ہم اپنے خیالات کی اصلاح کریں گے

مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ  سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اللہ کے ہر اس بندے کی مغفرت ہوجاتی ہے ،جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو ،مگر ایک ایسا بندہ ہے جس کی مغفرت روک دی جاتی ہے ۔وہ بندہ ایسا ہے جس کے درمیان اور اس کے بھائی یا دوست کے درمیان نفرت وعداوت کی بات موجود ہو۔ ان دونوں کے لیے ارشاد ہوتا ہے کہ صلح صفائی تک اُن دونوں لوگوں کا معاملہ ملتوی رکھو ، یہ حدیث مسلم شریف میں ہے اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں :

            ”فتح ابواب الجنہ یوم الاثنین ویوم الخمیس فیغفرلکل عبد لا یشرک باللہ شئیاً الا رجلاکانت بینہ وبین اخیہ الشحناء فیقال : انظروا ھذین حتی یصطلحا“۔ (رواہ مسلم فی صحیح)

             اہل علم اس بات سے آشنا ہیں کہ حضرت ابوہریرہ  کثیر الروایہ صحابی ہیں ،جن کے شاگردوں کی تعداد ۸۰۰ /صحابہ وتابعین تک پہنچتی ہے۔ ۸۷/ سال کی عمر میں جنت البقیع میں دفن ہونے والے یہ صحابی ۵۷ ہجری مطابق۶۷۶ء مدینہ منورہ میں اس دارفانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کر گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی خوش بو پورے عالم میں بکھیر گئے۔ ۵۳۷۴/ احادیثِ رسول کا ذخیرہ امت کی ہدایت ورہ نمائی کے خاطر چھوڑا، جن میں ایک حدیث یہی ہے کہ پیر اور جمعرات کو بندوں کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اگر بندہ شر سے اپنے آپ کو دور رکھے ہوئے ہے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔البتہ ایسے دو لوگوں کی مغفرت کو روک دیا جاتا ہے، جن کے آپسی تعلقات خوش گوارنہیں ہوتے ،انہیں معاملا ت کی صفائی کرلینے تک کاموقع دیا جاتا ہے ۔

            اس حدیث کی روشنی میں امت کو دو باتوں کی طرف کافی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ایک بات عقیدے کی اصلاح ہے۔ امت کے افراد میں بے شمار شرک وکفر کی باتیں اور کفریہ کلمات عام ہیں اورآج کل کے حالات میں توکفروارتدادکاطوفان برپاکرنے کاآوازہ بلندکیاجارہاہے ۔ ان کو جاننا ،بتانا اور سماج میں عام کرنا تاکہ افراد امت ان باتوں سے بچ سکیں نہایت ضرور ی امر ہے۔ لوگ باتوں بات میں دین سے انحراف اور اسلام سے باہر نکل جاتے ہیں اور انہیں پتہ بھی نہیں چل پاتا۔ وہ شرک ؛جو کفر کے معنی میں ہو وہ تو دین سے خارج ہی کر دیتا ہے لیکن جو شرک کفر سے کم کے درجہ میں ہو اس کی شناعت وقباحت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ۔حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اگر بندہ شرک کی باتوں سے خود کو دور کیے ہوئے زندگی گزارتا ہے تو جمعرات اور پیر کے دن جب اللہ کی طرف سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اس شخص کی اصلاحِ عقیدہ کی بنیادپر مغفرت کر دی جاتی ہے ۔

