۱-عقلی علوم اور اُن کی تعلیم

 

(از افادات امام نانوتوی) 

حکیم فخرالاسلام مظاہری

            ”فتوی متعلق دینی تعلیم پر اجرت“کے نام سے الامام محمد قاسم نانوتوی کا ایک مضمون ہے،جس میں دینی تعلیم گاہوں میں معقولات کی تعلیم کے مختلف پہلوٴو ں پر بحث کی گئی ہے۔اِس تحریرکو مولانا نورالحسن راشد نے ۷۷۵ صفحات کے مجموعہ ”قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی  ،احوال و آثار و باقیات و متعلقات “کا جزو بنا کر شائع کیا ہے۔اُنہوں نے مضمون پر جو تمہید لکھی ہے،اُس بعض اقتباسات یہاں درج کیے جا تے ہیں،وہ لکھتے ہیں:

             ”قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم کی ایسی متعدد اہم تحریریں ہیں جو حضرت مولانا کے اِفادات کے مجموعوں یا مکتوبات میں شامل ہیں؛مگر اُن کو وہ شہرت اور مرتبہ حاصل نہیں ہوا جس کی وہ مستحق تھیں۔ایسی ہی تحریروں میں سے ایک اہم وہ تحریرہے جو حضرت مولانا نے مراد آباد کے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں لکھی تھی۔اِس فتوی یا تحریر میں دینی مدارس میں تعلیم دینے کی اُجرت ،اسلامی مدرسوں میں معقولات اور ایسے علوم پڑھانے کی تحقیق ہے جو بنیادی طور پر دینی شرعی علوم نہیں ہیں(؛بلکہ جو علوم مقصودہیں اُن کے حصول کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے مقصود میں معین و مدد گار ہیں ،اس لیے مدارس کے نصاب میں داخلِ درس ہیں:ف)…اِس تحریر سے خاص طور سے علوم عقلیہ (جس میں جدید سائنسی علوم بھی شامل کیے جا سکتے ہیں)کی تعلیم کے حوالہ سے بھی اِستفادہ کیا جا سکتا ہے۔“

(مولانا نورالحسن راشد: ”قاسم العلوم…باقیات و متعلقات “ص۶۵۸-۶۷۶)

            راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ معلوم ہونا چا ہیے کہ جدید سائنسی علوم کا قوسنی اضافہ مولانا نورالحسن راشد صاحب کی جانب سے ہے اور اِس حوالے سے یہاں تو کوئی گفتگو نہیں ہے ؛البتہ ”تصفیة العقائد“میں مندرج مکتوبِ ثانی میں سائنس کے متعلق الامام محمد قاسم نانوتوی نے صراحت کی ہے کہ:”یہ ہماری توجہ توغل کے قابل نہیں۔“

(”تصفیة العقائد“سر سید کے مکتوبِ ثانی کا جواب ص۴۹)

            سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِس مسئلہ میں کہ ایک مدرسہ عربی- جس سے ترویجِ علم دین مقصود ہے -قائم ہوا ہے؛مگر ایک مدرس نے بہ لحاظ اِس کے کہ تعلیم دینیات پر اُجرت لینا موافقِ احادیثِ صحیحہ جائز نہیں تورعاً یہ شرط کر لی ہو کہ میں چار گھنٹے مثلاً پڑھاوٴوں گا اور صرف کتبِ معقولات و صرف و نحو و علم معانی اور ادب و غیرہ کے پڑھانے کی تنخواہ لوں گا اور دینیات حسبتاً لله(اُجرت لیے بغیر صرف الله کی رضا جوئی کے لیے) پڑھاوٴوں گا،اس کی تنخواہ نہ لوں گا۔چناں چہ مدرس موصوف ابتدائے مدرسہ سے تین چار سبق معقول وغیرہ کے تعلیم فرماتے ہیں۔باقی صبح سے شام تک مصروفِ تعلیم دینیات رہتے ہیں۔پس ایسے مدرسہ میں چندہ دینے اور شرکت کرنے سے ثواب ملے گا یا نہیں۔…“

جواب مولانا محمد قاسم صاحب

            ”بعد حمد و صلوة کے یہ گزارش ہے کہ وجہِ استفتا کچھ سمجھ میں نہیں آتی(کیوں کہ مسئلہ بالکل ظاہر ہے،نحو ،صرف،ادب اور بلاغت و غیرہ کا جو شرعی حکم ہے وہی معقولات کاہے ،اگر وہ جائز ہیں،تو یہ بھی جائز ہے)۔اِستفسار اُس امر میں کیا کرتے ہیں جس میں کچھ خفا و اِختفا (گنجلک و اِشتباہ )ہو،کسی وجہ سے مخفی و مستتر(ڈھکا چھپا )ہو۔)(مگرجو بات ہرپہلو سے ظاہر و باہر ہو،اُس کا اِستفسار(وسوال)کیا کیجیے!

