محمد انور داوٴدی / ایڈیٹر ” روشنی “ اعظم گڑھ
قارئین کرام !
آزاد ہند وستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حا مل ہیں :ایک ۱۵/اگست جس میں ملک انگریزوں کے چنگل سے آزادہوا ۔دوسرا ۲۶/جنوری جس میں ملک جمہوری ہوا،یعنی اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون لا گو او رنافذہوا ۔اپنا قانون بنانے کے لیے ڈا کٹربھیم ر اوٴامبیڈکرکی صدارت میں ۲۹ /اگست ۱۹۴۷ /کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کو ملک کا موجودہ قانون مرتب کرنے میں ۲/ سال ۱۱/ماہ اور ۱۸ /دن لگے۔ دستور سازا سمبلی کے مختلف اجلا س میں اس نئے دستور کی ہرشق پرکھلی بحث ہوئی ؛پھر ۲۶ /نومبر۱۹۴۹ء/کواسے قبول کرلیاگیا اور ۲۴/ جنوری ۱۹۵۰ /کوایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پردستخط کردیا؛البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوے دستورکے ڈرافٹ پرایک نوٹ لکھا کہ:
”یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجرا اور تو سیع ہے، جس سے آزاد ہند ستانیوں اور آزادہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ “
بہر حال ۲۶/جنوری ۱۹۵۰/کو اس نئے قانون کولاگو (نافذ) کرکے پہلایومِ جمہوریہ منایا گیا، اس طرح ہر سال۲۶/جنوری ”جشن جمہوریت کے عنوان سے منایاجانے لگا اور ۱۵/اگست ۱۹۴۷/کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کا قومی ا ور یادگاری دن بن گئی۔ (یہ تو ۲۶/جنوری کی بات ہوئی اب آئیے یہ سمجھیں کہ اس روز جمہوریت کے نام پر جشن کیوں مناتے ہیں ۔
قارئین کرام !بہاراور جشن کا یہ دن ایک دوانگلی کٹا کر نہیں ملا ،ایک دوسال احتجاج کرکے نہیں ملا اگر آپ ۱۸۵۷/کی بغاوت سے تاریخ کا حساب کریں گے تب بھی ۱۹۴۷/تک ۹۰/سال بنتے ہیں ،یہ سچ ہے کہ ۱۸/ ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے انگریزوں کو عروج ملا، مگر انگریزوں کا پہلا جہاز ۱۶۰۱/ میں دور جہانگیری میں ہی آچکا تھا ،اس حساب سے ہند وستا ن جنت نشان سے انگریزوں کا ا نخلاء ۱۹۴۷/میں ۳۴۶/سال بعد ہوا، اس دور ان ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی؛ جس کا ہر صفحہ ہند وستانیوں کے خون سے لت پت ہے، جذبہٴ آزادی سے سرشاراور سرپرکفن باندھ کروطنِ عزیزاوراپنی تہذیب کی بقاء کیلئے بے خطرآتش ا فرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان صف اول میں تھے۔ جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانی الگ کردیں تو ہندوستان کبھی آزادنہ ہوگا ،تاریخ آزادی ھند کے ساتھ انصاف نہ ہو گا ۔
آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑامسئلہ یہ اٹھا کہ ملک کا دستور کیسا ہو؟مذہبی ہویالامذہبی آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نا فذکرانے میں جمعیت علمائے ھند کارول نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ،جمعیت کے ناظم عمومی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستو رسازا سمبلی، ا قلیتوں کو مراعات ولا نے میں نمایاں حصہ لیا؛ چناں چہ آئین ہند کے ابتدائی حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہے کہ:
”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیاایک آزاد سماجوادی جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجودمیں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادیٴ خیال، اظہارِرائے، آزادیٴ عقید ہ ومذہب وعبادات، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنا یاجائے گا اور ملک کی سا لمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکھاجائے گا“۔ ۱۹۷۱/میں اندراگا ندھی نے وستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ” سیکولر“کا اضافہ کیا ۔
ہندستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے اس میں مختلف ا فکا روخیا لات اور تہذیب وتمدن کے لوگ بستے ہیں اور یہی تنوع اورر نگارنگی یہاں کی پہچان ہے ۲۶/جنوری کواسی مساوی دستوروآئین کی تائید میں اورکثیرالمذہب کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پرنازکرنے کے لئے، جشن جمہوریت اور یومِ جمہوریت مناکرشہیدانِ ملک اور آیئن کے بانیین ومرتبین کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے ؛لیکن قارئین جشن ِجمہوریت کی یہ بہاریونہی نہیں آئی ہند ستان میں جمہوری نظام لانے اور انگریزی تلسط ختم کرنے کی جدوجہدبڑی طویل ہے ۔
آزادی کا یہ سفر کوئی آسان نہیں تھا، داستان حریت بڑی دلدوزہے، میں مختصرًا احاطہ کرنے کی کوشش کرتاہوں ۔(میں نے اپنے قلمی رسالہ روشنی میں تفصیلی گفتگوکی ہے ۔محمد انورداوٴدی)
۱۴۹۸/میں پرتگال (یورپ ) والے ایک عربی ملاح ”وا سکوڈ ی گاما“ کی مدد سے پہلی مرتبہ بحری راستے سے ہندوستان پہنچے اور کلکتہ سے اپنی تجارتی سرگر میوں کاآغازکیا اور ایک عرصے تک خوب منافع کمایا؛ انکی دیکھاد یکھی یورپ کے دوسرے ممالک مثلاہالینڈاور انگلستان والوں نے بھی ہندوستانی دولت لوٹنے کا پلان تیارکیا ؛چنانچہ انگلستان کے ۱۰۱/تاجروں نے ۳۰/ہزارپونڈ(انگریزی روپیہ )جمع کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک کمپنی بنائی اور ۱۶۰۱/میں انکا پہلاجہازہندوستا ن آیا۔
اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاہ کی حکومت تھی (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تھا اس کا اصل نا م سلیم نور الدین اور لقب جہانگیر تھا ) اس نے انگریزوں کا خیر مقدم کیا، لیکن انگریزوں کو باقاعدہ تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاہ خرم(شاہجہاں)نے دی۔ رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑمیں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا(یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑ میں فوجیوں کی آمد) لیکن مرکز میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تھی کہ انگریزوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اور رنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی ،اٹھارہویں صدی میں مغلیہ سلطنتِ عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی طوائف الملوکی کا دور شروع ہوگیا ۔عیار اور شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضے کا پلان بنالیا، ہندوستانیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ نے کا منصوبہ طے کرلیا ان کے خطرناک عزائم او رمنصوبے کو بھاپ کر سب سے پہلے پلاسی میں، جس مرد مجاہد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور ۱۷۵۷/ میں جام شہادت نوش کیا وہ شیر بنگال نواب سراج الدولہ تھا، پھر ۱۷۹۹ء میں سرنگا پٹنم میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور سلطان ٹیپو نے ملک پر جان قربان کردی، جس کی شہادت پر انگریز فاتح لارڈہارس نے فخر ومسرت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ آج ہندوستان ہماراہے۔ واقعةً ان کے مقابل اب کوئی اور نہیں تھا دہلی تک راستہ صاف تھا، ۱۸۰۳ء میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہِ وقت” شاہ عالم ثانی“ سے جبراًایک معاہدہ لکھوایاکہ ”خلق خدا کی ، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا“ یہ بات اس قدر عام ہوگئی کہ لوگ کہنے لگے” حکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم“ ۔
یہ معاہدہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکاہے، وحشت وبر بر یت ، ظلم وستم کی گھنگھو ر گھٹائیں پوری فضاکو گھیر چکی ہے، وطنی آزادی اور مذہبی شناخت ان کے رحم وکرم پر ہوگی، ایسے بھیانک ماحول اور پر فتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث کے بیٹے شاہ عبدالعزیز دہلوی نے پوری جرأت وبیباکی کے ساتھ فتویٰ جاری کیا کہ ہندوستان دارالحر ب ہے یعنی اب ملک غلام ہوچکا؛ لہذا بلاتفریق ِمذہب وملت ہر ہندوستانی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے۔
ان کے فتوی کی روشنی میں علماء کھڑے ہوئے ،سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمة اللہ آگے بڑھے ،پورے ملک کا دورہ کرکے قوم کو جگایا اور ہر طرف آزادی کی آگ لگادی اور۱۸۳۱ء کو بالا کوٹ کی پہاڑی پر لڑکر جامِ شہادت نوش کیا ۔دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف ماحول بننے لگا ،انگریزوں کے مظالم کوئی ڈھکے چھپے نہ تھے ،چنانچہ ”میلکم لوئین“ جج عدالتِ عالیہ مدراس وممبر کو نسل نے لند ن سے اپنے ایک رسالہ میں ظلم وبربریت پر لکھا تھا:
”ہم نے ہندوستانیوں کی ذاتوں کو ذلیل کیا، ان کے قانونِ وراثت کو منسوخ کیا ،بیاہ شادی کے قاعدوں کو بد ل دیا ،مذہبی رسم ورواج کی توہین کی ،عبادت خانوں کی جاگیر یں ضبط کرلیں ،سرکاری کاغذات میں انھیں کافرلکھا ،امراء کی ریا ستیں ضبط کر لیں ،لوٹ کھسوٹ سے ملک کو تباہ کیا ،انھیں تکلیف دے کر مالگزاری وصول کی ،سب سے اونچے خاندانوں کو برباد کر کے انہیں آوارہ گردبنادینے والے بندوبست قائم کئے “(مسلمانوں کا روشن مستقبل ص،۱۱۰)
۱۸۵۷ء میں پھر دہلی کے چونیتس علما نے جہاد کا فتوی دیا، جس کی وجہ سے معرکہ کارزارپھرگر م ہوگیا:
دوسری طرف انگریز ی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تھی اور ہندوستان سے مذہبی بیداری وسرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بے شمار عیسائی مبلغین (پادری )کومیدان میں اتاردیا تھا ؛جسے انگریزی فوج کی پشت پناہی حاصل تھی ،جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے؛ اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت نے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لیے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا برادہ ملا دیا ہے۔کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوادیا ہے ،ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک آگ لگادی،ان کی ان مذہب مخالف پالیسیوں کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازم ہندومسلم سب نے زبردست احتجاج کیا۔کلکتہ سے یہ چنگاری اٹھی اور دھیر ے دھیرے بارک پور،ا نبالہ، لکھنوٴ ،میرٹھ، مرادآباد اور سنبھل وغیرہ تک پہنچتے پہنچتے شعلہ بن گئی۔ احتجاج کر نے والے سپاہی اور انقلابی منگل پانڈے اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی اور جہاں جہاں احتجاج ہوااس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت قوانین بنادئے گئے، احتجاججیوں کی بندوقیں چھین لی گئیں ، وردیاں پھاڑ دی گئیں ۔
دوسری طرف ۱۸۵۷ء میں ہی جب کہ ہر طرف بغاوت کی لہر پھوٹ چکی تھی، لوگ ادھر ادھر سے آکر حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی قیادت میں انگریزوں سے مقابلہ کے لیے بے تاب تھے، بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا منیر وحافظ ضامن شہید رحمہم اللہ بطور خاص حاجی صاحب کی قیادت میں شاملی کے میدان میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔
جگہ جگہ بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر انقلابی فوجیوں نے دہلی کا رخ کیا اور جنرل بخت خان کے ساتھ مل کر پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے ۔ نانا صاحب ، تاتیا ٹو پے ، رانی لکشمی بائی، رانا بینی، مادھو سنگھ وغیرہ بھی پیش پیش تھے ، مگر انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے بغاوت ناکام ہوگئی اور انگریزوں نے ۲۰/ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو لال قلعہ پر باقاعدہ قبضہ کرلیا اور سلطنت مغلیہ کے آخری چراغ بہادر شاہ کو گرفتار کرکے رنگون(برما) جلاوطن کردیا گیا ۔
قارئین کرام! ستاون کی بغاوت جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیاتھا ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم وستم کی جو بجلیاں گرائی ہیں (الامان و الحفیظ) چوں کہ مسلم عوام اور علماء صف ِاول میں تھے ،اس لیے بدلہ بھی ان سے خوب لیا گیا۔ مولویت بغاوت کے ہم معنی قراردے دی گئی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ لمبی داڑھی اور لمبے کرتے والے جہاں ملیں تختہٴ دار پر چڑھادیا جائے ، قتل وپھانسی کا یہ سلسلہ تقریباً دو ہفتہ چلتا رہا، ایک ہندوموٴرخ میو ارام گپت کے بقول : ایک اندازے کے مطابق ۱۸۵۷ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ایڈور ڈٹائمس کی شہادت ہے کہ صرف دہلی میں ۵۰۰/ علماء کوتختہٴ دار پر لٹکا یا گیا (ابھی تک گاندھی جی یا کانگریس کا وجود نہیں ہے کیو ں کہ گاندھی جی ۱۸۶۹ میں پید اہوئے تھے )۔ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء کو اکابرین ِامت اور یہی بچے کھچے مجاہدین نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جوآگے چل کر دارالعلوم دیوبند کے نام سے مشہور ہوا۔ ۱۸۷۸ء میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی نے (جو آگے چل کر شیخ الہند کے نام سے مشہور ہوئے انگریزوں کے لیے مسلسل درد سر بنے رہے)۔
”تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الہند “بزبان حکومت برٹش ”ریشمی خطوط سازش کیس“انھیں کی پالیسی کا حصہ تھی )”ثمرة التربیت “کے نام سے ایک انجمن قائم کی جس کا مقصد انقلابی مجاہد ین تیارکرنا تھا ۔
۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالی گئی، کچھ عرصہ کے بعد لوک مانیہ بال گنگا دھرتلک نے ”سوراج ہماراپیدائشی حق ہے “کانعرہ بلند کیا اور ۱۹۰۹ء میں ”جمعیةالانصار“کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی، جس کے پہلے ناظم مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے اور ۱۹۱۱/یا ۱۲/میں مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ سے” الہلال“ اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پھو نکا۔
۱۹۱۵ء میں ریشمی روما ل کی تحریک چلی ،۱۹۱۶ء میں ہندومسلم اتحاد کی تحریک چلی اور ۱۹۱۹ء میں دہلی میں خلافت کا نفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی جلسے میں باضابطہ ”جمعیةعلمائے ہند “کی تشکیل ہوئی، جس کے صدر مفتی کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے ۔
۱۹۱۹ء میں ہی امرتسر کے جلیاں والاباغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائر نگ سے ان گنت ہندومسلم کا خون بہا۔
۱۹۲۰ء میں حضرت شیخ الہند نے ترکِ موالات کا فتوی دیا، جسے مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد بہاری نے مرتب کرکے جمعیت کی طرف سے شائع کیا ۔
۱۹۲۱ء میں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ اعلان کیا کہ ”گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے۔ “
۱۹۲۲ء میں ہندومسلم اتحاد ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے شدھی اور سنگٹھن تحریکیں شروع کیں، جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات پھوٹے ۔
۱۹۲۶ء میں کلکتہ میں جمعیت کے اجلاس میں (جس کی صدارت مولانا سلیمان ندوی نے کی) مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئی ۱۹۲۹ء اور ۳۰/میں گاندھی جی نے ”ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہ گرہ (نمک سازی تحریک )“چلائی ۔
۱۹۳۵ء میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایا گیا۔
۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم چھڑگئی ۔
۱۹۴۲ء میں ”انگریزو ہندوستان چھوڑو “تحریک چلی،بالآخر برٹش سرکار جھکی اور۱۵/اگست ۱۹۴۷/کو ملک آزاد ہوگیا۔
المختصر ! وطن عزیز کو آزاد کرانے میں زبردست قربانیاں پیش کی گئی اور ظلم وبر بر یت کی ایک طویل داستان لکھی گئی ،جس کا ہر صفحہ ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کے خون سے لت پت ہے ۔ جذبہٴ آزادی سے سر شار او رسر پر کفن باندھ کر وطن ِعزیز او راپنی تہذیب کی بقا کے لیے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان صف اول میں تھے ۔
قارئین ! لیکن جانے میرے وطن کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے ،کچھ لوگوں کو یہاں کا میل جول ہند ومسلم اتحاد بالکل پسند نہیں ہے ؛حالاں کہ یہاں مختلف افکار وخیالات اور تہذیب وتمدن کے لوگ بستے ہیں اور یہی تنوع اورر نگارنگی یہاں کی پہچان ہے؛ چند فرقہ پرست عناصر ہیں جنہیں ملک کی یکتائی اور اس کا سیکولر نظام پسند نہیں وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا بالکلیہ ان کا صفایا کرنے یا ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے بے تاب ہیں ۔بڑ ے تعجب کی بات ہے جن کا جنگ آزادی میں کوئی رول نہیں، وطن کی تعمیر میں کوئی کردار نہیں بلکہ ان کے سروں پر باباے ٴقوم گاندھی جی کا خون ہو، جس کی پیشانی پر مذہبی تقدس کو پامال کرنے کا کلنک ہو اور جس کے سروں پر ہزاروں فسادات ، لاکھوں بے قصور انسانوں کے قتل اوراربوں کھربوں کی تباہی کا قومی گناہ ہو اس کے نظریات کی تائید کیسے کی جاسکتی ہے؟ اور کیا ایسے لوگوں کے ہاتھ اقتدار دیکر ملک کی بے مثال جمہوریت او رخوبصورت نظام کے با قی رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ جب کہ ملک اس وقت ایک تلخ تجربے سے گزر ہا ہے ۔عنقریب ملک بھر میں حتی کہ مدارس میں بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ ۷۱/ واں جشن جمہوریت منا یا جائے گا۔ اے کاش! آئین کے تحفظ اور جمہوری اقتدار کی بقا پر قسمیں کھائی جاتیں،نفرت بھر ے ماحول کو امن وبھائی چارے سے بدلنے کی بات کی جاتی، مساویانہ آئینی حقوق کو یقینی بنایا جاتا، ملک دشمن عناصر اور فکر کو پابند سلاسل کیا جاتا؟ اے کاش! گنگا جمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پر بریک لگائی جاتی، نانک وچشتی کے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کا عزم کیا جاتااور کیا کیا لکھو ۔میں چاہتاہوں علامہ کے اس شعر سے اپنے قلم کو سکون دوں #
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
(مضمون نگار کا یہ مضمون ۴ /سال قبل کا ہے اس وقت تو منظر ہی بدلا ہوا ہے،اور ہندستانی عوام ظلم کے خلاف ،ہندستان کے دشمنوں کے خلاف کھڑی ہوچکی ہے۔اور اس جمہوریت کے موقع پر ہم جمہوریت کو ختم کرنے والے عناصر کو مٹانے کا عزم لیں گے ،اس ملک کے آئین کے تحفظ کے لیے،ایک اور جنگ آزادی لڑنے کا عہد لیں گے ۔اب اس ملک کو ایک اور آزادی کی ضرورت ہے ،جو انہیں انگریزوں کے چمچوں سے لینی ہے۔)