امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کرلیا ،لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقوامی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہے ہی نہیں تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال بہت ہی اہم ہے؛چناںچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطورِ ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرپارہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی۔
اسرائیل کے ناجائزقیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیہ میں معاملے کو دیکھ لیجیے، جس بیانیہ میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا ۔برطانیہ اوراقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کردی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کا حصہ نہیں ہوگا۔
۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر ۱۸۱ کے تحت یہ قراردیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum” کی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں، اس کی الگ اور جدا گانہ حیثیت ہے۔ اقوام ِمتحدہ نے کہا چوں کہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے، اس لیے اس علاقہ میں اسرائیل او رفلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آرہی ہیں؛ لیکن یروشلم کا شہر”Corpus Separatum” ہوگا اور اس کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر ۱۹۴۸ء کی اپنی قراداد نمبر ۱۹۴ میں کہی اور اس بات کا اعادہ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے ۱۹۴۹ء میں سوئزر لینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرس میں کیا جو ۲۷ اپریل سے ۱۲ ستمبر تک جاری رہی۔
اسرائیل ننے ۱۹۴۹ میں مصر، اردن،شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement” یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔ چناںچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلاگیا۔ یاد رہے کہ مسجدِ اقصی، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔ ۱۹۶۷ء تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو دیکھتا رہا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کرلیا، لیکن دنیا نے اس قبضہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔ سلامتی کونسل نے ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ کو قرارداد نمبر ۲۴۲ کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کو کہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت ۱۵ ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۴ جولائی ۱۹۶۷ کو قرارداد نمبر ۲۲۵۳ کے ذریعے اسرائیلی قبضہ کو غیر قانونی اور ناجائز قراردیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کرتا ہو۔ ۹۹ ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
تیرہ سال اس طرح گزرگئے۔ ۱۹۸۰ میں اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ یروشلم اس کا دار الحکومت ہوگا۔ اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔ اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آگیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کردیے جائیں گے ۔ اس دوران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے ۳۰ جون کو قرارداد نمبر ۴۷۶ اور پھر ۲۰ اگست ۱۹۸۰ کو قرارداد نمبر ۴۷۸ پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لا کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے فیصلہ کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔ اس قرارداد کے حق میں ۱۴ ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔ امریکہ البتہ غیر حاضر رہا؛ چناںچہ اس قرارداد کے فوراً بعد بولیویا، چلی، کولمبیا، کوسٹاریکا، پانامہ، یوروگوائے، وینزیویلا، ایکواڈور، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آگئے؛حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہوسکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔ دسمبر ۱۹۸۰ ء میں اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ وہ اس سے باز رہے۔
یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کرچکی ہے کہ یہ اسرائیل کا حصہ نہیںہے۔ جنرل اسمبلی کی چار جولائی ۱۹۶۷ اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی ۱۹۶۸ کی قرارداد نمبر 252میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کرکے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہاہے اس سے وہ اجتناب کرے۔
1990میں اسرائیل کی جانب سے جب مسجد ِاقصیٰ میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہاکہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے ؛بل کہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوامِ متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کردی گئی ہیں۔
یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تاکہ اس سے ’’ ایڈوائزری او پینین‘‘ لیا جا سکے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بل کہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔ کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بل کہ مقبوضہ ہے۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔
عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی، آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے؛ یہاں اس غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کراچکا ہے۔ خواب پر انا ہے، اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے ر ہاہے۔
اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہ نما، گریک آر تھوڈو کس چرچ کے فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے، جس میں انہیں وارننگ دی کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کرکے آپ ناقابلِ تلافی نقصان اٹھائیں گے۔اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت، تشدد میں اضافہ ہوگا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہوجائیں گے۔
معاملہ کا قانونی پہلو اب آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی حمایت کرنے کے لیے دو میں سے ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے۔
اول: آدمی جاہل ہو۔
دوم: وہ بددیانت ہو۔
تیسری صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں۔
تاریخی اعتبا رسے، عالمی قانونی اعتبار سے، مذہبی اعتبار سے غرضیکہ ہر اعتبار اور پہلو سے بیت المقدس، مسجد ِاقصیٰ اور القدس شہر پر صرف اور صرف مسلمانوں ہی کا حق ہے؛ لہٰذا امریکہ کے اعلان کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا، اور الحمد للہ! اس بارے میں ہوئی ووٹنگ میں بھی امریکہ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
امریکہ ،اسرائیل،گوئٹیمالا،ہونڈیورس،دی مارشل آئسلینڈز، مائیکرونیشیا،نَورو،پالائو اور ٹوگوان چند ملکوں کو چھوڑ کر کسی نے اس کے حق میں فیصلہ نہیں دیا۔ وللہ الحمد علی ذالک!
(۱)اس موقع پر پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے تین تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسلامی کونسل اس مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھاتی، تو اس مسئلے کواقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھایاجائے ۔
(۲)قابض صہیونی افواج کاتسلط ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تنظیمِ تعاونِ اسلامی اقتصادی طورپربھی دباؤڈالے۔
(۳)اس مسئلے کوعالمی عدالت ِانصاف میں بھی اٹھایاجائے ۔
کانفرنس کاانعقادترک صدررجب طیب اردگان کی خصوصی دل چسپی کے باعث ممکن ہوا۔اجلاس میںمسلم حکم رانوںنے عرصے بعدکوئی لگی لپٹی رکھے بغیرامریکہ سے دوٹوک اورکھلے اندازمیں بات کی ؛اسی اتحادکی بہ دولت یہ ہوسکاہے،کہ روس اورچین نے امریکی اقدام کی حمایت نہ کرنے کااعلان کیاہے ۔
القدس سے متعلق امریکی فیصلہ کس قدرعاجلانہ اورجاہلانہ ہے کہ پوری دنیاسے کہیںبھی اِس کی حمایت میںقابلِ ذکرآوازنہیں اٹھی۔انصاف پسندغیرمسلم شخصیات ،اداروںاورملکوںنے ؛حتیٰ کہ امریکہ ہی کے بے شمارشہریوںنے ٹرمپ کے اعلان کی مخالفت کی ہے ۔صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوںکے ساتھ پوری دنیاایک طرف اورصرف امریکی اشرافیہ اوراسرائیل ایک طرف ہے۔وینزویلاکے صدرتوفلسطینی کازکی حمایت میںاوآئی سی کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے ۔اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ بیت المقدس کواسرائیل کی گودمیںدے دیناصرف مسلمانوںکی نگاہ میںنہیں،بل کہ ہرمنصف مزاج شخص کی نظرمیںانتہائی غلط،ناجائزاورغیرقانونی اقدام ہے ۔
مسلم حکم رانوںکواب بھی خیال کرناچاہیے کہ او،آئی، سی(O.I.C) اجلاس کامعاملہ نشستن،گفتن وبرخاستن کااور’’احتجاجی جلسہ‘‘کانہیںہوناچاہیے ۔بل کہ عملی اَقْدام بھی اٹھانے چاہیے۔وہ باہمی رنجشیں بھلاکراتحادواتفاق کامظاہرہ کریںاورامت کے سلگتے مسائل کے حل کے لیے سرجوڑکربیٹھیںاورکوئی قابلِ عمل حل تلاش کرکے اس پرعمل درآمدکرائیں۔آج وقت ہاتھ میںہے ،کل نکل جائے گاتوپھرالجھی ڈورکاسرانہیںملے گا۔
ہم امریکہ اوراس کے حوالی موالی حلقوںکوبھی دعوتِ فکردیتے ہیں،کہ وہ سوچیںکہ کسی قوم کوبہ زورِطاقت عرصۂ دراز تک دباکررکھانہیںجاسکتا۔من مانے فیصلے مسلط کرنے سے اشتعال ہی جنم لیتاہے،اگردنیاکوامن دینامقصودہے تومسلم امہ کواس کے غصب شدہ حقوق نہ صرف واپس کرناہوںگے،بل کہ اسرائیل جیسی دہشت گردریاستوںکی سرپرستی بھی چھوڑناہوگی۔
(’’الصیانۃ ‘‘ جنوری؍۱۸ :مضمون نگارمولانا حنیف صاحب جالندھری)
اب سوال یہ کہ بیت المقدس کی بازیابی کیسے ممکن ہوگی؟ یہ ایک طویل الذیل عنوان ہے، جس کی طرف چند اشارات دیے جاتے ہیں:
فلسطین کی بازیابی کے لیے ہمہ جہتی تدابیر اختیار کرنی ہوںگی جس کو موٹے موٹے عناوین میںاس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے اوروہ یہ ہیں :
(الف) اللہ کی طرف رجوع :
(۱)… مسلمانوں کو انفرادی و اجتماعی مسائل میں کامل طور پر اللہ کی طرف رجوع ہونا ہوگا۔
(۲) …عقیدے کا صحیح کرنا ضروری ہوگا۔
(۳)… آخرت پر ایمان کا مضبوط کرنا ضروری ہوگا۔
(۴)… نیت میں خلوص پیدا کرنا ہوگا۔
(۵)… تمام عبادات کا مکمل اہتمام کرنا ہوگا۔
(۶) …حسنِ اخلاق کو اختیار کرنا ہوگا۔
(۷) …سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔
(۸)… مسلمان معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو عام کرنا ہوگا۔
(۹)… گناہوں سے سچی پکی توبہ کرنا ہوگا۔
(۱۰)… مالِ حلال کے کمانے کا اہتمام کرنا ہوگا۔
(۱۱)… اپنے آپ کو قدر و قضائے الٰہی پر راضی رکھنا ہوگا۔
(۱۲)… دشمنانِ اسلام سے دوستی کو ختم کرنا ہوگا۔
(۱۳)… نیک لوگوں کی سیرتوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
(۱۴) …دنیا سے زہد او ربے زاری رکھنا ہوگا۔
(۱۵)… ہمیشہ موت کو یاد کرتے رہنا ہوگا۔
(۱۶) …علمی مجلسوں میں کثرت سے حاضری دینی ہوگی۔
(۱۷)… ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔
(ب) قضیہ فلسطین کی دینی حیثیت کو سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے :
(۱۸) …مسلمانوں نے جن زمینوں کو فتح کے ذریعہ حاصل کیا ہے اس کے احکام جاننا ہوگا۔
(۱۹)… القدس اور اس کے اردگرد اراضی کو بیچنا حرام ہے اس سے واقف ہونا ضروری ہے۔
(۲۰)… مسلمان اس مسئلہ سے بھی واقف ہوں کہ مقبوضہ فلسطین کو آزادی دلانا ان کا دینی فریضہ ہے۔
(۲۱)…دشمن خاص کر یہود کی ہر طرح کی چالبازیوں سے واقفیت ضروری ہے؛ تاکہ ان سے بچا جاسکے۔
(۲۲)… یہودیوں اور یورپی اقوام کے مشترکہ منصوبوں اور تعلقات سے واقف ہونا ضروری ہے۔
(۲۳)… اپنے گھر کے افراد کے سامنے قضیۂ فلسطین کا مذاکرہ کرتے رہنا چاہیے؛ تاکہ ضرورت کے موقع پر وہ لوگ فلسطین کے لیے مرمٹنے کو تیار رہیں غافل نہ ہوں۔
(ج) قضیہ فلسطین سے اپنے متعلقین کو واقف کرنے کی بھر پور کوشش کرنا :
(۲۴)… اپنے دوست و احباب میں بھی فلسطین کے قبضہ کو موضوعِ بحث رکھنا چاہیے؛ تاکہ وہ بھی فلسطین کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔
(۲۵) …جن افراد کے ساتھ آپ کا سوشیل میڈیا، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ پر ربطہ ہو،ا نہیں بھی فلسطین سے متعلق معلومات دیتے رہنا چاہیے۔
(د) مسلمانوں میں وحدت کے لیے کوشش کرنا :
(۲۶)… مسلمانوں کو آپسی اتحاد و اتفاق کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
(۲۷)… مسلمانوں میں انتشار برپا کرنے والے کسی بھی طریقے سے دور رہنا چاہیے۔
(۲۸)… اختلاف کے وقت کن آداب کی رعایت ضروری ہے، اس کو جاننا چاہیے۔
(۲۹)… مسلمانوں کی آپسی مصالحت کی بھرپور کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
(۳۰)… مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے صرف انفرادی کوشش پر اکتفا نہ کرے؛ بل کہ اجتماعی طور پر بھی کوشش جاری رکھے۔