            بانیانِ مدرسہ کی نیت اچھی،مدرسہ کی نیت اچھی ،معقود الیہ ( جائز اور )مباح (ہے،کیوں کہ جس چیز کا معاملہ کیا جا رہا ہے،مثلاً) درسِ صرف و نحو و ادب و علم معانی و اکثر انواعِ معقولات…(اورمعقولات میں) حساب و ہندسہ و منطق(سب شامل ہیں) ،جن میں نہ مخالفتِ عقائدِ اسلام ہے(جس کی وجہ سے اِن کو نا جائز کہا جا ئے)،نہ ضروریاتِ دینِ اسلام کا بیان(جس کی وجہ سے اِنہیں عبادت کہا جا ئے؛بلکہ یہ چیزیں محض جائز ہیں)،وقتِ کار(کام کا وقت )محدودو معلوم(اگر کام کا وقت ہی مجہول ہوتا،تو بھی شبہہ ہو سکتا تھا۔جب یہ سب کچھ نہیں)،پھر نہ معلوم باعثِ اِشتباہ کیا چیز ہوئی جو اِستفسار(و سوال)کی نوبت آئی۔“

            سوال پر اِظہار تعجب کے ساتھ لوگوں کے چندہ دینے اور مدرس کے اُجرت لینے کے متعلق تحقیق ذکر کی،پھر معقولات کے متعلق لائقِ سوال بات کی نشان دہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

            ” ہاں یہ بات البتہ قابل استفسار تھی کہ لفظ معقولات ایک لفظ عام ہے فقط ریاضی و منطق ہی اس کے تلے داخل نہیں، طبعیات اور فلکیات اور الہیات، حکمت بھی اس میں داخل ہیں۔ اور ظاہر ہے(کہ)اکثر مسائل علوم مذکورہ(طبعیات اور فلکیات اور الہیات، حکمت ) مخالفِ عقائد ِا سلام ہیں، پھر اِن کاتعلم و تعلیم جائز ہو، تو کیوں کر ہو،“اور اِس لحاظ سے درس کا معاملہ کیوں کر جائز کہیے۔

            دوسری شکل یہ ہے کہ:فرض کر و کہ معاملہ کے وقت ’معقولات‘کے ساتھ اُس کی شاخیں عام نہ ہوں یا معقولات اور اُس کی شاخوں کی تعلیم و تعلم حرام نہیں، توزیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اِن کی تعلیم مباح اور جائز ہوگی، اِن کی تعلیم میں عبادت کی شان پیدا ہونا” پھر بھی دورہے، ثواب کی امید کی گنجائش پھر بھی نہیں۔ہاں کسی طرح(اِن مضامین کی) تعلیم وتعلم“ کا عبادت ہونا ثابت ہو،تو کیوں نہیں!(یہ ضرورایسی بات ہے کہ جس کا سوال کیا جا نا چاہیے)۔ سو، مستفتی نے تو نہ پوچھا ،ہم خود بغرض مصلحت عرض کرتے ہیں۔(چوں کہ سوال کے قابل یہ بات ہے،) اس لیے(اِس کا جواب عرض کیا جاتا ہے اور وہجواب مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ) اگر کوئی باور چی یہ شرط کر لے کہ میں گوشت وغیرہ سالن پکادیا کروں گا، روٹی نہ پکایا کروں گا، تو کوئی دیوانہ بھی“ لفظ گوشت کو عام سمجھ کر” یوں نہ کہے گا کہ اس میں سگ و خوک(کتا،خنزیر) کا گوشت آ گیا اور اِس کا کھانا پکانا حرام ہے،اس لیے(جس ) باور چی“کو رکھا گیا ہے،اُس کی نوکری نا جائز ہو گی، ایسے ہی عموم لفظ معقولات بہ خیال بطلان علوم مذکورہ عقد درس مدرس مذکور کی حلت میں متامل ہونا کو دنوں (بے فہموں)اور وہمیوں کا کام ہے، عقلاء سے اگر چہ جاہل ہی کیوں نہ ہو، اس قسم کی تین پانچ متوقع نہیں۔ “

            مطلب یہ ہے کہ جس طرح گوشت ،سالن حرام جانوروں کے ہوتے ہیں ،توکچھ مباح جانوروں کے بھی ہوتے ہیں، ایسے ہی معقولات میں بھی کچھ علوم مباح ہیں۔ اور مباح (جائز باتوں )کا شرعی حکم یہ ہے کہ کرے تو ٹھیک نہ کرے تو ٹھیک،کرنے میں ثواب نہیں،نہ کرنے میں گناہ نہیں ۔

مفید و مضرافعال کا عقلی تجزیہ:

            عقلی اصول کی رو سے افعال کی تین قسمیں ہیں:۱-خیر محض مثلاً جو خدا تعالی کی تعظیم کے لیے ہے۔

            ۲- شر محض مثلاً ظلم و ستم لوگوں کے آزارو تکلیف کے لیے اور زنا حد سے بڑھی ہوئی بے حیائی کے لیے ہے۔

