یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ

حاصل مطالعہ: مقصوداحمدضیائی

            قارئین یہ مضمون صاحب مضمون کی طرف سے ایک بڑا احسان ہے، ان لوگوں کے لیے جو دیگر مصروفیت کی بنا پرعدیم الفرصتی کے شکار ہیں،اور اپنی دیگر مشغولیت پر مطالعہٴ کتب کو ترجیح نہیں دے پاتے؛ نیز ضخیم کتابوں کو دیکھ کر سٹ پٹاجاتے ہیں۔مولانا محترم نے اپنے ذوق ِمطالعہ اور شوقِ کتب بینی جو عشق کی حد تک پہنچی ہوئی ہے اوریہ عشق دلِ بے قرار کو قرار لینے نہیں دیتا۔آپ کو اس کتاب کے حصول کے لیے بے چین کر رکھا تھا۔ آپ نے بڑے ہی آرزو سے یہ کتاب حاصل کی اور نہایت ہی قلیل مدت میں حرفاً حرفاً اس کا نہ صرف مطالعہ کیا ؛بل کہ حاصل ِمطالعہ کو اپنے قلمی جولانی وروانی سے تحریر وترتیب دے کر تقریباً ہزار صفحات پر مشتمل کتاب کا عرق کشید کر چند ہی صفحات میں ہم جیسوں کے لیے بطور نوش پیش کردیا۔ یہ مضمون جہاں اپنے قارئین کو اس کتاب کے از شروع تا آخر مطالعہ پر ابھارے گا ؛ وہیں عشق ِ مطالعہ کادیپ ہر پڑھنے والے کے دل میں جلائے بغیر نہیں رہے گا۔ میں اس تلخیص پر ذاتی طور سے مولانا مقصود احمدضیائی کا مشکور وممنون ہوں اور قارئین سے ماہنامہ” النحیل“ کے مدیر مولانا ابن الحسن عباسیکی اس آخری پیش کش جس پر امید ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرماچکے ہوں گے؛ آں مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں۔اللہم اغفر لہ وارحمہ وسکنہ فی الجنة

            آپ اس کتاب کو 8411801380اس نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔

            ”دنیائے اسلام کی 80 سے زیادہ مشہور زمانہ علمی شخصیات و اہل قلم کے مطالعہ اور علمی سفر کی دل نشیں روداد نئی نسل کے لیے مفید کتابوں کے انتخاب اور مطالعاتی زندگی کی رہنمائی پر مشتمل مدیر ماہنامہ” النخیل “کے سوال نامہ کے جواب میں لکھی گئی ناقابل فراموش تحریروں کا سدا بہار مجموعہ ” مذکورہ تمہیدی سطور ماہنامہ النخیل کی خصوصی پیش کش ” یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ ” کی ہیں 832 صفحات کا یہ مجموعہ میری اس وقت تک کی گزری زندگی میں مطالعے میں آنے والی یہ دوسری کتاب ہے، جس کا ایک عشرے میں بالاستیعاب مطالعہ کرکے میں فارغ ہوا ہوں۔ اس سے بہت پہلے مولانا محمد علاء الدین ندوی دامت برکاتہم العالیہ استاذ دارالعلوم ندوة العلما لکھنو کی معروف و مشہور کتاب ” ذرا قرن اول کو آواز دینا ” بالاستیعاب پڑھنے کی توفیق ہوگئی تھی مدیر ماہنامہ النخیل نے جس عنوان پر اہل علم سے مضامین لکھوائے ہیں، وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہیں۔ ہمیں اعتراف ہے کہ آج مطالعہ رخت ِسفر باندھ رہا ہے، کتب بینی کی عادتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں، پڑھنے اور پڑھانے کی روایتیں دم توڑ رہی ہیں ،افادہ و استفادہ کا شوق چر مرا رہا ہے، اسلامی کتابوں اور کتب خانوں کی جگہ فحش اور اخلاق سوز لٹریچر لیتا جا رہا ہے ؛نتیجتا صالح افکار اور تعمیری ذہن کے بجائے نئی اسلامی پود کے حصہ میں فاسد افکار اور منفی سوچ کا شیوع ہو رہا ہے اور معاف کیجئے! ہم دنیا کے کام کے تو کبھی تھے ہی نہیں، اب تحفظ ِدین یا اشاعت ِدین کے بھی نہیں رہے، کچھ کہتے بھی ہیں تو ڈرے ڈرے، سہمے سہمے، جیسے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بولنے جا رہے ہیں، مخاطب کی تردید کے خوف سے مجرموں کی طرح گردن خم، نگاہیں سجدہ میں، حواس گم، اوسان خطا، اس صورتحال میں مولانا ابن الحسن عباسی مرحوم کا یہ کارنامہ مثالی اور اہمیت کا حامل ہے۔

            یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ پڑھ کر دل باغ و بہار ہوگیا، ماہنامہ النخیل کے مدیر مولانا ابن الحسن عباسی مرحوم جو رونق قلم تھے، ہم سب کو چھوڑ کر اب وہاں چلے گئے ہیں ؛جہاں سے پھر کوئی واپس نہیں آیا کرتا۔ مرحوم کی جد و جہد کا یہ عظیم الشان کارنامہ نئی نسل پر احسانِ عظیم رہے گا، اہل قلم کی اکثریت نے مدیر ماہنامہ النخیل کے سوالنامہ کو ملحوظ رکھ کر مضامین لکھے ہیں، کتاب عجائب و غرائب سے بھرپور ہے، دوران ِمطالعہ مجھے ذاتی طور پر بہت احساس ہوا کہ مجھے کرنا کیا چاہئے تھا اور ہوتا کیا رہا ہے؛ لیکن اللہ پاک کی اس نوازش پر لاکھ لاکھ شکر کہ جس نے زندگی کے اس مرحلے میں جب کہ انسان کچھ کرسکنے کی پوزیشن میں ہوا کرتا ہے، رہنما خطوط پڑھنے کی توفیق دی۔ راقم الحروف عاجز حضرت مولانا مفتی ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی #زیدہ مجدہ استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کا ممنون ِکرم ہے کہ آں محترم نے زیر ِنظر کتاب اور شاہراہ علم کا خصوصی شمارہ برفراق: حضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی ،حضرت مفتی عبداللہ صاحب مظاہری رویدروی، حضرت مفتی سعیداحمد پالن پوری، حضرت مولانا محمدسلمان صاحب نوراللہ مراقدہم کے سوانح حیات پر مشتمل قیمتی دستاویزات مہیا فرمادیں۔ خدائے رحمن و رحیم مکارم، معارف و محاسن علم و عمل کے شایانِ شان زندگی کے ساتھ بہترین صحت تندرستی اور سلامتی عطا فرمائے، اس عاجز کی کوشش رہتی ہے کہ جس کتاب کا بھی مطالعہ کیا جائے، اس کے تعلق سے اپنے علم اور سمجھ کے مطابق مثبت تبصرہ بھی ہدیہٴ قارئین کروں؛ لیکن زیر ِنظر کتاب میں جن ارباب ِقلم کی نگارشات شامل ہیں، ان عظیم المرتبت اکابر علماء و مشائخ کے انتہائی قیمتی مضامین پر کچھ کہنا مجھ جیسے کوتاہ علم اور ناقص العقل طالب علم کے لیے ناممکن ہے ؛لہذا اس پرتبصرہ کی میں اپنے قلم میں طاقت نہیں پاتا؛ البتہ دورانِ مطالعہ جو باتیں دل کو چھوتی گئیں ،ان قیمتی تراشوں کے چند نمونے بطور ِحاصل مطالعہ بقید صفحہ ہدیہ قارئین ہیں:

ناقابل ِفراموش تحریروں کا گلدستہ:

             حضرت مولانا ابن الحسن عباسی قدس سرہ رقم طراز ہیں کہ ” مطالعہ بنیادی طور پر عبارت بینی کو کہتے ہیں، کاغذ کے صفحات پر ہو یا شیشے کی اسکرین پر، نئے زمانے نے مطالعہ کو کاغذ کے صفحات سے اسکرین کی طرف منتقل کیا، ہوسکتا ہے انقلاب ِزمانہ کے ساتھ یہ اسکرین سے فضا کی طرف منتقل ہو یعنی کسی اسکرین کی ضرورت ہی نہ رہے، آپ کی نگاہ کے سامنے فضا میں عبارتیں نظر آنے لگیں، برقی مطالعہ نے مطالعہ کی رفتار کو کئی گنا بڑھا دیا، لیکن اسی رفتار سے اس کے اندر سطحیت آگئی، گیرائی نے گہرائی کو ختم کر دیا، وسعت سطحیت کو لے آئی جب کہ علم پختگی چاہتا ہے اور ثمر بار مطالعہ گہرائی کا تقاضہ کرتا ہے، بہ ہرحال ورقی کتاب کی اہمیت اب بھی ختم نہیں ہوئی اور شاید کبھی ختم نہ ہو۔

 ذوق مطالعہ درحقیقت مطالعہ سے لذت پانے کا نام ہے، یہ ذوق ماحول سے پروان چڑھتا ہے اور ماحول اصحابِ ذوق کی صحبت اور رابطے سے بنتا ہے۔ جن معاشروں میں علم و مطالعہ کا ذوق ہو، وہاں عام لوگ سفر کرتے ہوئے کوئی کتاب یا رسالہ پڑھتے ہیں، ہمارے ہاں سفر کی مسافتوں کو گانے سن سن کر طے کیا جاتا ہے:

 نگاہ شوق گر میسر نہیں تجھ کو

تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی!

            فرماتے ہیں کہ ناقابل ِفراموش تحریروں کا یہ گلدستہ پاکستان و ہندوستان سے، بحمداللہ بیک وقت شائع ہو رہا ہے یہ بات پیش ِنظر رہے کہ ہم نے سوال نامہ مختلف مکاتب ِفکر کے اہل قلم کے پاس بھیجا تھا، ہر مکتبہ ٴفکر کا اپنا ایک دائرہ ٴمطالعہ اور حلقہٴ فکر و عقیدہ ہوتا ہے، کتاب میں یہ تنوع آپ کو نظر آئے گا اور اسی زاویہ نگاہ سے اس کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ (ص: ۸)

پیغام:     حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند اپنے پیغام میں فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مطالعہ اہل ِعلم کی غذا اور طالب علم کا راس المال ہے، ذوق ِمطالعہ ایسی بے بہا نعمت ہے ،جو انسان کو اقران و امثال میں امتیازی مقام عطا کرتا ہے؛ لیکن نتیجہ خیز مطالعہ کے لیے مقصدیت انتہائی ضروری ہے؛ ورنہ ہر رطب و یابس کا مطالعہ منزل مقصود پر لے جانے کے بجائے افکار و خیالات کی وادئی تیہہ میں بھٹکا سکتا ہے۔

            موجودہ زمانے میں جب کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے عموم کی وجہ سے معلومات کا سیلاب آ رہا ہے، ایسے حالات میں با مقصد مطالعہ اور سود مند کتب بینی کی ضرورت دو چند ہوگئی ہے، اعلی مقاصد کے لیے مطالعہ و کتب بینی کا شوق آج کل اضمحلال اور زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ اس لیے نہایت ضروری ہے کہ مسلمان اور خصوصاً علما اور طلبہ با مقصد مطالعہ کی اہمیت کو سمجھیں اور اس ذوق کی آبیاری کی سنجیدہ کوشش کریں۔ (صفحہ ۱۱)

پیغام:حضرت مولانا محمدسفیان قاسمی مدظلہ مہتمم دارالعلوم (وقف) دیوبند فرماتے ہیں ” یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اکتسابِ علم کے حصول، اس کی بقاو اضافت اور منتقلی کے جملہ رموز ہائے سربستہ اور اس کی ماہیت و حقیقت مطالعہ میں ہی پوشیدہ ہیں، گویا کہ مطالعہ اپنی ہمہ جہت اہمیت کے لحاظ سے علم و ادراک، شعور و آگہی، تعمق فکر، تیقن وایقان،تحلیل و تجزیہ، افکار و نظریات غرض کہ جملہ دوائر ِعلمیہ کو مستدلات کی اساس فراہم کرنے میں اس کی اہمیت کو مرکزیت و محوریت کا درجہ عطا کرتا ہے اور اکتساب ِعلم کے جملہ مراحل و مظاہر اسی حقیقت ِاجتماعیہ کے گرد قائم ہیں اور تمام علمی و فکری محاور کے گرد یہی حقیقتِ مرکزیہ جلوہ طراز ہے (ص: ۲۱)

پیغام: مولانا محمدسعیدی مدظلہ ناظم و متولی مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور فرماتے ہیں کہ: یقین جانئے کہ آج اس ایک موبائل کی وجہ سے فاتح قوم مفتوح، غالب قوم مغلوب اور بہادر قوم مرعوب ہو کر دام ہمرنگ زمین ہوچکی ہے، وکی پیڈیا کی غیر معتبر تحریرات کو حوالہ، گوگل کی باتوں کو لائق ِاعتماد، یوٹیوب کی چیزوں کو سند کا درجہ دے کر اپنی کتابوں اپنے بزرگوں، اپنے کتب خانوں، اپنی درس گاہوں اور اپنی شریعت سے اظہار بے زاری و ناگواری کرکے کشاں کشاں دامن اسلام سے دور اور دام ابلیس میں گرفتار و شکار ہوتی جا رہی ہے۔ مطالعہ نمبر سے ممکن ہے اپنی قوم کا مزاج بدلے، حالات بدلیں، ماحول بدلے اور پھر دلوں کو پیغام ِسجدہ و سجود یاد آجائے، پھر ہماری قوم علم و کتاب سے آراستہ ،تہذیب و شرافت سے پیراستہ اور فضل و کمال کو پانے کے لیے آمادہ و کمر بستہ ہوجائے (ص: ۳۱)

پیغام:     حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی مدظلہ العالی رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹرنے فرمایا:

            ” تقریبا ًپون صدی پہلے ” ندوة العلماء ” کے ذمہ داروں نے یہ خدمت انجام دی تھی، جو کتابی شکل میں ” مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ” کے نام سے شائع ہوکر کافی مقبول ہوئی۔ اب یہ بیڑا ” النخیل ” کے علم دوست احباب نے ” مطالعہ نمبر ” کے طور پر ” یادگار زمانہ علمی شخصیات کا احوال مطالعہ” کے عنوان سے اٹھایا ہے اور پندرھویں صدی ہجری کے مشاہیر اہل علم و قلم سے ان کے مطالعاتی زندگی کے بارے میں اہم سوالات ارسال کرکے، ان سے جوابات حاصل کیے اور سوالات و جوابات پرمشتمل انمول مضامین کو ” یادگار زمانہ علمی شخصیات کا احوال مطالعہ ” کے عنوان سے شائع کرنے کی عمدہ کاوش کی ہے۔ امید ہے کہ ڈیجیٹل دنیا کے اس دور میں طلبہ کے لیے یہ علمی کاوش نہایت مفید ہوگی اور مطالعہ کے ختم ہوتے ذوق میں روح پھونکنے کا کام کرے گی۔ ان شاء اللہ! (ص: ۴۱)

پیغام: حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ گنگوہی نقشبندی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ: یہ حقیقت شبہ سے بالاتر ہے کہ قلم و کتاب سے وابستگی سعادت مندوں کا وظیفہ ٴحیات رہا ہے ۔بادی النظر میں راست مطالعہ کتب ہی اہل علم کی سب سے طاقتور غذا ہے ،جس سے روح کو تازگی، فکر کو پاکیزگی اور خیالات کو بلندی نصیب ہوتی ہے۔ (ص: ۵۱)

مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گئی کتابوں پر ایک تعارفی نظر:

            جن لوگوں کی زندگیاں کتابوں کے سنگ گزری ہیں ان کی مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گئی کتابوں پر ایک تعارفی نظر، میں مولانا محمد بشارت نواز مدظلہ معاون مدیر ماہنامہ النخیل نے ،اپنے مضمون میں قیمتی جواہرات کو سمویا ہے ” مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ” کی ترتیب جدید کے مقدمہ کے حوالہ سے آں موصوف نے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی زید مجدہ کی یہ تحریر شامل کی ہے فرماتے ہیں ” اگر غور کیا جائے تو ظاہر ہوگا کہ باصلاحیت شخصیتوں کی تشکیل میں تین اہم عوامل کام کرتے ہیں ،ایک ان کے مربیوں کا، جن میں اولین مقام ماں باپ کا، پھر خاندان کے بزرگوں کا اور پھر گھر اور باہر کے ماحول کا ہوتا ہے۔ دوسرا عامل معلمین اور اساتذہ کا ہوتا ہے، جن کے زیرِ اثر وہ شخصیت اپنی طالب علمی کا دور گزارتی ہے۔ تیسرا عامل ان کتابوں کا ہوتا ہے جن کا مطالعہ وہ شخصیت اپنے نشوونما کے زمانے میں کرتی ہے۔ یہ عوامل مختلف لوگوں کو مختلف نوعیتوں اور مختلف اثرات کے لحاظ سے ملتے ہیں اور انہیں نوعیتوں اور اثرات کے لحاظ سے اثر ڈالتے ہیں اور شخصیت سازی میں ان کا حصہ ہوتا ہے (ص: ۱۲)

            مولانا حبیب الرحمن خان شروانی کے حوالے سے لکھتے ہیں ” ایک ہی کتاب کو بہت سے لوگ پڑھتے ہیں، اثر مختلف لیتے ہیں، ایک ہی کتاب، ایک دل میں خشیت الٰہی، پاکیزگی اخلاق و اخلاص پیدا کرتی ہے۔ دوسرے دل میں الحاد، شمر و اور اخلاق رذیلہ، اسی کتاب کے مطالعے سے پیدا ہوتے ہیں، یہ فرق کیوں؟ کتاب ایک، مطالب وہی۔۔۔ فرق ہے تربیت، استعداد، قابلیت اور دل و دماغ پر صحبت کے اثر کا ”۔

            مشہورمحقق اور ادیب، بانی ماہنامہ ” معارف ” مولانا سید سلیمان ندوی اپنی محسن کتابوں کے ذیل میں(تقویة الایمان) لکھتے ہیں کہ ” یہ پہلی کتاب تھی جس نے مجھے دین ِحق کی باتیں سکھائیں اور ایسی سکھائیں کہ اثنائے تعلیم و مطالعہ میں بیسیوں آندھیاں آئیں، کتنی دفعہ خیالات کے طوفان اٹھے؛ مگر اس وقت جو باتیں جڑ پکڑ چکی تھیں ،ان میں سے ایک بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکی ” (ص: ۴۲)

            حضرت مولانا زاہدالراشدی دامت برکاتہم اپنی طالب علمی کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:: ہفت روزہ ترجمان ِاسلام لاہور اور کوہستان میں مضامین شائع ہونے کی وجہ سے میرا صحافت کی طرف رجحان بڑھنے لگا تو میرے چچا مولانا عبدالحمید سواتی صاحب رحمہ اللہ نے نصیحت کی: بیٹا! صحافت اور خطابت لوگوں تک کوئی بات پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔یہ ضرور آدمی کے پاس ہونا چاہیے لیکن پہنچانے کی کوئی چیز بھی پاس موجود ہونی چاہیے اگر اپنے پاس کچھ ہوگا تو دوسروں تک پہنچاوٴ گے اور اپنا سینہ خالی ہوگا تو دوسروں کو کیا دوگے؟ ٹونٹی کتنی ہی خوب صورت کیوں نہ ہو، وہی چیز باہر نکالے گی جو ٹینکی میں ہوگی اور اگر ٹینکی میں کچھ نہیں ہوگا تو ”شاں شاں” کرے گی۔فرمایا کہ حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے محبت بھرے لہجے اور ”شاں شاں” کی مثال نے ایک لمحے میں دل و دماغ کا کانٹا بدل دیا اور یہ جملے اب بھی میرے کانوں میں ”شاں شاں” کرتے رہتے ہیں (ص: ۹۲)

