ہندستانی جمہوریت

نگارش:شفیع احمدقاسمی# اِجرا،مدھوبنی/جامعہ اکل کوا

            قانون انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔قانون کے بغیرزندگی کی تنظیم نہیں ہوسکتی۔اِس لیے تاریخی طورپر ہر قوم اورہردورمیں قانون کاتصورملتاہے ۔انسانی قانون کاتاریخی آغازکب سے ہوا؟اِس کے بارے میں کوئی پختہ بات نہیں کہی جاسکتی اوراِ س ذیل میں جتنی باتیں کہی جاتی ہیں،اُن کے لیے کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ مگر اس کی تاریخی حیثیت سے قطعِ نظر؛فلسفہٴ تاریخ کے ماہرین نے جوکچھ کہاہے ،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کاآغاز خاندانی اورمعاشرتی وجودسے وابستہ ہے ۔مختلف خاندانوں کے ایک ساتھ رہن سہن اورباہمی معاملات نے سماجی تنظیم کاتصورپیداکیاہے ۔اس کے بعدطاقت وروں نے کم زوروں پرناحق دست درازیاں کیں،تو حفاظتِ حقوق کے جذبہ نے اس کے لیے مہمیزکاکام کیا۔علاقائی اورقومی رسوم وروایات نے قانون کے لیے مواد فراہم کیے ۔قبائل کے سرداروں اورشیوخ نے اپنی مرضی کے مطابق اُن میں جتنے اجزاکوچاہاقانون اور دستورکا درجہ دے دیا۔اِس طرح انسانی قانون کاوجودہوا۔اس کے بعدمختلف خاندانوں اورعلاقوں کی باہمی تنظیم اورسلامتی کے احساس نے قانونی وحدت کاتخیل پیداکیا۔اِس طرح ایک ریاست کاقومی قانون وجود میں آیا۔ پھر اقوام اور ریاستوں نے اپنی نئی وحدت اورسلامتی کے لیے قانون کی تشکیلِ نوکی ۔یہ انسانی قانون کے ارتقاکی مختصر تاریخ ہے ۔(قوانین عالم میں اسلامی قانون کاامتیاز:ج۱/ص۴۴)    

جمہوریت کی تعریف:

            ہمارے ملک عزیزہندستان میں جمہوری نظام رائج ہے ۔جمہوریت کامطلب یااُس کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ (A System Of Government By The Whole Population Or All The Eligible Members Of A State.Typically Through Elected Representatives.) یعنی ( Democracy) کاصاف اورسیدھا مطلب ہوتا ہے عوامی حکومت۔ یعنی جمہوریت اُس نظامِ حکومت کو کہتے ہیں، جوکسی بھی ملک کے تمام افرادکے ذریعہ قائم ہو۔ اِس کا انتخاب عوام کے ذریعہ ہوتا ہے اور اِس حکومت کے اندر ہر شخص کو آزادی ٴ رائے ،اپنی پسندکے مذہب پرچلنے اورسیاسی اختلاف رکھنے کی کھلے عام اجازت ہوتی ہے۔ کسی کو بھی روک ٹوک کرنے کا قانوناً کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ ہندی میں اِسی نظام حکومت اورسِسٹم کو ”لوک تنتر“ کہتے ہیں۔

جمہوریت کی قسمیں:

            جمہوریت دوقسم کی ہوتی ہیں۔(۱)بلاواسطہ (Direct Democracy)اِس جمہوریت میں قوم کی مرضی کااظہاربراہِ راست افرادکی رائے سے ہوتاہے ۔اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے، جہاں ریاست کارقبہ بہت محدوداورریاست کے عوام کایکجاجمع ہوکرغوروفکرکرناممکن ہو۔

