(۲)اردوکاجنازہ ہے،ذرادھوم سے نکلے

تحریر:شفیع احمدقاسمی اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

فیصلہ؛ آپ کے ہاتھ میں:    

            قارئینِ گرامی!مذکورہ عنوان کی پہلی قسط کامطالعہ کرچکے ہیں۔اُس میں کہاں تک حقیقت کاآئینہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا گیاہے،اِس کادرست فیصلہ بھی آپ ہی کرسکتے ہیں۔کیوں کہ اپنافیصلہ سچائی کی تصویرلیے، اتنااہم اوراٹل نہیں ہوتا؛جتناکہ عوام کا ہوتا ہے ۔اگرمیں شاہ راہِ حیات کی پگڈنڈی پرچلتے ہوئے ایسا کرنے کی غلطی کروں تویہ ”اپنے منہ میاں مٹھو“بننے والی بات ہوجائے گی،اس لیے اِن باتوں کویہیں چھوڑکر آگے ہی بڑھتاہوں،تاکہ ہماری تحریری خرافات میں کسی صاحب کا قیمتی وقت خراب نہ ہو۔کیوں کہ وقت کی حفاظت بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں بہت ضروری ہے ۔

ایک سِکھ نے کہاتھا:

            بہرحال!اِس مختصرسی تمہیدکے بعدمیں ایک بارپھرآپ کی توجہ پیاری سے اردواور انگریزی کی دنیا میں لے جاکراُس کی سیرکرانا چاہتا ہوں،جس کی شروعات میں اُسی قول کاسہارالینے جا رہاہوں،جوکہ کسی سِکھ صاحب نے کہاتھا۔اردوزبان پراپناپیارلٹاتے ہوئے اُن کاخوب صورت جملہ یہ ہے کہ:” اردوزبان کے اندر جو حلاوت، چاشنی، شیرینی اورمٹھاس پائی جاتی ہے، وہ دنیا کی کسی اورزبان میں نہیں ہے “۔

حضرت ہردوئی کاملفوظ:

            ایک بارکوئی صاحب حضرت شاہ ابرارالحق ہردوئی کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورکہاکہ حضرت! بڑی پریشانی کے بعد”ریزرویشن“(Reservation) کراکے یہاں تک آیاہوں۔حضرت ہردوئی نے فوراً ہی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے آنے والے شخص سے فرمایاکہ ذرا آپ ہمیں ریزرویشن کے معنی توبتا دیجیے۔ اب وہ صاحب اِدھر اُدھر بغلیں جھانکنے لگے اور بہرحال نہیں بتا پائے۔تواُس پرحضرت ہردوئی نے فرمایاکہ: ہم تو اہلِ علم ہیں اور اہل علم بھی ہر جگہ انگریزی ہی جھاڑتے رہیں گے تو پھراردوکاکیاہوگا؟

            ہمارے اکابرین نے کبھی بھی انگریزی کوشجرممنوعہ کادرجہ نہیں دیااورنہ کبھی اُس کے مخالف رہے ،لیکن اتنی بات ضرورہے کہ ہرجگہ اپنی گفتگومیں انگریزی ٹھونسنے کو ناپسندفرمایا کرتے تھے۔

ہم جاہل ہیں:

            آج کل ہماری حالت تو یہ ہے کہ اپنے چندحرفی علم کی دھاک اوراُس کاسکہ لوگوں کے دلوں پربٹھانے کے لیے قدم قدم پر انگریزی جھاڑتے رہتے ہیں۔یہ اِس لیے کہ ہمارے سرمیں یہ خبط؛بڑی اچھی طرح سمایا ہوا ہے کہ کسی سے گفتگو کرتے ہوئے جب تک اردوکے دامن میں دو چار الفاظ انگریزی کے نہ ٹھونس لیں،ہم بڑے اورپڑھے لکھے کہلانے کے مستحق ہوہی نہیں سکتے۔اورلوگ بھی ہمیں جاہل ہی سمجھنے کی غلطی کرتے رہیں گے۔ مگر پریشانی تویہ ہے کہ اِس پرسوچنے کے لیے فرصت صاحبہ ہم سے اتنی ناراض ہے کہ ملاقات کرنے کوبھی تیارنہیں ہے تو ہم کریں بھی توآخرکیا کریں؟توچلیں ایک شاعر؛اکبرالٰہ آبادی مرحوم سے ملاقات کرکے آجاتے ہیں،جنھوں نے بڑاخوب صورت نقشہ ہمیں دکھایاہے ۔وہ فرماتے ہیں 

مسلمانوں میں اب تعلیم انگلش رک نہیں سکتی

کسی مغرب و مشرق کی سازش رک نہیں سکتی

وہ نزلہ رک نہیں سکتا یہ پیچش رک نہیں سکتی

بڑے بوڑھوں کی لیکن یہ بھی خواہش رک نہیں سکتی

انگریزی کے آنگن میں:

             قارئین حضرات توسِکھ کاقول پڑھ کراورسُکھ کاسانس لے کربڑے آرام سے آرام کرنے لگے۔لیکن اب یہ بھی تو دیکھناپڑے گاکہ ہمیں یہ چاشنی اور حلاوت کہاں اورکتنی مقدارمیں مل رہی ہے؟اردوکے دامن میں مل رہی ہے یا پھر انگریزی کے آنگن میں۔ اِس کاپتا بتلانے کی توکوئی ضرورت ہی نہیں ہے،کیوں کہ یہ توہماری روزمرہ کی چلتی پھِرتی زندگی اوربول چال سے ہی ظاہرہے ۔اِس لیے ہم سب کے لیے بہترتویہی معلوم ہوتاہے کہ ”صَاحِبُ الْبَیْتِ اَدْریٰ بِمَافِیْہِ“اور ایک اردو کہاوت ”گھر کا بھیدی،لنکاڈھائے“کے مطابق سب سے پہلے ہم گھرکی ہی خبر لیتے ہیں،پھرموقع ملاتوتھوڑابہت اِدھراُدھربھی تاک جھانک کرلیں گے ۔

چلیے!اردوکے جنازہ کی سیرکرتے ہیں:        

            ہماراپیاراساوہ گھر؛جسے ہم بارش اوردھوپ سے بچنے اورآرام پانے کے لیے بناتے ہیں،جس میں ہم اپنے بچپن میں خوب ساری مستیاں کیاکرتے تھے اوراب بچپن سے پچپن میںآ کرسوتے جاگتے خوابوں میں بھی یہی گنگناتے پھرتے ہیں کہ ”دودن کواے جوانی ، دے دے ادھاربچپن“ وہ اب”ہاوٴس“(House)اوراُس کی دیوار”وال“(Wall) بن چکی ہے۔ چھت میں لگے پنکھے ”سیلنگ فین“(Celling Fan)دیوارکی زینت بنایاتو”وال فین“ (Wall Fan)اورکسی چارپائی وغیرہ پررکھ دیاتویہی بہروپیاکی طرح روپ بدل کر”ٹیبل فین“(Table Fan)کہلانے لگا۔اب ہوسکتاہے کہ ہم بھی کسی باذوق کی نظرمیں”فین“(Fan)ہوچکے ہوں گے،اِس لیے آپ سے کوئی حکم ”آرڈر“(Order)دینے کی گستاخی نہیں،بل کہ ایک موٴدبانہ التماس ”ریکویسٹ“(Request)یہ ہے کہ

صبح ڈھلنے کو لگی ہے دوپہر ہونے لگی

آن کر دو فین ، گرمی کس قدر ہونے لگی

            بہرحال!کوڑے دان”ڈسٹ بین“(Dust bin)توآسانی سے بن گیا،لیکن حیرت اِس بات پرہو رہی ہے کہ” انسان آج تک کوئی ایساکوڑے دان نہیں بناسکا،جس میں وہ اپنی نفرتوں اورعداوتوں کوبھی ڈال سکے“ ۔ اب ہمارا دروازہ ”ڈور“ (Door) ہوکرکھلاتو ”اوپن“(Open)کرکے ہم اُس میں”اِنٹر“(Inter)ہونے لگے یااُس میں ”انٹری“(Intry)مارنے لگے۔ہوا دار کھڑکی”وِنڈو“ (Window)اورگھرمیں رکھی تپائی ”ٹول“(Tool) ہوگئی۔جب ہمیں وقت دیکھنے کاوقت آیا تو گھڑی کی جگہ دیوارپرہم نے ایک ”کلاک“ (Clock)لگا دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہم اُس میں بارباروقت کی بجائے ”ٹائم“ (Time)دیکھنے لگے ۔ ہماری اِس حرکت پر تنگ آ کر کسی شاعر صاحب نے فریادکرتے ہوئے یوں آنسو بہایاکہ

اِس غریب خانہ پر للہ دو گھڑی بیٹھو

بہت دنوں میں آئے ہو اِس گلی کی طرف

ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہو گا

گھڑی گھڑی نہ اٹھاوٴ نظر گھڑی کی طرف

اب دوکان پرچلتے ہیں:

            ہماری سہولت کی خاطرکچھ لوگ دوکان سجاتے ہیں،جہاں سے ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل کیا کرتے ہیں اب وہ ہماری زبانِ مبارک میں ”اِسٹور“(Store)یاپھر”جنرل اسٹور“(General Store)اوردوکاندارصاحب ”شاپ کیپر“(Shopkeeper)کہلاتے ہیں۔ چیزوں کی تو اب کوئی قیمت ہی نہیں ہوتی،بل کہ ”پرائس“(Price)ہوتے ہیں اس لیے شایدکوئی بھاوٴبھی نہیں دیتا،بل کہ ”ریٹ“(Rate)دے دیتے ہیں ۔ خریداربھی موقع کافائدہ اٹھاکروہاں سے نودوگیارہ ہوگئے اور”کسٹمرز“(Customers) وہاں پر ”شاپنگ“ (Shopping)کے لیے حاضر ہو گئے۔ا ب قیمت توکم ہوتی نہیں اورنہ ہی بھاوٴتاوٴہوتاہے ،بل کہ ”شاپ“ (Shop) کی طرف سے پیش کش کے بدلے ”آفر“(Offer)ملتاہے۔ اورسامان کے نمونے”سِمپل“ (Sample)میں بدل گئے۔

ذرادنیابھی دیکھ لیجیے:

            اب توترقی”ڈیلوپ “(Develope)کرتے کرتے ہماری دنیاہی بدل چکی ہے۔چناں چہ اب دنیا ”ورلڈ“(World)کے رنگ میں رنگ گیااور دنیاکانقشہ ترقی کرکے”گلوب“(Globe)ہوگیا۔ملک ”کنٹری“(Country)اُس کی راج دھانی ”کَیپیٹل“(Capital) کہلاتی ہے۔ صوبہ ”اسٹیٹ“ (State) شہر ”ٹاوٴن“(Town)یا کسی ”سیٹی“ (City)سے گزرکرضلع ”ڈسٹرکٹ“ (District) ہمارا پیارا سا گاوٴں ”ویلیج“ (Village) اور اُس کے گلی کوچے ”لین“(Lane)بن چکے ہیں۔

ہماری جدت پسندی:

            وٹامن سے بھرپور؛کھجورہے ،جس سے کسی بھی صورت میں انکارنہیں کرسکتے۔لیکن اپنی دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہم نے پہلے ”ڈیٹ“ (Date)بنایاپھراپنی تاریخ کوبھی تجدید ”اَپڈیٹ“ (Update) کے گھاٹ اتارکرکے دوبارہ اسے”ڈیٹ“(Date) بنا دیا۔ چھوہارے کو”ڈرائی ڈیٹ“(Dry Date) اور ہر میدان کے امیدوار کو ”کنڈیڈیٹ“ (Condidate)کی سنددے رکھاہے۔

 ایک قدم ہوٹل میں:

            انگریزوں کی ایجادکردہ چائے کے مزے بھی نرالے ہیں۔لیکن اب تووہ جگہ ہی ختم ہوگئی،جہاں ہم کبھی چائے پیتے،ناشتہ اورکھاناکھاتے تھے۔اِس لیے کہ اب وہ ”ٹی اسٹال“(Tea Stall)یا”ریسٹورینٹ“ (Restaurant)یا ”کینٹین“(Canteen)بنابیٹھاہے ،جہاں ہم بیٹھ کراب پی رہے ہیں ”ٹی“ (Tea) یا کبھی وہاں اپنی پہنچ بنا کرناشتہ کی بجائے”بریک فاسٹ“(Breakfast)دوپہرمیں ”لنچ“ (Lunch) اور رات کے وقت’ ’ڈینر“ (Dinner)کے مزے اڑارہے ہیں۔یہاں آکر گوشت’ ’میٹ“ (Meat) سبزی ”ویجی ٹیبل“(Vegetable)چاول”رائس“(Rice)روٹی ”بریڈ“ (Bread)بن گئی اورکھانالگانے والے خادمین نے ”ویٹر“(Waiter)بن کر اپنی ایک پہچان”آئیڈنٹی“(Identity) بنالی ہے۔

محبت بڑھانے کاذریعہ:

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِگرامی ہے :” تَہَادَوْاتَحَابُّوْا“کہ آپس میں ایک دوسرے کوہدیہ تحفہ دیتے رہاکرو،اس سے محبت بڑھے گی۔لیکن افسوس”ساری“(Sorry)یہ ہے کہ ہم تواُس جدیددور”نیوایج“ (New Age)اور ترقی یافتہ دَو ر میں دوڑ رہے ہیں ،جس میں کسی کوتحفہ یاہدیہ دیناکسرشان سمجھاجا رہاہے اورہر کسی کی خدمت میں تحفہ کی بجائے ”گفٹ“ (Gift) ہی پیش کیا جا رہاہے ۔

اسپتال کی زیارت:

             ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ:”مَااَنْزَلَ اللّٰہُ دَاء اً اِلَّالَہ‘ شِفَاء اً“۔

(بخاری :ج ۲/ص۸ ۸۴)

            یعنی اللہ تعالیٰ نے ہربیماری کی دواپیداکررکھی ہے ۔دنیاکاکوئی بھی مرض لاعلاج نہیں ہے ۔یہ اوربات ہے کہ ہماری سائنس ابھی بھی وہاں تک پہنچنے میں ناکام ہے۔ اورہم لوگ بھی کہتے ہیں کہ”تن درستی ہزارنعمت ہے“ اب اِس کی سچائی کوپانے کے لیے ہم کواسپتال یامطب میں جانااورعلاج کراناہی پڑے گا۔اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔جب ہم بیمار ہوتے ہیں توکسی معالج کے پاس اپناعلاج کراتے ہیں،جو اَب ”ڈاکٹر“ (Doctor)بن کرہمارے مرض کی تشخیص کے بجائے اب ہمارا”چیک اَپ“(Checkup)یا”ٹریٹ مینٹ“(Treatment) کرتے نظر آ رہے ہیں اوروہاں پربیمارکی جگہ”پیشنٹ“(Patient)نے آکرقبضہ جمارکھاہے۔ہمارابخار”فیور“(Fever) کھانسی ”کف“ (Cough)اورکھانسی کی دوا”کف سیرپ“ (Cough Syrup)ہو گئی۔ ہر قسم کا درد”پَین“ (Pain) اور سردرد ”ہیڈیک“ (Headache) ہو گیا۔ یہ بھی توغلط نہیں ہے کہ

”سرہے توسرچھپائیں کہاں دردِسرسے ہم“

ہم پرسردی کااثرہواتوہم”کولڈ“(Cold)ہوگئے۔ اسپتال ”ہاسپیٹل“(Hospital) بنا اورمریضوں کی تیمارداری اوردیکھ ریکھ کرنے والی صاحبہ ”نرس“(Nurse) بن گئی۔اسپتال میں داخلے کی جگہ ہماری ”اِنٹری“ (Entry)اورمریض وہاں جاکر”ایڈمٹ“(Admit) ہونے لگے اورعلاج کے بعد ہمیں چھٹی دینے کے بجائے وہاں سے”ڈسچارج“(Discharge) کر دیا گیا۔ خون جانچ کے بجائے اب ”بلڈ ٹیسٹ“ (Blood Test)ہونے لگا۔ہرطرح کی دوا”میڈیسن“(Medicine)اوردواکی دوکان ”میڈیکل اسٹور“ (Medical Store) بن گئے اورپیسے ادائیگی کی جگہ ”پے“(Pay)ہونے لگے۔

کچھ رشتے ایسے بھی ہیں:

            اب رشتوں کاحال بھی کچھ اچھانہیں رہا،جیساکہ آپ گذشتہ مضمون میں دیکھ چکے ہوں گے۔اب ذرا اِدھربھی دیکھ لیں توکوئی حرج نہیں ہے۔ابوجان اب کسی سے تعارف کے وقت ”فادر“(Father)بن جاتے اور امی ”مادر“(Mother)کاروپ دھارن کرلیتی ہیں۔بھائی”برادر“(Brother)بن کرابھرتے ہیں اوربہن ”سِسٹر“(Sister)بن کرجگمگاتی ہیں۔اب تواسپتال(Hospital) کی نرسیں بھی ترقی کرکے ”سسٹر“ (Sister)کہلانے لگی ہیں۔ ملکہٴ عالیہ ”وائف“(Wife)یاپھر”لائف پارٹنر“(Life Partner)بن گئیں اورشوہر”ہسبینڈ“(Husband)بنے پھررہے ہیں۔یادرکھیے گاکہ یہ دنیابھی ایسی ہے ،جہاں دوست اورسہیلی ایک دوسرے میں گڈمڈ ہوکر اب ”فرینڈس“ (Friends)ہوچکے ہیں۔