            اس وقت جب کہ ماہنامہ النخیل کا مطالعہ نمبر زیر مطالعہ ہے۔مدیر النخیل ابن الحسن عباسی مرحوم و مغفور ہوچکے ہیں، جس وجہ سے دل و دماغ پر ایک اثر تھا لیکن معاون مدیر مولانا محمد بشارت نواز صاحب زیدہ مجدہ کا مضمون متعدد بار پڑھا اور دل کو سکون حاصل ہوا کہ ابن الحسن عباسی کی فکر اور قلم تابندہ رہے گا۔ ان شاء اللہ

 مطالعہ کتب -کیوں اورکس طرح؟ (دیباچہ)

            حضرت مولانا عبدالمتین عثمان منیری بھٹکل، کرناٹک کا طویل مضمون کافی گہرا ہونے کی وجہ سے بیحد اہمیت کا حامل ہے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ” تعلیم گاہوں کا مقصد علم و فہم کی عمارت کی تعمیر نہیں ؛بل کہ طالب علم کو ایک بنیاد فراہم کرنا ہے۔ اب یہ بات ایک طالب علم پر منحصر ہے کہ چودہ پندرہ سال کے دوران علم و فہم کی جو بنیاد اس کے دل و دماغ میں ڈالی گئی ہے اس پر وہ کیسی عمارت تعمیر کرتا ہے؟ یا وہ بنیاد ہی کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور اس پر مزید کسی تعمیر کا ارادہ دل سے نکال دیتا ہے؟ یہ قانون قدرت ہے، بنیاد پر کوئی تعمیر نہ ہو تو بادو باراں اور موسموں کے تھپیڑوں سے بوسیدہ ہوجاتی ہے (ص: ۸۳)

میری علمی زندگی کے چند ورق:

            حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ نے اپنے مطالعہ کے تجربات کی روشنی میں قیمتی مشورے دئیے ہیں، جن میں سے پہلا مشورہ ہدیہ قارئین ہے ” فرمایا! ایک تو یہ کہ آزاد مطالعہ لطف و لذت کی چیز ضرور ہے، مگر شخصیت کی تعمیر اور سیرت سازی میں کم مفید ہوتا ہے، البتہ سطحی مطالعہ سے گریز ضروری ہے۔ اس سے بہت کم دل چسپی رکھنا چاہیے تحقیقی مطالعہ کا مزاج بنانے کی طرف توجہ دینا چاہیے اور مطالعہ کے لیے کسی کو ضرور رہبر چننا چاہیے؛ ورنہ بعد میں کمزوری اور کمی کا علمی اور دینی دونوں لحاظ سے بہت احساس ہوتا ہے (ص: ۶۸)

میری علمی زندگی کا سفر:

            حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی قدس سرہ نئے لکھنے والوں کو نصیحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” بعض اچھا لکھنے والے غیر اسلامی فکر کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی کتابیں گمراہی کا سبب ہوتی ہیں ان کی کتابیں نہیں پڑھنی چاہیے ۔طرز تحریر کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی فکر بھی ٹھیک ہونا ضروری ہے، اس بات کا دھیان رہے کہ کہیں وہ عمدہ طرز تحریر کے ذریعے گمراہ تو نہیں کر رہا ہے۔ فرمایا: کہ اچھی سوچ رکھنے والے، قابل اور جن کی زندگی اسلامی خطوط پر ہو، کتابوں کے سلسلہ میں ان کا مشورہ ضرور لیا جائے (ص:۱۰۰)

داستان کتاب شناسی:

            حضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی مدظلہ فرماتے ہیں کہ ” کتابوں کے انتخاب میں نوجوانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ اپنے بڑوں کے مشورے سے منتخب کتابیں ان کی نگرانی میں پڑھیں اپنی ذہانت پر اعتماد نہ کریں، مصنف کی شخصیت اور اس کی سیرت و کردار کا اثر قاری پر پڑتا ہے (ص: ۱۰۵)

علمی سفرنامے کی روداد:

            جناب عطاء الحق قاسمی؛ صاحب طرز ادیب و مزاح نگار کا مضمون بڑا ہی البیلا ہے، قدرت نے لکھنے کا اچھا ملکہ عطا کیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جون ایلیا مجھے عطاء الحق کی بجائے ” ” اُلحق ہمزہ کے پیش کے ساتھ ” کہتے تھے۔فرمایا کہ ایک دفعہ غالبا ًقطر میں ہم کافی لوگ ایک جگہ بیٹھے تھے جون ایلیا کہنے لگے ” الحق مجھے سیرکراوٴ! ” میں نے کہا: میں سیر کیسے کراوٴں؟ میرے پاس تو یہاں کوئی گاڑی نہیں ہے۔کہنے لگے کون گاڑی کا کہتا ہے؟ مجھے اپنے کندھے پر بٹھاوٴ! پلاکی مار کر (چھلانگ لگا کر) میرے کندھے پر چڑھ بیٹھے، اب میں انہیں لے کر باہر پھر رہا ہوں، میں نے کہا جون بھائی اور جھولے دوں، کہنے لگے ” الحق بس ”! آپ تھک جاوٴگے۔ میں نے کہا کہ آپ کا وزن ہی کتنا ہے کہ میں تھک جاوٴں گا، اس طرح میری زندگی ان لوگوں کے درمیان گزری ہے۔ (ص: ۱۰۸)

             نئے لکھنے والوں کے لیے میں کوئی نصیحت نہیں کرتا۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے کسی دوست نے آٹو گراف دینے کا کہا کہ کوئی نصیحت لکھ دوں، تو میں نے آٹو گراف میں لکھا کہ ” میری نصیحت ہے کہ کسی کو نصیحت نہ کرنا ” اس معاملے میں ہر ایک کا اپنا ذوق وشوق ہوتا ہے، جو اس کو کسی طرف لے جاتا ہے۔کسی کے کہنے سے نہیں بنتا، البتہ کوئی اپنا ذوق بتائے تو اس موضوع پر کتابوں کے حوالے سے اپنی معلومات بیان کرسکتے ہیں (ص: ۱۰۹)

میرا شوق مطالعہ:

            حضرت مولانا سیدمحمد ولی رحمانی مدظلہ کے مضمون کا ابتدائیہ البیلا اور معنی خیز ہے لکھتے ہیں کہ ” اسکول کی تیسری جماعت میں تھا اس زمانے میں یہ عمر کھیلنے، کھانے کی سمجھی جاتی تھی اور مجھے کوئی اصول یاد ہو یا نہ ہو، یہ اصول یاد تھا، اس لیے کھیلنے سے زیادہ اور کھانے سے کچھ کم دل چسپی تھی۔ پڑھائی لکھائی بدرجہ مجبوری ہوا کرتی تھی۔ ایک دن کلاس میں ہمارے ماسٹر فضل الرحمن صاحب مرحوم و مغفور نے ایک اصول سمجھایا کہ جس لفظ کے آخر میں یا (ی) ہو وہ مونث ہے، چھٹی کا وقت آیا، ماسٹر صاحب نے تمام طلبہ کو ہدایت دی ” اس قاعدہ کو سوچ کر آنا اور کچھ مثالیں بھی تیار رکھنا ” دوپہر کا وقت، بہت تیز گرمی، گرم ہوائیں چل رہی تھیں، میں ماسٹر صاحب کے بتائے قاعدہ پر غور کر رہا تھا، اسی ” مرحلہٴ غور و فکر ” میں خیال آیا کہ بے شک مرغی تو موٴنث ہے، مگر ہاتھی، اتنا بڑا جانور، یہ موٴنث کس طرح ہوسکتا ہے؟ جوش تحقیق میں ماسٹر صاحب کی قیام گاہ پہنچا، کنڈی کھٹکھٹائی، ان کی آنکھ لگ گئی تھی، اٹھے دروازہ کھولا اور شفقت سے پوچھا ” اس چلچلاتی دھوپ میں کیوں گھوم رہے ہو؟ ” میں نے ہاتھی کے سائز کا مسئلہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ ان کی آواز بلند ہوئی، بیوقوف! کل صبح سمجھاوٴں گا پہلے خود سوچو! واپس ہوگیا۔ راستہ ہی میں تھا کہ سوچ کا ایک اور خلاصہ سامنے آگیاکہ میرا نام ولی اور اس کے آخر میں بھی (ی) ہے۔میں کیسے موٴنث ہوسکتا ہوں؟ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ حجرہ کی مرمت ہو رہی تھی، عصر کے بعد ابا جان (مولانا منت اللہ رحمانی قدس سرہ) کے ہمراہ اس حجرہ میں چلا گیا مستری چھت کی مرمت کر رہا تھا، ابا جان! نے اسے مخاطب کیا ”مستری” اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، میں نے لب کشائی کی، ” بالکل غلط ” ابا جان نے پوچھا کیا مطلب؟ سامنے مستری کی معاون عورت کھڑی تھی میں نے کہا: (عورت کی طرف سے اشارہ کرتے ہوئے) یہ مستری، وہ مسترا!!!