            ہاں !ایک دوسری بات جو یہاں ضروری ہے، وہ اصلاح عمل ہے، جس کا ملکہ اندرون خانہ انسان کے جسم میں نہاں ہوتا ہے ۔وہ ہے بغض وعداوت ،جس کا ملکہ اگر نہاں خانہٴ دل میں پوشیدہ ہے تو حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسے دو شخصوں کی مغفرت کو روک دیا جاتا ہے، جس کے درمیان آپسی بغض وعداوت کابیج بار آور ہو رہا ہو۔اس کو آپس میں صلح وآشتی پیدا کرنے تک مہلت دی جاتی ہے ۔ اگر یہ دونوں بندے آپس کے تعلقات کو بغض وعداوت کا بیج مار کر درست کر لیتے ہیں اور محبت وآشتی کے ساتھ زندگی گزارنے لگتے ہیں تو اگلے پیر وجمعرات کوان کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ امت کے افراد میں اصلاح عقیدہ اور اصلاح عمل کے حوالے سے بہت سعی ا ورجدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، جس کا آغاز اپنی ذات سے ہونا چاہئے۔ آدمی اپنی ذات میں ملکہٴ ایمان کو جلا بخشے تو وہ عقائد؛ جن کو اسلام نے متعارف کرا یاہے اور ایمان مفصل کی شکل میں مسلمان بچوں تک کو رٹا دیا جاتاہے ،ان میں توانائی ملتی ہے اور مسلمان شخص بھولے سے بھی اللہ ، رسول ،ملائکہ، آسمانی کتابوں ، آخرت ، اچھی بری تقدیر اور دوبارہ ملنے والی زندگی کے بارے میں تو ہین آمیز اور حقارت سے ملے جلے الفاظ استعمال نہیں کرتا اور ملکہٴ ایمانی کی بنیاد پر عقائد کی اصلاح کے مد نظر وہ ہمیشہ کی جنت کا مستحق بنتا ہے ۔ا س کے بر عکس اگر اس نے بغض وعداوت کے پودے کوسینچاتواندرون میں”ملکہ کو“جلاملتی رہے گی اوربغض وعداوت اور نفرتِ انسانی سے آگے بڑھ کر نفرت اسلام کا سبب بن جائے گی۔ کیوں کہ دیکھا جاتاہے کہ جس سے آدمی بغض رکھتا ہے اس کے سامنے آنے سے کتراتا ہے، اس سے قطع تعلق کو منا سب سمجھتا ہے اور اس سے دشمنی کو ترجیح دینے لگتاہے۔اس لیے ایک حدیث شریف حضرت انس بن ما لک سے مروی ہے،جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی موجودہے کہ آپس میں بغض وکینہ نہ رکھا کرو ،آپس میں جلن اور حسد سے بچتے رہو، پشت پھیرکر کتراکے نہ چلے جاؤ ،قطع تعلق بھی نہ ہونے پائے ،بل کہ اللہ کے نیک بندے اور بھائی بھائی بن کر رہنا ہی زندگی کا شیوہ بنالو۔ کسی مسلمان کے لیے یہ بات حلال ہی نہیں ہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن تک ترک تعلقات پر جما رہے یہ حدیث بخاری ومسلم دونوں میں موجود ہے۔ حدیث کچھ یوں ہے:

            ” ولاتباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا ولاتقاطعوا وکونوا عباداللہ اخوانا ولایحل لمسلم ان یھجر أخاہ فوق ثلاث“۔ (متفق علیہ )

             یہی بغض وعداوت” ملکہ کفر“ کے نتیجے میں جب بڑھتی ہے،تو آدمی انسان سے بغض کرتے کرتے اس کے دین ومذہب اور اسلامی احکام سے بغض کرنے لگتا ہے ،یہاں تک کہ اندرون میں” ملکہ کفر“ اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بھی بات اچھی نہیں لگتی۔ دین بے زار بن جاتا ہے، اس کا تعلق روحِ نبی سے مضبوط ہونے اور جنت میں داخل کرانے والے اعمال سے مستحکم ہونے کے بجائے اس کا تعلق روحِ دجالی سے مضبوط ہونے لگتا ہے۔اب وہ دجالی حرکتیں کرنے لگتا ہے ۔شراب نوشی کو خراب عمل تصور نہیں کرتا ،رشوت ستانی کو اپنی عادت بنا لیتا ہے، غیبت کی برائی کو زہرہلا ہل سمجھنے کے بجائے آب حیات تصور کرنے لگتا ہے، نماز چھوڑنا، روزہ نہ رکھنا ،زکاة نہ دینا، حج نہ کرنا، ماں باپ کی عزت نہ کرنا، بڑوں کاادب اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرنا اُس کا ایسا شیوہ بن جاتا ہے، جس سے نکلنا محال نہیں تو متعسر ضروری ہوجاتا ہے۔ اس طرح روح دجالی کا ملکہ اس کے اندرون میں اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ پھر احکام اسلامیہ کی کھلے بندوں برائی کرتا ہے، تحقیر کرتا ہے۔ اب ملکہ کفر اتنا راسخ ہو چکا ہے جتنا کہ دجال کے اندر؛ کہ اس کے ماتھے پہ جیسا کہ کفر لکھا ہوگا۔ ایسے ہی اس آدمی کے چہرے پر رونق ختم ہو جاتی ہے اور گندے اعمال کے سیاہی سے رو سیاہ ہوجاتا ہے ۔

            اسی” ملکہ کفر“ کو نہاں خانہٴ دل میں کم سے کم کرنے اور” ملکہ ایمان “کو اندرون قلب میں راسخ کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا ہے:

            ”ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث“۔(متفق علیہ)

