بہ قلم:شفیع احمدقاسمیاِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
یہ جھوٹ نہیں ہے:
قارئین حضرات:میںآ ج کی تحریرمیںآ پ حضرات کوایک ایسی حقیقت کاآئینہ دکھلانے جارہا ہوں، جس سے انکار؛گویاکہ چمکتے سورج کی روشنی کاانکارہے ۔کوئی بھی صاحبِ بصیرت اورعقل ِسلیم رکھنے والاشخص انکار کی غلطی نہیں کرسکتا ۔ آگے جوکچھ بھی میں لکھنے جارہاہوں،وہ”اَلْحَقُّ مُرٌّ“ کے تحت کڑواہٹ کامزہ بھی دے سکتا ہے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے،اپنی حالت پرغورکرنے اورپھرآنسوبہانے کاموقع بھی دے سکتاہے ۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون سی عجوبہ کتاب کھولناچاہتاہے اورپھردیرکیوں کررہاہے؟ توجناب عالی !اگرآپ کے صبرکاپیمانہ لبریزہورہاہے ،توپھرلیجیے پیش خدمت ہے آپ کی بارگاہِ نازمیں”اردوکاجنازہ“
ایک سِکھ کاقول:
اردوزبان بڑی پیاری زبان ہے،جس کااعتراف غیروں نے بھی کیاہے۔اِس خوب صورت پیارکے تعلق سے مادرعلمی جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر (بہار)کی حدود میں ایک مرتبہ کسی سکھ نے جو کہاتھااُسے آپ بھی پڑھ لیجیے توآگے کی کہانی سمجھنے میں آسانی ہوگی۔انھوں نے یہ کہا تھا کہ:”کہ اردوزبان کے اندر جو حلاوت، چاشنی، شیرینی اورمٹھاس پائی جاتی ہے، وہ دنیا کی کسی اورزبان میں نہیں ہے “۔
ہمارے قارئین نے توسِکھ کاقول پڑھ کرسُکھ کاسانس لے لیا،لیکن اب دیکھنایہ ہے کہ ہمیں یہ چاشنی اور حلاوت کہاں مل رہی ہے؟اِس کاپتاآگے چل کر خودہی مل جائے گا ہمیں بتلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ لہٰذا اِس پرتھوڑی سی روشنی یہاں ڈالی جارہی ہے ۔
کیاسے کیابن گئے:
سب سے پہلے تعلیم کے میدان میں قدم رکھیے تومعلوم ہوگاکہ موجودہ وقت میں نصاب کو”کورس (Course) یا سلیبس“ (Syllabus)کہا جانے لگاہے ۔اوراُس کورس(Course) کی تمام کتابیں بستہ سے نکال کر”بیگ “(Bag)میں ڈال دی گئی ہیں۔کتاب کو ”بکس“(Books)کانام دیااوراُس کی پہلی سطر”لائن “(Line)میںآ گئی اورکبھی ایسابھی ہوتاہے کہ ہم خودہی لائن میںآ جاتے ہیں۔اُن کتابوں کے سارے مضامین”سبجیکٹ“(Subject)ہوگئے۔حساب یا ریاضی کو ”میتھس“ (Maths)کہنے لگے۔ اسلامیات ”اسلامک اسٹڈی“(Islamic Study)) بن گئی۔ انگریزی کی کتابوں نے ”انگلش بک “(English Books)کا روپ دھارلیا۔اِسی طرح طبعیات”فزکس“(Phisics) میں، حیاتیات” بائیولوجی“ (Biology)میں معاشیات ”اکنامکس“(Economics) میں، سماجی علوم ”سوشل سائنس“(Social Science) اور دینیات ”تھیالوجی“ (Theology)میں تبدیل ہوکرشہرت کے بام عروج پرقدم رکھ چکے ہیں۔
یہ کیاہورہاہے؟:
ایک دورتھاکہ طلبہ پڑھائی کیاکرتے تھے،لیکن اب ”اسٹوڈنٹس اِسٹڈی “(Students Study) کررہے ہیں۔جن کے بچے پہاڑے اورگنتی یادکیاکرتے تھے،وہ اب ”ٹیبل“(Table)یادکرتے ہیں۔ درجات اب ”کلاس روم“(Class Room)اورساتھ میں پڑھنے والے”کلاس فیلو“(Claas Fellow)بن گئے۔اساتذہ ”ٹیچر“(Teacher)بن چکے ہیں۔ہماری پیاری سی استانی جی اب ”میڈم“ (Madam) بن گئیں اور صدر مدرس صاحب ”ہیڈ ماسٹر“ (Head Master)بن کردندناتے پھررہے ہیں۔اساتذہ کے لیے میزاور کرسی لگانے والے اب ”ٹیچرس“ (Teachers)کے لیے” ٹیبل (Table) اور چیئرز“ (Chairs) لگانے لگے۔اِسی لیے اب ہماری صلاحیت بھی”نالج“(Knowledge)ہوگئی ۔ داخلوں کے بجائے اب ”ایڈمیشن“ (Addmission)ہونے لگے۔ ایک دل کش لفظ امتحان ”اکزام “ (Exam)اور ”امتحانی مراکز”اکزام سینٹر“(Exam Centre)بن گئے ۔ اول، دوم ، سوم کے طلبہ اب ”فرسٹ، سیکنڈ“ (First,Second) اور ”تھرڈ“ (Third)ہو گئے۔اچھی کار کردگی پر انعامات ملا کرتاتھا اوراب ”پرائز“ (Prize)مل رہے ہیں۔ یہ بچے تالیاں پیٹنے کی بجائے ”چیئرس“( Cheers)کرنے لگے۔ یہ توتھا سرکاری اسکولوں اور کالجوں کانقشہ!
اب پرائیوٹ اسکول میں:
اب باقی رہے پرائیوٹ اسکول؛تویہ ایساجُگ ظاہرہے کہ اُن کاکچھ پوچھناہی مت۔اورقلم کوحرکت میں ڈالے رکھنابھی بے کارکی مصروفیت سمجھ کرکنارے کرتاہوں۔اِس لیے کہ سوفی صداورسچی بات تویہی ہے کہ یہ ایک کاروباری اور تجارتی مراکز ہیں۔ اُن کاروباری مراکزکے لیے کچھ عرصہ پہلے کسی نے ایک شعر پیش کیا تھا،جسے ہم ذہنی تفریح کی خاطرقارئین کی نذر کررہے ہیں ،پڑھ کرمزے لیجیے۔
مکتب نہیں ، دوکان ہے ، بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں ، روزگار ہے
اب تعلیمی اداروں کے بارے میں اپناقیمتی آنسوبہاکراُسے مفت میں کیوں ضائع کریں،یہ توکوئی دانش مندی کی بات نہیں ہوئی؟اِ س لیے کہ ہمارے گھروں میں بھی اردوکوکسی یتیم کی اولادکی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیاہے۔یاپھرہم اُس کے ساتھ سرعام سوتیلی اولادجیساسلوک کررہے ہیں۔
اب یہ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ خدائے پاک کی عطاکردہ چاردن کی زندگی میںآ خر اِدھراُدھرکب تک در بہ درہوتے اوربھٹکتے پھریں گے،اِس لیے قارئین سے عاجزانہ درخواست کرتے ہوئے
اب ہم گھرچلتے ہیں:
زنان خانہ اورمردانہ تومعلوم نہیں کہ کب کے ختم ہوگئے،یہ توخدا کوہی معلوم ہے۔لیکن خواب گاہ سے تو خواب میں بھی پیچھا نہیں چھڑاسکتے تھے،توہم نے اُسے ”بیڈروم “(Bed Room)کانام دے دیا۔ چادر کو ”بیڈ شیٹ“(Bed Sheet)تکیہ کو”پیلو“(Pillow)کمبل کو”بلانکیٹ“(Blanket)اورالماری کو ”سیلف“ (Self) بنادیا۔ہمیں آرام کی جگہ ”ریسٹ“ (Rest) ملنے لگا۔باورچی خانہ” کچن“ (Kitchen)بن گیااور اُس میں رکھے برتن ”کراکری“(Crockery) کہلانے لگے۔پانی؛پانی ہوکر”واٹر“(Water)اورتمام مشروبات”ڈرنکس“(Drinks)ہوگئے۔غسل خانہ پہلے” باتھ روم“(Bath Room) بنا پھرترقی نے پاوٴں پساراتو ”واش روم“ (Wash Room)بن گیا۔ اب حال یہ ہے کہ کمرے تو”روم “(Room)بن ہی گئے تھے مہمان خانہ کو بھی نہیں بخشاگیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ”گیسٹ روم“ (Guest Room)یا ”ڈرائنگ روم“ (Drawing Room)کہتے ہوئے ہماراسرفخر سے اونچاہورہاہے اور گردن بھی کافی اونچی ہورہی ہے۔ مکانوں میں نچلی منزل کو ”گراوٴنڈفلور“(Ground Floor)اوردوسری منزل کو ”فرسٹ فلور“(First Floor)کانام دیا گیا۔جب دروازہ ہِلاتو ”ڈور“(Door)یا پھر”گیٹ“(Gate) ہو گیا۔ پہلے کسی مہمان کی تشریف آوری ہوتی تھی تو دروازوں پرگھنٹی بجتی اب” ڈور بیل“ (Door Bell) بج رہی ہے ۔ سچ تویہ ہے کہ مہمان اب آتے ہی نہیں، بل کہ اب تو ہرجگہ ”گیسٹ“ (Guest)ہی آ رہے ہیں اور کپڑے الماری کے بجائے ” کپبورڈ“ (Cupboard) میں رکھے جانے لگے۔ جب ہمیں کہیں جانا ہوتاتھا توگھروں میں تالا لگاتے تھے اوراب ہر جگہ ”لاک“ (Lock) لگائے جاتے ہیں۔
ایک نظراپنے سراپاپر:
جب یکے بعددیگرے سب انگریزی کی گودمیں پناہ لے ہی رہے ہیں توپھرہمارے جسم یابدن نے کون سا ایساخطرناک گناہ کر لیاتھا؛جس کی سزامیں وہ اوروں سے پیچھے رہ جاتے؟لہٰذاانجام کوسمجھنے کے لیے نیچے کی سطر آپ کی رہ نمائی کافریضہ انجام دے گی۔
بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی
ایک نہ ایک دن چھری کے نیچے آئے گی
آخروہ بھی ہماری نظرکرم کے شکنجہ میں پھنس ہی گئے۔چناں چہ سب سے پہلی فرصت میں ہماری شخصیت ہی بہروپیا کاروپ دھار کر”آئیڈیل “(Ideal)بنی۔اُس کے بعد ہمارا جسم”باڈی“ (Body) بنا۔چہرہ”فیس“ (Face)پھر سر”ہیڈ“ (Head) میں بدل گیا۔ہاتھ”ہینڈ“(Hand)انگلی”فِنگر“(Finger)بنی اور پاوٴں ”لیگ“(Leg) ہو گیا۔اِس طرح لڑکھڑاتے ہوئے ہم ایک دن”بیوٹی فل“ (Beautyful) اور ”ہینڈسَم“ (Handsome) ہوگئے۔اِس کا سب سے قیمتی سرمایہ ؛یعنی خون ”بلڈ“(Blood)سے پہچانا جانے لگا۔ زندگی کادارومدارگردے پر ہوتا ہے، جو بدقسمتی سے ہی سہی؛لیکن اب ”کڈنی“ (Kidney) اور دماغ”مائنڈ“(Mind)بن چکاہے ۔ ابھی ہمیں رکنا نہیں ہے، آگے آگے دیکھتے چلیں تومعلوم پڑے گاکہ
اب رشتوں کابھی خون ہوگیا:
اب توحال یہ ہے کہ ہمیں”ابوجی“ یا”اباجان“ جیساپیارااورادب کی چاشنی سے بھرالفظ بھی دقیانوسی لگتاہے ۔اباامی بولتے ہوئے ہمیں شرم آرہی ہے اورہم اِس کواپنی کسرشان سمجھ رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہرکسی کی زبان سے” ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا“(Dady,Dad,Papa,Pappa) اور”پاپے“ (Pape)کی گردان سنی جارہی ہے ؛حالاں کہ پہلے پاپے (رس) صرف کھانے کے کام آتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں۔یہی حشرشہدکی طرح میٹھے لفظ ”امی “یا”امی جان“ کا بھی ہو رہا ہے ،جوکہ اَب بدقسمتی سے اپنی خوب صورتی بدل کر ”ممی “(Mummy) اور”مام “(Mam)میں بدل گئی ہیں۔
چھوٹی کوگلے لگالیں:
اِس کاسب سے بڑانقصان رشتوں کی پہچان کاہوا۔اب دیکھ لیجیے کہ ہمارے سبھی چچا،چچی، تایا، تائی، ماموں، ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو،خالہ سب ایک غیرادبی اوربے احترام سے لفظ ”انکل“(Uncle) اور ”انٹی“(Aunt)میں تبدیل ہوکرخوشی ومسرت کے شادیانے بجارہے ہیں۔یعنی برکتوں کانزول اتنا ہونے لگا کہ بچوں کے لیے رکشہ اور ٹھیلے والے سے لے کرسگے رشتے دارتک سبھی اکلوتے” انکل“ (Uncle)بن کر براجمان ہوگئے ۔ مطلب یہ کہ
”ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز“
والامعاملہ ہے اورکچھ بھی نہیں ہے۔اب اِس کے آگے بھی کوئی خوب صورت ساگُل کھل سکتاہے یانہیں یہ تو پتا نہیں ہے،اِس لیے انتظارکرتے اورہوسکے تو” الانتظاراشدمن الموت“کامزہ لیتے رہیں۔
جب یہی بات ہے تو:
اتنی ترقیاتی اورجدیددورمیں اب بھلاعورتیں کیوں پیچھے رہیں؟وہ بھی” ہم کسی سے کم نہیں“کانعرہ لگاتی ہوئی میدان میں نکلیں تو ساری عورتیں ہی”انٹیز“(Aunties)ہوگئیں۔پھریہ ہواکہ چچازاد، ماموں زاد، خالہ زاد ،پھوپھازاد بھائی اور بہنیں؛سب ایک ہی لائن میں کھڑے ہوکر”کزنس“ (Cousins)میں تبدیل ہو گئے ۔ انگریزی کی برکت سے رشتے اور جنس سب کی پہچان ختم ہو کر اور سمٹ کراِس طرح ایک ہو گئی، جس طرح سے آج سائنسی ایجادات وترقیات کی بہ دولت دنیاکافاصلہ سمٹ کر ایک گاوٴں کی شکل اختیارکرگیا۔ انکل (Uncle) اور انٹی (Aunty)بننے کا ایک نقداوربڑافائدہ یہ بھی ہواکہ رشتوں کے بہت سارے جھمیلوں سے نجات اورہمیشہ کی چھٹی مل گئی۔اورسب لوگ﴿کَجَسَدٍ وَاحِدٍ﴾ یا پھر ﴿بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ﴾کا مصداق ہو گئے۔ایک فقہی قاعدہ بھی ہے: کہ بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے چھوٹی مصیبت کو گلے لگانا لینا چاہیے۔ اِس طرح سے ایک فقہی قاعدہ پر ہماراعمل ہو گیا۔ لیکن اب یہی پتانہیں چل رہا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی عورتیں توپہلے بھی ”ماسی“ کہلاتی تھیں اوراب بھی وہیں کی وہیں کیوں کھڑی ہیں؟ کھوج لگانی پڑے گی کہ آخراُس بے چاری کا جرم کیا ہے، جس کی وجہ سے ترقی کے اِس گھوڑدوڑ میں بھی آگے کیوں نہیں کھسک پا رہی ہیں؟قارئین سے موٴدبانہ التماس ہے کہ ذرا اِس کی تحقیق کرلیں اورجب پتاچل جائے تو پھرہمیں بھی رازدارانہ طورپربتلادیں،آپ کایہ راز؛ حشرکے میدان تک اِن شاء اللہ راز ہی رہے گا۔ ”کچھ آپ بھی توکریں“۔
اب ذرابازارکارخ کریں:
جب گھروں اوراسکولوں میں اتنی زیادہ تبدیلیاں رونماہورہی ہیں،توپھریہ بڑے چھوٹے بازارانگریزی کی زد سے کیسے بچ پاتے؟لہٰذابازار”مارکیٹ“ (Market)اوردوکانیں”شاپس“(Shops) میں تبدیل ہو گئیں۔اب گاہکوں کے بجائے وہاں پر ”کسٹمرز“ (Customers)آنے لگے۔آپ کوتعجب کیوں ہورہاہے؟ آخرایساکیوں نہ ہوکہ دکان داربھی تواب”سیلزمین“(Salesman)بن گئے ہیں،جس کی وجہ سے لوگ بھی خریداری چھوڑ کر”شاپنگ“ (Shopping)کرنے لگے اوروہاں پرقیمت کے بجائے ”ریٹ“ (Rate) لگنے لگے۔ سڑکیں ”روڈز “(Roads) اورجب سڑک کاکنارہ اپنی جگہ سے سرک کر”فٹ پاتھ“ (Footpath)بناتوپل بھی ”بریج“(Bridge) بن گیا۔ لباس وپوشاک ”ڈریس“ (Dress)بنا اور کپڑے کا بازار ” کلاتھ مارکیٹ “ (Cloth Market)بن گیا۔آپ یہ غورکریں کہ کس ڈھب سے مذکر کو موٴنث بنایاگیا ہے؟ کرانے کی دکان نے ”جنرل اسٹور“ (General Store)کا روپ دھارن کیاتوپھرنائی صاحبان کیا کرتے؟ انھوں نے بھی حمام بندکرکے” ہیئر کٹنگ سیلون“ (Hair Cutting Saloon)کھول دیا۔
اب مدارس کاحال دیکھتے چلیں:
دینی مدارس کاحال بھی آج کل بڑابے حال ہے ۔کیوں کہ یہاں بھی اِس طرح کی جلوہ گری کاجلوہ بڑی اچھی طرح دیکھنے کو ملے گا۔اس لیے کہ یہاں بھی ہمارے اساتذہ اوردیگرملازمین”اسٹاف“(Staff)بن چکے ہیں۔ہمارے کتب خانے ”لائبریری “(Library) میں توبدل گئے ہیں،لیکن اللہ رب العزت کابڑاہی خاص کرم ہے کہ یہاں پرہماری کتابیں اب تک کسی کی نظر بد کا شکارنہیں ہوئی ہیں اور بالکل صحیح سلامت ہیں۔ ہمارے مہتمم صاحب بھی”پرنسپل“(Principal)بن کرچیئر(Chair)پرجلوہ افروزہوکرشکریہ کا ”لیٹر“ (Letter)لکھ رہے ہیں۔ ہمارا کھانا اب صبح وشام مطبخ کے بجائے ”کچن“ (Kitchen)میں پک رہا ہے اور ہم بھی دارالطعام کو ٹھکراکر”ڈائننگ ہال“ (Dining Hall)میں چٹخارے لے کرکھاناکھارہے ہیں۔جب صدردروازہ ”گیٹ“ (Gate) بنا تو دربان صاحب بھی رنگ بدل کر ”گیٹ کیپر“ (Gate Keeper)بن گئے۔ دار الضیوف جب ”گیسٹ ہاوٴس“(Guest House)بن گیاتوپھرطلبائے کرام کی قیام گاہیں بھی”ہاسٹل “ (Hostel) اور اساتذہ کی رہائش وآسائش اور زیبائش گاہیں ”کوارٹرس“ (Quarters) میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔
دفاترپرنظرعنایت:
ایسے پُربہاراورخوب صورت ماحول میں دفاترپربھی تونظرکرم کی ضرورت تھی،تووہ بھی ہوگئی۔اِس لیے پہلے ہمارادفتر ہوتا تھا جہاں سے ہمیں تنخواہ ملاکرتی تھی اب وہ” آفس “(Office)ہوگیا،جس میں”منتھلی سیلری “(Monthly Salary)ملنے لگی۔ جو کبھی صاحب ہواکرتے تھے وہ آج ہمارے ”باس“ (Boss) بن بیٹھے۔بابو”کلرک“(Clerk) اورچپراسی صاحب” پیون“ (Peon)بن گئے۔پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے جاتے تھے اوراب ”آفس ٹائمنگ “(Office Timing)کابورڈلٹکتانظرآتاہے ۔
سودجیسے گھناوٴنے اورناجائز فعل کو؛جسے قرآن کریم نے﴿اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ فرما کر حرام قراردیاہے ،وہ ہمیں ” انٹریسٹ“ (Interest)کاٹیسٹ(Test) دینے لگااورطوائفیں ”آرٹسٹ“ (Artist) بن گئیں۔پیارمحبت کو”لو“ (Love)کانام دے کرپیارومحبت کی ساری چاشنی اورتقدس کوہی چھین لیاگیا۔پھرکیاہوا؟صحافی ”رپورٹرس“(Reporters)بن گئے اورہم خبروں کی جگہ ”نیوز“ (News) پڑھنے اور سننے لگے ۔جب رنگ نے اپنارنگ بدلاتو”کلر“(Colour)ہوگیا۔سب سے پہلے سفیدی ختم ہوئی تو”وائٹ“(White) ہو گیا۔پھر لال ”ریڈ“(Red)سبز ”گرین“(Green) پیلا ”ییلو“ (Yellow) اور آخرمیں کالا بلیک میل ہوکر”بلیک“ (Black)بن گیا۔