اسکول ومدارس میں:

            زندگی کی گاڑی کوچلانے کے لیے ہمیں کچھ توکرناہی پڑے گا۔کیوں کہ کہاوت یہی ہے کہ”حرکت میں برکت ہے“۔توچلیے بغیر کسی تاخیرکے کسی اسکول یامدرسہ میں نوکری ہی کرلیتے ہیں،جواَب اپناچولابدل کر ”سروِس“ (Service)یا”جاب“(Job)ہوچکی ہے۔لیکن وہاں درخواست دینے کے بجائے آپ کوایک”اپلیکیشن“ (Application) دینا یا پھر”اپلائی“(Apply)کرناپڑے گا۔وہاںآ پ کی صلاحیت؛جوفی الحال”نالج“ (Knowledge) بن چکی ہے ،اس سے کوئی چھیڑخانی نہیں کی جائے گی۔اس کا”انٹرویو“ (Interview) لے کر آپ کومنتخب نہیں،بل کہ”سیلیکٹ“(Select)یا یاناکام کی جگہ ”ریجیکٹ“(Reject)کی سند ”سرٹیفکٹ“(Certificate)کے طورپرملے گی اورآپ خادم یاخدمت گارکی بجائے”سروینٹ“ (Servant)ہو کر پھولے نہیں سمائیں گے۔اب اُس دنیامیں استادنہیں”ٹیچر“ (Teacher) ہوکر”سر“ (Sir)کہلائیں گے اور کوئی صاحبہ ہوں گی تو”میڈم“(Madam)بن کرچمکیں گی۔

            جب امتحان کا زمانہ آیاتو ”اگزامینیشن“ (Examination) یامختصرلفظوں میں”اگزام“(Exam)ہونے لگا اورپھریہ ہوا کہ سوال ”کوئسچن“ (Question) جواب ”اینسوَر“(Answer) درست کو ”کریکٹ“ (Correct) اورغلط کو ”رانگ“ (Wrong) قراردیاگیا۔اس طرح معاملہ ایں جارسیدکہ امتحانی نتائج کی جگہ ”رزلٹ“ (Result) آنے لگے۔وہاں پہنچ کرہماری تاریخ کی تاریخ بھی ایسی بدلی کہ اب وہ ”ہسٹری“ (History) ہوگئی۔

قلم کاتذکرہ:

            وہ پیاراساخوب صورت قلم؛جس کوارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی”اَوَّلُ مَاخَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ“کی عالی شان سند حاصل ہے اورجسے سب سے پہلے اللہ رب العزت نے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا۔ قرآن کریم میں کل ۴/ مقامات پرتذکرہ ہی نہیں فرمایا، بل کہ انسانی ہدایت کی بنیادرکھنے کے لیے۶۱۰ء کوپہلی وحی غارحرا میں نازل ہوئی تو اُس میں بھی ﴿ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ﴾ فرماکر اس کی عظمت کو اجاگر کیا گیا:بدقسمتی ہی کہہ لیجیے کہ وہ قلم اب”پین“(Pen)کی شکل میں تبدیل ہوگیا اور کاپی”نوٹ بک“ (Notebook)بن گئی۔ اُس پر لکھے حروف”ورڈ“(Word)ہوئے اور مٹتے مٹتے ”ڈیلیٹ“ (Delete) ہونے لگے ہیں۔

میدان،کھیل اورکھلاڑی :

            صحت کی حصول یابی کے لیے ورزش اورکھیل کودبھی اچھی چیزہے،اِس لیے کھیل کودکرناچاہیے۔تواِس کے لیے جس میدان میں ہم اترے،اُسے ”فیلڈ“(Field)بناکراس میں دوڑنے کی بجائے ”رن“ (Run) مارنے لگے ہیں۔کھیل”پَلے“(Play)اورکھلاڑی”پَلے یر“(Player)بن کرچمکنے لگے۔اورکسی بھی کھیل میں حَکم یافیصلہ کرنے والے کو”ریفری“(Referee)کہاجانے لگا۔کسی بھی میدان اورشعبہٴ زندگی میں مقابلہ ”کمپٹیشن“ (Competition) ہو گیا اور جیتنے کے بعد”ٹرافی“(Trophy)یاکسی طرح کے تمغے ”میڈل“ (Medal)کی شکل میں ملنے لگے۔