            (جو چھت میں کاریگری کر رہا تھا) ابا جان نے دریافت کیا کہ یہ فرق تم نے کہاں سے سیکھا؟ مجھے احساس ہوچلا تھا کہ کچھ غلطی ہوگئی ہے، مگر جی کڑاکر کے میں نے کہہ دیا کہ ” ماسٹر صاحب نے بتایا ہے ” مغرب کے بعد ابا جان اور ماسٹر صاحب کی موجودگی میں، میں نے اپنی ” تحقیقات انیقہ ” پیش کیں پھر ماسٹر صاحب کے قاعدے پر میں نے اپنے اشکالات واضح کیے دونوں نے سمجھایا دونوں نے ہمت افزائی کی میں مولوی حبیب الرحمن صاحب کی خدمت میں قرآن پاک سنانے جا رہا تھا اور ماسٹر صاحب کے الفاظ میرا پیچھا کر رہے تھے کہ ”سوچو اور سوچو ” شاید یہی وہ دن تھا کہ جب کسی موضوع پر سنجیدہ غور و فکر کی بنیاد پڑی یہ اس وقت ہوا کہ جب میں کسی کام میں سنجیدہ نہیں تھا، چھوٹی سی عمر تھی، کھیلنے کے دن تھے ” (ص:۱۱۵)

میری علمی و مطالعاتی زندگی:

            شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ العالی کی علمی عبقریت سے کون ناواقف ہے حضرت والا کے مضمون کی آخری سطریں کچھ اس طرح سے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ ” نرا مطالعہ انسان کی زندگی پر اتنا اثر انداز نہیں ہوتا، جتنا اثر کسی شخصیت کی صحبت سے ہوتا ہے اور مطالعہ سے معلومات میں اضافہ تو ہوجاتا ہے؛ لیکن صحیح فہم، اعتدال مزاج اور اصلاح ِنفس شخصیات کی صحبت ہی سے حاصل ہوتی ہے (ص: ۱۳۱)

نہ کتابوں سے نہ کالج سے نہ زر سے پیدا

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

میرا قلمی اور کتابی سفر:

            علامہ اختر کاشمیری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ کتاب کے مطالعے نے مجھے کتاب کا اتنا عادی بنا دیا ہے کہ اگر کبھی کسی دوست کے گھر جانا ہو اور اس کے گھر پر کوئی کتاب موجود نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے مجھے ایک انسان کے بجائے ایک حیوان کے ساتھ وقت بسر کرنے کی سزا دے دی ہے (ص:۲۰۷)

            فرمایا کہ ایک ماہ میں ڈائجسٹ سائز کے تیس ہزار سے زیادہ صفحات پڑھ لیتا ہوں، روز کے روز پڑھنا میرا معمول ہے اور مجھے یقین ہے کہ جس روز مطالعے کا یہ معمول ختم ہوگا؛ اسی روز سانس کی ڈوری بھی ٹوٹ جائے گی، اس لیے میں ہر روز پڑھتا ہوں، چاہے صرف ایک صفحہ ہی پڑھوں (ص:۲۰۸)

مطالعہ کی افادیت اور طریقہٴ کار:

            مولانا سراج الدین ندوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی مدرسہ کی سند اور یونیورسٹی کی ڈگری چاہے وہ کتنی ہی اونچی ہو وہ صرف نقوشِ راہ کا پتہ دیتی ہے، مگر منزل تک نہیں پہنچاتی۔منزل تک پہنچنے کے لیے ہر آن علم و کتاب سے وابستگی ضروری ہے (ص:۲۱۶)

علمی سفرنامے کی روداد:

            شیخ الحدیث حضرت مفتی محمد زرولی خاں قدس سرہ کا مضمون بار بار پڑھنے لائق ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ حضرت شیخ اپنی والدہ ماجدہ کے نقش قدم پر اپنے اساتذہ و مشائخ کا تذکرہ اس شان و احترام سے کراتے نظر آتے ہیں کہ جیسے آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر اس سے بڑی عزت اور شرافت کوئی اور نہیں، حضرت مفتی صاحب قدس سرہ اپنے استاذ محترم امام التاریخ حضرت مولانا لطف اللہ خاں قدس سرہ کا تذکرہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں :کہ میرا پہلا سبق جو تمام علوم و فنون اور آگے مراحل دین کے لیے اساس اور اصل الاصل تھا وہ شروع ہوا حضرت الاستاذ مولانا لطف اللہ صاحب نے ” نفحتہ الیمن ” کے ابتدائی اشعار میں ایک شعر کی تشریح میں اس عاجز سے سوال کیا ،جس پر اتفاقاً جواب درست منطبق ہوا ۔حضرت بے انتہاء خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں اس دور کے بے ذوق لوگوں کو دیکھ کر پڑھانا چھوڑ چکا ہوں؛ لیکن آپ کا ذوق و شوق دیکھ کر شاید مجھے نئے سرے سے پڑھ کر پڑھانا ہوگا ۔یہ سن کر یہ عاجز و فقیر نہایت شرمندہ ہوا؛ کیوں کہ حضرت کا دینی و دنیاوی مقام بہت بڑا تھا اور ہماری حیثیت ان کے سامنے جیسے بحر ِبیکراں کے سامنے قطرہ اور گلزار دبستان کے سامنے شاخ بے ثمر کی تھی ” حضرت مفتی صاحب انگلی پکڑ پکڑ کر قاری کو علم و کتاب سے دوستی بھی کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت شیخ تقریر، تحریر اور تدریس ہر تین میدانوں کے عظیم شہ سوار تھے، بطور خاص کتاب و قلم سے آپ کا تعلق وجدانی قسم کا تھا۔ آپ علمی کتابوں کے شیفتہ اور گرویدہ تھے، کتابوں کی ذخیرہ اندوزی اور علوم و معارف کے موتیوں کی تلاش ان سے استفادہ اور دوسروں کو بھی ان گنجہائے گراں مایہ کا سودائی بنائے بغیر آپ کو چین نہیں آتا تھا فرماتے ہیں کہ ” کتاب کی اپنی ایک برکت ہے آج کل سنا ہے کہ لوگ نیٹ کے ذریعہ کتب بینی کر رہے ہیں، یہ انتہائی غلط ہے اور مطالعہ کی روح سے بغاوت ہے اس میں احتیاط ضروری ہے پورے دن میں مطالعہ کے لیے کوئی نا کوئی وقت ضرور مقرر ہونا چاہئے (ص:۲۴۳)

میری علمی اور مطالعاتی زندگی:

            مولانا ندیم الواجدی مدیر ماہنامہ ترجمان دیوبند کا مضمون اپنی مثال آپ معلوم ہوا آپ کے مضمون کی آخری سطریں ہدیہ ٴقارئین ہیں۔ فرماتے ہیں: کہ میری رائے میں تو ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے کسی ایک موضوع کو پسند کرنا یا کسی ایک مصنف کو محبوب رکھنا اچھی بات ہے؛ لیکن اسی موضوع میں محدود رہ جانا یا اس مصنف کی کتابوں سے آگے نہ بڑھنا کوئی اچھی بات نہیں ہے، کوئی بہترین رہنما اور مشفق و مربی استاذ مل جائے تو اس سے بڑھ کر خوش قسمتی کی بات نہیں ہوسکتی ،نہ ملے تو اپنے ذوق کے مطابق مطالعہ کرتے رہنا چاہیے (ص: ۲۵۹)

ذوق کتب بینی و مطالعہ:

            حضرت مولانا عتیق احمد قاسمی صاحب بستوی حفظہ اللہ استاذ حدیث و فقہ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو کا مضمون کافی اہم ہے۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ آج کل اسلام کے حوالے سے تجدید و تجدد کا جو طوفان برپا ہے اور باطل جس طرح حق کو زیر کرنے کے لیے سرگرم اور بے چین ہے علما کے لیے یہ ضروری ہے کہ باطل کے ان افکار و نظریات سے بھی واقف ہوں ۔عصر حاضر بعض مستقل اسباب کی بناء پر بالعموم مطالعہ کے فقدان اور کتابوں سے بے اعتنائی کا دور کہلاتا ہے، اس سلسلہ میں سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ نئی نسل کے دل و دماغ میں علم کی اہمیت جاگزیں کرائی جائے، علم کو صرف حصول ِمعاش کا ذریعہ نہ سمجھا جائےبلکہ اسے اللہ کی ایک صفت قرار دے کر اس کی اہمیت اور عظمت دلوں میں بٹھائی جائے۔ حیرت ناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں کتابوں اور رسائل و جرائد سے وہ بے اعتنائی اور سرد مہری نہیں ہے؛ جیسی ایشیاء و افریقہ میں ہے، امریکہ اور یورپ میں سفر کے دوران بار بار یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بسوں، ٹرینوں، اور ہوائی جہاز میں بھی وہاں کے لوگ کسی کتاب یا میگزین کے مطالعہ میں مشغول رہتے ہیں، بسا اوقات بسوں اور ٹرینوں میں کھڑے کھڑے مطالعہ کرتے رہتے ہیں وہاں کی لائبریریاں مطالعہ کرنے والوں سے آباد رہتی ہیں، کتابوں سے بیزاری اور مطالعہ سے بے رغبتی کی بیماری ایشیاء اور افریقہ میں خصوصاً مسلمانوں میں زیادہ ہے؛ جب تک نوجوانوں کے دلوں میں علم کی اہمیت نہیں بیٹھے گی اور انہیں اس بات کا یقین حاصل نہیں ہوگا کہ دنیا اور آخرت کی ترقی علم میں مضمر ہے، اس وقت تک حالات میں تبدیلی نہیں آسکتی ۔دوسری قومیں اپنے نوجوانوں میں علم کا ذوق و شوق پیدا کرنے اور مطالعہٴ کتب کا عادی بنانے کے لیے جن ترغیبی وسائل کا استعمال کرتی ہیں ہمیں بھی انہیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے، مختلف ممالک میں، مختلف علاقوں میں اس کے طریقے کچھ مختلف بھی ہوسکتے ہیں (ص:۲۷۰)