            ۳-نہ خیر ،نہ شریعنی وہ کام جن میں ذاتی حیثیت سے نہ برائی ہے،نہ اچھائی ۔ایسے امور مباح ہوا کرتے ہیں۔اِسی تیسرے قسم کے افعال کی و ضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 مباح افعال کی حیثیات کا تجزیہ:

            ”البتہ ،یہ صحیح(ہے) کہ امور مباحہ بذات خود نہ مستوجب ِثواب ہوتے ہیں، نہ موجبِ عذاب(جیسا کہ مذکور ہوا)؛ مگر(جس چیز کا وسیلہ بن جائیں ،اُسی کے مطابق اُس کا شرعی حکم ہوتا ہے۔چناں چہ) جب امور مباحہ وسیلہ حسنات یا ذریعہ سیئات ہو جاتے ہیں، تو اُسی طرح حسنات سیئات کے ذیل میں “بالکل ایسے ہی شمار” ہو جاتے ہیں، جیسے او پلا لکڑی، کھانے کے حساب میں۔ یعنی جیسے مہینے پر مثلاً ،کھانے کا حساب کرتے ہیں، تو او پلے لکڑی وغیرہ کے دام لگا کر یوں کہا کرتے ہیں کہ کھانا اتنے میں پڑا اور کھانے میں اتنا صرف ہوا، جس کا حاصل یہ ہو تا ہے کہ اشیائے مذکورہ- بایں وجہ کہ وہ ذریعہ حصول طعام ہوتے ہیں- طعام ہی کے مد میں داخل ہو جاتے ہیں۔“

             ایسے ہی مباح امور جو ثواب و گناہ دونوں سے خالی ہیں امور خیر کا وسیلہ بن جانے کے بعد” تو حسنات کی مد میں داخل ہو جاتے ہیں اور“برائیوں کا سبب بن جانے سے ان برائیوں ”کے حساب میں محسوب ہوں گے۔ چنانچہ مسجد کی طرف رفتار اور نماز کے لیے انتظار پر جو ثواب نماز ملتا ہے، اُس کی یہی وجہ ہے کہ امور مذکورہ ذریعہ حصول ِنماز یعنی صلوة جماعت(کا ذریعہ) ہیں ۔ورنہ کون نہیں جانتا کہ نہ رفتار کسی قسم کی نماز ہے اور نہ انتظار کسی طرح نماز یا نیاز (وفرماں برداری)ہے۔(نیز دیکھیے:الامام محمد قاسم نانوتوی-تشریح وتحقیق اقم فخرالاسلام۔”تصفیة العقائد“ پندرہواں اصول،”افعال:خیر محض،شر محض،نہ خیر،نہ شر“ص۱۳۷،۱۳۸)

             علی ہذا القیاس ،لینا،دینا، پڑ ھنا،لکھنا ،گواہی، شہادت، جو بالیقین اصل سے مباح ہیں- ور نہ “اگر اپنی ذات سے نا جائز ہوتے،تو یہ امور” کسی طرح کسی موقع میں جائز نہ ہوتے۔“

            ۱-جب اپنی ذات سے جائز ہیں،تو اِن کا حکم یہ ہے کہ اگریہی لینا،دینا،پڑ ھنا،لکھنا ،گواہی، شہادت” ذریعہ ربٰوو سود خواری ہو جائیں تو اُسی لعنت کے مستحق ہو جائیں (گے)جو اصل میں“ سود خوروں کے مناسب ہے۔

            ۲-اسی طرح بوس و کنار- جومباح کیا معنی! بعض موقعوں پر مستحب ہے ،مثلاً اولادکا بوسہ؛لیکن -”اگر ذریعہ زنا ہو جائیں تو موافقِ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم زناہی کے حساب میں داخل ہو جائیں گے اور شرع کی طرف سے اِطلاقِ زنا اِن پر کیا جائے گا۔ حالا ں کہ بالبداہت وہ غیر زنا ہیں۔“

            ۳-” تعمیر مکانِ مسجد جو بالجملہ عبادات سمجھی جاتی ہیں، تو کیوں سمجھی جاتی ہیں، فقط اِس لیے کہ وہ عبادت خانہ ہے، جس کا حاصل وہی نکلا کہ وہ سامانِ عبادت اور ذریعہ اِطاعت ہے،۔“

            ۴-” تعمیر معابد ادیان باطلہ جو منجملہ معاصی شمار کیا گیا تو کیوں شمار کیا گیا، فقط اس لیے کہ وہ ذریعہ معصیت اور سامان شرک و کفر وغیرہ ہے۔“

            ” غرض کہاں تک گنائیں، ہزاروں نظیر یں قرآن وحدیث میں موجود، کتب فقہ واصول و عقائد و تصوف میں مذکور، ایک ہو تو کہیے، کہاں تک کہیے!

