مفتی اویس نواپوری(استاذ جامعہ اکل کوا)
﴿وَمِنَ الَّذِینَ ہَادُواْ سَمَّاعُونَ لِلْکَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَأْتُوکَ یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِہِ﴾(المائدة: 41)
از آدم تا ایں دم سینہ ٴگیتی پر جنم لینے والی پوری انسانی برادری کو سات ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱- حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک۔
۲ – حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک۔
۳- حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت موسی علیہ السلام تک۔
۴- حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک۔
۵- حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک۔
۶- بعثت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اب تک۔
۷- اور یہاں سے قیامت تک۔
مذکورہ ادوار میں چوتھا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دور ہے۔ یوں تو حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان کئی انبیا آئے اور ان کا تذکرہ کسی قدر قرآن کریم میں مل بھی جاتا ہے ، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تاریخ کو جو شہرت حاصل ہے اس کی شان جداگانہ ہے۔ آج کی دنیا میں تین بڑے مذاہب یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں کی پوری تعداد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ اور قرآن ِکریم بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو تمام انسانوں کے امام کا رتبہ دیا ہے۔
﴿وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِین﴾(البقرة: 124)
اور یاد کرو!جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چندباتوں کے ذریعے آزمایا، تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ( حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) عرض کیا اور میری اولاد میں سے بھی،فرمایا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں۔ ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد جو عرب میں رہی اور عرب کہلائی۔ دوسری حضرت اسحاق علیہ وسلم کی اولاد۔ اس شاخ میں حضرت یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام،موسیٰ علیہ السلام، داود علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، یحیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے انبیا پیدا ہوئے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام چوں کہ اسرائیل تھا ،اس لئے یہ نسل بنی اسرائیل کہلائی؛اسی شاخ میں جب تنزلی کا دور آیا تو یہودیت پھر عیسائیت نے جنم لیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امامت حضرت اسحاق علیہ السلام میں منتقل ہوئی اور اس شاخ میں بہت سے انبیاء پیدا ہوئے۔ اسی شاخ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بیت المقدس کی تعمیر ہوئی اور اسے اپنا مرکز بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بھی ایک لمبا عرصہ نماز میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ؛جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
﴿ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَہْرًا، وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ أَنْ یُوَجَّہَ إِلَی الْکَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ سورة البقرة آیة 144، فَتَوَجَّہَ نَحْوَ الْکَعْبَةِ، وَقَالَ السُّفَہَاءُ مِنَ النَّاسِ وَہُمْ الْیَہُودُ: مَا وَلَّاہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا، قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ سورة البقرة آیة 142، فَصَلَّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ مَا صَلَّی، فَمَرَّ عَلَی قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فِی صَلَاةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ: ہُوَ یَشْہَدُ أَنَّہُ صَلَّی مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّہُ تَوَجَّہَ نَحْوَ الْکَعْبَةِ فَتَحَرَّفَ الْقَوْمُ حَتَّی تَوَجَّہُوا نَحْوَ الْکَعْبَةِ۔ (بخاری۔ 399)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم (دل سے) چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”ہم آپ کا آسمان کی طرف باربار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں۔ پھر آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر لیا اور احمقوں نے جو یہودی تھے کہنا شروع کیا کہ انہیں اگلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا۔ آپ فرما دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔“
