر متعلق ہو جائیں گے۔
یہ دو حوالے ہم نے بطور نمونہ نقل کیے ہیں، اس طرح کے متعدد حوالے نقل کیے جاسکتے ہیں۔ ہر شعبہئ حیات میں اب مذہب، مذہبی عقیدہ اور مذہبی قدروں کی ضرورت کوشدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے۔ جس نئی دنیا کی طرف ہم تیزی سے بڑھ رہے ہیں، گہری روحانیت اور مضبوط مذہبی بنیاد کے بغیر اس دنیا کا چلنا بالکل ناممکن ہو گا۔
ایک طرف مذہب کی یہ بڑھتی ہوئی اہمیت ہے اور دوسری طرف مختلف عالمی مذاہب کا تیز رفتار زوال ہے۔ اس زوال کے تجزیہ کا اس وقت موقع نہیں ہے، لیکن اس بات کے متعدد شواہد موجود ہیں کہ مختلف عالمی مذاہب نے گذشتہ صدیوں میں جدیدیت اور جدید مغربی تہذیب کے آگے سپر انداز ہو کر اپنی روح کھودی ہے۔ اب میدان میں یا تو اسلام ہے یا مختلف نیم مذہبی روحانی فلسفے اور تحریکیں۔ اسلام جدیدیت کے طوفان کے سامنے بھی اپنے واضح عقائد اور نہایت پائیدار بنیادوں کی وجہ سے ٹکار ہا۔ گذشتہ صدیوں میں اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے بنیاد پرستی کی تہمت کا سزاوار بھی ہوا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آج اسلام کی یہی خصوصیت اس کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہو رہی ہے۔ اور جیسے جیسے اکیسویں صدی کے پر پیچ احوال انسانی زندگی کونت نئے چیلنجوں سے دوچار کریں گے، اسلام کا یہ ثبات، دنیا کی بڑی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان فراہم کرے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔ یہ صورت حال اہل اسلام کے لیے ایک بڑے موقع کی بھی حیثیت رکھتی ہے اور ایک بڑے چیلنج کی بھی۔
اسلام کی قدریں اور ان کی کشش: خاندانی نظام بطور مثال:
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدریں، سماجی اور تاریخی روایات کی نا پائیداربنیادوں پر کھڑی ہوئی نہیں ہیں۔ یہ بنیادیں کتنی ہی مضبوط ہوں، جدید تہذیب اور استعمار کے طاقتور ہتھکنڈوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اسلام کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پررکھی گئی ہیں۔ قریبی زمانہ میں اس کی ایک نمایاں مثال خاندان اور خاندانی زندگی ہے۔ مغربی دنیا میں، مردوزن کے درمیان غیر فطری مساوات کی کوششوں نے سب سے زیادہ خاندان کے ادارہ کو تباہ کر دیا۔ خاندان کی تباہی نے سماجی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالا۔ اور دنیا بھر کے معاشرے اس طوفان سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے، تو اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس معاشرہ کی قدیم روایتیں اس کا تقاضہ کرتی ہیں؛ بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ خدا کے احکام ہیں، جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ پختہ ایمان ہی اس طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرسکتا ہے، جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے روایتی ڈھانچوں کو ملیامٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اب خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ، اسلام ہی بچی ہوئی ہے۔
ایک طرف یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف مختلف وجوہ سے موجودہ دنیا میں خاندان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے؛ چنانچہ اسلام کا خاندانی نظام بہت سے لوگوں کے لیے زبر دست کشش کا باعث ہے، تو اسلام مخالف طاقتوں کے لیے اسلام سے خوف کا بھی ایک اہم سبب ہے۔ مشہور نومسلم دانشور’مراد ولفریڈ ہافمین‘ نے اپنی فکر انگیز کتاب
Religion on the Rise:Islam in the Third Millenium
میں بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ خاندانی نظام اور خاندانی قدریں اسلام کی بہت بڑی طاقت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی۔
چند سال پہلے کیمرج یونیورسٹی کے سینٹر فار اسلامی اسٹڈیز نے ایک دلچسپ اسٹڈی کی تھی۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے انٹرویو کیے اور وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ چنانچہ یہ
اسٹڈی مکمل ہوئی اور مارچ 2013 میں اس کی تہلکہ مچادینے والی رپورٹ:
Narratives of Conversion to Perspective Islam:Female
کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں ان اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین نے قبول ِاسلام کے جو اسباب گنائے، ان میں سے بیشتر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔ مئی۷۱۰۲ء میں نیو یارک ٹائمز نے خاندان سے متعلق مطالعات کے ایک اہم ادارہ کے حوالہ سے سروے کی رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق امریکہ میں اب نئینسل یعنی ۷ اسال سے۴ ۳ سال کے درمیان کی عمر کے افراد (Millenials) روایتی صنفی رول کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے قبل کی نسلوں میں فیمینسٹ تصورات مقبول تھے، لیکن اب نئی نسل کے امریکی، خاندان کے روایتی تصور کی طرف تیزی سے پلٹ رہے ہیں۔
اس وقت خاندان اور خاندانی قدریں، دنیا بھر میں موضوع ِبحث ہیں۔ جدیدیت نے خاندان کے ادارہ کا استخفاف کیا تھا، اب خاندان کی ضرورت کا انکار ممکن نہیں رہا، لیکن خاندان کے نام پر ایسے رجحانات کی ہمت افزائی کا سلسلہ برابر جاری ہے، جو خاندانی نظام کے لیے سم قاتل ہیں۔ بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ اور لیوان ریلیشن کے خاندان، گے اور لیسبین خاندان، جس میں ایک ہی جنس کے جوڑے بچوں کو گود لے کر نام نہاد خاندان کی تشکیل کرتے ہیں، یہ سب رجحانات بھی خاندانی ادارہ کے خاتمہ ہی میں مدد دینے والے ہیں۔
(عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز:۹۱ تا ۵۲)