کچھ دیگرالفاظ پرہماری نظرکرم:

            ہم سبھی ارشادباری:﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًاوَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾کی روشنی میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور سبھی مل کر”آل“(All)ہوگئے ۔ہماری پیاری سی گیند”بال“ (Ball) آپسی بات چیت ”کال“ (Call)ہمارے بچوں کی خوب صورت گڑیا”ڈَول“(Doll)اورقومی جلسہ گاہ”ہال“(Hall)بن گیاہے۔ لمبائی”ٹال“(Tall)اورہماراگرنا”فال“(Fall)ہوگیاہے۔پیدائش”برتھ“(Birth)ہوگئی اور موت ”ڈیتھ “(Death)میں بدل گئی۔ہمارے گھروں میں بچوں کی جگہ”بے بی“(Baby)نے جنم لیا اورہم پیار جتانے کے لیے ”کِس“(Kiss)کرنے لگے اورکبھی کسی کی یادزیادہ ستانے لگی تو”مِس“ (Miss) کرتے ہیں۔کبھی دانتوں”ٹیتھ“(Teeth)کی صفائی کیاکرتے تھے اوراب کیاکررہے ہیں،تویہ بھی سن لیجیے کہ

سنو ! یہ فخر سے اِک راز ہم بھی ”فاش“ کرتے ہیں

کبھی ہم منہ بھی دھوتے تھے مگر اب ”واش“ کرتے ہیں

            ارشادخداوندی ہے : ﴿یُقَلِّبُ اللّٰہَ الْلَیْلَ وَالنَّہَارَ﴾اورایک دوسری جگہ فرمایا:﴿ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ﴾لیکن یہاں توزندگی کے ہرشعبے میں انگریزی کی وہ مارپڑی کہ ہمارے دن رات کے سارے نقشے بدل گئے۔اب ہم آپ کوکیابتائیں؟یہ آپ خودہی دیکھ لیجیے کہ ہماراسال ”ائیر“ (Year) مہینا ”منتھ“(Month)ہفتہ”ویک“(Week)اوراُس کی تاریخ”ڈیٹ“(Date)بن کرچمکی توپھرہماری صبح بھی ”مارننگ“(Morning)دوپہر ”نون“ (Noon) شام ”ایوِننگ“(Evening) دن ”ڈے“ (Day) رات”نائٹ“(Night)میں بدلی اورہماری اونچائی ”ہائٹ“ (Height)پر پہنچ گئی ۔

یہ توکارثواب ہے:

            دوسروں کاروناہم کیوں روئیں؟کیوں کہ یہ غلط ہے اور اس کے اصل مجرم ہم خودہیں،کوئی دوسرا نہیں ہے۔آج ہم انگریزی کے گود میں سانس لیتے ہوئے اردوزبان کے ساتھ ایسا سلوک کررہے ہیں،جیسے کہ یہی ہماری لسانی تہذیب وثقافت کا عظیم الشان ورثہ اور ملی وقومی تشخص کاسچاآئینہ دارہے۔ بہت سے اردوالفاظ کو ہم اردوکے نام لیواوٴں نے اپنے ہاتھوں انگریزی کے قبرستان میں مکمل طورپردفن کردیاہے ۔اِس کوکارخیر سمجھ کر دفن کرنے میں مسلسل جٹے ہوئے ہیں۔ ہم یہ ہرگزنہ بھولیں کہ اگر اردوکے زوال اورانگریزی کے عروج کی رفتار؛اِسی رفتار سے چلتی رہی تویہ بھی خطرہ ہے کہ ہماری پیاری سی اردو زبان کسی نہ کسی دن گمنامی کے غار میں چھپ کردم توڑ دے گی اور نتیجہ یہ ہوگاکہ ہمارے وجودپر بھی خطرات کے بادل چھا جائیں گے۔  

            اِس لیے اپنا اہم ترین اور قومی وملی فریضہ سمجھ کراس سیلاب کو روکنے کی کوشش کیجیے۔خداکے واسطے اردو جیسی پیاری اورشیریں زبان کومکمل زوال پذیرہونے سے بچالیجیے۔

