قاری سید محمدعارف الدین /استادتفسیروحدیث جامعہ اکل کوا
ہمدم مکرم رفیق محترم مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کا سانحہ وفات ہم سب وابستگان جامعہ کے لیے خصوصاً اور تمام ہی علما و طلبہ و دیگر علم دوست حضرات کے لیے عموماً انتہائی رنجم وغم اور حزن والم کاباعث بنا ۔ ویسے تو اس دنیا میں جنم لینے والا ہر فرد بشر بل کہ ہر متنفس کو فنا لازم ہے اور تمام ہی نفوس ِارضیہ کو باری باری ذائقہ موت سے آشنا ہونا ہی ہے۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اس لیے کہ موت وحیات پر رب کائنات کے علاوہ کسی کو ادنیٰ بھی تصرف حاصل نہیں۔ اور نہ ہی ان پر کسی کا کچھ اختیار ہے۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
نہ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی سے چلے
موت وہ پُل ہے جس پر ہر ایک کو گزر نا ہی ہے،مگر کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں ، جن کے جانے سے محفلیں سونی ہوجاتی ہیں، منبر و محراب خاموش ہوجاتے ہیں،درس گاہیں خالی ہوجاتی ہیں، خانقاہیں غیر آباد ہوجاتی ہیں، مصلے ان کے سجدوں سے محروم ہوجاتے ہیں، غربا ومساکین بے چین ہوجاتے ہیں؛ طلبہ ان کی شفقتوں اور محبتوں کو یاد کرکے اشکبار ہوجاتے ہیں۔ان کے رفقا اور احباب کی نگاہیں اپنے حبیب ورفیق کو ڈھونڈتی رہتی ہیں اور ایک زمانہ ان کی موت پر افسوس کرتا ہے۔
میرے ہمدم کچھ ایسے ہی تھے ، جن کی وفات پر ملک اور بیرون ملک ہر جگہ ہر ایک کو حسرت ہی نہیں بل کہ خبر مرگ سنتے ہی آب دیدہ کر گئی۔
۱۲/ اپریل برو ز اتوار ۲۰۲۰ء بوقت صبح ۳۰:۸ بجے کے بعد جیسے ہی میرے بیٹے مولوی سید رفیع الدین استاذ تحفیظ القرآن نے بذریعہ فون دارالقرآن سے گھر پر مولانا کے وفات کی اطلاع دی، اولاً تو یقین نہیں آیا اور کلیجہ منہ کو آگیااور کچھ دیر کے لیے سکتہ طاری ہوگیا۔ غیر اختیاری طور پر منہ سے ایک چینخ نکلی کہ یا اللہ کتنا اچھا انسان تھا۔بے چین ہوکر میں فوری طورپر چھوٹے بیٹے سید حبیب الدین کو لے کر سیدھے مولانا کے گھر کی جانب روانہ ہوا ، جب نظروں نے دیکھا کہ جامعہ کے اساتذہ خصوصاً نائب رئیس الجامعہ الحاج حافظ اسحاق صاحب وغیرہ گھر کے آنگن میں کرسیاں لگاکر رنج و غم میں ڈوبے بیٹھے ہیں، تب یقین پختہ ہوا ۔ابھی بندہ ناچیز پیکر اندوہ ہی تھا کہ حضرت رئیس محترم کو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے غیر اختیاری طور پر آنسو بہہ رہے ہیں۔ آپ سیدھے مولانا کے گھر میں داخل ہوئے اوربچوں کو تسلی دے کر باہر تشریف فرماہوئے۔اس وقت کے اس بے چین کردینے والے منظر کا اثر تادم تحریر باقی ہے۔
اور میرا قلم بھی اس کی منظر کشی کرنے سے لرز رہا ہے۔زمانہ لاک ڈاوٴن(تالہ بندی) کا تھا حضرت مولانا کی وفات کھروڈ ہسپتال ہی میں ہوئی تھی۔اور آپ کی تدفین آپ کے آبائی وطن رویدرہ میں ہونا طے تھا، کسی کا جنازہ میں شریک ہونا بھی نا ممکن جیسا تھا۔ افسوس صد افسوس کہ ہم خواہش بسیار کے باوجود آپ کے اخیری حق کو ادا کرنے سے بھی معذور رہے، جس کی حسرت پوری زندگی باقی رہے گی۔ اگریہ بندش نہ ہوتی تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے تلامذہ اور آپ کے متعلقین ومحبین دور ودراز کا سفر طے کرکے جنازہ میں شریک ہوتے اور ایک عظیم وکثیر اجتماع ہوجاتا۔ بہر حال” مرضیٴ مولیٰ بر ہمہ اولیٰ ۔“ آپ کی ناگہانی وفات نے سب کو بے قرار کرکے رکھ دیا۔
حضرت مولانا سے اجمالی ملاقات:
میں جس زمانہ میں ڈابھیل میں زیر تعلیم تھااور غالباً عربی پنجم کا متعلم تھا ، مقام ڈابھیل کی جامع مسجد میں ایک تقریری مسابقہ مسجد کے منتظمین نے منعقد کیا تھا ، جس میں گجرات کے مختلف مدارس سے منتخب ایک ایک طالب علم نے شرکت کی تھی اور حکم کی حیثیت سے اس زمانے کے کبار علما حضرت الاستاذ علامہ شوکت صاحب اعظمی اور فلاح دارین کے استاذ تفسیر وحدیث حضرت مولانا سید ابرار صاحب دھولیوی تشریف لائے تھے۔ راقم الحروف نے اس مسابقہ کی تیاری میں کافی حصہ لیا تھا، چناں چہ بروز جمعرات بعد نماز مغرب اس مسابقہ کا آغاز ہوا ۔ مختلف مقررین سامنے آئے ، جن میں ایک بہترین مقرر اورخطیب حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب بھی تھے۔ آپ نے بہت ہی اچھے انداز اور اسلوب میں اپنی تقریر مجمع کے سامنے پیش کی۔ اورجب نتائج کا اعلان ہوا تو آپ کا پہلا نمبر آیا۔ اس وقت سے مولانا کے ساتھ اجمالی تعلق تو کیا بل کہ ایک ملاقات ہوئی تھی جو غالباً مولانا کو یاد بھی نہیں رہی۔
تفصیلی ملاقات:
لیکن بفضلہ تعالیٰ جب میرا تقرر جامعہ ہٰذا میں ہوا ، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسی زمانہ میں مولانا کا بھی تقرر ہواتھا،گویا ہم دونوں کا سن تقرر ایک رہا۔ اس وقت ملاقات ہوئی ۔ اجمالی ملاقات کا ذکر ہوا اور پھر تا حین حیات بے لوث تعلق رہا۔ اللہ مولانا کو غریق رحمت فرمائے آمین۔
حضرت مولانا کا برتاوٴاور سلوک:
مولانا عبد الرحیم صاحب ایک عظیم انسان تھے۔ دکھی اور پریشان حال کو دیکھ کر یا کسی کی ناگفتہ بہٰ حالت کو سن کر آپ آبدیدہ ہوجایا کرتے ، آپ بہت ہی رقیق القلب شخص تھے۔ کسی کی ادنیٰ تکلیف بھی آپ کو بے قرار کردیتی تھی ۔ جہاں تک میرے علم میں ہے جامعہ کے ہر استاذ کی خوشی اور غمی میں برابر کے شریک رہتے تھے۔ خوشی اور مسرت کا موقع ہوتا تو مبارک باد پیش کرنے میں پہل کرتے اور بڑے پرتپاک انداز میں مبار ک بادی کے کلمات کہتے، جس سے سامنے والا کا دل جیت لیتے۔ دامے درمے سخنے ہر طرح کا تعاون فرماتے ۔ میرے ساتھ تو مولانا کے بے شمار احسانات ہیں، جنہیں میں بیان نہیں کرسکتا ۔ آپ واقعتا اسم با مسمیّٰ تھے۔
ایک مرتبہ بیمار ہوا، مولانا نے فوری طور پر حافظ سلیمان صاحب سے بات کرکے گاڑی (ایمبولنس) کا نظم فرمایا اور مجھے سورت روانہ کیا۔
ایک مرتبہ میری والدہ کو ”کوسمبا “ لے جانا تھااور فجر کے بعد دوا خانے میں بتلانا تھاحضرت مولانا تہجد کے وقت میرے گھر تشریف لائے اور مکمل طور پر میرا ساتھ دیا۔ایسے کٹھن مواقع پر ساتھ دینے والے بہت کم ہوتے ہیں ، بل کہ میں تو یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ وہ حقیقی بھائی سے بھی زیادہ ہمدرد اور قریب تھے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔
آپ بڑے وعد ہ وفا تھے:
مولانا اگر کوئی وعدہ کرتے تو اس کو پورا کرنے کی پوری فکر فرماتے۔ میرے بڑے بیٹے سید مسیح الدین کا عقد شہر اورنگ آباد میں طئے ہوا، میں نے مولانا سے درخواست کی آپ کو تقریر بھی کرنا ہے اور نکاح بھی پڑھانا ہے، مولانا نے وعدہ فرمالیا۔اور اس روز بڑی پریشانی کو سہتے ہوئے اوربراداشت کرتے ہوئے اورنگ آباد پہنچے۔ عصر بعد عقد طئے تھا، آپ کے پہنچنے میں کافی تاخیر ہوئی ، بل کہ مغرب کا وقت قریب آگیا۔ میں نے آپ کا انتظار کیا اورمجمع کو روک رکھا، مولانا بڑی صعوبت جھیلتے ہوئے قبیل المغرب پہنچے اور حسب وعدہ مختصر خطاب فرماکر عقد پڑھایا۔ اور بے انتہا مسرت کا اظہار فرمایا۔ مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا، مگر مولانا میرا شکریہ ادا کرنے لگے کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا اور موقع دیا۔
بہر حال یہ مولانا کا تواضع تھا۔ ایسے مخلص دوست نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔
الغرض ! میرے ہر کام میں برادر حقیقی کی طرح شریک رہتے اور مجھے اپنا سمجھ کر اپنائیت کا ثبوت بھی پیش فرماتے۔ایسی بے شمار باتیں ہیں۔ اگر میں تمام کو زیر تحریر لاوٴں تو مستقل ایک رسالہ بن جائے گا۔
اللہ رب العزت مولانا رحمة اللہ علیہ کو جنت الفردوس نصیب فرمائے اورآپ کی اولاد کی حفاظت فرمائے۔ آمین!