میری علمی و مطالعاتی زندگی:

            حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی مدظلہ ایڈیٹر ماہنامہ الفرقان، لکھنوٴ پڑھنے لکھنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ میرے استاذ گرامی حضرت مولانا اویس ندوی نگرامی اپنے استاذ علامہ سید سلیمان ندوی کی یہ نصیحت بکثرت نقل کرتے تھے کہ دس صفحے لکھنے سے پہلے کم از کم پانچ سو صفحات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مطالعہ کے سلسلہ میں میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر پیرا گراف کو کئی بار پڑھا جائے اور مصنف کا مدعا پوری طرح سمجھے بغیر آگے نہ بڑھا جائے اور پورے مضمون کا خلاصہ لوح ِدماغ اور لوحِ قرطاس دونوں میں ضرور محفوظ کیا جائے اور کیا ہی اچھا ہو کہ اگر دو تین پڑھنے والے باہم مذاکرہ بھی کریں؛ مطالعہ کسی کی رہنمائی میں کیا جائے کیوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت بہت دیر میں پیدا ہوتی ہے۔

 (ص:۲۷۴)

نگاربیتی:

            محترمہ ڈاکٹر نگارسجادظہیر صاحبہ شعبہٴ تاریخ، کراچی یونیورسٹی کا مضمون ” نگاربیتی ” ان کی خدمات جلیلہ کا ایک بہترین تعارف بھی ہے۔ ان کا مضمون پڑھ کر رشک آیا موصوفہ کے کام کرنے کے جذبات لائق ِتحسین ہیں، میرا مشورہ ہے کہ ان کا یہ مضمون تعلیم یافتہ خواتین ضرور پڑھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ

            ”میری مطالعاتی زندگی بڑی شاندار گزری۔ طالب علمی کے زمانے میں اوسطا ًہر روز میں ایک کتاب پڑھ لیتی تھی یہ کتاب کسی بھی نوعیت کی ہوسکتی تھی، ناول سے لے کر علمی و دینی کتب تک، کچھ بھی نہیں چھوڑتی تھی، پہلے گوشت کاغذ میں لپیٹ کر آتا تھا، آج کل تو پلاسٹک کی تھیلیوں میں آتا ہے، وہ خون آلودہ کاغذ بھی میں پڑھ جاتی تھی، گھر میں کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو پڑھنے سے رہ گئی ہو، یہ ایک نشہ ہے جو آج بھی نہیں اترا۔

 (ص: ۲۸۶)

            فرماتی ہیں کہ ” ہمارے یہاں بہت سے لوگ خصوصا ًمرد حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ ریٹائر منٹ کے بعد وہ اپنی فراغت سے پریشان ہوجاتے ہیں ،لیکن میں اپنے بعض کاموں کے لیے اپنی سبکدوشی کا انتظار کر رہی تھی ۔انتظامی معاملات تخلیقی کاموں سے روکتے ہیں، ملازمت کے دوران ہم دوسروں کی مرضی اور ادارے کے اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں، سبکدوشی کے بعد آپ اپنا کام اپنی مرضی اور اپنے مزاج کے مطابق کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں؛ لہٰذا سبکدوشی کے بعد میری مصروفیتوں کے محور قرطاس اور الایام ہیں اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ کے ماخذ پر مستند کام کرنے کا پروگرام ہے۔ اسلامی تاریخ کے بنیادی ماخذ زیادہ تر عربی زبان میں ہیں ان کا مستند اردو ترجمہ کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ بعض کتابوں کے تراجم میں بڑی غلطیاں اور تسامحات ہیں ان کی نشاندہی اور درستگی کرنے کی خواہش مند ہوں، اس کے علاوہ تخلیقی کام یعنی شعرو ادب کا جو کام ہو جائے وہ غنیمت ہے۔ الحمدللہ میں آج بھی بارہ گھنٹے کام کرتی ہوں ۔ (ص: ۲۸۷)

جی رہی ہوں اس اعتماد کے ساتھ

زندگی کو میری ضرورت ہے

مطالعہ کا ذوق اور اس کے فوائد:

            حضرت مولانا بدرالحسن القاسمی مدظلہ العالی نائب صدر اسلامک فقہ اکیڈمی فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ کتابوں کا بھی ضروری ہے اور کتاب ِہستی کا بھی۔ ایک سے عام معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، تو دوسرے سے خالق ِکائنات کی عظمت اور اس کی قدرت کی نیر نگیوں کو دیکھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں کا نظارہ کرنے سے دل جھکتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور جبین نیاز سے سجدے بیتابی کے ساتھ نکلنا چاہتے ہیں (ص:۳۰۸) دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ

            ” مطالعہ اردو کا ہو یا عربی کا کسی مبصر کی نگرانی میں ہونا چاہئے یا پھر کچھ اصولوں کی روشنی میں؛ ورنہ آدمی بزعم خود ہمہ دانی کا دعوی کرنے لگتا ہے، لیکن حقیقت میں اپنے ذہنی انتشار کی وجہ سے دوسروں کو بھی پریشان رکھتا ہے (ص:۳۱۴)

مطالعہ کی سرگزشت:

            حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ بانی و ناظم المعہد الاسلامی فرماتے ہیں کہ اسلامیات کا مطالعہ کرنے والوں کو چاہیے کہ ہر موضوع کی کم سے کم ایک کتاب چاہے، وہ مختصر متن ہو بالاستیعاب اور توجہ کے ساتھ پڑھے اس سے آئندہ کا مطالعہ آسان ہو جاتا ہے؛ کیوں کہ انسان آسانی سے جب کسی بات کو سمجھتا ہے تو اس کو پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے (ص:۳۲۲)

میری مطالعاتی زندگی کی چند باتیں:

            مولانا محمدکلیم صدیقی مدظلہ اپنے مضمون میں ایک مقام پر فرماتے ہیں ” اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ بہتر یہ ہے کہ آدمی کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دیدے اور دوسرے کی گاڑی میں سوار ہو کر سفر کرے، اس میں بڑی عافیت ہے اور کسی کی ارادت میں شامل ہوجائے، تو پھر ارادت کا مزا ” فٹ بال ” بن جانے میں ہے اپنے دعوتی سفر کے ابتدائی تذکرے کے ذیل میں حضرت رائے پوری قدس سرہ کا ایک ملفوظ ” ارادت کا مزا فٹ بال بن جانے میں ہے ” ذکر کرکے فرماتے ہیں ہندوستان ٹائمز میں ایک خبر دیکھی اس وقت فٹ بال کا ایک ورلڈ کپ ہوا تھا تو ایک کھلاڑی جس نے جیت والا آخری گول کیا تھا، اس بال کی قیمت تھی پچاس ڈالر اس کی نیلامی ہوئی تو اس کو پچاس ہزار ڈالر دے کر خریدا گیا ۔میں نے خیال کیا کہ ایک فٹ بالر کے قدموں میں لگ کر ایک فٹ بال کی قیمت اتنی لگ سکتی ہے، تو ایک اللہ والے کا فٹ بال بن جانے میں کتنی قیمت بڑھ جائے گی، اس کے بعد دل میں دھن ہوئی کہ حضرت والا کا فٹ بال بن کر رہیں گے۔ فٹ بال تو نہیں بن سکے لیکن بننے کی کوشش ضرور کی اور الحمدللہ یہ سارا دعوت کے کام کا جو کچھ بھی شور شرابا ہوا ہے کام کے نہیں بن سکے ،لیکن نام ہوگیا ہے۔ یہ سب کچھ اس فٹ بال بن جانے کی نیت کی وجہ سے ہے، پھر ہر چیز اور مطالعہ بھی حضرت والا نوراللہ مرقدہ کے مشورہ سے کرنے لگا۔

 (ص:۳۲۹)

رزق حرف:

            جناب سعودعثمانی صاحب ادیب، شاعر و کالم نگار ” کا ادبی ذوق قابل تعریف ہے اپنے مضمون کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ

            ” میرا شمار تو خوشہ چینوں میں ہوتا ہے ان گھنے ثمر بار درختوں کی چھاؤں اور شیرینی سے فیض حاصل کرنے والوں میں، جن کا فیض عام بھی ہے اور تام بھی ان لوگوں کے درمیان، جن کے دسترخوانوں سے مجھے رزق ِحرف ملتا رہا ہے

 (ص:۳۳۹)

            فرمایا کہ کتاب تو ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے، جس طرح کسی دلدار دوست اور عزیز کا ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے پھسلتا جائے، آپ اسے مضبوطی سے پکڑنے کے لیے اپنی طاقت صرف کر دیں؛ لیکن انچ انچ اور پورا پورا وہ ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے نکلتا جائے اور آپ بے بسی سے آنسو بہاتے رہ جائیں ،کچھ عرصہ پہلے انہی بے بسی کے آنسوؤں میں بہتے ہوئے میں نے ایک شعر لکھا اور فیس بک پر اپنے احوال (سٹیٹس) پر درج کر دیا شعر تھا

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے

 یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

            شعر دل سے نکلا اور بے شمار دلوں میں جالگا، شعر کا دائرہ در دائرہ پھیلتا گیا اس قبیلے نے اور اس نسل نے اور ہر اس فرد نے یہ دکھ محسوس کیا جو کتاب سے عشق کرتے آئے ہیں ۔ (ص:۳۴۱/ ۳۴۲)

            فرماتے ہیں کہ آئندہ کتابوں کی جو بھی شکل ہو، اس کے اپنے لطف ہوں گے اور اپنی وابستگیاں، لیکن وہ بہرحال کاغذی کتاب سے مختلف ہوں گی تو اگر وہ نسل، وہ قبیلہ، ایک عہد بتدریج ختم ہونے پر اپنا آپ ختم ہوتا محسوس کرے تو کیا غلط ہے۔؟ برا نہ مانیے اگر وہ اس خدشے کا اظہار کرے کہ

