شیخ الاسلام مولاناسید حسین صاحب مدنی
ہندوستان کے باشندوں میں صرف مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ اس ملک کواپنا قدیمی آبائی وطن کہیں اور وہ اس میں حق بجانب ہیں:
ہندوستان کی بسنے والی قوموں میں صرف مسلمان ایسی اقوامِ قدیمہ میں سے ہیں ،جن کا مذہب اور عقیدہ ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں ۔اور انسانی نشوونما فقط حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا ہے؛ یہی قرآن کی تعلیم ہے باقی اقوام ہند یہ اس کی قائل نہیں ہیں ۔
اسلامی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام ہندوستان ہی میں اتارے گئے اور یہاں ہی انہوں نے سکونت کی اور یہاں ہی سے ان کی نسل دنیا میں پھیلی اور اسی وجہ سے انسانوں کو آدمی کہا جاتاہے ؛چناں چہ ”سبحة المرجان فی تاریخ ہندوستان“ میں متعدد روایات اس کے متعلق مذکورہیں ۔بائبل میں بھی اس کے حصہ عہد قدیم میں یہی ذکر کیا گیا ہے ۔تفسیر ابن کثیر جلد اول ص ۸میں ہے ونزل ادم بالہند ونزل معہ الحجر الاسود وقبضة من ورق الجنة فبثہ بالہند فنبتت شجرة الطیب فانما اصل مایجاء بہ من الطیب من الہند من قبضة الورق الّتی ہبط بہا اٰدم وانما قبضہا اسفا علی الجنة حین اخرج منہا وقال عمر ان بن عینیہ من عطاء بن السائب عن سعید بن جبیرعن ابن عباس قال اہبط ادم بدحنا ارض الہند۔الخ سبحة المرجان میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا یہاں پھیلنا اور کھیتی وغیر ہ کرنا مذکورہے ۔بنابریں اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق آبائی وطن عہدِ قدیم سے ہندوستان مسلمانوں ہی کاہوگا، جولوگ انسانی اور اپنی نسل کو ایسا نہیں مانتے وہ اس دعوے کے مستحق نہیں ہیں اور مسلمانوں کے لئے اس کو اپنا وطن قدیم سمجھنا ضروری ہے۔
بحیثیت مذہب بھی ہندوستان مسلمانوں کا ہی وطن ہے :
حسب تعلیمات اسلامیہ اور تصریحاتِ قرآنیہ جتنے پیغمبر اور ان کے جا نشین دنیامیں ہوئے ہیں سب کا مذہب اسلام ہی تھا ۔حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولادبھی اسلام کے پیر وتھے۔
وماکان الناس الاامة واحدة ”سورہ یونس ع ۳“کان الناس امة واحدة فبعث اللہ الآیة ”سورہ بقرہ ع۲۶“اور اس کے بعد جب تفرقے ہوئے تو جہاں جہاں بھی انسانی نسلیں تھیں وہاں پیغمبر اور ان کے سچے جانشین بھیجے گئے ۔ولکل قوم ہاد ”سورہٴ رعد ع۲“وان من ا مة الاخلافیہا “سورہٴ فاطر ع ۳۔اور سچے پیغمبر اور ان کے سچے جانشین سب کے سب دین اسلام ہی رکھتے تھے ”شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا الآیة ”شوری ع۲“ان الدین عند اللہ الاسلام “وغیرہ آیات اور احادیث بکثرت اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں بھی قبل زمانہ خاتم النبیین حضرت محمد علیہ السلام انبیا ء آئے ہوں چنانچہ اولیا ء اللہ نے ہندوستان میں مختلف مقامات پر انبیاء علیہم السلام کی قبریں بطور کشف والہام اور روحی ملاقات سے معلوم کی ہیں۔ حضرت مجددالف ثانی اور مرزا مظہر جان جاناں رحمة اللہ علیہما اور دیگر بزرگوں کی تصانیف میں اس کی تصریحات موجودہیں ،مگر جس طرح عیسائیوں اور یہودیوں نے تحریف وغیرہ کرکے شرک اورکفر وغیرہ اختیار کرلیا؛اسی طرح ہندؤں نے بھی اختیار کیا ؛چناں چہ مرزامظہر جان جاناں رحمة اللہ علیہ اس کی تفصیل اپنے بعض مکتوبات میں پوری طر ح فرماتے ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ قدیم زمانہ سے یہ ملک بھی مذہب اسلام کا گہوارہ رہاہے ۔لہذ ا صحیح اور یقینا صحیح ہے کہ بحیثیت ِمذہب ابتدا ء سے ہی یہ ملک اسلام کا وطن ہے ۔
