وقف شدہ املاک کی فروخت کا شرعی حکم

            کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میںکہ

سوال (۱):           ایک مکان جو زید نے مسجد کے لیے وقف کیا ہے، جو کہ اوپن اسپیس کی جگہ ہے ۔

سوال (۲):           دو سر امکان جو مسجد کو وقف ہوا ہے وہ لیڈی کیشن کی ہے۔

سوال (۳) :          چار کھولیاں جو B1، B2 کلیکٹر پٹے کی جگہ پر بنی ہے اور لیڈی کیشن کی جگہ پر ایک کھولی ہے، جو ایک سوسائٹی والوں نے مسجد کے لیے وقف کی ہے ان سب کا کرایہ مسجد میں آتا ہے۔

            ان تمام مذکورہ بالا ملکیتوں کو بیچ کر دوسری جگہ لینا چاہتے ہیں مسجد کے ذمہ داران کوئی اور کاروبار کرنا چاہتے ہیں، یہ جگہ اب خالی نہیں ہوسکتی اور اگر گورنمینٹ خالی کراتی ہے تو اس کی جگہ دوسری جگہ ملے گی ایسا کارپوریٹر کا کہنا ہے، ذمہ داروں نے مفتی صاحب سے اس تعلق سے جواب لیے ہیں۔ کہ یہ تمام ملکیت وقف کرنے والوں کی ملکیت نہیں ہے، بل کہ غیر قانونی جگہ ہے وہ اس کے مالک نہیں ہے اور وقف ہونے کے بعد مسجد کی ملکیت نہیں ہے، اس کو فروخت نہیں کر سکتے، ہاں اس کا کرایہ لے سکتے ہیں، یا اپنے مصرف میں رکھ سکتے ہیں۔ لیکن مسجد کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ہم اس کی ملکیت کا(املا) فروخت کر رہے ہیں جگہ نہیں، املے کی قیمت پچاس ہزار سے ایک لاکھ ہو سکتی ہے اور تمام املاک کی قیمت کم از کم ۴؍ لاکھ سے ۷؍ لاکھ تک بھی ہو سکتی ہے۔ املے کی قیمت تو جگہ کے ساتھ ہی زیادہ آئے گی۔ بغیر جگہ کے اتنی قیمت کیسے ملے گی، ذمہ داران چور راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

ایسی صورت میں املاک بیچنا کیا جائز ہے؟ یانا جائز؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

فقط والسلام 

الجواب وباللہ التوفیق

            صورتِ مسئولہ میں مسجد کے لیے وقف کیے گئے مکانات اور کھولیاں سرکاری زمین پر بنی ہوئی ہیں، اس لیے ان زمینوں کا وقف درست نہیں ہے، کیوں کہ وقف کے درست اور صحیح ہونے کے لیے واقف کا موقوفہ شئ کا مالک ہونا ضروری ہے (۱) البتہ سرکاری زمین پر بنے ہوئے مکانات اور کھولیاں، وقف کرنے والے کی ملکیت ہیں اس لیے ان کا وقف جائز اور درست ہے (۲) اور جب تک موقوفہ چیز سے انتفاع (فائدہ اٹھانا) ممکن ہو اسے تبدیل کرنا یا اسے بیچ کر اس کی قیمت دوسرے کام میں استعمال کرنا شرعاً درست نہیں ہوتا ہے (۳) لہٰذا جب تک ان مکانات اور کھولیوں سے انتفاع (فائدہ اٹھانا) ممکن ہے، انہیں بیچ کر دوسری جگہ لینا یا انہیں بیچ کر ان کی قیمت کسی کا روبار میں لگانا شرعا جائز و درست نہیں ہے۔ (۴)


والحجۃ علی ما قلنا

            (۱) ما فی ’’التنویر مع الدر والرد‘‘: (وشرطہ شرط سائر التبرعات) کحریۃ وتکلیف۔

            وفی الشامیۃ: قولہ: (وشرطہ شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد ان یکون مالکہ وقت الوقف ملکا باتا ولو بسبب فاسد۔ (۶/۵۲۳؍ کتاب الوقف، مطلب قد یثبت الوقف بالضرورۃ)

            (۲) ما فی ’’التنویر مع الدر والرد‘‘: (بنی علی أرض ثم وقف البناء) قصدا (بدونہا أن الارض مملوکۃ لا یصح، وقیل صح وعلیہ الفتوی) سئل قارئ الہدایۃ عن وقف البناء والغرس بلا أرض؟ فأجاب: الفتوی علی صحتہ ذلک، ورجحہ شارح الوہبانیۃ وأقرہ المصنف معللاً بانہ منقول فیہ تعامل فیتعین بہ الإفتاء – وفی الشامیۃ: قلت: لا یخفی علیک أن المفتی بہ الذی علیہ المتون جواز وقف المنقول المتعارف، وحیث صار وقف البناء متعارفًا کان جوازہ موافقا للمنقول، ولم یخالف نصوص المذہب علی عدم جوازہ لأنہا مبنیۃ علی أنہ لم یکن متعارفا، کما دل علیہ کلام الذخیرۃ المار۔ (۶/۵۹۰،۵۹۱؍ کتاب الوقف، مطلب فی وقف البناء بدون الأرض)

            (۳) ما فی ’’رد المحتار‘‘: واعلم أن عدم جواز بیعہ إلا إذا تعذر الانتفاع بہ انما ہو فیما إذا ورد علیہ وقف الواقف۔ (۶/۵۷۴؍ کتاب الوقف، مطلب فی الوقف إذا خرب ولم یکن عمارتہ)

            (۴) ما فی ’’رد المحتار‘‘: مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ  (۶/۶۶۵؍ کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ الخ) فقط

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ العبد: محمد جعفر ملیؔ رحمانیؔ

۱۸؍۶؍۱۴۴۶ھ

فتوی نمبر:۱۲۶۸