             پھر تعلیم صرف و نحو و معانی و بیان و ادب ریاضی و منطق ہی نے کیا قصور کیا ہے جو یہ ذریعہ علوم دین ہو کر بھی داخل حساب علوم دین اور مستوجب ثواب کار دین نہ ہوں۔“

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک واقعہ ذکرفرمایاکہ:

            ”دہلی کی جامع مسجد میں ایک غیر مقلدنے وعظ میں کہا تھا﴿وَجَعَلْناَ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَداًّ وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَداًّ فَاَغْشَیْنَاہُمْ فَہُمْ لاَ یُبْصِرُوْن﴾اور ترجمہ یہ کیا تھا کہ :”کردی ہم نے اُن کے سامنے ایک دیوار یعنی صرف کی اورپیچھے ایک دیوار یعنی نحوکی اورچھالیا ہم نے ان کو یعنی منطق سے، پس ہوگئے وہ اندھے یعنی اِن علوم میں پڑ کرحقیقت سے بے خبر ہوگئے۔“غرضیکہ صرف ونحوومنطق کوبدعت کہتاتھا ۔“اور شریعت کی حقیقت کو خود اُس نے سمجھا تھا،سنیے،حکیم الامت ہی فرماتے ہیں:”اُس کا عقیدہ تھا کہ نمازتوفرض ہے؛ مگر وقت شرط نہیں۔“

(ملفوظات حکیم الامت جلد۱-الافاضات الیومہ جلد۱ص۲۰۸،۲۰۹)

محافظ علوم کی اِفادیت اور اُن کی نوعیتیں:

            اِس اصولی گفتگو کے بعد شریعت کیمحافظ علوم،یعنی علم صرف ونحو، اَدب، معانی، بیان و بدیع اور علم منطق ومعقول (۱)وغیرہ کی ضروت،نوعیت ،درجہ اور اُن کی باہمی نسبتوں پر کلام کرتے ہیں۔

 علم صرف ونحو:

            ’مختلف صیغوں کی وضع ،اُن کی ہیئتیں اور فاعلیت و مفعو لیت وغیرہ متعدد اضافات کے مدلولات کی تعیین میں صرف ونحو کی حاجت ہے۔

 ادبی علوم:

            ”(جہاں تک)علم ادب (کی بات ہے، تو وہ)اطلاعِ لغات وصلات و محاورات میں مفید“ہے۔چناں چہ علم معانی، بیان و بدیع وغیرہ ادبی علوم: ”قدر شناسی ِفصاحت و بلاغت، یعنی حسنِ عبارتِ قرآن و حدیث میں کارآمد “ہیں۔

 علم منطق:

            جب کہ”علم منطق کمالِ استدلال، و دلائلِ خدا وندی و نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نافع“ ہے۔

دیگرمحافظ علوم اور منطق :

            مطلب یہ کہ اگر صرف و نحو واَدب سے اِعراب شناسی اور عبارت فہمی حاصل ہو تی ہے اور مفہوم و مضمون واضح ہوتا ہے، علم بلاغت سے حسن کلام کا اِدراک ہوتا ہے، تومنطق سے مقصد کلام پر واقفیت اور خوبیِ ِ اِستدلال کا ہنر پیدا ہو تا ہے۔

            ”اور ظاہر ہے کہ جو نسبت عبارت و معانی میں(صرف و نحو واَدب کو بلاغت سے) ہے، وہی نسبت حسنِ عبارت اور خوبی ِ اِستدلال میں(بلاغت کو منطق سے )ہوگی، کیوں کہ وہ(صرف و نحو واَدب ) عبارت سے متعلق ہے، تو یہ (منطق) معانی(و مرادات) سے مربوط۔ پھر کیوں کر کہہ دیجیے کہ علم معانی اور بیان تو جائز ہو، اور منطق نا جائز ہو۔“(۲)۔

معقولات اور علوم نقلیہ:

            شبہہ:۱- معقولات سے علوم نقلیہ سے بے زاری کا باعث ہو جا تا ہے۔

             ازالہ شبہہ- ”اور اگر اِشتغالِ منطق؛ گاہ وبے گاہ، یا بعض افراد کے حق میں موجبِ محرومیِ علوم دینیہ ہو جا تا ہے، تو یہ بات صرف و نحو و غیرہ علوم مسلَّمة الاِباحة میں بھی بالبداہت موجود ہے“۔

            شبہہ:۲- معقولات کے باب میں اکابر کی مذمت وارد ہوئی ہے۔

            ازالہ شبہہ- (بعض اکابر کی جانب سے منطق کی تعلیم سے روکنے اور اُس کی طرف سے بے اِتفاتی برتنے کی دووجہیں ہیں:

۱:کم ہمتوں،کم فہموں کے حق میں مضرہونا:

            ”جس کسی نے بزرگانِ دین میں سے منطق کو برا کہا ہے، بایں نظر کہا ہے“(۳)کہ بعض کم ہمتوں کے حق میں یہ مضر ہو گئی،تو ظاہر ہے کہ ایسے افرادکے حق میں اِس کا شغل ممنوع ہی قرار دیا جا ئے گا۔کیوں کہ اگر”کم فہموں اور کم ہمتوں کے حق میں اِ س کا مشغلہ تحصیلِ علوم دین میں حارج ہو، تو اُس وقت وہ ذر یعہٴ خیر نہ رہا، وسیلہٴ شر ہو گیا“۔