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

 (ص: ۳۴۳)

            آں موصوف کے مذکورہ شعر کا دوسرا مصرعہ جب پہلی بار میرے ایک ہمدم نے مجھے سنایا تھا تو اس کے ذیل میں مستقل ایک مضمون ترتیب پا گیا تھا آج ان کے مضمون میں مکمل شعر پڑھ کر خوشی ہوئی اقبال مندی کے لیے حق جل مجدہ کے حضور دعا گو ہوں۔

اوراق شناسی:

            حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مدظلہ فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ دل جمعی کے ساتھ کیجئے، ادھر ادھر سے دھیان ہٹا کر کیجیے خیالات و تصورات کے ہجوم میں مطالعہ سودمند نہیں ہوتا۔ آپ کچھ اور سوچ رہے ہیں ذہن کہیں اور ہے اور نگاہیں کتاب پر ٹکی ہوئی حروف و الفاظ پڑھنے میں تو آرہے ہیں؛ لیکن جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہیں، یکسوئی اور ذہنی سکون مطالعہ کا لازمہ ہے یہ اگر میسر ہیں تو مطالعہ فائدہ مند بھی ہوگا اور اثر انگیز بھی اور اس کے نتائج بھی جلد نظر آئیں گے۔

(ص: ۳۵۶)

داستان کتاب شناسی:

            پروفیسر ڈاکٹر محمدسعود عالم قاسمی صاحب سابق صدر شعبہٴ دینیات علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان سیرت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی کتاب ضرور پڑھے۔ ہر مدرسے میں سیرت کی کوئی کتاب داخل نصاب ہو اور گھر میں سیرت کی کتابیں موجود ہوں، قرآن اگر دستور زندگی ہے تو اس کا ذیلی قانون سنت ہے اور اس کو انسانی زندگی میں ڈھالنے کا نمونہ سیرتِ محمدی ہے اگر اپنی اور انسانوں کی زندگی کو منور کرنا ہے تو سیرت محمدی کے چراغ سے روشن کیجیے۔(ص:۴۰۳)

خود کو روشن کیجیے خود جلوہ گر ہو جائیے

خود نگاہ و خود نظیر و خود نگر ہوجائیے

 لوگ چن لیں جسکی تحریریں حوالوں کے لیے

 زندگی کی وہ کتاب معتبر ہوجائیے

بیان میرے مطالعہ کا:

            ڈاکٹرمحمداکرم ندوی پروفیسر آکسفورڈ، انگلینڈ نے اپنے مضمون کے آخر میں بے حد اہم مسئلہ زیر قلم لایا ہے فرماتے ہیں ” افسوس کہ عام مسلمانوں میں مطالعہ سے بے نیازی و بیزاری ہے، آج کل علمی اداروں میں بھی سیاسیات کا اس قدر غلبہ ہے کہ علم و ادب سے اعتنا کو طفلانہ مشغلہ سمجھا جاتا ہے اور جو سیاست باز نہیں وہ سیاست کی لونڈی یعنی صحافت کے دام میں گرفتار ہیں اور ملک کا ملک اس عام بدتمیزی میں مبتلا ہے آج دنیا کو کس قدر ضرورت ہے غیر سیاسی انسانوں کی، ان فرزانوں کی جن کا اوڑھنا بچھونا علم ہو، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے ماحول اور زمانہ سے رشتہ منقطع کرلے ایک خلاق، مصنف خلاء میں نہیں رہتا، نہ کسی میوزیم میں سانس لیتا ہے، بلکہ وہ اپنے معاشرہ اور اپنے زمانہ سے مربوط ہوتا ہے، اس کے ماحول کے انقلابات اس کے افکار و خیالات میں منعکس ہوتے ہیں عہد حاضر کی سیاست و صحافت کا نہ علم سے تعلق ہے اور نہ حالات و ماحول سے، یہ بالعموم جہالت، نفاق، تدلیس اور تضلیل پر قائم ہے ۔(ص: ۴۸۴)

علمی، مطالعاتی اور کتابی زندگی کی روداد:

            مفتی محمد زید مظاہری ندوی زیدہ مجدہ استاذ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو کا مضمون خاصہ طویل اور معلوماتی ہے اللہ پاک نے تصنیف و تالیف کے میدان میں خوب کام لیا ہے ۔ (ص: ۴۰۴)

میرا مطالعہ:

حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری نائب مفتی جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد

            فرماتے ہیں کہ ” اصل کتابوں کو نظر انداز کرکے صرف ڈیجیٹل ذخائر پر انحصار کرنا نقصان دہ ہے، خصوصا ًطلبہ کو سہولت پسندی سے بچنا چاہئے اور کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہئے اس کے بغیر علمی گیرائی اور نظر میں وسعت پیدا نہیں ہوسکتی ۔ (ص: ۵۰۳)

میرے مطالعہ کا سفر:

            مولانا اختر امام عادل قاسمی مدظلہ بانی و مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف ،سمستی پور،بہار لکھتے ہیں کہ: مولانا اعجاز احمداعظمی قدس سرہ بے حد غزیرالعلم، وسیع المطالعہ اور قوی الحفظ شخص تھے، کتابوں سے ان کا عشق دیدنی تھا۔ اتنا تیز مطالعہ کرنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا، وہ ایک ایک سطر نہیں بلکہ کئی کئی سطروں پر ایک ساتھ نظر رکھتے ہوئے پڑھتے تھے، ہم لوگوں کے اظہار حیرت پر انہوں نے بتایا کہ میں تم لوگوں کی طرح ایک ایک سطر نہیں پڑھتا؛ بلکہ اوپر نیچے کئی سطریں ایک ساتھ ملا کر پڑھتا ہوں اور از راہ تلطف فرمایا کہ ” یوں سمجھو کہ میرا مطالعہ کلامِ نفسی جیسا ہے اور تم لوگوں کا مطالعہ کلام لفظی کی طرح کا ہے ” لذتِ مطالعہ، آتش شوق ” کے تحت لکھتے ہیں کہ” مولانا اعجاز احمدصاحب طلبہ کو مطالعہ کی ترغیب دیتے تھے ایک دن میں نے دوران ِسبق (کافیہ) مولانا سے ایک سوال کیا ۔مولانا نے فرمایا کہ تمہارے اس سوال کا جواب کتاب میں موجود ہے، اگر تم چاہو تو مطالعہ کرکے اس کا جواب حاصل کرسکتے ہو۔ مولانا نے ماخذ کی نشاندہی فرمائی اور مجھے اس کا جواب ڈھونڈنے کی کل تک مہلت دی؛ چناں چہ کل ہوکر مولانا نے جواب ملاحظہ فرمایا تو تصویب وتحسین فرمائی اس کے بعد مطالعہ کی ایسی لذت ہاتھ آئی کہ یہ زندگی کا ایک روگ بن گیا اور آج تک اس روگ سے پیچھا نہیں چھوٹا۔سخت سے سخت بیماری میں بھی ڈاکٹروں اور اہل خانہ کی ہزار صلاحوں کے با وجود لکھے پڑھے بغیر چین نہیں آتا، لکھنے پڑھنے میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم میں نہ معلوم کتنوں سے ہی دشمنی مول لی، کتنے مالی و جانی نقصانات گوارا کیے اپنی صحت خراب کی ،لیکن اس جنون سے نجات نہ ملی بقول میر

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

(ص: ۵۰۸/ ۵۰۹)

میرا دور طالب علمی اور مطالعہ :

            حضرت مفتی ناصرالدین مظاہری مدیر ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم، سہارن پور نے ” اہل مدارس کو نہایت قیمتی مشورہ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں ” کسی بھی مدرسہ کی کتابیں صرف مدرسہ سے متعلق طلبہ یا اساتذہ کے لئے خاص نہیں ہوتی ہیں ،کتابیں پوری ملت کا قیمتی سرمایہ ہیں کتابوں کی حفاظت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جگہ جگہ الماریوں پر لکھ دیا جائے ”برائے مہربانی کتابوں کو ہاتھ لگانا منع ہے ” جب کسی قوم کا یہ مزاج بن جائے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ایسے لوگ کتابوں اور کتب خانوں کے محافظ نہیں ہوتے بلکہ کتابوں کے کسی (گودام) کے چوکیدار تو ہوسکتے ہیں، کتب خانوں کے نہیں ۔کتابوں کی اصل حفاظت یہ ہے کہ وہ کتاب زیادہ سے زیادہ پڑھی جائے، اس کے علوم و معارف سے دوسرے لوگ بھی روشنی حاصل کرسکیں؛ کیوں کہ وہ چراغ ہی اصل چراغ ہے جس کی روشنی سے دوسرے مستفید ہوسکیں اور وہ چراغ کسی شمار میں نہیں ہوتا، جس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے، سوچیں کیا مصنفین نے اسی لیے اپنے بہترین دماغ کھپائے تھے کہ ان کی کتاب ” طاق نسیاں ” کی زینت بن جائے یا کسی شاندار و جاندار آہنی یا شیشے کی الماریوں میں ہمیشہ کے لیے قید کر دی جائے؟ دارلمطالعہ کے بغیر مدارس ناقص ہیں، کتابوں کے بغیر علماء محروم ہیں، اس لیے اپنے اپنے مدارس دارالمطالعہ کا نظم کریں اور اپنی مقدور بھر کوشش اور محنت سے کام کی کتابیں بھی خریدنے کا مزاج بنائیں ۔فرمایا کہ پہلے زمانہ میں عوامی کتب خانے ہواکرتے تھے اب سب عنقا ہوتے جا رہے ہیں ،لے دے کے مدارس ہی باقی بچے ہیں جہاں کتابوں کا قیمتی ذخیرہ موجود ہے، اہل مدارس اپنے اپنے طور پر بہترین نظامِ مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز فرمائیں؛ ورنہ معصوم کتابوں کی شکایت پر ہم اپنا دامن کسی طور بچا نہ سکیں گے۔