بحیثیت سکونت ِجسمانی بھی ہندوستان مسلمانوں ہی کا وطن ہے :
مسلمانوں کے سواء جو قومیں ہندوستان میں سکونت پذیر چلی آتی ہیں ۔وغیرہ وہ عموما اپنے مردوں کو جلا ڈالتی ہیں اور ان کی راکھ کو دریامیں بہادیتی ہیں ۔پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کو کھلادیتے ہیں۔بخلا ف مسلمانوں کے کہ وہ اپنے مردوں کو زمین میں دفن کرتے ہیں، اس لئے مسلمانوں کی سکونت جسمانی اس زمین میں زندگی میں بھی مثل دیگر اقوام رہی اور مرنے کے بعد بھی ان کی سکونت یہاں ہی رہی، ان کی قبریں محفوظ رکھی جاتی ہیں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قیامت میں ان ہی قبروں سے ان کے مردے اٹھیں گے ۔اور جو اجزاء جسم کے قبر میں مٹی ہوگئے تھے ،انہیں اجزاء سے ان کا جسم پھر بنایا جائے گا؛ لہذا مسلمانوں کی سکونت ِجسمانی اس سرزمین میں قیامت تک کیے لئے ہے بخلاف دوسری جلانے والی یا پرندوں کو کھلانے والی قوموں کے۔ ان کی سکونت جسمانی صرف دنیاوی زندگی تک کے لئے ہے اور بس اسی وجہ سے ان کے اسلاف کا کوئی نام ونشان کسی جگہ پایا نہیں جاتا ۔اور مسلمانوں کے قبرستان ‘روضے ‘قبے ‘ زیار تگاہیں وغیرہ وغیرہ ہر جگہ موجود ہیں اور مسلمان ان کی حفاظت اور عظمت ضروری سمجھتے ہیں ۔
بحیثیت تعلقات روحانی ہندوستان مسلمانوں ہی کا وطن ہے :
غیر مسلموں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد روحیں تناسخ (آواگون )کے ذریعہ سے جز ا اور سزا بھگتتی ہیں، اس لئے وہ کسی دوسرے جون(قالب )میں ڈالدی جاتی ہیں ۔خواہ وہ انسانی ہو (اگر عمل اچھے تھے )خواہ وہ حیوانی یانباتی یا حشرات الارض وغیر ہ کاہو (اگر عمل خراب تھے )پھر انسان اگر بنا یا گیا تو کوئی خصوصیت نہیں کہ وہ ہندستان ہی میں پھر پیدا ہو ۔افریقہ ‘امریکہ ‘یورپ ‘اسٹریلیا وغیرہ جہا ں بھی پرماتما چاہے اس کو اس کے عمل کے مناسب بھیج دے ۔غرض کہ مرنے کے ساتھ ہی اس کی روح کا تعلق جسم اور اس کے اجزاء سے بھی بالکلیہ منقطع ہوجاتا ہے ۔نیز اس کے گاوٴں ‘شہر ‘دیس ‘قوم ‘جاتی ‘وغیر ہ سب سے منقطع ہوجاتا ہے ۔بخلاف مسلمانوں کے ساتھ صرف ایک دفعہ ہوتاہے موت کے بعد وہ برزخ میں محفوظ کردی جاتی ہٍے اور اپنے اعمال کی سزا اور جزاء کا کچھ حصہ وہاں بھی حاصل کر تی رہتی ہے، اس کا نہایت ضعیف تعلق اپنے بدن اور اس کے اجزا اور اپنی قبر ‘وطن، برادری ‘اولاد وغیرہ سے رہتا ہے یہ تعلق اگر چہ ایک درجہ میں نہیں ہوتا مگر تاہم کسی نہ کسی درجہ میں تفاوت کے ساتھ باقی رہتا ھے اور اسی تعلق سے قیامت میں یہ روح اس قبر پر پہنچے گی، اس کے اجزائے سابقہ کا جسم بنے گا اور وہ اس میں حلول کرکے پھر زندگی جسمانی حاصل کرے گی، جس طرح ہم اگر دنیا میں اپنے گھراور اہل وعیال کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جاتے ہیں تو ہمارا تعلق اپنوں اور اپنے گھروں اور بستیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ رہتا ہے؛ ایساہی یااس سے زاید تعلق مرنے کے بعد روحوں کو بھی سب سے رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے اور اصحابِ قبور کو سلام کرنے اور ان کو دعا اور ایصال ثواب وغیرہ کرنے کا حکم ہوا؛ نیز حکم ہواکہ لوگ اپنے اسلاف اور عام مومنین کی قبروں کی زیارت کرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی ِپرعبرت کے آنسو بہائیں اور گذرے ہوئے لوگوں کے لئے دعائیں کریں یہ چیز ان مرگھٹوں میں کہاں نصیب ہوسکتی ہے ؛جہا ں کی باقی ماندہ راکھ کو بھی دریا بہا کرلے جائے اور سمندر وں کے نذر کر چکے۔حضرت شاہ عبد العزیز صاحب رحمة اللہ علیہ تفسیر عزیزی پارہ عم صفحہ ۵۰/پر فرماتے ہیں ۔
نیز درسوختن بآتش تفریق اجزائے بدن میت است کہ بسبب آن علاقئہ روح ازبدن انقطاع کلی می پذیر د،وآثار این عالم بآن روح کمتر میرسد وکیفیات آن روح باین عالم کمتر سرایت می کند ودردفن کردن چو ں اجزائے بدن تمامہ یکجا می باشند علاقئہ روح بابدن ازراہ نظروعنایت بحا ل میماندوتوجہ روح بز ائرین مستانسین ومستفیدین بسہولت می شود کہ بسبب تعینِ مکان بدن گویامکان روح ہم متعین ست وآثار این عالم از صدقات وفاتحہ ہاوتلاوت قرآن مجید چون دران بقعہ کہ مدفن بدن اوست واقع شود بسہولت نافع می شود؛ پس سو ختن گو یاروح رابی مکان کردن ست ودفن کردن گویامسکنے برائے روح ساختن ۔بنابراین است کہ ازاولیاء مدفونین ودیگر صلحا ئے مومنین انتفاع واستفاوہ جاری ست وآنہاراافادہ واعانت نیز متصوربخلاف مردہ ہائے سوختہ کہ این چیز ہا اصلانسبت بآنہا دراہل مذہب آنہا ؛ نیز واقع نیست بالجملہ طریق قبرودفن نعمتے است عظیم درحق آدمی ۔
خلاصہ یہ کہ قبر روحوں اور اہل دنیاکے لئے ریڈ یو اور آلہٴ مکبر الصوت (لاوڈ اسپیکر ) کے صند وق اورتارہوائی لا سلکی اور ٹیلیگر اف اور ٹیلیفون کے آفس کی طرح ہے ،جس میں ایک درجہ تعلق ہردو طر ف سے رہتا ہے اور اس تعلق ہی کی وجہ سے افا دہ اور استفا دہ ہوتا رہتاہے ۔اگرچہ وہ تعلق دنیاوی تعلق سے بہت کمزور بھی ہے اور ممکن ہے کہ بعض وجوہ سے قوی بھی ہو۔خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو مرنے کے بعد بھی اس ملک اور اس کی زمینوں کے ساتھ روحانی تعلق اس قدرقوی اور باقی رہتا ہے کہ دوسری قوموں اور مذہب میں نہیں پایاجاتا ۔اور وہ قومیں اپنی مذہبی حیثیت سے اس کی قایل بھی نہیں ہیں ؛لہذا یقینامسلمانوں کوہی حق ہے کہ وہ ہند وستا ن کو اپنا وطن اور سب سے زیادہ اپنا وطن سمجھیں ۔
بحیثیت انتفا ع اور احتیاج بجا نب اجزاء وطن بھی ہند وستا ن مسلما نوں ہی کا وطن ہے:
اسلامی تعلیم اور عقائد کی حیثیت سے ایک وقت آنے والا ہے؛ جب کہ تمام انسان پھرزندہ کئے جائیں گے اور ان کے اجسام کے جواجزا ء متفرق ہوکرمٹی وغیرہ میں مل گئے تھے جمع کئے جائیں گے اور جسم بن کر اسی روح کواس میں داخل کیاجا ئیگا اور اس جسم کے ساتھ وہ محشرمیں اور جنت میں جا ئیں گے ۔اس لیے وہ و طن جس میں وہ پرورش پاتے تھے ۔جیسے کہ دنیا وی زندگی نفع اٹھا نے اور ہر قسم کی حاجتوں کا مرکزتھا ۔مرنے کے بعد بھی ایک درجہ تک نفع اٹھا نے اور احتیاج کا مرکز رہے گأ اور اس کی اس مٹی سے جوکہ بعد ازدفن قبر ستان میں دوسری مٹی سے مل گئی تھی نفع اٹھا ئے گا ۔بخلاف دوسرے باشند گا ن ہند کے کہ وہ ایسا اعتقا د نہیں رکھتے، ان کے اعتقا دمیں ان کی روحیں دوسری مٹی سے بنے ہوئے جسموں میں داخل ہوکر ان جسموں سے تعلق قائم کرتی ہیں او را ن کی پرورش میں سرگر م ہوکر پہلے اجزائے جسما نیہ سے بالکل بے گانہ ہوجاتی ہیں کبھی ہندوستان میں، کبھی چین میں،کبھی جاپان میں، کبھی انگلینڈ میں، کبھی فرانس میں کبھی انسان میں کبھی حیوان میں #