(۳۱)… اسلام میں شوریٰ کی کتنی اہمیت ہے اسے جان کر قیامِ شوریٰ کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔
(۳۲)… مسلمانوں میں ان واقعات کو عام کرنا چاہیے، جو ماضی میں اتحادِ اسلامی کے نقیب رہے اور جن واقعات نے نہایت عمدہ اثرات چھوڑے ۔مثلاً: حضرت حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کی مصالحت۔ عماد الدین زنگی نے ملک ِشام کے مختلف شہروں کو متحد کرلیا تھا جس سے فلسطین فتح ہوا۔
(ھ):مسلمانوں میں شوق جہاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا :
(۳۳)… امت کے نوجوانوں کو خاص طور پر لہو و لعب سے شوق ہٹا کر، جہاد کی روح ان میں بیدار کرنی چاہیے۔
(۳۴)… موجودہ نسل کو ناچ گانے اور ہنسی مذاق کے مزاج ہٹا کر قرآن کی تلاوت سے شغف اور دینی امور سے دل چسپی پیدا ہو اس کی ہر طرح کے وسائل اختیار کرنے کوشش کرنی چاہیے۔
(۳۵)… مسلمان ہر موقع پر اوقات کی مکمل پابندی کرے اس کا مزاج بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(۳۶) …مسلمان اپنے وقت صحیح مصرف میں استعمال کرنے کا عادی بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(۳۷) …شریعت نے جو رخصتیں دی ہیں اس کے علاوہ رخصتوں کی عادت نہ ڈال کر رخصت سے زیادہ عزیمت پر عمل کرنے کا عادی بنانے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
(و): مسلمانوں میں انفاق فی سبیل کا شوق پیدا کرنا
(۳۸)… مسلمانوں میں اللہ کے راستے جان مال عزت قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہر طرح کے وسائل کا استعمال اچھی طرح کرنا چاہیے۔
(۳۹)… خاص طور پر انفاق یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے مسلمان معاشرے کو عادی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(۴۰) …بچیوں میں بھی بچپن سے دین کی خاطر ہر طرح قربانی کا داعیہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(۴۱) …اسلامی معاشرے میں ہر وقت نماز پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(ز): دشمنوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا:
(۴۲) …مسلمانوںمیں دشمنانِ دین کی مصنوعات سے مکمل بائیکاٹ کا جذبہ بیدار کرنا ہوگا۔
(۴۳) …اپنی تقریروں اور خطبوں میں علما کو بار بار اسرائیلی بائیکاٹ کی دعوت دیتے رہنا چاہیے۔
(۴۴)… امت میں ایک ایسی جماعت کاہونا ضروری ہے، جو بائیکاٹ مصنوعات کی لسٹ تیار کرے اور اسے معاشرے میں عام کرے، اس کے مقابلے اور متبادل کے طور پر کن مصنوعات کا استعمال کیا جائے، اس کی بھی لسٹ بنانی چاہیے۔
(۴۵)… مسلمانوں کو آپسی تعاون سے معاشرے کو پیش آمدہ تمام ضروری مصنوعات تیار کرنے کا پروگرام بنانا چاہیے۔
(۴۶)… ویب سائٹس اور موبائل ایپلیکیشن تیار کرکے امت کو بائیکاٹ اور مسجد اقصیٰ کی تاریخ سے متعلق صحیح معلومات مہیا کرنی چاہیے۔
(ح): علما اور خطبا کو امت میں نصرتِ الہی کی امید جگانا اور مایوسی کا خاتمہ کرنا:
(۴۷)… علما اور خطبا کو چاہیے کہ وہ امت کومایوسی کے بجائے امید کی کرن اور روشنی دکھائیں اور بتلائیں کہ امت ِمحمدیہ دنیامیں نہ ختم ہونے والی امت ہے؛ لہٰذا مایوس نہ ہوکر اپنے بل بوتے پر کھڑی ہو جائے۔
(۴۸)… مؤمنوں کو بتلائے کہ یہ معرکہ کافر اورمسلم کا نہیں ؛بل کہ حقیقی طورپراللہ کے دشمنوں او راس کے دوستوں کے درمیان ہے۔
(۴۹)… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و حدیث میںنصر ت و تمکین کی جو بشارتیں بیان کی ہیں، اسے جمع کرکے بیان کیا جائے اور مسلمانوں کے حوصلے کو بلند کرے۔
(۵۰)… مسلمانوں نے ماضی میں بد سے بدتر حالات میں بھی کیسے فتح وکامرانی حاصل کی ہے، اس کے واقعات بیان کیے جائیں۔
(ط): صبر واستقامت کا جذبہ پیدا کرنا:
(۵۱)… امت کو یہ بتلایا جائے کہ جب حالات بد سے بدتر ہوں او رمجاہدہ کی عادت پیدا ہو تب ہی اللہ کی مدد آتی ہے، اس کے لیے فقہ الابتلا اور سیرتِ صحابہ وانبیا کو بیان کیا جانا چاہیے۔
(۵۲)… دشمنانِ اسلام کے سامنے شکست خوردگی کا اظہار کرنے سے احتراز کی تلقین کرنی چاہیے۔
(۵۳)… مسلمانوں میں صبر و تحمل کی عادت ڈالنی چاہیے۔
(ی): مسلمانوں کی سیاسی وعلمی تاریخ سے امت کو روشناس کرنا:
(۵۴)… آخری دور میں فلسطین کس طرح ہمارے ہاتھوں سے گیا ،اس کو امت جاننے کی کوشش کرے ۔
(۵۵)… یہودیوں اور صیہونیوں کی تاریخ سے واقفیت۔
(۵۶)… خلافتِ عثمانیہ کے دور میں قضیۂ فلسطین کے ساتھ کیاکیا گیا تھا، اس سے واقفیت ۔
(۵۷)… فلسطین کی وہ شخصیات ،جن کا مزاحمتی تحریکات میںاہم رولت رہا ہے ،ان کی واقفیت بھی ضروری ہے ۔
غرض یکہ فلسطین کی بازیابی کے لیے روحانی، جسمانی ،ظاہری، باطنی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، فکری اور تربیتی ہر طرح کے وسائل کا استعمال مکمل طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ اسباب شیخ راغب سرجانی کی کتاب ’’فلسطین وواجبات الأمۃ‘‘ میں مذکور ہیں؛ اگر ہوسکے توحضرات علما ء کرام اس کتاب کا مطالعہ ضرورکریں، جس میں فلسطین کی بازیابی کے لیے ۱۱۳۵؍اسباب اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
ہم فلسطین کے لیے کیا عہد کریں؟
آئیے! اب عہد کرتے ہیں کہ فلسطین کے لیے صرف زبان خرچی کے طور پر اورتحریر وتقریر کی حد تک محبوس نہیں رہیںگے ؛بل کہ اس کے لیے عملی اقدام کریںگے اور امام غزالی ؒ ،عبد القادر جیلانی ؒ اور امام الحرمین الجوینی کے طرز پر اولاً امت میں دینی بیداری پیدا کریںگے، اس کے بعد اپنی اولاد کو فلسطین کی آزادی کے لیے تیار کریںگے اور اگر موقع ہاتھ لگا تو اپنا سب کچھ اقصیٰ کی خاطر لٹا دیںگے ، جان بھی مال بھی ، عزت بھی ، اولاد بھی اور سب کچھ ۔ان شاء اللہ ! اللہ ہمیں صحیح معنی میں قبلۂ اول کی بازیابی کے لیے کوشش کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور آزاد مسجدِ اقصیٰ میں نماز ہمارے لیے مقدر فرمائے۔ آمین یارب العالمین