ہندستان کی ۶۰۰/ زبانیں ختم ہونے کے قریب ہیں:

            گنیش دیوی (Ganesh Devi) ملک کی ممتاز ماہرِ لسانیات ہیں۔ انہوں نے۲۰۱۰ء میں (People, s Linguistic Survey of India) کرتے وقت ۷۸۰/ زبانوں کی فہرست تیار کی اور یہ انکشاف کیا کہ ملک کی تقریباً ۶۰۰/ زبانیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔ گزشتہ۶۰/ سالوں میں (۲۰۱۰ء کے سروے کے مطابق) ۲۵۰ زبانیں پوری طرح ختم ہو چکی ہیں۔ یقیناً اردو، بنگالی، تمل، تیلگو، وغیرہ بڑی زبانیں ختم ہونے کے خطرے کا سامنا کرنے والی زبانوں میں شامل نہیں ہیں؛ لیکن ان زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد میں، خاطر خواہ اضافہ نہ ہونا تشویش کا باعث ہے۔

            اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبانوں کی مقبولیت اور عروج کا تعلق، اس کے بولنے والوں کے سیاسی غلبے سے بھی ہوتا ہے۔ ہندستان میں ہندی اور انگریزی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو اس تناظر میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے؛ لہٰذا قومی تعلیمی پالیسی۰ ۲۰۲/ میں جو ”سہ لسانی فارمولا“ پیش کیا گیا ہے، اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ ملک کی امتیازی کثیر اللسانیت (Multilingual diversity) کو قائم رکھتے ہوئے ہی سہ لسانی فار مولے کا نفاذ ہونا چاہیے۔

محبانِ اردو کو بیدار ہونے کی ضرورت:

            محبانِ اردو کو خصوصی طور پر بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دستور کے آٹھویں شیڈول میں شامل، تقریباً تمام زبانوں کی جغرافیائی حدود ہیں یا ان کے بولنے والے کچھ خاص خطوں میں موجود ہیں، لیکن اردو ایک قومی زبان کی حیثیت رکھتی ہے ،جس کے بولنے والے ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ جب لسانی بنیادوں پر ریاستوں،صوبوں کی تشکیل کی گئی تو اردو کی بنیاد پر کوئی صوبہ،ریاست قائم نہیں کی گئی؛ لہٰذا آج کسی بھی ریاست کی پہلی سرکاری زبان اردو نہیں ہے۔ ایسی حالت میں قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء کے تحت سہ لسانی فارمولا اردو کو نظر انداز کرتا محسوس ہو رہا ہے۔ اردو کے فروغ کی ذمے داری ریاستوں پر ڈالنے کے بجائے موجودہ مرکزی حکومت کو اردو کے سلسلے میں خصوصی پالیسی اور ہدایات جاری کرنا چاہیے۔

            نئی قومی تعلیمی پالیسی اور اردو کا المیہ، اردو اور عربی کا پالیسی میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ سہ لسانی فارمولامیں مقبولِ عام زبان نظر انداز!

 محمدمحب الحق (پروفیسر شعبہٴ سیاسیات،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہفتہ وار دعوت ۱۷ دسمبر ۲۰۲۰)

            راقم السطور کا ماننا ہے کہ اب مسلمانوں کو خود اردو کو بچانے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی، اس کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟اس پر آگے تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔

            یہ تو مسئلہ تھا زبان کا کہ اردو اور عربی کو اس پالیسی میں کہیں کا نہیں رکھا گیا۔ تعلیمی پالیسی کے مزید منفی پہلومندرجہ ذیل ہے: