(تعزیتی مجلس منعقدہ ۲۷؍شوال۱۴۳۹ھ بمقام مسجدِ میمنی جامعہ اکل کوا)
محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ
سرپرستِ جامعہ ،فخرگجرات ،مفکر ملت حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ کا سانحۂ ارتحال امت مسلمہ کے لیے خصوصاً اورہم برادران وفرزندانِ جامعہ کے لیے ناقابلِ تلافی سانحہ ہے؛آپ کی شش جہاتی اور گوناگوں صفات کی حامل شخصیت کا تعارف ’’عیاں را چہ بیاں‘‘کا مصداق ہے۔آپ کا جامعہ سے جو تعلق تھا اس تعلق کو محسوس کرتے ہوئے آج ہم خود کو یتیم تصور کررہے ہیں؛آپ کا مشفقانہ وپدرانہ معاملہ؛ آپ کے جلسوں اور مجلسوں میں خیر خواہ مدبر ومفکر باپ کی مانند صالحانہ ،مشفقانہ،مفکرانہ ،خیر خواہانہ ،ناصحانہ اور واعظانہ نصیحت وکلام سننے کو یہ سماعت ترس رہی ہے۔
جامعہ میں منعقدتعزیتی مجلس کے انعقاد کا مقصد آپ کی یادوں کی شمع کو دل میں روشن رکھنے اور آپ کی فقید المثال شخصیت کی علمی و تربیتی لوکی گرماہٹ سے علم وعمل کوحرارت پہنچانا ہے۔
آپ اس شمارے کے مختلف مضامین میں حضرتؒ کی سوانح، آپ کی خصوصیات،مقام علمی وعملی، صلاحیتِ تربیتی وانتظامی ،علما ومشائخین سے تعلقات،تصوف وسلوک میں آپ کا مقام ،عوام وخواص میں آپ کا کام،مردم سازی کا خصوصی ہنر ،تحریر وتقریر میں زبان وقلم پر شہنشائیت اور امت کا فکر وکڑھن ؛جیسی کئی خوبیوںکو پڑھیں گے۔نیز اس تعزیتی اجلاس میں حضرت مرحوم کے جن خوشہ چیں حضرات نے اپنے اپنے تاثرات وانطباعات اور قلبی کیفیات کو بیان کیا ہے ، ان کے مضامین بھی شامل ہیں،لہٰذا تکرار ِ غیر ضروری سے بچتے ہوئے،تفصیلاً اس مجلس کی خبر کو ترتیب نہ دیتے ہوئے اشارۃً واختصاراً ہی قارئین کی نذر کروں گا۔
انائونسنگ:
اس تعزیتی مجلس میں انائونسنگ کا فریضہ ،اسٹیجوں کی شان اور جلسوں کی جان حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی انجام دے رہے تھے ،آپ نے اپنے اچھوتے انداز میںتمہیدی کلمات کے بعد تلاوت کلام پاک کے لیے جامعہ کے مؤقر استاذ‘محترم قاری وسیم صاحب کودعوتِ تلاوت دی۔
ترتیلاً تلاوت:
ماشاء اللہ قاری وسیم صاحب نے لحن ِدائودی میں ترتیلاً موت سے متعلق آیتِ کریمہ ’’وما جعلنا لبشرمن قبلک الخلد‘‘الاخ کی تلاوت فرماکر سامعین کے قلوب پر رقت کی کیفیت طاری کردی۔
مرثیہ:
تلاوت کلام پاک کے بعد مرثیہ خوانی کے لیے ؛بلبل جامعہ استاذ شعبہ تجوید وقرآت حضرت قاری حسین صاحب کودعوت پیش کی گئی ۔حضرت قاری صاحب نے اپنا ہی تیار کردہ مرثیہ اپنی ہی آواز میں نذر سامعین کیا۔جسے مجلہ کے اندرون ٹائیٹل کی رونق بنایاگیا ہے۔ایک طرف قاری صاحب کی سریلی آواز اور دوسری طرف رقت آمیز انداز اور محبت میں ڈوبے الفاظ نے ایسی منظر کشی کی ؛کہ سامعین کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔
حدراًتلاوت:
حدراً تلاوتِ کلام پاک کے لیے، المقری شیخ خالد الیمنی کو دعوت دی گئی ؛آپ نے لحون عرب میں اپ نے مخصوص انداز اورمنتخب مقامات سے مختلف آیات ِ موت کی تلاوت کی اور موت سے متعلق قرآن کریم کے مختلف اور اچھوتے اندازِ بیان کا سامعین کے سامنے نقشہ کھینچ کر رکھ دیا اور موت کی یاد تازہ کردی۔
صاحبِ خیرؒ کے تذکرۂ خیر کا آغاز