۲:بزرگوں کی فہم کامل تھی،لہذاوہ منطق کی طرف متوجہ نہیں ہوئے :

            ”یا(بعض بزرگوں کے منطق کی طرف سے بے اِتفاتی برتنے کی) یہ وجہ ہو ئی کہ خود بہ وجہِ کمالِ فہم ان بزرگوں کو منطق کی ضرورت نہ ہوئی، جو (اِس فن کے) مطالعہ کی نو بت آتی۔

            ” (ہر دو صورت میں مخالفت،اس لیے ہوئی کہ وہ) یہ سمجھے کہ یہ علم من جملہ علومِ اِیجاد کردہٴ حکمائے یو نان ہے، اور اُن (حکمائے یو نان)کے اِیجاد کیے ہو ئے علوم کی مخالفت کسی قدر یقینی تھی، اِس لیے یہی خیال جم گیا کہ یہ علمِ بھی مخالفِ دینِ اسلام ہی ہو گا۔ورنہ اِس علم کی حقیقت سے آگاہ ہو تے، اور اِس زمانہ کے نیم ملا وٴں کے اَفہام کو دیکھتے؛ جو چھوٹتے ہی قرآن وحدیث کو لے بیٹھتے ہیں، اور با وجودے کہ قرآن کتابِ مبین، اور اُس کی آیات واقعی بیِّنات ہیں، فہمِ مطالب واحکام میں ایسی طرح دھکے کھاتے ہیں، جیسے آفتابِ نیم روز کے ہوتے، اَندھے دھکے کھا تے ہیں۔

            پھر اُن خرابیوں کو دیکھتے جو ایسے لو گوں کے ہا تھوں دین میں واقع ہو ئی ہیں، ہر گز یوں نہ فرماتے (منطق و فلسفہ کو برا نہ کہتے)؛بلکہ علمائے جامعین کی برکات اور فیوض کو دیکھ کر تو عجب نہیں، بشرطِ حسنِ نیت بوجہِ توسُّلِ مذکور(کہ یہ منطق و معقولات: خوبیٴِ اِستدلال، کمالِ اِستدلال، نیز تشحیذِذہن کا ذریعہ ہونے، اور مراداتِ خدا وندی و نبوی کے سمجھنے میں اور اُن پر پڑنے والے شبہات کے اِزالہ میں نافع ہیں) ترغیب ہی فرماتے“۔(۴)

             (اور ترغیب ) ”کیوں نہ فرماتے؛ وجہِ حر متِ علومِ فلسفہ اگر ہے تو مخالفتِ دینِ اسلام ہے، چناں چہ تصریحاتِ فقہاء اِس پر شاہد ہیں، سو فرمائیے تو سہی!منطق کا وہ کون سا مسئلہ ہے جس کو یوں کہیے (کہ )مخالفِ عقائدِدین و اسلام اور احکامِ دین وایمان ہے۔مگر(جب ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو مخالفِ احکامِ دین وایمان ہو،تو ) جب مخالفت نہیں، اور وجہِ ممانعت مخالفت تھی، تو (اگر اِس کے بعد بھی بزرگوں نے منطق کو برا کہا، توسوائے اس کے ) اور کیا کہئے کہ “ منطق وفلسفہ کی حقیقت سے نا واقف ہو نے کی وجہ سے“برا کہا۔یعنی ” فقط اِنتسابِ فلاسفہ سے اُن فقہاء کو دھوکا ہوا“، جو اِس کو بھی اُن علوم کے مماثل سمجھ لیا جو دینِ اسلام کے مخالف ہیں۔

             جب معلوم ہو گیا کہ جن فقہاء نے ممانعت کی، اُنہوں نے اِن علوم کو عقائد اور اَحکام دین کے مخالف سمجھ کرممانعت کی، اور یہ اُ ن کی اِن علوم سے یا لوگوں کی گمراہی کے انداز سے ناواقفیت پر مبنی تھا اور جب یہ و اضح ہوا کہ اِن فنون میں عقائد اور اسلامی احکام کی مخالفت نہیں ہے، تواُن کی ممانعت بھی ثابت نہ ہو گی، لہٰذا فلسفہ سے وابستہ علوم کے متعلق کلامِ فقہاء کی ممانعت کو مطلق سمجھنا اورعمومی طور پر حرام قرار دے ”لینا، اُنہی کا کام ہے جن کو فہمِ ثاقب خداوند عالم نے عطا نہیں کیا“۔

فلسفہ اور معقولات میں ا کابر وسلف کی مہارت :