(جب قبلہ بدلا تو) ایک شخص نے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا، جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے، جس میں آپ نے موجودہ قبلہ (کعبہ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت (نماز کی حالت میں ہی) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔( اسی لئے مسلمانوں میں آج تک بیت المقدس کو قبلہ اول کا شرف حاصل ہے۔ )
خلاصہ کلام یہ کہ یہود یا بنی اسرائیل وہ قوم ہے، جن کی تاریخ آج بھی زندہ و جاوید ہے، نیز اس قوم کی بہت سی باتیں آج بھی دین ِاسلام میں نہ صرف تسلیم کی جاتی ہیں ؛ بلکہ شعائر کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اب قوم ِیہود کے اس مختصر سے تعارف کے بعد ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اس قدر فضیلتوں کی حامل قوم عند اللہ مغضوب و مردود کیسے ہو گئی؟ تو قبل اس کے کہ ہم اس سوال کا جواب معلوم کریں پہلے سنت اللہ اور عادت اللہ کو جان لیں تو زیادہ مناسب ہوگا اور اس سوال کا جواب سمجھنا بھی اسی پر منحصر ہے۔
ایک ہے اللہ تعالیٰ کی سنت ِکونیہ کہ اللہ نے ایک چیز تخلیق فرمائی اور کسی خاص عمل پر اسے مامور کردیا، پھر وہ چیز اس عمل کو مسلسل انجام دیتی رہتی ہے اور اس میں استحکام ہوتا ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی قدرت ِکاملہ کے ذریعہ اس چیز کو عمل سے روک دے؛ جیسے اللہ تعالیٰ نے آگ کو جلانے پر مامور کیا ہے اور وہ اپنی زد میں آنے والی ہر چیز کو خاکستر کر دیتی ہے ؛مگر جب اللہ نے اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اثر انداز ہونے سے روک دیا، تو وہ اپنا کام کرنے سے رک گئی جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿قُلْنَا ینَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلمًا عَلی اِبْراہِیْمَ﴾(انبیاء:69)
ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی ہوجا۔
اور پانی کا خاصہ ہے بہنا، مگر جب اللہ تعالی نے اسے حضرات موسیٰ علیہ السلام کے لئے بہنے سے روک دیا تو وہ دونوں طرف پہاڑوں کی مانند دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا رشاد گرامی ہے:
﴿ فَاَوْحَیْنَا اِلی مُوْسی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ-فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْم وَ اَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاخَرِیْنَ ﴾ (الشعراء: 64)
تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہوگیا جیسے بڑا پہاڑ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو۔
جس طرح سنت ِکونیہ مستقل اور مستحکم ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک اور سنت ہے۔ سنت ِقدریہ اور یہ بھی مستقل اور مستحکم ہے؛ اسی کا تعارف کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
﴿وَ اِذَا اَرَدْنَا اَنْ نُّہلِکَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہا فَفَسَقُوْا فِیْہا فَحَقَّ عَلَیْہا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنا تَدْمِیْرًا﴾ (الاسراء: 16)
اس آیت ِکریمہ کا ترجمہ حضرت اقدس مولانا اشرف علی رحمة اللہ علیہ اس طرح فرماتے ہیں: اور جب ہم کسی بستی کو (جو کہ کفر و معصیت کے سبب بمقتضائے حکم قابل ہلاکت ہو) ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو (اس کو قبل بعثتِ رسل ہلاک نہیں کرتے ؛بلکہ کسی رسول کی معرفت) اس (بستی) کے خوش عیش (یعنی امیر و رئیس) لوگوں کو (خصوصا اور دوسرے عوام کو عموما ایمان و طاعت کا) حکم دیتے ہیں ،پھر (جب) وہ لوگ (کہنا نہیں مانتے بلکہ) وہاں شرارت مچاتے ہیں، پھر ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے، پھر ایسی بستی کو تباہ اور غارت کرڈالتے ہیں۔ (بیان القرآن)