             لوگو! بدگمانی سے بچتے رہا کرو۔ کیوں کہ سب سے بدترین جھوٹ بدگمانی ہے۔ بدگمانی کرنے سے اندرون خانہ میں ملکہ کفر راسخ ہوتا چلا جائے گا پھر زبان سے جو کچھ نکلے گا اس کو جھوٹ سے موازنہ کریں تو بدترین جھوٹ کی شکل اختیار کرے گا ۔

            اب ذرااپنے سماج میں گھس کر جائزہ لیں تو خوش گمانی کی جگہ بد گمانی اس طرح گھر کر گئی ہے کہ الامان و الحفیظ! لاکھ خوش گمانی کے راستے ہوں اور بدگمانی سے بچنے کی توجہات موجود ہوں ؛لیکن سماج کافرداُن توجیہات کو بالائے طاق رکھ کر بدگمانی کے پہلو کو ہی ترجیح دے گااور اچھے خاصے معاملے کو بدگمانی کی بنیاد پر رائی کا پربت اور سوئی کا بھالا بنا کر چھوڑے گا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے بدگمانی کے بعد پنپنے والی برائیوں پر بھی قدغن لگانے کے لیے اسلامی معاشرہ کے افرادوخاندان کو متنبہ فرماتے ہوے ارشاد فرمایا ہے:

            ” المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ “۔

            ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ایمانی بھائی ہے، جس ”ملکہ ایمانی “کی بنیاد پر اس کے بھائی نے جمیع احکام اسلا م کا اعتراف کیا ہے اسی” ملکہ ایمانی“ کی بنیاد پر خود اُس نے بھی قبلت جمیع احکامہ پڑھا ہے۔ اسی لیے اپنے ایمانی بھائی کو بھائی سمجھے ،اس سے بدگمان ہر گزنہ ہو اس پر کوئی ظلم وستم کا تیر چلا رہا ہو تو اس کے سامنے سینہ سپر ہو جائے، نہ خود بدگمانی میں اس پر ظلم کرے اور نہ ظالم کو ظلم کا موقع فراہم کرے، اس کو بدگمانی کی بنیاد پر موقع پر چھوڑ کر چلا جانا اور ظالم کو ظلم کرنے دینااسلامی اخوت کے اسی ملکے کے خلاف ہے ،جو قلب مومن میں راسخ ہے۔ اس بھائی کو ایمان کی بنیادپر بد گمانی سے بچتے ہوے مدد فراہم کرے ،بے یارومددگار نہ چھوڑے اور نہ ہی دشمنوں کے ظلم و ستم کی جگہ پر اس کو خود حاضر کرے۔بل کہ اخوت اور بھائی چارگی کے تقاضے کی بنیاد پر اس کوہر طرح ممکنہ عافیت کی شکلیں فراہم کرے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنیاد پر فرمایا ہے:

            ” المسلم علی المسلم حرام دمہ وعرضہ ومالہ، ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولاالی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم (متفق علیہ)

            ایک مسلمان پردوسرا مسلمان حرام ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کی عزت کرنادوسرے پر لازم ہے۔ اس کی بے عزتی نہ کرے، اس کا ناحق خون نہ کرے ،اس کے مال کی حفاظت کرے اوراس کی عدم موجودگی میں اس کی عزت وآبرویا مال ومتاع پر کسی کو ڈاکہ زنی کا ہر گز موقع نہ دے ۔

             اس طرح اسلامی معاشرے میں اصلاحِ عقائد اور اصلاحِ اعمال کی فضا عام ہوگی اور مرنے کے بعد والی زندگی میں خدا کی خوشنودی اور جنت کا حصول آسان ہوگا ۔عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

 وحی علی جنات عدن فانہا

منازلک الاولی بھا کانت نازلا

 وحی علی یوم المزید بجنتہ

خلود فجد باالنفس انما کنت باذلا

            ”ملکہ ایمانی“ کو اپنے اندرون میں راسخ بنا کر اور ”ملکہ کفر“ کو کم زور سے کم زور کر تے ہوئے ایمان وعقائد اور اعمال واخلاق کے پھل کو کھانے کے لیے ہمیشہ رہنے کی جنت میں آجاوٴکہ یہی تمہاری اولین فرودگاہ ہے، جہاں تمہارے جدامجد سب سے پہلے داخل ہوکر فروکش ہوے تھے، وہیں تم کو بھی جانا ہے، انعام واکرام کے دن ہمیشہ کی جنت میں داخل ہونے کے لیے آج ہی اصلاح عقائد واعمال کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جان ومال کی قربانی دینی پڑے تو دے دو ۔مرنے سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھو، زندگی کے لمحات بیش قیمت ہیں،گزرجانے کے بعد اس کی قدر معلوم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اصلاح اعمال وعقائد کی کوشش کی توفیق بخشے آمین !