            آگے الامام محمد قاسم نانوتوی نے علوم عقلیہ میں سلف کی مہارت کا ذکر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ : فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کوجومہارت حاصل رہی ہے، اُس کا اِجمالی جائزہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اَب جو معقولات سے گریز کی راہ تجویز کی جانے لگی ہے، وہ محض مغربی اَثر ہے، جس کا نتیجہ صحیح اُصولوں کا ترک اور خیالات و عقائد میں اِلتباسِ فکری ہے۔فلسفہ اور معقولات میں اکابر وسلف کے شغف اورمہارت کی مختصر رودادبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”صاحبو! اِس زمانہ سے لے کر آغازِ سلطنتِ عباسیہ تک جس میں علومِ فلسفہ یو نانی سے عربی میں ترجمہ ہوئے، لاکھوں علماء اور اولیاء ایسے ہیں اور گزرے، جن کو علومِ مذکورہ میں مہارتِ کاملہ تھی اور ہے … علمائے ضلع سہارنپور کی جامعیت خود مشہور ہے“۔

            اِس کی نہایت نمایاں مثال اپنے زمانہ میں خودحضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا وجود تھا، حکمت و فلسفہ اور فنونِ عقلیہ میں حضرت کے عبور اور مہارت کا یہ عالم تھا کہ رام پور میں اہلِ علم عقلیین کے بعض اعتراضات سننے کے بعد خاص کیفیت میں حضرت مولانا نانوتوی کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ بھی ادا کرائے گئے:

            ”لوگ گھر میں بیٹھ کر اعتراض کرتے ہیں، اگر کچھ حوصلہ ہے تو میدان میں آجائیں، مگر ہرگز اِس کی توقع لے کر نہ آئیں کہ وہ قاسم سے عہدہ برآ ہو سکیں گے، میں کچھ نہیں ہوں، مگر جن کی جوتیاں میں نے سیدھی کی ہیں، وہ سب کچھ تھے“۔ (سوانحِ قاسمی، ص۳۷۲)۔

            ”پہلے زمانہ کی سنئے!… مولانا عبد الحی صاحب، مولانا اسمٰعیل صاحب شہید، مولانا شاہ عبد القادر صاحب، مولانا شاہ رفیع الدین صاحب، مولانا شاہ عبد العزیز صاحب، مولانا شاہ ولی الله صاحب رحمةالله علیہم کا کمال، علومِ مذکورہ میں شہرہٴ آفاق ہے۔حضرت شاہ عبد الحق صاحب محدث دہلوی اور حضرت شیخ مجددِ الف ثانی رحمةالله علیہما کا کمال، علومِ مذکورہ میں اُن کی تصانیف سے ظاہر و باہر ہے۔حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی اور علامہ سید شریف مصنفانِ شرحِ مقاصد وشرحِ مواقف اور علامہ جلال الدین دوَّانی مصنفِ شرحِ عقائد، ملا جلال؛ جو تینوں کے تینوں امامِ علمِ عقائد ہیں، علومِ مذکورہ میں ایسے کامل ہیں کہ کا ہے کو کوئی ہوگا!حضرت امام فخر الدین رازی، حضرت امام غزالی، حضرت شیخ محی الدین عربی یعنی حضرت شیخ اکبر رحمةالله علیہم اجمعین کا علوم مذکورہ میں کمال ایسا نہیں جو ادنی سے اعلی تک کسی پر مخفی ہو …“۔

             مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ معقولات و فلسفہ نہ صرف مفید ہیں، بلکہ علوم شرعیہ کے لیے معین ہیں اوردفاعِ اسلام کے باب میں ضروری اور لابدی ہیں، اِن کی اہمیت سلف سے خلف تک تسلیم شدہ ہے۔اس لیے اِن شرائط کے ساتھ کہ نیت اچھی ہو،درسیات کی اِستعداد ٹھیک ٹھاک ہو،غرض یہ ہو کہ قوتِ استدلال میں مہارت حاصل ہو یا یہ مقصد ہو کہ اِلتباسات و مغالطُوں کی فہم و تفہیم کا ملکہ حاصل کرکے باطل عقائد اور عقائد اسلام کے مخالف مسائل کا باطل ہوناصحیح اصولوں کے ذریعہ رواضح کر نے کی قدرت پیدا ہو اور صلاحیت میں نکھار آئے،پھر معقولات کی تعلیم دینے والا اِظہارِ بطلان پرقادر ہو اور تعلیم حاصل کرنے والادلائلِ اِبطال کے سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو، تو معقولات کی تعلیم دینااور تعلیم حاصل کرنا،دونوں عبادت کے درجے میں آجائیں گے۔الامام محمد قاسم نانوتوی کے الفاظ میں تعلیم دینے والے اورتعلیم حاصل کرنے والے دونوں کی:

            ” اگرنیت اچھی ہو، اور لیاقت کما ینبغی خدا داد موجود ہو، یعنی معلم و متعلم بغرضِ تشحیذِ ذہن، یا ردِّعقائدِ باطلہ، یا اِظہار و ظہورِ بطلانِ مسائلِ مخالفہ عقائدِ اسلام، یہ (علوم عقلیہ کا) مشغلہ اختیار کریں، اور پھر دونوں میں یہ لیاقت بھی ہو(کہ)معلم(مخالف عقائد کے) اِظہارِ بطلان پر قادر ہو اور متعلم دلائلِ اِبطال کے سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہو، تو بے شک تحصیلِ علوم مذکورہ داخلِ مثوبات و حسنات ہو گی“۔