اور اسی قانون کی وضاحت سورہٴ انفال کی اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے۔
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ﴾ (الرعد: 11)
بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔
یعنی اگر کوئی قوم فرمانبرداری کی حالت میں ہے، تو اللہ تبارک و تعالی اسے نعمت کی حالت پر باقی رکھتے ہیں اور جب وہ قوم اپنی فرمانبرداری کی حالت کو نافرمانی سے بدل دیتی ہے، تو اللہ تبارک و تعالی بھی اپنی نعمت کی حالت کو عذاب اور مصیبت کی حالت سے بدل دیتے ہیں، پھر اس قوم پر مصیبتیں اور عذابِ الٰہی آ پہنچتا ہے۔
بالکل اسی قانون کے تحت یہودیوں نے اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دیا اور نافرمانی پر اتر آئی تو اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کے سزاوار ہوگئے۔ اور نافرمانیاں بھی مسلسل اور انتہائی گھناؤنی؛یہاں تک کہ کتب ِسماویہ میں تحریف اور انبیا پر بہتان باندھنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
پہلی نافرمانی تحریف فی کتاب اللہ:
یہودیوں نے پہلی نافرمانی یہ کی کہ ان کے علما نے کتب ِسماویہ میں مختلف تحریفیں کی۔ تحریف کی ایک صورت تو یہ تھی کہ وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ لیتے، جس میں اپنی نفسانی تمام تر خواہشات شامل کر دیتے اور پھر اسے اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے منسوب کر دیتے، جس کی طرف اللہ تبارک و تعالی کا یہ ارشاد اشارہ کرتا ہے۔
﴿وَ مِنْہُمْ أُمِّیُّونَ لایَعْلَمُونَ الْکِتابَ إِلاّ أَمانِیَّ وَ إِنْ ہُمْ إِلاّ یَظُنُّونَ فَوَیل لِّلَّذِینَ یَکتُبُونَ الکِتَٰبَ بِأَیدِیہِم ثُمَّ یَقُولُونَ ہَٰذَا مِن عِندِ للَّہِ لِیَشتَرُواْ بِہِ ثَمَنا قَلِیلا فَوَیل لَّہُم مِّمَّا کَتَبَت أَیدِیہِم وَوَیل لَّہُم مِّمَّا یَکسِبُونَ ﴾ (البقرة: 87-89)
ان میں کچھ ان پڑھ لوگ بھی ہیں، جو کتاب الٰہی کا علم نہیں رکھتے، ان کے پاس جھوٹی آرزوئیں ہیں اور وہ محض خیالی باتوں میں گرفتار ہیں تو جو لوگ خود اپنے ہاتھوں کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے؛ تاکہ اس کے ذریعہ تھوڑا سا معاوضہ حاصل کر لیں، ان کے لئے تباہی و بربادی ہے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھا ہے، وہ بھی باعث تباہی ہے اور جو کچھ وہ اس کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں، وہ بھی ان کے لئے سامان خرابی ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم اس آیت کے تحت آسان تفسیر قرآن میں لکھتے ہیں:- علماء یہود اپنی عوام کو یقین دلاتے تھے کہ جنت میں صرف ہم ہی داخل ہوں گے اور چوں کہ ہمارے آباء واجداد اللہ کے پیغمبر تھے؛ اس لئے وہ بہر حال ہماری مغفرت کرائیں گے، اس طرح کی جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر کے ان کو اسلام قبول کرنے سے روکتے تھے، قرآن نے اسی خوش خیالی اور خود فریبی کی تردید کی ہے۔(انتہی)
وہ اوصافِ پیغمبرِ آخر الزماں جو تورات میں آئے تھے بعض علماء یہود نے انہیں تبدیل کردیا۔ انہوں نے یہ تبدیلی اپنے مقام و منصب کی حفاظت کی خاطرکی تھی اور ان منافع کی خاطر جو انہیں ہر سال عوام کی طرف سے ملتے تھے۔ جب پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ کے اوصاف کو تورات میں بیان کردہ اوصاف کے مطابق پایا۔ اس پر انہیں ڈر ہوا کہ حقیقت کے واضح ہونے کی صورت میں ان کے منافع خطرے میں پڑ جائیں گے؛ لہذا انہوں نے تورات میں مذکورحقیقی اوصاف کے بجائے ان کے مخالف اوصاف لکھ دیئے۔ یہودی عوام نے وہ اوصاف کم و بیش سن رکھے تھے ،اس لئے وہ اپنے علماء سے پوچھتے کہ کیا یہ وہی پیغمبرِ موعود نہیں، جن کے ظہور کی آپ ہمیں بشارت دیا کرتے تھے۔ اس پر وہ تورات کی تحریف شدہ آیات پڑھتے تھے ؛تاکہ وہ خاموش ہوجائیں اور توریت یا انجیل میں نبیٴ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئی ہوتی تو وہ اسے چھپانے کے لیے کبھی تو عبارت میں تحریف کرتے تو کبھی اس کی غلط تفسیر و ترجمانی کر کے معنی میں تحریف کرتے تھے اسی کو قران کریم بیان کرتا ہے۔