اب ہماری گنتی بھی:
اُسی کرم فرمائی کا؛بڑی آسانی سے شکارہوگئی،جس کااوردوسرے الفاظ پوری بے رحمی اوربے دردی سے شکارہوئے تھے۔اوراب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ،دو،تین کی بجائے ”ون،ٹو،تھری “ (One,Two,Three)ہوکر ہم سے بالکل فری (Free)ہو گئی۔ اگردل کی گہرائی سے غورکیجیے توآپ کو معلوم ہوگاکہ یہ حالِ بے حال شروع گنتی سے لے کر آخر تک قائم ہے اورقائم ہی رہے گی۔
باغوں کی سیرکریں:
فطرت کاسجایاہوایہ حسین اورخوب صورت شاہ کار؛جسے ہم باغ کہتے ہوئے باغ باغ اورسننے والوں کے دل باغ باغ ہوجاتے ہیں، آخرتبدیلی کاشکارہو کر”گارڈن “(Garden)بنااورجب ارشادباری تعالیٰ: ﴿اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَتُہَاجِرُوْافِیْہَا﴾کی روشنی میں ذراوسعت ملی توپھیل کر”پارک“(Park)بن گیا۔ خوب صورت پھول ”فلاور“(Flower)میں تبدیل ہوگیا۔ سیروتفریح ”واک“(Walk)ہوگیا۔ہم راہ چلتے ہوئے کبھی کبھارکسی سایہ دار درخت یاکسی سائبان کے نیچے آرام کے لیے ٹھہر اکرتے تھے اب ”ریسٹ“ (Rest)لینے لگے ہیں۔درمیانِ سفرکہیں رکے تو ”اسٹاپ“(Stop) اور اگر نہیں رکے تو”نان اسٹاپ“ (Non Stop)ہو گئے۔
قصورتواپناہی ہے:
اب یہ سمجھ میں نہیںآ تاکہ کس کس کااورکہاں کہاں کارونارویاجائے؟یہاں توآوے کاآواہی بگڑاہوا نظرآتاہے۔یہ بات توسچ ہے کہ اردوزبان کے زوال پذیرہونے میں کچھ غیروں کی نادانی کادخل ہے ،توکچھ اپنوں کی مہربانی بھی شامل ہے ۔اس لیے زوالِ اردوزبان کی ذمہ دار؛صرف حکومت ہی اکیلے نہیں ہے۔بل کہ عام آدمیوں نے بھی اِس میں بھرپور حصہ لینے کی کوشش کی ہے ۔اگرٹھنڈے دل سے غورکریں تومعلوم ہوگاکہ ہم اپنا قصورزبردستی دوسروں کے سرتھوپ رہے ہیں۔”ہم الزام اُن کودیتے ہیں قصوراپنانکل آیا“
اورزیادہ دکھ تواس بات کاہے کہ ہمیں اس بات کااحساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوب صورت زبان ”اردو“ کو مغرب سے مرعوب ہوکرکیسے بگاڑلیااورکیسی اُس کی درگت بنادی ہے ۔کچھ ایسے الفاظ جواردوزبان میں پہلے سے موجود تھے اوراب بھی مستعمل ہیں،اُن کوچھوڑکراورانگریزی کی گودمیں بیٹھ کراُنھیں کے الفاظ کواستعمال کرنے میں ہم فخرمحسوس کرنے لگے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
کچھ دیگرالفاظ پرمہربانی:
اردوکے پیغام کوہم نے”میسیج“(Massege)میں بدلا۔بات ”کال“(Call)ہوا۔اورترسیلِ پیغام ”سینڈ“(Send)ہونے لگے۔ ڈاک ”پوسٹ“(Postہوئے،جہاں سے خطوط ملک وبیرون میں جاتے ہیں،وہ ”پوسٹ آفس“(Post Office)بنادیا گیا۔اور مہر کی جگہ ”اسٹامپ“(Stamp) لگنے لگے۔جہاں سے جہاز کی پروازہوتی ہے ،وہ جگہ’ ایئرپورٹ“(Airport) اور جہاز”پلین“ (Aeroplane)ہوگئے۔ہماری خوشی خود کومٹا کر اب ”اِنجوائے“(Enjoy)کرنے لگی ہے۔ میدانوں میں جہاں پرکھیل کے مقابلے ہوتے ہیں وہ ”فیلڈ“ (Field)بن چکے ہیں۔ رحم دِلی کانقشہ پیش کرنے والالفظ معافی بھی اب ہماری روزمرہ کی زندگی میں ”ساری “ (Sorry)بن کرسامنے کھڑا ہوگیا۔ہرقسم کے پرچے اب ”پیپرس“(Papers)بن چکے ہیں۔
انگریزی کے قبرستان میں تدفین:
قارئین تحریرسوچ رہے ہوں گے کہ ہم بھی کہاں سے چلے تھے اورنہ جانے کہاں چلے جارہے ہیں؟ یہ شیطانی آنت کی لمبائی ختم ہی نہیں ہوتی ،اس لیے ہمیں تو ایسا ہی لگ رہاہے کہ پتانہیں
کس جا قیام ہو گا کہاں ہو گی اپنی شام
یارب بغیر نام و نشاں جا رہا ہوں میں
دوسروں کاکیاروناروئیں؟جب کہ ہم خودہی اس کے ذمہ دارہیں،کوئی دوسرانہیں ہے۔آج ہم نے انگریزی کے سایہ میں اس طرح ڈیرہ ڈالاہے اور اردوزبان کے ساتھ ایسا سلوک کررہے ہیں،جیسے کہ یہی ہماری لسانی تہذیب وثقافت کا عظیم ورثہ ہے،یہی ہماری ملی وقومی تشخص کاآئینہ دارہے۔ بہت سے اردوالفاظ کو ہم اردو دانوں نے انگریزی کے قبرستان میں مکمل طورپردفن کردیاہے ۔اوراِس کوکارخیراورکارثواب سمجھ کرمسلسل دفن کرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ اوریہ عمل روز بروزاتنا تیزسے تیزترہورہاہے،جوکہیں رکنے کانام ہی نہیں لے رہاہے ۔یاد رکھیں کہ اگر اردوکے زوال اورانگریزی کے عروج کی رفتاریوں ہی اپنی جگہ قائم رہی تویہ بھی خطرہ ہے کہ ہماری پیاری سی اردو زبان ایک دن گمنامی کے تاریک غار میں چھپ جائے گی اور ہمارا تشخص اور وجود بھی لاموجودکی فہرست میں آ جائے گا۔
روکیے،خداکے واسطے اس سلسلہ کوروکیے اورمکمل زوال پذیرہونے سے بچالیجیے۔کیوں کہ یہ آپ کااہم ترین اور قومی وملی فریضہ ہے ۔
خداحافظ یا․․․․․:
انگریزی واردوکے الفاظ کایہ چندتقابلی مطالعہ تھاجوتحریرکیاگیا۔اب یہی سمجھ میں نہیںآ رہاہے کہ کہاں تک گنتی کرائی جائے ؟کیوں کہ یہ کسی بحربیکراں سے کم نہیں ہے ۔ جس کی گہرائی کوناپناہمارے لیے اتناآسان نہیں ہے ،جتناآپ حضرات اپنے گھروں یادالان میں بیٹھ کرسمجھ رہے ہیں۔یوں سمجھ لیجیے کہ یہ چنے اورسوجّی کا حلوہ نہیں ہے، بل کہ لوہے کاچناہے،جسے منہ میں ڈال کردیکھ لیجیے معلوم ہوجائے گا۔ لہٰذا رخصتی سے پہلے اتنا توقارئین کرام کواپنادینی اور ملی فریضہ سمجھ کر بتلا ہی دوں کہ کل تک کسی کی رخصتی کے وقت لوگ ایک دوسرے کو ”الوداع“ یا ”خدا حافظ “ اور”فی اَمانِ اللہ“جیسے پیار بھرے اور دعائیہ الفاظ سے رخصت کیا کرتے تھے۔لیکن اب ہاتھ ہلا کر ”بائے بائے“(Bye Bye)یا ”ٹاٹا“ (Ta-Ta)کہہ کر رخصت کرتے ہیں۔
اس لیے تحریر کو مختصر کرنے،آپ کوجھنجھلاہٹ اوراکتاہٹ سے بچانے کی خاطرہم بھی اپنے ہردل عزیز قارئین کی خدمت میں خلوص دل کے ساتھ پیش کرتے ہیں ․․․․ ․․ یا پھر ․․․․․․؟(جاری……)