            یعنی منطق و فلسفہ کا حاصل کرنا عملِ نیک اور کارِ ثواب ہوگا، اور ایسی صورت میں:

            ”…اِشاعتِ علوم ربانی اور تائیدِ عقائدِاَحکامِ حقانی منجملہ سبیل الله، بلکہ سبیل الله میں بھی اول درجہ کا(قرار پائے گا)، اِس لیے کہ قِوَام و قیامِ دین: بے علومِ دین اور تائیدِ علومِ دین وردِّعقائدِ مخالفہٴ عقائدِ دین، متصور نہیں۔ اگر تمام عالم مسلمان ہو جائے، تو اِعلائے کلمة الله کی حاجت نہیں، پر علومِ دین کی حاجت جوں کی توں رہے“۔(قاسم العلوم حضرت نانوتوی: اَحوال وکمالات … ص۶۶۶، تا ۶۷۳، از: جناب نور الحسن راشد کاندھلوی)

چند حقائق:

            الامام محمد قاسم نانوتوی نے متذکرہ بالااپنے اِس مضمون میں تجزیاتی پیرایہ میں جس طور پر حقیقت کا اِنکشاف فرمایا ہے،اُس سے عقلی علوم سے بے وجہ بدگمانی زائل ہو گئی ۔اب اِس کے ساتھ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نویکی اِس صراحت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چا ہیے کہ : جن امور کو ثابت کرنا ضروری ہے ،اُنہیں ثابت کرنے کے لیے اور جنہیں رد کرنا ضروری ہے،اُنہیں رد کرنے کے لیے بعض عقلی علوم کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ عام طورپرمدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عقلی علوم کی بھی تعلیم ہوتی ہے۔

            ”معقولات “کے حوالہ سے ایک دل چسپ حکایت نقل کی گئی ہے کہ الامام محمد قاسم نانوتوینے ایک بچہ کو جو حضرت کی خدمت میں دعا کی غرض سے لایا گیا تھا،یہ دعا دی کہ:”اللہ تعالی اِس کو علم معقول میں کمال عطا فرمائے۔“بچہ کے”والد حکیم دائم علی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت نے یہ کیا دعا فرمائی،میری تمنا تو یہ ہے کہ اِس کو فقہ اور دین کا علم حاصل ہو۔“اِس کے جواب میں حضرت نانوتوی نے فرما یا کہ: ”فتنے کے اِس زمانہ میں:دین پر قائم رہنا علم معقول حاصل کیے بغیر دشوار ہے۔“

(مولانا مناظر احسن روایت بالمعنی بہ حوالہ سوانح قاسمی جلد دوم مکتبہ دارالعلوم دیوبند ص ۸۹۲)

            عقلی علوم کی حیثیت پر حکیم الامت نے متعدد موقعوں پر گفتگو فرمائی ہے۔اِس موقع پربعض وہ اِقتباسات ذکر کیے جا تے ہیں،جن سے اِس باب میں پیدا شدہ اِشتباباہات کا اِزالہ متوقع ہے:

            ۱-حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی مجلس میں” ایک شخص نے عرض کیا: فلسفہ کارآمد چیز تو ضرور ہے، فرما یا: ہاں، عمقِ نظر و دقتِ فکر اس سے پیدا ہوتی ہے“۔ ”محض اِستعداد کے لیے پڑھا یا جا ئے، خدا کی نعمت ہیں، اِن سے دینیات میں بہت معاونت و مدد ملتی ہے، لطیف فرق اِنہی سے سمجھ میں آتے ہیں“ ۔

(کمالاتِ اشرفیہ ص۲۵۷، ملفوظات جلد ۱ ص۱۴۷)

            ۲-نیز فرمایا:”علم کلام میں، منطق میں مہارت ہو، تو فن حدیث اور فقہ کے سمجھنے میں بڑی سہولت ہوتی ہے“ ۔”معقول کو اِس غرض سے پڑھا جاوے کہ اِس سے فہم واِستدلال میں سہولت ہو جا تی ہے، تو اُس وقت اِس کا وہی حکم ہے جو نحو، صرف، بلاغت وغیرہ کا حکم ہے؛کہ یہ سب علومِ آلیہ ہیں، اگراِن سے علمِ دین میں مدد لی جائے، تو تبعاً اِن سے بھی ثواب مل جا تا ہے “۔ (کمالاتِ اشرفیہ ص۲۵۷، ملفوظات جلد ۱ ص۱۴۷، اشرف التفاسیر جلد۴ ص۷۲علی الترتیب)