کلمات مولانا حذیفہ صاحب دامت برکاتہم:
مولانا حذیفہ صاحب کو حضرت کے تربیتی نقوش اور تابناک زندگی سے حاضرین کو آشناکرنے کی درخواست ۔حضرت مولانا حذیفہ صاحب نے اس دعوت سخن کو قبول فرماتے ہوئے ،نہایت ہی مختصر مگر پر اثر انداز میں حضرت سے متعلق بیش بہا اور قیمتی باتوں کا تذکرہ کیا۔آپ نے کہا:بر صغیر میں ہندستان کے مسلمانوں کے لیے مفکر ملت کی وفات قیامت سے کم نہیں ۔
آپ کی شخصیت سے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:’’آپ کے اندر مردم سازی کا جو خاصہ تھا ،گویا وہ آپ ہی کی خصوصیت تھی اوریہ شئی نادرہے۔
آپ بڑے علم دوست ،تحقیق کے رسیا تھے، کتابوں کا مطالعہ اورجستجو آپ کی زندگی کا جزء لا ینفک تھا؛جب بھی ملاقات ہوتی نئی کتابوں کے متعلق یا تو بتاتے یادریافت کرتے،کتاب گویا آپ کی زندگی تھی۔
خیر جلیس فی الزمان کتاب کا آپ سچامصداق تھے ؛آپ جیسا عاشق کتاب میں نے نہیں دیکھا۔
انتظامی مہارت : علمی ذوق ہونے کے باوجودآپ انتظام کے ماہرتھے ،آپ کی انتظامی صلاحیت اس قدر تھی کہ بڑوں نے یہاںتک تسلیم کیا کہ اگر آپ کو نظام ملک سونپ دیا جاتا ،تو آپ بحسن وخوبی اسے سر انجام دیتے۔ آپ کے یہاں وقت کی بڑی اہمیت وپابندی تھی ، تاخیر وقت پر حد درجہ بے چین ہوتے اور ناراضگی تو لازمی ہے اور کیوں نہ ہو کام کے آدمی کے نزدیک کوئی شئی قیمتی ہے تو وہ ہے وقت اور وقت۔
وصف خیر خواہی : حضرت کی سب سے بڑی خوبی خیر خواہی ٔمومن تھی۔خیر خواہی آپ کی گھٹی میں پڑی تھی، خواہ طالب علم ہو یا استاذ، عوام ہو یاخواص ، اپنا ہو یا پرایا،ہر ایک سے اس کے مناسب حال خیر خواہی آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔
آپ کی مجالس: خالص علمی ،غیبت سے پاک حسن آداب سے مزین ہوتی۔
آپ کاادبی ذوق: ادب عربی واردو کے بڑے ماہر دونوں زبانوں کے بھی سیکڑوں اشعار ازبراور زبان زد؛ تحریر وتقریر میںادبی الفاظ کے ساتھ ساتھ مواقع مواقع کے عمدہ اشعار۔
تقریر کی خصوصیات: آپ کی تقریر کی خصوصیت تھی کہ آپ اس میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ۔
رئیس جامعہ اور رئیس گجرات کے تعلقات:
رئیس جامعہ والد محترم حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ؔ مد ظلہ علیہ اور رئیس گجرات حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلقات کو بیان کرنے کے لیے ایک زمانہ اور لکھنے کے لیے دفتر چاہیے ؛تاہم ایک ملاقات سے اندازہ ہو جائے گا کہ آپ دونوں میں کس قدر اکائی تھی ۔آپ کی وفات سے ۳؍ ماہ قبل رجب کے اواخر میں عمر ے سے واپسی پر جب ہم ملاقات کے لیے پہنچے ،تو کہا غلام ! میںجو کام کرنے کی دعائیں کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے تیرے ذریعے وہ سب کروادیے ، تونے بڑوں کی بہت دعائیں لی ہیں۔
چھوٹوں کی حوصلہ افزائی : آپ چھوٹوں کی بڑی حوصلہ افزائی فرماتے اس کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں خودمیری ملاقات کا واقعہ ہے کہ میں آپ کی ملاقات کے لیے بر وقت پہنچا تو وقت پر آنے پر آپ کو بڑی خوشی ہوئی اور پھرعلمی گفتگو شروع ہوئی توبہت ساری باتیں ہونے کے بعد حضرت مرحوم ؒنے کہا: میں علمی نوجوانوں سے محبت کرتا ہوں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔
حضور نے حضرت معاذؓ سے کہا تھا:یا معاذ! واللہ انی احبک میں بھی کہتا ہوںیاحذیفۃ! واللہ انی لاحبک۔حضرت کا یہ انداز خردنوازی نہیں تو اور کیا ہے؟
خرد نوازی کا ایک اور واقعہ از مرتب:
خرد نوازی کی بات چلی ہے تو میںیہ واقعہ قارئین کی نذر کرتا چلوں، جو احقر کو حضرت مولانا یوسف صاحب نندورباری نے اپنی زمانۂ طالب علمی کا سنایا۔مولانا نے کہاچہارم کے سال جب میں کنتھاریہ میں زیر تعلیم تھا تو چشمہ بنانے کی غرض سے چشمے کی دکان پہنچا حسنِ اتفاق کے مولاناکاپودرویؒ بھی اسی غرض سے وہاں موجود تھے،آپ کا تو چوں کہ مزاج تھا طلبہ سے گھل مل جانے کاآپ نے بے تکلف خیر خیریت اور پڑھائی وغیرہ کے متعلق دریافت کرنا شروع کردیا ،احقر کے آپ سے متعلق دریافت کرنے پر بتایا کہ فلاحِ دارین کا ایک استاذ ہوں وہاں نورانی قاعدہ اورہندوستانی قاعدہ وغیرہ پڑھاتا ہوں ،احقر چوں کہ آپ سے شناسا نہیں تھا اس لیے ایک عام استاذ سمجھ کر مدرسہ لوٹ آیا؛کچھ دنوں کے بعد آپ کا عربی میں احقر کے نام خط موصول ہوتا ہے؛جس میں آپ نے اس ناچیز کے لیاقت کے مطابق زبان استعمال کرکے خیرخیریت کے بعد علمی راہ نمائی فرمائی اور ساتھ ساتھ آپ کا یہ انداز بڑا تشجیعی تھا۔
چند ہی روز گذرے تھے کہ دارالعلوم کنتھاریہ کی دعوت پرحضرتؒ کنتھاریہ پہنچے کر سیدھے میرے کمرے میںتشریف لے آئے اور پوچھا یوسف دھیگامی کہاں ہے؟(مولانا یوسف صاحب وطناً دھیگام گجرات سے ہیں؛لیکن فراغت کے بعد آپ نے اپنی زندگی نندوربار واطراف کے لیے وقف کردی اور یہیںکہ ہوکر رہ گئے او رنندور بار میںدین کی وہ شمع جلائی ،جس کی روشنی نے نہ صرف نندوربار ؛بل کہ اطراف واکناف کی بدعت وجہالت کو پاٹ کر رکھ دیا ہے )مولانا کہتے ہیں ایک عرصے تک حضرت کا مجھ حقیر کے ساتھ یہ شفیقانہ تعلق قائم رہا ۔اور حضرت نے ایک ملاقات میں اپنی ذات کو چھپانے کی وجہ بھی بتائی کہ اگر میں بتادیتا تو آپ بے تکلف نہ ہو پاتے پھر یہ حجاب علمی تعلق میں مانع بنتی اور مزیدیہ کہ میں بیرون کے طلبہ کو اردو سکھانے کے لیے ہندوستانی قاعدہ پڑھاتا ہوں۔
اس ایک واقعہ سے حضرت کی خردنوازی ،مردم سازی،تواضع وانکساری ،دوراندیشی ودوربینی،قوت حافظہ اور اخلاق مندی جیسے بہت سارے اوصاف سامنے آجاتے ہیں‘‘۔
میں جو کچھ ہوں حضرت کی بہ دولت ہوں: ہم آج جو کچھ بول لیتے ہیں، لکھ لیتے ہیں اور پڑھ لیتے ہیں یہ آپ ہی کی توجہ اور تربیت کا نتیجہ ہے ۔
کلمات شیخ عبد الوہاب ندوی مدنی:
حضرت کے ذوق عربیت کو ملحو ظ رکھتے ہوئے اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ حضرت کی شخصیت سے متعلق کچھ کلمات بزبان عربی بھی آئیں؛لہذا جامعہ کے عربی ادب کے استاذ مولانا عبد الوہاب صاحب نے بڑے ادیبانہ ،لعیقانہ اورمخلصانہ انداز میںحضرت سے متعلق جامع کلمات کہے۔جس کا لب لباب پیش خدمت ہے۔
مولانا نے فرمایا: ہم اور برادرانِ جامعہ آپ کی موت سے بڑے غمزدہ ہیں ۔ہمیں آپ کی موت سے بہت بڑا علمی نقصان ہوا ، اللہ ہمیں اس پر صبر نصیب کرے اور آپ کا خلف نصیب فرمائے ۔ آپ کثیر المطالعہ شخص تھے ،علما نوازاور علم دوست تھے ۔ طلبہ ونوجوان علما کی حوصلہ افزائی آپ کاخاص مشغلہ تھا ، آپ کی طبیعت تعصب ہندی سے پاک تھی ۔ آپؒ ہر مدارس اور ہر علاقے کے فضلا سے محبت کرتے تھے ۔ آپ نے مکاتیب قرآنیہ کا جال بچھا رکھا تھا ۔ آپ کی بیش بہا تصانیف ہیں ۔ آپ کو علم حدیث میں اعلیٰ اسانید حاصل ہیں ؛بڑے بڑے شیوخ حدیث آپ سے اجازت حدیث حاصل کرتے۔شیخ الحدیث مدینہ منورہ الشیخ حامد اکرم ،عامربہجت وغیرہم نے آپ سے اجازت حدیث حاصل کی ہے۔
آپ کی موت صحیح معنوں میں’’موت العالِم موت العالَم‘‘ کی مصداق ہے ۔آپ علم کے روشن ستارے اور چمکتے دمکتے آفتاب وماہتاب تھے ۔اللہ آپ کے درجات کو بلند فرمائے ۔
کلمات مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی:
حضرت مولانا جہاں حضرت مرحوم کے شاگرد ہیں؛وہیں ایک طویل عرصے سے جامعہ سے وابستہ ہونے کی وجہ کر حضرت سے خصوصی تعلق بھی تھااور آپ کی بہت ساری عمومی وخصوصی مجلسوں میں شرکت بھی فرماتے رہے۔آپ نے اپنے مضمون میں حضرت کی حسن تعبیرات کو ہدف بناکر قلم اٹھایا ہے؛ لیکن اخیر میں آپ نے حضرت سے متعلق ۱۰؍ ایسے عناوین ذکر کیے ہیں،جس پرروشنائی لٹانا حضرت ؒکا حق ہے اور ساتھ ساتھ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب حضرتؒ کی شخصیت سے کس قدر واقفیت رکھتے ہیں۔
حضرت مولانا نے کلامِ پاک کی اس آیت کوعنوان بناکر اپنی بات آگے بڑھائی:تبٰرک الذي بیدہ الملک وہو علٰی کل شئ قدیر ، الذي خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا وہو العزیز الغفور ۔اوراس حدیث کی روشنی میں حضرت کے رخصت ہو جانے کے نقصان کو آشکارا کیا ’’ان اللہ تعالیٰ لا یقبض العلم‘‘ الاخ …اور فرمایا:جامعہ سے جو پیغام اٹھتا ہے وہ ملت اسلامیہ کے لیے مشعل راہ ہے ؛کیوں کہ اس میں ۱۸؍۱۹؍ صوبے کے۱۵ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔
اس مجلس کوآپ ’’مجلسِ محاسن موتیٰ یا مجلسِ ایصال ثواب‘‘ کانام دے سکتے ہیں ۔ فرمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے : موتیٰ کے محاسن کوبیان کرو۔ امت کو انتقال کرجانے والی مقتدا شخصیت کے نقوش وخطوط پر چلانے کے لیے ہم ان مجالس کا انعقاد کرتے ہیں ۔
نعمت ثلاثہ: اللہ تعالیٰ کی تین نعمتیں ایسی ہیں جو ہر انسان کو ایک بار ہی ملتی ہے : نعمتِ حیات،نعمتِ شباب اور نعمتِ والدین ؛جس نے اس کی قدر کرلی وہ لائق قدر ہوگیا اور جس نے اس کی ناقدری کی وہ بے قدرہ ہو گیا۔
سرپرست جامعہ کے قابل تقلید تابندہ نقوش: سرپرست جامعہ کے حیات کے کون کون سے تابندہ نقوش ہیں، جو قابل تقلید ہیں؟ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالسنۃ میں اوصاف ِصحابہ بیان کرکے حکم دیا گیا ہے اور تشویق دلائی گئی ہے کہ ؛اگر تمہیں کسی کی اتباع کرنی ہو تو ان صحابہ کی کرو جن کے اوصاف یہ تھے ’’ابرہا قلوباواعمقہا علما واقلہا تکلفا‘‘۔سر پرست محترم کے اندر یہ اوصافِ صحابہ درجۂ اتم موجود تھا ۔
آپ کی وسعت ظرفی: آپ کی تقریظات ومقدمات پر ایک تصنیف مقدمات کاپودروی آپ کی وسعت ظرفی کی دلیل ہے ۔
صفائی قلوب:دل بالکل ایسا صاف کہ عرب و عجم یورپ وانگلستان اورہندوستان میںیکساں مقبولیت حاصل تھی۔