﴿ وَإِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیقًا یَلُونَ الْسِنَتَہُمْ بِالْکِتَبِ لِتَحْسَبُوہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَقُولُونَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ وَیَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ﴾
(آل عمران: 78)
اور انھیں میں کچھ لوگ ہیں جو کتاب پڑھتے وقت الٹ پھیر کر دیتے ہیں؛ تا کہ جو بات کتاب میں نہیں ہے، تم اس کو بھی کتاب کا حصہ سمجھنے لگو، وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے؛ حالاں کہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور وہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ گھڑ تے ہیں۔(یعنی پہلی آیت کریمہ میں صرف لفظی تحریف کا ذکر ہے اور دوسری میں لفظی اور معنوی دونوں تحریف کا ذکر ہے۔(مستفاد از: آسان تفسیر قرآن۔)
دوسری نافرمانی گناہ کے جواز کی گنجائش نکالنا:
یوں تو ہر امت میں ایسے افراد ضرور ہوتے ہیں، جو چوری کرتے ہیں، شراب پیتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں؛ بلکہ اس سے بھی بڑے بڑے گناہ کرتے ہیں، مگر وہ گناہ کو گناہ سمجھتے ہیں، پھر اس کے مرتکب ہوتے ہیں، مگر علمائے یہود اور عوام یہود میں کچھ ایسے لوگ تھے جو نہ صرف گناہ کے جواز کی گنجائش پیدا کرتے تھے، بلکہ اسے دین کا اور اپنی شریعت کا جز سمجھتے تھے۔ ان کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ دنیا میں حقیقی انسان صرف یہود ہیں باقی پوری دنیا کے انسان ان کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، اس لیے انہیں مارنا اور ان کا مال لوٹ لینا ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا سب درست اور جائز ہے۔اور یہ ساری باتیں اور اس طرح کی اور لغویات سے ان کی مقدس کتاب تلمود بھری پڑی ہے۔ اور قرآن کریم نے بھی ان کی قلعی کھولی ہے۔
﴿وَمِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْہُ بِقِنطَارٍ یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ وَمِنْہُم مَّنْ إِن تَأْمَنْہُ بِدِینَارٍ لَّا یُؤَدِّہِ إِلَیْکَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَائِمًا ذَٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْأُمِّیِّینَ سَبِیلٌ وَیَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُونَ﴾ (آل عمران: 75-77)
اہل کتاب میں سے بعض وہ ہیں کہ اگر تم ان کے پاس مال کا ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تم کو ادا کر دیں گے(یہ وہ نیک دل لوگ ہیں جو بعد میں ایمان لے آئے) اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک دینار بھی رکھو تو واپس نہ کریں گے سوائے اس کے کہ ان کے سر پر کھڑے رہو، یہ اس لئے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ غیر اہل کتاب کے مال کے سلسلہ میں ہم پر کوئی گناہ نہیں اور وہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ گھڑ رہے ہیں۔
اس آیت کے تحت استاذ محترم حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں:- یہودیوں میں مال کی طمع اور حرص بہت زیادہ ہے، یہ صورت ِحال آج تک قائم ہے اور یہی حرص ہے، جس نے ان کو دنیا کی سب سے بڑی سود خور قوم بنا رکھا ہے؛ حالاں کہ خود تو رات میں بھی سود کی مذمت موجود ہے۔
تیسری نافرمانی عہد شکنی کرنا:
یہودیوں میں تیسری بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ جب کسی سے عہد و پیمان کرتے تھے ،تو اسی وقت تک اس کا لحاظ رکھتے تھے، جب تک ان کی کوئی غرض وابستہ ہوتی ؛جہاں غرض ختم ہو جاتی وہ عہد شکنی پر اتر آتے تھے۔ جیسا کہ غزوہٴ خندق کے موقع پر مدینہ کے یہود نے عہد شکنی کی۔ اللہ تبارک و تعالی اسی کے باب فرماتے ہیں:
﴿الَّذِینَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِی کُلِّ مَرَّةٍ وَہُمْ لَا یَتَّقُونَ (56) فَإِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِم مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ (57) وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِیَانَةً فَانبِذْ إِلَیْہِمْ عَلَیٰ سَوَاءٍ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ (58) ﴾ (الانفال: 56-58)
جن سے آپ عہد لیتے رہے ہیں، پھر بھی وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور وہ ڈرتے نہیں ہیں تو جب کبھی آپ جنگ میں ان پر قابو پالیں تو ان کو ایسی سزا دیں کہ جو لوگ ان کے پیچھے ہیں، وہ بھی ڈر جائیں شاید وہ عبرت حاصل کریں اور اگر آپ کو کسی قوم سے بد دیانتی کا اندیشہ ہو تو برابری کے ساتھ ان سے معاہدہ ختم کر دیں، بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
ان آیات میں مدینہ کے یہودیوں کا ذکر ہے، یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنو نضیر کی جانب سے کئی بار عہد ہوا اور پھر عہد شکنی ہوئی، یہاں تک کہ غزوہ ٴخندق کے موقع سے، جب اہل مکہ نے بیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ مدینہ پر ہلہ بول دیا اور کوشش کی کہ مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے، اس وقت یہود بغلی دشمن ثابت ہوئے اور انھوں نے سارے عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ کر نہ صرف مدینہ کی مدافعت میں مسلمانوں کی مدد نہیں کی ؛بلکہ دشمنوں کے ساتھ جا ملے، اسی سلسلہ میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ اب وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، اس میں یہودیوں کے ساتھ قطعاً کوئی نا انصافی اور مسلمانوں کی طرف سے تشدد نہیں؛ بلکہ جن لوگوں نے بار بار مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا اور آپ کو زہر دیا، ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں تھی کہ اب انھیں مزید کوئی موقع نہ دیا جائے۔
چوتھی نا فرمانی نبیوں پر بہتان باندھنا:
ان میں ایک انتہائی درجہ کی خرابی یہ تھی کہ وہ جھوٹ اور بہتان میں اس حد تک گر سکتے تھے کہ وہ نبیوں پر بہتان باندھنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے اور یہ سب بے ہودہ باتیں انہیں کی من گھڑت بائبل میں مذکور ہیں۔ جن میں سے کچھ باتیں سو بار نعوذ باللہ پڑھتے ہوئے ذکر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے۔
- لوط نے شراب سے بدمست ہو کر اپنی بیٹیوں سے زنا کیا۔
- بڑھاپے میں داؤد کا پہلو گرم کرنے کے لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملک کی جوان کنواری حسینائیں لائی جاتی تھیں۔
- داؤد نے اورّیاہ کی بیوی کو محل میں بلا کر اس سے زنا کیا۔
- اور پھر اورّیاہ کو قتل کروا کر اس کی عورت کو بیوی بنالیا۔
- حضرت سلیمان اسی عورت سے پیدا ہوئے۔
- سلیمان بوڑھے ہو گئے تو ان کی بیویوں نے ان کا دل غیر معبودوں کی طرف مائل کر دیا۔
یہ تو مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر اہل یہود کی چند باتیں آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کی روشنی میں پیش کی گئیں؛ ورنہ تماتر خامیوں کا اگر احاطہ کیا جائے تو شاید ایک مکمل کتاب درکار ہو۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ کہ جب اہل یہود نے اپنی فرمانبرداری کی حالت کو نافرمانی سے بدل دیا تو اللہ تعالیٰ کی سنت قدریہ – جو کہ ایسے ہی مستحکم اور یقینی ہے جیسے کہ آگ کا جلانا اور پانی کا بہنا – حرکت میں آئی اور ایک عند اللہ مقبول قوم مغضوب و مردود ہوگئی۔
قومِ یہود کی تباہی اور بربادی میں ہم امتِ محمدیہ کے افراد کی خاطر بھی کافی سامان عبرت ہے وہ یہ کہ جب کوئی قوم نافرمانی پر اتر آتی ہے تو اس کی تباہی و بربادی سنت ِقدریہ کے تحت لازم اور ضروری ہوتی ہے۔ چاہے وہ یہود ہوں یا مسلمان؛ جب یہ سنت قدریہ ہے تو سنت قدریہ ہر ایک قوم کے لئے یکساں اور برابر ہے۔
اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نافرمانی کی راہ سے نکال کر فرمانبرداری کے راستے پر گامزن فرمائے! اپنے غیظ و غضب سے محفوظ فرمائے اور اپنی رحمت و عافیت کا مستحق بنائے۔ (آمین)