وفاداری مجو از بلبلان چشم کہ ہردم بر گلے دیگر سرایند
جس طر ح ہند وستان کے دوسرے باشند ے بہ حیثیت سکو نت وانتفاع ملک وزمین ہند وستانی ہیں اسی طرح مسلمان بھی ہیں :
جس طرح آرین، ستہین، یونانی ، مصری ،منگول وغیرہ قومیں ہندوستان میں آگر بسیں اور انھوں نے یہاں کھیتیاں کیں ،باغ لگائے مکان بنا ئے ،بو دوباش اختیار کی اسی طر ح مسلمانوں نے بھی یہاں پہنچ کریہ اعمال وطنیہ اختیار کیے؛ کسی کو ہزاربرس کسی کو نوسو ،کسی کو آٹھ سو برس یاکم وبیش ہوگئے ۔پشتہا پشت یہاں گذرگئیں اسلئے دنیادی زند گی اور اس کے لوازم کی حیثیت سے مسلمان کسی قوم سے پھیچے نہیں ہیں۔ بالخصوص وہ اقوم جو کہ پہلے سے بھی ہندوستان کی باشند ہ ہیں ۔مذہبِ اسلام کی حقانیت دیکھ کر پہلے مذہب کو چھو ڑ کر اسلام کی حلقہ بگو ش ہوئی ہیں ۔(اور وہی عنصرآج مسلمانان ہند میں غالب ہے ؛لہذاکسی دوسری قوم کوحق نہیں ہے کہ وہ آج یہ دعو ی کر ے کہ ہند وستان مسلمان کا وطن نہیں ہے، صرف ہما را وطن ہے ۔ ہندستان کی بہبودمیں جس طرح دوسری قومو ں کی بہبودی ہے؛ اسی طر ح مسلمانان ہندکی بھی بہبودی ہے لہذا یقینا اس حیثیت سے بھی ہندوستان کے مسلمانوں کایہ وطن عز یز اور پیار ا ہے ۔ نہ مسلمان اسکو چھو ڑکر کہیں دوسر ی جگہ جا سکتے ہیں نہ جا ئیں گے اور نہ کو ئی دوسراوطن ان کو اپنے آغوش میں لے سکتاہے ۔نو کروڑمسلمانوں کو یہا ں ہی رہنا اور یہا ں ہی اپنی نسل اور طریقہ کو پھیلانا اور امن دامان کی زندگی چلاناہے(یہ اس وقت کی تعداد تھی ابھی تو۲۵/ سے ۳۰/ کروڑ کی تعداد ہے اور یہاں کے مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے) ۔رہایہ امرکہ پھرمسلمان دوسرے ملکوں کے مسلمانوں سے کیوں تعلقات رکھتے ہیں اور ان کی مصیبتو ں پر بلبلااٹھتے ہیں تویہ اس روحانی تعلق کی بنا ء پر ہے، جوکہ اتحادازم اور توافق مذہب کی بنا ء پردوسری جگہ کے مسلمانوں سے پیداہوا ہے اور جس کی تعلیم بھی روحانی ترقی کرتی ہے یہ ایساہی ہے جیسا کہ دوسری قوموں کو ساوٴ تھ افریقہ، فیجی، ما ریشس ،ایسٹ افریقہ وغیرہ کے ان ہندوستانیوں سے ہوتا ہے؛ جو کہ ان ملکوں میں بودوباش کئے ہوئے ہیں ۔اگر وہاں پر کسی قسم کے مظالم ان ہندوستانیو ں پرہوتے ہیں تو ہند وستان کی بسنے والی قومو ں میں بے کلی پید اہوجاتی ہے ۔ یہ امر مسلمانان ہند کوہند وستانی وطنیت اور اس سے پیارومحبت سے بیگا نہ نہیں بناتا ۔
نوٹ: امور مذکررہ بالاکی بناء پر ممکن ہے کہ غیر مسلم ہند وستانی بہ آسانی ایک وطن سے منتقل ہو کر دوسر ے وطن میں چلے جائیں ۔ مگر مسلمانا ن ہندوستان کویہاں سے منتقل ہوناا زبس مشکل ہے ۔نہ وہ اپنی مساجد سے بیگا نگی اختیارکرستکے ہیں نہ اپنے مقابرسے نہ اپنی زمینوں سے اور نہ اپنے گھر بارسے اور نہ ان مین اس قدر استطاعت ہے ۔