آپ کانبوی مزاج:انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق …ہرفیلڈ کے لوگوں کی تربیت کی بات اور ان کے فرض منصبی کا احساس ؛آپ کا مزاج اور آپ کا طرۂ امتیاز تھا ۔
صفائی قلوب کا انعام :جس کا دل صاف ہوتا ہے ان کو علم کا وافر حصہ نصیب ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر اللہ نے آپ کو کتابوں کا کیڑا بنایا تھا ؛جس کے اندر وقعت علم ہو اور قلوب صاف ہو تو اس کے اندر سادگی خود بہ خود آتی ہے۔ ہم ان اوصاف کو اپنے اندرپیدا کریں ۔
تربیتی مزاج ،اورنماز وتلاوت کا اہتمام :صفائی کا اس قدر اہتمام کہ آپ خود اپنی نگرانی میں دار الاقامہ کی صفائی کرواتے اور طلبہ کو نماز کے لیے خود ہی بیدار کرتے ۔
رئیس جامعہ اور سرپرست جامعہ کے تعلقات: آپ اگر حضرت مفکر کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو رئیس جامعہ کو دیکھیں ۔ رئیس جامعہ نے فلاح دارین میںآپ کی صدارت میں ہوئے تعزیتی پروگرام میں جو تقریر فرمائی اس سے حضر ت اور آپ کے مثالی تعلقات عیا ںاور بیاں ہیں ۔
کلمات حضرتِ رئیس وخادم خاص حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ
انطباعاتِ قلبی بر رحلت مربی(حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒؒ)
حضرت رئیس کے کلمات کے کیا کہنے؛ آپ نے تو دل ہی نکال کر رکھ دیا ،تمام باتیں تو حضرت کے مضمون میں مذکور ہیں؛یہاں صرف اشارات ذکر کیے دیتا ہوں۔
آپ نے سب سے پہلے موت کی حقیقت اور انسان کی فنائیت پر کلام کیا اور بتایاکہ جب حضور کی شخصیت اس دار فانی میں باقی نہ رہی تو آپ سے زیادہ اہم اور کون ہو سکتا ہے ؛پھر آپ نے ذیل میں ذکر کردہ باتوں پر کلام فرمایا:
حضرت مرحوم کی مردم سازی۔حضرت پر آپؒ کے احسانات ۔ مظاہر جانے کا ایک دل چسپ واقعہ۔میری زندگی بدل دی۔حضرت کے پروردائوں سے متعلق حضرتِ باندویؒ کا تأثر۔حضرتؒ کے سفر بیرون سے اہل گجرات پر حضرت باندویؒ کی ناراضگی۔جامعہ کے تعلق سے حضرتؒ کا تاریخی جملہ۔آپؒ کی سیرت وصورت۔حضرتؒ کی علمی صلاحیت۔مشائخین سے آپؒ کا والہانہ تعلق۔آپؒ کی خدمت کاشرف۔مرض الوفات۔آخری ملاقات اورحضرتؒ کا اہتمامِ ضیافت۔اپنی اور حضرت ؒکی عاشقانہ باتیں۔حضرت کے حسن انجام اور حَسین انعام پر ایک خواب۔حضرت کی موت شہادت کی موت۔حضرتؒ کی زندگی سے حاصل ہونے والے اسباق اورفلاح دارین سے حضرتؒ کا لگائووغیرہ؛ آپ ان کا مطالعہ آغاز میں موجود حضرت کی تحریر میں کرسکتے ہیں۔
عہدبرائے ایصالِ ثواب:
اور پھر حضرت نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر بایں الفاظ عہد لیا:’’طلبہ! اور اساتذہ! اگر آپ سبھی کو اس فقیر سے محبت ہے تو آپ میرے حضرت کے لیے ایک ایک قرآن پڑھ کر ایصالِ ثواب کریںاور ایک ایک قرآن میرے استاذ حضرت مولانا یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بھی ایصال ثواب کریں‘‘۔
یہ میرے استاذ ہیں : حضرت مولانا عبد اللہ صاحبؒ اور حضرت مولانا یونس صاحبؒ ،جنہوں نے مجھے کچھ کام کا بنایا ، تو آپ حضرات کا فرض بنتا ہے کہ آپ حضرات ان کے لیے ایصال ِثواب کریں ۔
اسی طرح جامعہ کی تمام شاخوں میں حضرت ؒکے لیے تعزیتی مجلس کا انعقاد اورایصالِ ثواب کا اہتما م کیا گیا۔