خداحافظ یاپھر․․․․․:

            یہ چندالفاظ؛ انگریزی واردو کے تقابلی مطالعہ کاایسااتھاہ سمندرہے ، جس کی گہرائی کوہم کبھی ناپ نہیں سکتے ۔ لہٰذا زیر نظر مضمون کوکاغذی صفحات سے رخصت کرنے سے پہلے اتناتوآپ لوگوں کواپنادینی اور ملی فریضہ سمجھ کربتلا دینا ضروری سمجھتاہوں کہ کل تک کسی کی رخصتی کے وقت ہم لوگ ایک دوسرے کو ”الوداع“ یا ”خدا حافظ “ اور”فی اَمانِ اللہ“جیسے پیار بھرے اور دعائیہ الفاظ سے رخصت کرنے میں فخرمحسوس کیا کرتے تھے۔

            لیکن اب وہ دَور؛دوڑکربہت دُور چلا گیا اور وقت نے بھی پلٹی ماراہے توہم بھی اپنا ہاتھ ہلا کر ”بائے بائے“(Bye Bye)یا ”ٹاٹا“ (Ta-Ta)کہہ کر رخصت کر رہے ہیں اورخودکوتہذیب کاٹھیکیدارسمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔

            اس لیے آپ کوجھنجھلاہٹ اوراکتاہٹ سے بچانے کی خاطرتحریرکواختصارکی وادی میں لے جارہا ہوں، مگر چلتے چلتے ”اَلْعَاقِلُ تَکْفِیْہِ الْاِشَارَة“یعنی عقل مندوں کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہے۔ زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں ہے اورہمیں کوئی ضمانت”گارنٹی“(Guarantee) بھی نہیں ملی ہے اورنہ مل سکتی ہے ۔کیوں کہ شاہ راہِ زندگی میں کبھی ایسانظارہ بھی دیکھنے کوملتاہے کہ”شام کوگھرمیں ہے انساں،صبح قبرستان میں“۔اِس لیے پھرزندگی میں کاغذی صفحات پردوبارہ ہماری آپ کی ملاقات ہوگی یانہیں،یہ توخداوندقدوس ہی جانتاہے ۔ اِسی کے پیش نظر قارئین کی خدمت عالیہ میں خلوصِ دل اور پوری نیک نیتی کے ساتھ صرف ایک بار پیش کرنے کی جسارت کرتاہوں خداحافظ یا پھر Good bye؟

آپ کاشکریہ :

            الحمدللہ!آپ نے سارامضمون خوش دلی سے مطالعہ کرلیا۔خداکاشکرہے کہ دورانِ مطالعہ”اِسٹڈی“ (Study) کوئی مسئلہ؛ جو اَب ہماری زندگی کے لیے ایک طرح کا”پرابلم“ (Problem) ہو چکا ہے، پیدا نہیں ہوا۔اِس لیے ہم بھی دل ”ہارٹ“(Heart)کی گہرائیوں سے آپ کا شکریہ’ ’تھینکس“ (Thanks)کی شکل میں اداکرلیتے ہیں تاکہ اِن شاء اللہ آپ زندگی”لائف“(Life)کی راہوں میں ”ہارٹ اٹیک“(Heart Attack)سے مکمل طورسے محفوظ”سیف“(Safe)رہیں۔کیوں کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربُّ العِبادبھی موجود ہے:﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾اورمحبوب ربانی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی”مَنْ لَمْ یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ“کہ جو لوگوں کاشکریہ ادا نہیں کرتاوہ اللہ کابھی شکریہ ادانہیں کر سکتا۔اِس لیے آپ بھی اپنے دماغ”مائنڈ“ (Mind)سے سبھی الجھن ”ٹینشن“ (Tension)کوکھڑچ کر پھینک دیجیے اورپوری رات ”نائٹ“(Night)میں آرام”ریسٹ“ (Rest)لے کر خراٹے مارتے رہیے۔

            کیوں کہ ڈاکٹروں کاکہنایہی ہے کہ آدمی کورات میں ٹینشن لے کرنہیں سوناچاہیے تومریض پوچھتاہے کہ کیااُسے میکے بھیج دوں؟ Thank you, so much

دامن اردو کا یارو تنگ نہیں                      ورنہ انگلش سے کوئی جنگ نہیں