(ص: ۵۸۵/۵۸۶)

حرف شناسی:

            ڈاکٹر عمیر منظر پروفیسر آزادنیشنل اردو یونی ورسٹی فرماتے ہیں کہ ” مطالعہ دنیا وما فیہا سے بیگانہ کرنے والی چیز ہے، اور اس کے لیے یہی کیفیت درکار ہے ۔ہفتہ واری یا ماہانہ نصاب تو مقرر کیا جا سکتا ہے، مگر اس کا حاصل کچھ نہیں کیوں کہ مطالعہ کا شوق ضروری ہے اور یہی شوق، ذوق کی رہنمائی کرتا ہے۔

 (ص:۵۹۷)

میرے مطالعہ کی روداد:

            مولانا ضیاء الحق خیرآبادی ایڈیٹر ماہنامہ ضیاء الاسلام، شیخوپورہ ” فرماتے ہیں کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کی ” آپ بیتی ” جو ” آپ بیتی ” اور ” جگ بیتی ” دونوں ہے اسے ایک بار پڑھا، دوبار پڑھا، پھر نہ جانے کتنی بار پڑھا یاد نہیں ہے۔ یہ میری محسن کتابوں میں سے ہے، اس نے میری زندگی میں گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس کتاب کو پڑھ کر یہ بات دل میں جم گئی کہ اساتذہ کی بے احترامی علم سے محرومی کا سب سے بڑا سبب ہے، جس نے اساتذہ کی جس قدرتعظیم و تکریم کی؛ اسی کے بقدر اس کے علم کا فیضان عام ہوا، اس کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریا بادی کی ” آپ بیتی ” مولانا علی میاں کی ” کاروان زندگی ” شورش کاشمیری کی ” بوئے گل، نالہٴ دل دودِ چراغ محفل ”(یہ ایک بہترین خود نوشت ہے) اس کے بارے میں شورش کاشمیری سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی ” خود نوشت سوانح ” کا نام ” بوئے گل؛ نالہ دل دود چراغ محفل ” کس رعایت سے رکھا ہے؟ تو انہوں نے نہایت شاندار ادیبانہ جواب دیا کہ: ” بوئے گل ” میرا بچپن تھا، آہوئے رمیدہ کی طرح اڑن چھو ہوگیا: ” نالہٴ دل” میری جوانی تھی جو زندگی کے ترکش سے تیرکی طرح نکل گئی: ” دود چراغ محفل ” ان سانحات و حادثات کا نچوڑ ہے؛ جنہیں مرحوم جوانی کے دوش پر اٹھائے پھرتا ہوں (غرض اپنی طویل تلخیوں کی نعش خونچکاں میں نے الفاظ میں کفنا دی ہے) (ص: ۶۵۴/۶۵۵)

میرا عشق، میری کتابیں:

            حضرت مولانا فضیل احمد ناصری استاذ جامعہ محمدانور شاہ دیوبند ” رقم طراز ہیں کہ ” مجھے خوب یاد ہے کہ ممبئی میں قیام کے دوران میرے ایک خیر خواہ، جب بھی مجھے ملتے تو کثرت ِمطالعہ کی خوب تلقین کیا کرتے۔ ان کا یہ جملہ میرے لوح ِدل پر نقش کالحجر ہوچکا کہ ” مولانا! مطالعہ اس کثرت سے کیجیے کہ ” آپ کے انگ انگ سے علم پھوٹنے لگے ” (ص: ۶۷۶) فرمایا کہ ” پی ڈی ایف کلچر نے مطالعہ کو مار دیا: میں علم کے باب میں اب بھی کورا ہوں، مگر دیگر باذوق اہل ِعلم کی طرح میرا سفر ِمطالعہ بھی حسب روایت جاری ہے، نئی کتابیں آجائیں تو انہیں پڑھے بغیر چھوڑ نہیں پاتا، پرانی کتابوں کی تلاش ہمیشہ رہتی ہے اور مل جانے پر ان کا مطالعہ اپنے لیے خوراک باور کرتا ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ زیر ِمطالعہ کتابیں دستی ہی ہوں، پی ڈی ایف سے بوقت ضرورت اگرچہ استفادہ کر لیتا ہوں، مگر بلا ضرورت نہیں۔ پی ڈی ایف کلچر میری نظر میں ذوق ِمطالعہ کے لیے زہر ِہلاہل ہے؛ جب سے اس کلچر نے فروغ پایا ہے کتب بینی کا رواج سرد پڑگیا ہے، پڑھنا لکھنا گویا کفن دفن کے مرحلے سے بھی گزرگیا (ص:۶۷۸)

            ڈیجیٹل لائبریری سے تائب ہونا پڑے گا، ڈیجیٹل لائبریری نے مطالعے کا ذوق تو ختم کیا ہی، تاجران ِکتب کے رزق پر بھی خط ِتنسیخ کھینچ دیا ہے۔طلبہ میں مطالعے کی عادت دکھائی نہیں پڑتی ،مدارس میں موبائل پر گرچہ سخت پابندی ہے، مگر یہ کفر ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ درس گاہوں میں طلبہ کی رسائی پڑھنے کے لیے کم اور رجسٹر کے عتاب سے بچنے کے لیے زیادہ ہو رہی ہے۔ اساتذہ نصیحت کر رہے ہیں ،سمجھانے کا ہر اسلوب اختیار کیا جا رہا ہے؛ لیکن جمود ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا، نتیجتاً صلاحیتوں کا فقدان اب عام سی بات ہوچکی ہے، ایسے ایسے طلبہ فاضل بن کر نکل رہے ہیں؛ جنہیں کلمہ طیبہ کا املا تک نہیں آتا۔ یہ محض فرضی اور اختراعی نہیں حقیقی اور مشاہداتی ہے اگر بازار ِعلم کی رونق بحال دیکھنی ہو تو، پھر اسی قدیم ڈگر پر لوٹنا پڑے گا، جس پر چل کر ہمارے اسلاف راسخین فی العلم بنے یہ حقیقت کل ہی کی طرح آج بھی مسلم ہے۔

 (ص: ۶۷۹)

مطالعہ – میرا سرمایہٴ حیات:

            حضرت مولانا اشرف عباس قاسمی مدظلہ العالی استاذ دارالعلوم دیوبند ” لکھتے ہیں کہ بہت سے مبتدی طلبہ اسی شش و پنج میں رہ جاتے ہیں کہ کوئی استاذ ہماری نگارش کو دیکھ لے تو اگلا مضمون لکھیں گے یا مطالعہ کریں گے اور اساتذہ اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے نہیں دیکھ پاتے، تو طالب علم کا یا تو حوصلہ پست ہو جاتا ہے یا اگلا مضمون وہ کافی وقفے کے بعد لکھتا ہے ،اس صورتحال اور سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ طالب علم کو بس لکھتے رہنا چاہئے ،اگر استاذ محترم کے پاس وقت نہیں ہے، تو اپنا لکھا ہوا کسی ساتھی سے پڑھوا لے، خود پڑھے، اگر اس نے اپنا مضمون دس بار پڑھا تو دسویں بار بھی اسے کہیں نہ کہیں سقم نظر آئے گا، اس کی اصلاح کرے اور آگے بڑھتا رہے بہت جلد وہ ایک اچھا قلم کار اور کتابوں پر نظر رکھنے والا بابصیرت عالم بن جائے گا۔ ان شاء اللہ

 (ص: ۷۰۵)

میرے مطالعے کا مختصرسفر:

            ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی زید مجدہ استاذ معہد تعلیم الاسلام شکاگو، امریکہ ” لکھتے ہیں کہ میں جب بھی نوجوان فضلائے مدارس سے ملتا ہوں تو ان سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مطالعہ کرتے وقت اسلام کی وسعت اور آفاقیت کو ملحوظ رکھیں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دین کی عقلی تشریح پر توجہ دیں، سوشل میڈیا کے دور نے بہت سے لوگوں کو قلم کار بنا دیا ہے، نوجوان فضلا اگر اس ٹیکنالوجی کا مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کریں تو جہاں معاشرتی سطح پر اس کا فائدہ ہوگا ذاتی سطح پر بھی خود ان کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ اگر وہ ” ٹرینڈ ” کرتے موضوعات پر مثبت اور مختصر تحریر بھی لکھیں گے تو قارئین کی فوری پزیرائی سے ان کا حوصلہ مہمیز ہوگا ،ان میں زیادہ سے زیادہ لکھنے کا شوق پیدا ہوگا اور وہ لاکھوں لوگوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکیں گے ؛لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلکی تنازعات اور تنقیص پر مبنی مضامین سے دور رکھیں ۔

(ص: ۷۱۸)

میرے آدھے ادھورے مطالعہ کی سرگزشت:

            حضرت مولانا مفتی محمد ساجد کھجناوری مدیر ماہنامہ صدائے حق، گنگوہ فرماتے ہیں کہ اب جب کہ علم و مطالعہ سے وابستگی زوال پذیر ہے شمعِ تحقیق کی لو مدھم ہوتی جاتی ہے اور وسائل ِاعلام و نشر کی ریل پیل نے کھرے اور کھوٹے کے امتیاز پر شب خون مارا ہے تو صحت مند مواد کی فراہمی اور نفع بخش لٹریچر کی نشان دہی، ہماری مطالعاتی ذمے داریوں کو ایک نئے احساس و جذبہ سے آشنا کرتی ہے۔ برقی مواصلات سے مربوط آج کی نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ صدی علم و تحقیق کے چراغ روشن کرنے والوں کی صدی ہے ۔تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اقراء کی صورت میں جو نسخہ امت کے لیے تجویز فرمایا تھا مطالعہ کتب اسی کی یاد دہانی ہے۔

 (ص:۷۳۰)

مطالعہ کی سرگزشت:

            مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی سیکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا طویل مضمون معلومات سے لبریز ہے۔ دوران ِمطالعہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی وسیع و عریض کتب خانے کا تفصیلی دورہ ہو رہا ہے ۔فرمایا: کہ مطالعہ سے فکر و نظر اور ذہن و دل کو جلا ملتی ہے، کتاب کے ذریعے نئے نئے اشخاص اور مختلف افکار و نظریات سے انسان کو شناسائی حاصل ہوتی ہے ،کتاب کی صحبت خود اعتمادی اور بے نیازی پیدا کرتی ہے اور کتنی ایسی کتابیں ہیں ،جنہیں پڑھ کر انسان قرب ِربانی اور مقام ِروحانی حاصل کرتا ہے ۔کاغذ پر ابھرے ہوئے الفاظ میدانِ عمل میں آگے اور بہت آگے بڑھنے کا حوصلہ اور کچھ کرنے اور کر گزرنے کا جذبہ بخشتے ہیں۔

             گزرے ہوئے نامور انسانوں کے حالات ِزندگی فرش سے عرش تک سفر کا ذوق پیدا کرتے ہیں۔ شوق کی دولت ِبیدار بھی کتابوں کے اوراق سے حاصل کی جاسکتی ہے، اس لیے پڑھنے اور خوب پڑھنے کا مزاج بنانا چاہئے ایسا اور اتنا پڑھنا چاہئے کہ علم رگ و پے میں سما جائے اور پیمانہٴ معلومات لبریز ہوکر چھلک جائے، لایعنی مشاغل میں انہماک، نئے آلات سے اشتغال اور تعلقات کی کثرت مطالعہ کتاب کی راہ کا روڑا ہیں، وقت کے صحیح استعمال کی عادت انسان کو آگے بہت آگے لے جاتی ہیں ہمارے بڑوں اور بزرگوں نے چھوٹی چھوٹی عمر میں جو بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے اور شرف و شعور کی اعلی ترین بلندیوں تک پہنچے، اس کا راز وقت کا صحیح استعمال ہے؛ ہمارے لیے بھی یہی راہِ عمل اور جادہٴ خیر ہے ہاتف غیبی پکار کر کہہ رہا ہے

دقات قلب المرء قائلہ لہ

 بان الحیاہ دقائق و ثوبان

            (انسان کے دل کی دھڑکنیں اس سے مخاطب ہیں کہ زندگی تو بس یہی منٹ اور سیکنڈ ہیں) (ص: ۷۷۱)

وقت کا ہر لمحہ یہ کہتا ہوا گذرا مجھ سے

ساتھ چلنا ہے تو چل میں چلا جاوں گا

            آخری بات اور دل کی بات بڑے درد کے ساتھ عرض ہے کہ ” کتب ” کی اہمیت میں کوئی دورائے نہیں مگر انسان بننے کے لیے بہرحال کسی ” قطب ” کی ضرورت پڑتی ہے اقبال نے سرد و گرم مرحلوں سے گزرنے اور مشرق و مغرب کے جامہائے تلخ و شیریں پینے کے بعد اس حقیقت کا یوں اظہار کیا تھا 

ہر مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیاتِ ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

            بچوں میں مطالعہ کا ذوق کیسے پیدا کریں؟ مولانا سراج الدین ندوی صاحب کا یہ مختصر مگر نہایت اہم مضمون ہے (ص: ۸۱۸)

علوم اسلامیہ اور ڈیجیٹل دنیا:

            حضرت مولانا محمد حذیفہ وستانوی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال کا کتاب سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ جب کوئی قوم کتاب کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگاتی ہے تو اسے پر پرواز مل جاتے ہیں اور وہ اپنی پرواز میں ستاروں سے بھی آگے نکل جاتی ہے اور جب اس کے ہاتھ کتاب اٹھانے کے قابل نہیں رہتے، تو وہ زمین کی پستیوں میں بھٹکنے لگتی ہے ؛کیوں کہ پرواز تو اسے کتاب نے ہی دی تھی ۔انسان کتاب لکھتا ہے اور کتاب انسان کا مقدر تحریر کرتی ہے۔ زندہ قوم کی لائبریری زندہ اورمتحرک ہوتی ہے، جس سے ہر لمحہ زندگی کی برکتوں کی شعائیں پھوٹتی رہتی ہیں اور جب قوم مردہ ہوجاتی ہے تو یہ لائبریری بھی مردہ خانے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ کتاب ہر اس شخص اور ہر اس قوم کے لیے ہے، جو اس کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھاتی ہے، جب یورپ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا تو مشرق کی فضاوٴں میں علم و حکمت کی تجلیاں ہر جہت بکھرتی چلی گئیں تھیں اور جب تجلیوں کے اس کارواں نے مشرق کی فضاوٴں سے نکل کر مغرب کا رخ کیا تو ہمارا شاعر درد و غم کے عالم میں پکار اٹھا

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی

دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

(ص: ۸۲۱/ ۸۲۲)

 میرا کتابی سفر:

            حضرت مولانا مفتی سیدعبیدانورشاہ قیصر مدظلہ استاذِحدیث جامعہ امام محمدانورشاہ دیوبند ” اپنے کتابی سفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” انسان کی عادات اور مزاج کی تشکیل میں سب سے زیادہ گھریلو پرورش اور ماحول کا اثر ہوتا ہے، بچپن میں ہم جو چیزیں دیکھتے، سنتے اور جو تجربات حاصل کرتے ہیں ،وہی ہماری شخصیت کی بنیاد بنتے ہیں، اس لحاظ سے یہ کہنا صد فیصد درست ہے کہ مجھے مطالعہ کا جو بھی ذوق حاصل ہے، اس کی اصل وجہ خاندانی نظامِ تربیت ہی ہے۔ یہ اللہ تعالی کا احسان ِعظیم ہے کہ اس نے پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا کیا ؛جہاں کئی نسلوں سے کتاب و قلم کی دنیا آباد و شاداب ہے جد اعلی علامہ کشمیری، دادا محترم مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر، چھوٹے دادا مولانا سید انظر شاہ کشمیری رحمہم اللہ کی علمی و قلمی خدمات سے بحمداللہ ہر صاحب علم باخبر ہے۔

            والد محترم مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی اپنے بڑوں کی روایات کے امین ہیں اور محض فضل ِخداوندی ہے کہ علم کی شمع اس خانوادہ میں ابھی بھی روشن ہے۔ اللہ تعالی اس کی روشنی کو تا قیام ِقیامت دائم فرمائے ؛بہ ہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کتاب بینی کا شوق بچپن سے پیدا ہوگیا تھا۔( ص:۷۷۲)

            نئے لکھاڑیوں اور قارئین کے لیے مطالعہ کے سلسلے میں کیا طریقہٴ کار ہونا چاہئے کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ ” سب سے زیادہ توجہ سیرت کے مطالعہ پر رکھیں بڑوں نے لکھا ہے (اور میرا ذاتی تجربہ بھی ہے) کہ اصلاح ِنفس کے لیے مطالعہ سیرت سے آسان اور موثر کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ سیرت کے مطالعہ سے دل نرم ہوتا ہے اپنے مسلمان ہونے کی قدر ہوتی ہے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نصیب ہوتی ہے؛ نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ جو کچھ پڑھیں مختلف اوقات میں اپنے ذہن میں اس کا اعادہ کرتے رہیں۔ احباب کے درمیان اس کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کریں؛ اسی سے مطالعہ زندہ اور تازہ رہ سکتا ہے، جو کچھ پڑھیں اس کی لفظیات اور اسلوب کو گہرائی سے سمجھیں۔ نئی نئی تعبیرات، مختلف طرز بیان اور اسلوبِ نگارش کے فرق کو محسوس کریں اور ان کی خوبیوں کو اپنی تحریر میں جذب کرنے کی کوشش کریں۔ صرف مستند قلم کاروں کو پڑھیں۔ بازاری زبان استعمال کرنے والے اور اخلاقی اقدار سے عاری نام نہاد ادیبوں شاعروں اور مصنفوں سے دور رہیں۔ (ص:۷۷۹)

آخری بات:

             ماہنامہ النخیل کے مطالعہ نمبر کے اکابر و اساطین علم کی تحریروں کا اختصار شایان شان پیش کرنا اس ناکارہ کے بس کی بات تھی بھی نہیں، بس ایک دلی شوق تھا جس کی تکمیل پر اللہ پاک کے حضور شرف ِقبولیت کے لیے دست بدعا ہوں دوران ِمطالعہ اگر کوئی کسی غلطی پر متنبہ ہوں، تو اسے اس عاجز کی جانب منسوب کرکے اصلاح فرما دیں۔ یقینا ان کا یہ تعاون علمی امانتوں کی صحیح نشر و اشاعت کا ذریعہ ہوگا۔ یہ کتاب اپنے علمی و ادبی، معیار و وقار سے بلاشبہ ایک قابل ِقدر اضافہ ہے ارباب ِذوق سے بندہ کی درخواست ہے کہ ماہنامہ النخیل کے اس مطالعہ نمبر کو اپنی عالمانہ التفات سے نوازیں دینی و عصری تعلیم گاہوں کے کتب خانوں تک ترغیب و تحریک کے ذریعہ اس کی رسائی کو ممکن بنائیں؛ یہی اس کتاب کا حق بھی ہے اللہ پاک تمام لکھنے والوں کو جزائے خیر دے جو باحیات ہیں ان کے فیض کو عام و تام فرمائے اور جو اللہ کی جوار رحمت میں پہنچ گئے ہیں اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے اور امت کو نعم البدل عطا فرمائے۔