             ۳-فرمایا کہ:ایک زمانے میں حضرت گنگوہی نے دار العلوم دیوبند کے نصاب سے فلسفہ کی بعض کتابیں خارج کر دیں، تو ”بعض طلبہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب سے شکایت کرنے لگے کہ حضرت نے فلسفہ کو حرام کر دیا، فرمایا : ہرگز نہیں، حضرت نے نہیں حرام فر مایا، بلکہ تمہاری طبیعتوں نے حرام کیا ہے، ہم تو پڑھتے ہیں اور ہم کو امید ہے کہ جیسے بخاری اور مسلم کے پڑھنے میں ہم کو ثواب ملتا ہے، ایسے ہی فلسفہ کے پڑھنے میں بھی ملے گا، ہم تو اِعانت فی الدین کی وجہ سے فلسفہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں“۔

 (ملفوظات جلد۲۹ص۱۶۶، ۱۶۷)

            ۴- حضرت تھانوی نے اِس باب میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے، اُس کا تذکرہ اِس موقع پر لطف اور فائدہ سے خالی نہیں، فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ ایک مولوی اور ایک نئے تعلیم یا فتہ صاحب سے گفتگو ہو ئی، یہ تھے تو نئے خیال کے، لیکن فلسفہ داں اور سائنس داں اور علماء کی صحبت پا ئے ہوئے تھے۔ گفتگو اِس آیت میں تھی فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَاِمَّا فِداءً (محمد: پ:۲۶، آیت۶) سید احمد خاں نے اِس سے اِستدلال کیا ہے منعِ اِسترقاق، یعنی بردہ فروشی(غلام بنانے، اور فروخت کر نے) کی ممانعت پر، کہ قرآن میں تو صرف مَنْ اور فداء ہے۔ یعنی قیدیوں کا حکم یہ آیا ہے کہ یا مال لے کر چھوڑ دیا جاوے، یایوں ہی تبرُّعاً چھوڑ دیا جا وے، یہ صرف علماء کی گڑھت ہے کہ بردہ فروشی (غلام بنانا، اور فروخت کرنا) جائز ہے۔وہ نئے خیال والے صاحب کہہ رہے تھے کہ دیکھئے! سرسید کا اِستدلال آیت سے ہے۔اِس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟مولوی صاحب نے کہا: یہ بھی غور کیا آپ نے کہ فَإِمَّا منّاً بَعْدُ وَاِمَّا فِداء ً، قضیہ کون سا ہے؟بس اِتنے ہی جواب سے وہ سمجھ گئے، اور کہا :بس جواب مل گیا۔واقعی اِس کے منفصلہ حقیقیہ، یا مانعة الخلو ہو نے پر کوئی دلیل نہیں، اور اِستدلال اِسی پر موقوف ہے، ممکن ہے قضیہ مانعة الجمع ہو، وَاِذا جَاءَ الاِحْتِمالُ بَطَلَ الاِسْتِدْلالُ․ (جب احتمال پیدا ہو گیا،تو اِستدلال باطل ہو گیا)

(ملفوظات جلد ۲۹، ص۱۷۴، ۱۷۵)

نوٹ: #قضیہ مانعة الجمع کی وضاحت: دو باتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا محال ہو، مثلاًمثالِ مذکور میں مال لے کر چھوڑ دیا جا ئے، یایوں ہی تبرعاً چھوڑ دیا جائے، یہ دو نوں باتیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں، لیکن ایک ساتھ اُٹھ سکتی ہیں، یعنی یہ ہو سکتا ہے کہ نہ مال لے کر چھوڑا جائے اور نہ تبرعاً چھوڑا جائے، بلکہ غلام بنا لیا جا ئے، یہی مانعة الجمع کی حقیقت ہے۔

             # منفصلہ حقیقیہ: اِس میں دونوں باتوں میں سے کسی ایک کا ہو نا اور دوسری کا نہ ہو نا ضروری ہو تا ہے۔

             #مانعة الخلو: اِس میں ایک کا پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے اور کبھی دونوں کا پا یا جانا بھی ممکن ہوتاہے۔

(ملفوظات جلد۲۹، ص۱۷۴، ۱۷۵)

            غلامی کے متعلق مذکورہ اِعتراض Humanization یا”انسان پرستی “کے مغربی فلسفہ پر مبنی تھا، جس کا جواب درسیات میں اور منطق میں مہارت کی بنیاد پر آسانی سے فراہم ہو گیا، اور اِس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جو ”دانشور“ لوگ درسِ نظامی کے نصابِ تعلیم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ”جو کتبِ مذہبی ہمارے یہاں موجود ہیں اور پڑھنے پڑھانے میں آتی ہیں، اُن میں کون سی کتاب ہے، جن میں فلسفہٴ مغربیہ اور علومِ جدیدہ کے مسائل کی تردید، تطبیق، مسائل کی امورِ مذہبیہ سے کی گئی ہو؟“ (دیکھیے حیاتِ جاوید ص۲۱۵ تا ۲۱۸ )

             اُن کا یہ اعتراض محض ناواقفیت اور ”بے دانشی“ پر مبنی ہے۔