            (۲) بالواسطہ (Indirect Democracy)جدیدوسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کاایک جگہ جمع ہونااوراظہارِ رائے کرناطبعاً ناممکنات میں سے ہے ۔اِس لیے جدیدجمہوریت کی بنیادنمائندگی پررکھی گئی ہے ۔ چناں چہ ہرشخص کومجلس قانون سازمیں حاضرہونے کے بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چندنمائندے منتخب کرلیے جاتے ہیں،جوووٹروں کی طرف سے ریاست کاکام کرتے ہیں۔

            غیرمذہبی جمہوریت (Secular Democracy) یاپارلیمانی جمہوریت اسی نظام حکومت کی تشریح اورتوضیح کرنے والے مختلف نام ہیں۔جمہوریت کایہ مفہو م آپ انگریزی کے کسی بھی اچھی لغت (Dictionary) میں دیکھ سکتے ہیں۔ (Oxford Dictionary)نے توجمہوریت کی ایک خصوصیت یہ بھی بتلائی ہے کہ اس نظام حکومت کے تحت سماجی طبقات کی تقسیم کے بغیر؛یعنی سماج کوطبقاتی بنیادوں پر تقسیم کیے بغیر ہرشہری کے ساتھ یکساں،بہتر اور منصفانہ سلوک کیا جاتا ہے ۔

جمہوریت کے فوائد:

            ماضی کی تاریخ کھنگالنے پریہ دیکھنے کوملتاہے کہ قانون بنانا،لاگوکرنااورکسی بھی تنازعات کاحل کرناایک ہی شخص کے اختیارمیں ہوتاتھا۔جس کانتیجہ یہ ہوتاتھاکہ اگرانتظامیہ سے کسی قسم کی کوئی گڑبڑی ہوجائے تواُس کے خلاف فریادبھی اسی کے پاس لے کرجانی پڑتی تھی۔مونٹیسکو(Montesco)نے اِسی کومدنظررکھتے ہوئے یہ تجویزپیش کی کہ حکومت کے تینوں اعمال الگ الگ اداروں کے پاس ہونااورہرایک کواپنی جگہ خودمختارہوناچاہیے ۔یعنی کوئی کسی کے دباوٴ میں کام نہ کرے ۔مقننہ قانون بنائے،انتظامیہ نافذکرے اورعدلیہ خودمختار ہونی چاہیے ۔تاکہ اگرکسی کومجلس مقننہ یا انتظامیہ سے کوئی شکایت ہوتووہ عدلیہ کے پاس جائے اورعدلیہ بلاکسی خوف کے اُس کورفع کرے ۔ انصاف کی بالا دستی قائم ہواورہرشخص کواُس کاحق ملے ۔

آئین بن رہاہے:

            ہندستان میںآ ئین سازی کب سے شروع ہوئی؟اِس کی تاریخ ایسی لاپتاہے کہ کہیں پتاہی نہیں چل رہاہے۔لیکن اندازہ یہی ہے کہ آزادی کے بعداگست ہی سے دستورسازی کایہ کاشروع ہوگیاتھا،جو ۲۶/نومبر ۱۹۴۹ء تک اسمبلی کاکام جاری رہا۔ڈاکٹربھیم راوٴامبیڈکرکی صدارت میں مجلس قانون ساز نے۲/سال۱۱/ماہ اور۱۸/ دن میں۶۳/ لاکھ کے خرچ سے بھارت کادستوربنایا۔ دستورکی منظوری کے مکمل ۲/ ماہ بعد؛یعنی ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ء کو جمعرات کے دن یہ دستوردیش میں نافذ کر دیا گیااورہمارے بھارت کے سر پرجمہوری ہونے کاتاج سجا دیاگیا۔یہ تاریخ؛وطن عزیزکی ایسی یادگار تاریخ ہے ،جس میں پورے ہندستان کے سرکاری وغیرسرکاری اداروں، مدارس، اسکولوں ، کالجوں اوریونی ورسٹیوں میں بہت ہی جوش وخروش اوردھوم دھام سے ایک جشن منایا جا تا ہے، ہرچہار جانب۲۴/تیلیوں اور اشوکا چکروالے سہ رنگی ،دل کش ودل رباترنگے جھنڈے لہرائے اور ہر طرف خوشیوں کے ترانے گنگنائے جاتے ہیں۔ کیوں کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آج یوم جمہوریہ ہے ۔جی ہاں!یہ بھی ہوسکتاہے کہ قارئین حضرات سوچ رہے ہوں گے کہ یہ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے؟ تومیں بہت ہی مختصر انداز میں اپنی تحریر کے ذریعہ آپ کی خدمت میں کچھ باتیں اِس امیدپرپہنچانے کی کوشش کررہا ہوں کہ قارئین کوکچھ کام کی باتیں مل جائیں۔

کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے:

            ڈاکٹررشیدالدین خان لکھتے ہیں:”موجودہ ہندستانی ریاست ایک عظیم الشان ،تاریخی جدوجہدکے بعد وجودمیںآ ئی ہے ۔یہ شہریوں کاایک اشتراک(Association)ہے،جس میں ہرشہری برابراورآزادہے ۔اور ذات ،عقیدہ،رنگ،نسل،زبان،علاقہ،سکونت(Domicile)مرتبے کے امتیازکے بغیرمساوی حیثیت میں اس کارکن ہے۔ہندستانی ریاست نہ تومذہبوں کاوفاق ہے اورنہ مذہبی فرقوں کامجموعہ ہے۔ہندستان کے تمام شہری قانونی اورآئینی اعتبار سے ایک عام متحدہ قومی معاشرتی ریاست کے عناصرترکیبی ہیں۔

(مولاناحسین احمدمدنی کی سیاسی ڈائری:ج۴/ص۶۹۴)

            موجودہ ریاست کی بنیادایک دستورہے،جوبنیادی،غیرمذہبی(Secular)اورانسانی ہاتھوں کا بنایا ہواہے۔اِس لیے ایک اسٹیٹ کواسٹیٹ کے طورپراورایک سیکولراسٹیٹ کے طورپرکام کرناچاہیے۔نہ اُس سے کم ، نہ اُس سے کچھ زیادہ۔

لیکن ملک کی بدقسمتی:

            اِس گفتگوسے ہم جمہوریت کامطلب اچھی طرح سمجھ گئے ۔اس میں صاف طورپریہ بات کہی جارہی ہے کہ ذات ،برادری،نسل پرستی اورقوم پرستی کاملک میں گذرنہیں ہوگا۔ہرمذہب کے پرستاروں کومذہبی آزادی کے ساتھ اِس ملک میں رہنے اورجینے کاحق حاصل ہے اورکسی کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑخانی نہیں کی جائے گی۔ جمہوریت میں فیصلہ اکثریت کے مطابق ہوتاہے،مگراقلیت کوفیصلے کے بعدبھی اُس کے خلاف بولنے،تقریرکرنے کی کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔بل کہ بعض اوقات تواقلیت اکثریت کے فیصلے کابائیکاٹ کردیتی ہے ،احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں اوراُس قانون کے نفاذمیں مختلف رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے ،جواکثریت کی رائے سے پاس ہوتا ہے۔

موجودہ جمہوریت کامطلب:

             لیکن ہماراملک ”اچھے دن“ اور”سب کاساتھ ، سب کاوِکاس“جیسے ریشمی الفاظ کے پُر فریب نعروں کے چکرہی میں چکرکھا گیا۔اب ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کا مطلب تانا شاہی،ڈکٹیٹرشپ یا ہٹلر گیری ہوچکاہے۔ اِس لیے کہ یہ میدان سیاست ہے اورسیاست کاکوئی دین دھرم نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت آج ۷۰/ سال کے بعدبھیم راوٴ امبیڈکر کے بنائے ہوئے قانون سے سرعام کھلواڑکررہی ہے اور جمہوریت کاگلاگھونٹ رہی ہے۔ساری دنیا ہمارے پیارے وطن کا مذاق اڑا رہی ہے۔گنگاجمنی تہذیب اورآپسی بھائی چارگی کے درمیان گہری کھائی کھودی جارہی ہے،جمہوریت کوبچانے اورحق کی آوازبلندکرنے والوں کوٹھکانے لگانے یا پھر دبانے کی کوشش ہورہی ہے،ملک میں جمہوریت کے نام پر آمریت پھیلائی جارہی ہے ،یہاں انصاف کوبالائے طاق سجا دیا گیا ہے،عدالت عالیہ (Supreme Court)پرسے بھارت واسیوں کا اعتماد اٹھا دیا گیا ہے، تاریخ کے اوراق پر جبرواستبداد کی ایک نئی کہانی لکھی جا رہی ہے، رشوت کابازارگرم ہے، ملکی ترقی کانعرہ سیاست میں تبدیل ہوچکاہے ،یہی وجہ ہے کہ ذات پات اوررنگ ونسل کو بنیاد بنا کرسیاست کی روٹی سینکی جا رہی ہے ۔

ہمارے دین میںآ جاوٴ:

            اورکہانی اتنے ہی پر ختم نہیں ہوتی ہے،بل کہ آگے بڑھ کر آج ہمیں اُسی جمہوری ملک میں دھمکایا جا رہا ہے۔جوبات گذشتہ قوموں نے انبیااورمومنین سے کہی تھی،وہی ہم سے کہی جارہی ہے کہ ہم تم کو اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ اگراپنی سلامتی چاہتے ہو تو اپنامنہ بند رکھواورملک کے جمہوری نظام کاگلاگھونٹنے دو۔درمیان میں اپنی ٹانگ اَڑانے کی کوشش بھی مت کرو، در بدر کی ٹھوکریں کھانا نہیں چاہتے ہو تو پھر ہمارا دین ومذہب اورہمارانظام قبول کرلو، ہمیں ایک رب کی دعوت مت دو،سب کی عبادت کرنے دو۔ کیوں کہ ﴿وَجَدْنَآاٰبَآءَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْن﴾لہٰذا ہم بھی اُنہیں کے نقش قدم پر چلیں گے ۔تمھارے لیے بہتریہی ہے کہ تم ہمارے خداوٴں کے سامنے اپنی قیمتی پیشانی جھکاوٴ، ماتھا ٹیکو، لڈو اورناریل چڑھاوٴ۔اِس کے بعدتم کوہمارے رحم وکرم پررہنا اور جینا ہوگا، ورنہ گھٹ گھٹ کر سانس لیتے ہوئے ہندستان سے قبرستان کاسفرکرنا پڑے گا۔

            ہمارایہ ملک؛تاریخی اوراق میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا،صدیوں تک انگریزوں کی زنجیر غلامی میں جکڑے رہنے اورمحبینِ وطن کی بے شمار قربانیوں کے بعد ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء مطابق ۲۸/رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ بروزِجمعہ کواِس ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہواتھا۔اُس کے بعد اِس پیارے اورعزیزملک کے مخلص بہی خواہوں، معمارانِ ملک اور آئین کو ترتیب دینے والے روشن دماغوں نے گنگا جمنی تہذیب اور یک جہتی کو سامنے رکھ کر، سیکولر اور جمہوری نظام کے قواعد وقانون کو ۲۶/ نومبر ۱۹۴۹ء بروز سنیچر کی تاریخ کو تیار کیا تھا اور اِس کا نفاذ ۲۶/ جنوری ۱۹۵۰ء بروز جمعرات کو کیا گیاتھا۔آج یہ ملک اجڑتامعلوم ہورہاہے ۔

            فی الحال وقت میں بڑ ی تنگی ہے، اسی لیے اب قلم کی حرکت کوزیرکرناضروری ہے ،لیکن یہ دعابھی کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جمہوریت کی آن اورشان کونظربدسے بچائے رکھے۔آمین!