ہمارے اخلاق اور آداب

ہذہ أخلاقنا                                                                                   ۱۸؍ ویں قسط:

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتیؔ /استاذ جامعہ اکل کوا

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم:

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا حق جو آپ علیہ السلام کی صدقِ محبت کا تقاضا اور اس کی بین دلیل بھی ہے، وہ ہے آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی اطاعت۔ آپ کے اوامر کا امتثال اور آپ کے فرامین کی بجا آوری۔ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے.ارشاد الٰہی ہے:

            { مَن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہَ }(سورۃ النساء: 80)

            جو رسول کی اطاعت کرے یقینا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

            اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقاً واجب الاطاعۃ ہونا ثابت ہوا۔ آپ جس کام کا بھی حکم دیں وہ بالضرور منشائے خداوندی کے عین مطابق ہوگا، کیوں کہ آپ نبی معصوم اور مؤید بالوحی ہیں۔ آپ کے مبارک لبوں سے صرف وہی کلمات اور ارشادات صادر ہوں گے، جن پر حق تعالیٰ کی خوشنودی و رضامندی کی مہر ثبت ہو۔ لہٰذا حکم رسول آجانے کے بعد کسی بھی مومن کے لیے پس وپیش کرنے کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، بل کہ ایک مومن کا وطیرہ یہ ہوتا ہے ’’سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔‘‘

            قرآن عظیم میں اطاعت رسول کو ایمان کی شرط اور بنیاد قرار دیا گیا ہے۔حقیقی مومن وہ ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع ہو، ارشاد ربانی ہے:

            (وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ) (الأنفال:1)

            اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔

            جو رسول کی بالکلیہ اطاعت نہ کرے وہ دائرۂ ایمان سے خارج ہے۔ اور جو اطاعت میں ناقص ہو تو اسی مقدار اس کا ایمان بھی ناقص وناتمام ہوگا۔

            اطاعت رسول ہی کسی بھی شخص کے کمال ایمانی اور بزرگی کو پرکھنے کا معیار اور کسوٹی ہے۔

            اطاعت رسول موجب رحمتِ الٰہیہ اور کام یابی اور فائز المرامی کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ کی بے پایاں رحمت سے اپنے دامن مراد کو بھرنے کے لیے اطاعت رسول کا سر ٹیفکٹ لانا ضروری ہے۔ارشاد باری ہے:

            (وَأَطِیعُوا اللَّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ) (آل عمران: 132)

             اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

            قرآن حکیم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے بعثت رسول کے مقصد کو کلمۂ حصر کے ساتھ ان کی اطاعت قرار دیا ہے۔ارشاد حق جل مجدہ ہے:

            { وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّہِ }(النساء: 64)

            ہم نے ہر رسول کو صرف اسی مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوند ی سے اس کی اطاعت کی جائے۔

             یہ آیت کریمہ مقصد ِرسالت کو بالکل واضح کرکے ہر رسول کی بنیادی خصوصیت کو بیان کرتی ہے کہ رسول کی بعثت کا بنیادی مقصد اس کی اطاعت ہے۔

            اس مقام پر اس بات کو واضح کردینا مناسب ہوگا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں پانچ باتیں لازماً شامل ہوتی ہیں:

            ۱) اس بات پر پختہ یقین اور ایمان رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔

            ۲)  آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے لیے کامل نمونہ اور واجب الاطاعۃ ہیں۔

            ۳)  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل مبنی برحکمت ہے۔

            ۴)  دنیوی اور اخروی فوز و فلاح کی راہ صرف وہی ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی۔

            ۵)  جو نظام زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، وہی انسانیت کے لیے صحیح اور درست ہے۔

            اللہ رب العزت نے جنت کی طرف جانے والے تمام دروازوں کو بند کردیا ہے، سوائے آپ علیہ السلام کے دروازے کے، لہٰذا جنت کے راستے پر چلنے کے متمنی اطاعت رسول کو لازم پکڑ لیں.۔

            اطاعت رسول جنت میں بلندی درجات اور مقربان بارگاہِ ایزدی کی مرافقت نصیب ہونے کا باعث ہے، حق تعالیٰ فرماتے ہیں:

            {وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقاً}(النساء: 69)

            اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کریں، وہ ان کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور ان لوگوں کی رفاقت کیا ہی خوب ہے۔

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

             نبی وہ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے وحی آئے، یعنی فرشتہ ظاہر میں آکر پیغام کہہ جائے اور صدیق وہ کہ جو پیغام اور احکام خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو آئے ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے اور بلا دلیل اس کی تصدیق کرے ۔اور شہید وہ کہ پیغمبروں کے حکم پر جان دینے کو حاضر ہیں اور صالح اور نیک بخت وہ کہ جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے۔ اور بری باتوں سے اپنے نفس اور بدن کی اصلاح اور صفائی کرچکے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چار قسمیں مذکورہ؛ جو امت کے باقی افراد سے افضل ہیں ان کے ما سوا جو مسلمان ہیں اور درجہ میں ان کے برابر نہیں ۔لیکن اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرماںبرداری میں مشغول ہیں وہ لوگ بھی انہیں کی شمار اور ذیل میں لیے جائیں گے اور ان حضرات کی رفاقت بہت ہی خوبی اور فضیلت کی بات ہے۔ اس کو کوئی حقیر نہ سمجھے۔

            بل کہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دخول جنت کی بنیادی شرط ہے،ارشاد مصطفوی ہے:

            ’’ کُلُّ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ إِلَّا مَنْ أَبَی قِیْل وَمَنْ یَّأبٰی یَا رَسُولَ اللَّہ!ِ وَمَنْ یَأْبَی قَالَ مَنْ أَطَاعَنِی دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ أَبَی ۔‘‘(بخاری)

            میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے ،جنھوں نے انکار کیا۔ عرض کیاگیا: یارسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا: جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔

            قرآن کریم میں جس طرح اطاعت رسول کا وجوبی حکم دیا گیا اور اس پر کام یابی و کامرانی اور انعامات جلیلہ کے وعدے فرمائے گئے ہیں، اسی طرح عدمِ اطاعت اور نافرمانی پر شدید وعیدیں اور دنیا وآخرت میں سنگین سزاؤں کا اعلان بھی بار بار دہرایا گیا ہے۔ارشاد باری ہے:

             { فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ}(النور: 63)

            جو لوگ امرِ رسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آپڑے، یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آپکڑے۔

            مخالفت رسول انسان کو دنیا میں مبتلائے فتنہ بنا دیتی ہے، حتی کہ بسا اوقات یہ فتنہ کفر وشرک پر منتج ہوتا ہے اور آخرت میں تو اس پر دردناک عذاب موجود ہی ہے۔

 علامہ عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            یعنی اللہ و رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر و نفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لیے جڑ نہ پکڑ جائے۔ اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ العیاذ باللہ!

            آج مسلمان جس ذلت وخواری، نکبت و بے چارگی اور مصائب و آلام سے دوچار ہیں، ان کا سب سے بڑا اور حقیقی سبب اطاعت رسول سے انحراف ہے۔ آپ علیہ السلام نے صاف لفظوں میں ارشاد فرمادیا:

            ’’ وجُعِلَ الذِّلَّۃُ والصَّغارُ علی مَن خَالَفَ أَمْرِی ‘‘ (أخرجہ البخاری معلقا)

            جس نے میرے حکم کی مخالفت کی اس پر ذلت و حقارت مسلط کر دی گئی۔

            آج ہم مسلمان ہر کام میں احکام الٰہی اور فرامین نبوی کی مخالفت کرتے ہیں۔پھر جب مصائب وآلام سے دوچار ہوتے ہیں تو کہتے ہیںکہ یہ مصیبتیں ہم پر ہی کیوں آرہی ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں؟ جی ہاں! یہ مصیبتیں ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں۔ہم مسلمان ہیں مگر نام کے، ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے، ہم نام لیوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، مگر بدنصیبی سے ان کی اطاعت وفرماںبرداری سے خالی ہیں، قول وفعل، رہن سہن، معاشرت ومعاملات اور حلال وحرام؛ غرض تمام چیزوں میں احکام رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور اعدائے رسول کی چال چلتے ہیں، انہیں کی نقالی اور فیشن پر شیدا اور فریفتہ ہیں!

            لہٰذا ہمیں اپنے رویے اور طرز عمل پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ اعمال اور کردار سے اطاعت رسول کو ثابت کرنا چاہیے، یہ ہم پر آپ علیہ السلام کا لازمی اور بنیادی حق ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے بہت خوب کہا ہے:  إن المُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مطیعُ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے۔

درود وسلام بر خیر الانام:

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات کے تئیں امت پر من جملہ حقوق وآداب میں آپ کے مبارک نام لیے جانے کے وقت خصوصاً اور عموما ًتمام اوقات میں درود وسلام کی کثرت کرنا ہے۔ درود وسلام ایک عظیم عبادت، جلیل القدر طاعت و قربت، انتہائی پاکیزہ اورنفیس ترین مشغلہ ہے۔شریعت میں جو اذکار واوراد بیان کیے گئے ہیں، ان میں سے نہایت مہتم بالشان قربت اور اصولِ عبادات میں درود وسلام کو شمار کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ تنہا مامور بہا عمل ہے، جس کو قرآن میں مشاکلتِ لفظی کے طور پر اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے اس کی نسبت اپنی ذات عَلِیَّہ کی طرف فرمائی پھر اپنے مقدس فرشتوں کی طرف پھر عمومِ مومنین کو اس کا حکم دیا۔ گویا کہ درود وسلام میں مومنین کے ساتھ حق جل مجدہ اور اس کے فرشتے بھی شامل ہیں گرچہ درود وسلام کے معنی نسبت کے بدلنے سے بدلتے رہتے ہیں۔

            ارشاد ربانی ہے:{ إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ  یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا} (سورۃ الأحزاب: 56)

            ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔

            علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’صلاۃ النبی‘‘ کا مطلب ہے نبی کی ثنا و تعظیم ؛رحمت و عطوفت کے ساتھ۔پھر جس کی طرف صلاۃ منسوب ہوگی اسی کی شان و مرتبہ کے لائق ثنا و تعظیم اور رحمت و عطوفت مراد لیں گے۔جیسے کہتے ہیں کہ باپ بیٹے پر، بیٹا باپ پر اور بھائی بھائی پر مہربان ہے یا ہر ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے تو ظاہر ہے، جس طرح کی محبت اور مہربانی باپ کی بیٹے پر ہے اسی نوعیت کی بیٹے کی باپ پر نہیں اور بھائی کی بھائی پر ان دونوں سے جداگانہ ہوتی ہے؛ ایسے ہی یہاں سمجھ لو۔

            اللہ بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلاۃ بھیجتا ہے یعنی رحمت و شفقت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثنا اور اعزاز و اکرام کرتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں۔ مگر ہر ایک کی صلاۃ اور رحمت و تکریم اپنی شان و مرتبہ کے موافق ہوگی۔ آگے مومنین کو حکم ہے کہ تم بھی صلاۃ و رحمت بھیجو۔ اس کی حیثیت ان دونوں سے علیحدہ ہونی چاہیے۔ علمانے کہا ہے کہ اللہ کی صلاۃ رحمت بھیجنا، فرشتوں کی صلاۃ استغفار کرنا اور مومنین کی صلاۃ دعا کرنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توصحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا (یعنی نماز کے تشہد میں جو پڑھا جاتا ہے) اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ،صلاۃ کا طریقہ بھی ارشاد فرما دیجیے جو نماز میں پڑھا کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ درود شریف تلقین کیا۔’’ اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ‘‘۔ غرض یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے مومنین کو حکم دیا کہ تم بھی نبی پر صلاۃ (رحمت) بھیجو۔ نبی نے بتلا دیا کہ تمہارا بھیجنا  یہی ہے کہ اللہ سے درخواست کرو کہ وہ اپنی بیش از بیش (زیادہ سے زیادہ) رحمت ابدالآباد(ہمیشہ ہمیش) تک نبی پر نازل فرماتا رہے۔ کیوںکہ اس کی رحمتوں کی کوئی حد و نہایت نہیں۔ یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس درخواست پر جو مزید رحمتیں نازل فرمائے وہ ہم عاجز و ناچیز بندوں کی طرف منسوب کردی جائیں، گویا ہم نے بھیجی ہیں۔ حالاںکہ ہر حال میں رحمت بھیجنے والا وہی اکیلا ہے ۔کسی بندے کی کیا طاقت تھی کہ سیدالانبیا کی بارگاہ میں ان کے رتبہ کے لائق تحفہ پیش کرسکتا؟

دکتور رشید کہوس حفظہ اللہ ’’نبض الحیاۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:

            إن للمصلین علی سید المرسلین وإمام المتقین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم عشر کرامات:

            1- صلاۃ الملک الغفار؛

            2- شفاعۃ النبی المختار؛

            3- الاقتداء بالملائکۃ الأبرار؛

            4- مخالفۃ المنافقین والکفار؛

            5- محو الخطایا والأوزار؛

            6- قضاء الحوائج والأوطار؛

            7- تنویر الظواہر والأسرار؛

            8- النجاۃ من النار؛

            9- دخول دار القرار؛

            10- سلام الملک الغفار.

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے والوں کو اللہ کی جانب سے دس اعزازات وا کرامات سے نوازا جاتا ہے:

            1) …رب غفار جل جلالہ کی رحمت نصیب ہوتی ہے ۔

            2) …نبی مختار علیہ السلام کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔

            3) …بزرگ اور معصوم فرشتوں کی اقتدا اور پیروی کی توفیق ملتی ہے ۔

            4) …کافروں اور منافقوں کی مخالفت ہوتی ہے (جو بذات خود مطلوب شرعی ہے) ۔

            5) …برائیاں اور گناہ مٹائے جاتے ہیں ۔

            6) …ضرورت و حاجت براری ہوتی ہے ۔

            7) …ظاہر اور باطن نورانی ہوتا ہے ۔

            8) …جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے ۔

            9) …ہمیشگی کے گھر؛ جنت کا داخلہ نصیب ہوتا ہے ۔

            10)…  مہربان اور بڑے معاف فرمانے والے رب کی طرف سے سلام کا تحفہ ملتا ہے۔

درود شریف کے کچھ فوائد اورثمرات:

             نبی مکرم، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنا دنیا و آخرت کی دسیوں بھلائیوں اور سعادتوں کا ذریعہ ہے،یہ مبارک عمل اپنے جِلَو میں لا متناہی برکتوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ شیخ عبدالحمید بن بادیس رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الصلاۃ علی النبی‘‘ میں علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کی’’جلاء الأفہام ‘‘ کے حوالے سے درود شریف کے تیس فوائد ذکر فرمائے ہیں ان میں سے چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:

            1)… درود وسلام بھیجنے سے حکم الٰہی کا امتثال اور بجاآوری ہوتی ہے۔

            2) …درود پڑھنے والے پر اللہ تعالی کی جانب سے دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

            3) …دس درجات بلند ہوتے ہیں۔

            4) …اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

            5) …اس کے دس گناہ معاف ہوتے ہیں ۔

            6) …اللہ کی طرف سے اس کی فکروں سے کفایت اور ضرورتوں کو پورا کیے جانے کی ضمانت مل جاتی ہے۔

            7) …دعاؤں کے اول و آخر درود شریف پڑھنا دعاؤں کی قبولیت کا موجب بنتا ہے  ۔

            8) …نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لینے کا بہترین وسیلہ ہے۔

            9) …مجلسوں کی پاکیزگی اور خوشگواری کا باعث اور قیامت کے دن ان کے حسرت و افسوس کا ذریعہ بننے سے بچاؤکا سامان ہے ۔

            10) …اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ازدیاد و دوام اور رسوخ کا ذریعہ ہے۔

            11) …درود شریف کے ذریعے آپ علیہ السلام کے حقوق اور احسانات کی کچھ نہ کچھ ادائیگی کی جاسکتی ہے۔

            12) درود پڑھنے والے کی عمر، اعمال اور مال و دولت وغیرہ میں برکت اور بڑھوتری ہوتی ہے۔

            لہٰذا جب بھی آپ کا نام مبارک آئے تو سننے والوں کو ضرور بارگاہ اقدس میں درود و سلام کی سوغات پیش کرنا چاہیے اور جنت کی بیع سلم کا حق دار بننا چاہیے ۔

درود وسلام کے صیغے:

             درود شریف کا ایک مختصر، جامع، نہایت خفیف اور آسان صیغہ ’’صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ ہے۔ آپ کا اسم گرامی آتے ہی زبان پر یہ مچل جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے صیغے ہیں۔مثلا ’’اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وأَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘‘۔(رواہ احمد)

            اسی طرح نماز میں پڑھاجانے والا درود ؛جو درود ابراہیمی کے نام سے مشہور ہے، دن میں کم سے کم سو مرتبہ اس کا ورد رکھنا باعث صد خیرو برکت اور حب رسول کی ایک ادنی دلیل ہے۔

            نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم نے بہت سی حدیثوں میں درود پڑھنے کے بہت سے فضائل اور بشارتیں اور نہ پڑھنے پر وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے:

            ’’ مَنْ صلَّی علیَّ صلاَۃً، صلَّی اللّٰہُ علَیْہِ بِہَا عشْرًا.‘‘ (رواہُ مسلم)

            جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجیں گے۔

            ایک حدیث میں آپ کے ذکر مبارک پر درود نہ پڑھنے والوں کو جبریل امین علیہ السلام کا بد دعا دینا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین کہنا وارد ہوا ہے، جس سے درود نہ پڑھنے والوں کے لیے سخت وعید ثابت ہوتی ہے۔ارشاد عالی ہے: ’’ قال لی جبرائیل: رَغِمَ أنفُ امْرِئٍ ذُکِرْتَ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ علیک، قل: آمین، فَقُلْتُ: آمین‘‘ جبریل نے مجھ سے کہا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو (وہ ذلیل اور رسوا ہو) جس کے سامنے آپ کا ذکر ہوا اور اس نے آپ پر درود نہیں پڑھا، کہو: آمین، تو میں نے کہا: آمین۔

گلہائے عقیدت در بارگاہ ِنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم:

            ایک عربی شاعر نے بڑے دل کش انداز، خوب صورت اسلوب اور شگفتہ پیرایہ میں بارگاہ نبوت میں عقیدت ومحبت کے کچھ پھول نچھاور کیے ہیں، جن کا تعلق درود وسلام سے ہے۔ اس لیے مزید فائدے اور لطف اندوزی کی غرض سے انہیں یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔قصیدے کا اصل لطف تو عربی خواں حضرات ہی اٹھا پائیں گے، مگر اردو خواں احباب کے ضیافتِ طبع کی خاطر اردو ترجمہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔گنگنائیں اور مشام جاں معطر فرمائیں۔

نوٹ: قصیدے کا آغاز تشبیب سے ہورہا ہے، جو عربی قصائد کا طرہ امتیاز ہے۔

غَازَلْتُہَا فَتَبَسَّمَتْ فَرَمٰی الْفُؤَادُ ِبحُبِّہَا

یَبْغِیْ وِصَالاً لَا یُرِیْدُ سِوَاہَا

            میں نے غزل سرائی کی تو وہ مسکرا دی۔بس دل اس کی محبت میں دیوانہ ہوگیا اور اس کے وصال کے سوا اسے کسی چیز کی خواہش نہ رہی۔

ہلَاَّ عَرَفْتُمْ مَنْ تَکُوْنَ حَبِیْبَتِیْ

وَمَنِ الَّتِیْ لَبِسَ الْفُؤَادُ رِدَاہَا

            تم جانتے بھی ہو میری محبوبہ کون ہے؟ اور میرا دل کس کی الفت کا اسیر بنا ہوا ہے؟

تِلْکَ الصَّلَاۃُ عَلَی النَّبِیِّ وَآلِہِ

صَلُّوْا لِتَلْقَوْا ِفی الْجِنَانِ صَدَاہَا

            وہ نبی اور ان کی آل پر نچھاور کی جانے والے ’’صلاۃ ‘‘ہے!تم بھی اس کا دم الفت بھر لو تاکہ جنان الخلد میں اس کی صدائے بازگشت سن سکو۔

مَاذَا اُسَطِّرُ فِیْ ثَنَائِکَ سَیَّدِیْ

غَیْرَ الصَّلَاۃِ مَعَ السَّلَامِ السَّرْمَدِیْ

            میرے محبوب میں آپ کی مدح وثنا میں ابدی وسرمدی دوود وسلام کے سوا کیا رقم کروں؟ 

قَلْبِیْ وَأشْعَارِیْ وَأَفْکَارِیْ حَکَتْ

إِنِّیْ بِغَیْرِ مُحَمَّدٍ لَنْ أَقْتَدِيْ

            میرا دل، میرے اشعار اور میرے افکار میرے جنوں کی حکایت رقم کررہے ہیںکہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سوا کسی کو مقتدا ماننا ہرگز گوارا نہیں۔

اَلشَّوْقُ حَرَّکَنِیْ بِغَیِرِ تَرَدُّدِ

وَالشِّعْرُ أبَحَرَ فِیْ غَرَامِ مُحَمَّدِ

            شوق جنوں ہے کہ رکے بغیر اظہار محبت پر آمادہ کررہا ہے اور اشعار ہیں کہ عشق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں لعل وگہر کی تلاش میں غوطہ زن ہیں۔

فَإذَا مَدَحْتُ مُحَمَّدًا بِقَصِیْدَتِیْ

فَلَقَدْ مَدَحْتُ قَصِیْدَتِیْ بِمُحَمَّدِ

            جب میں اپنے قصیدے کے ذریعے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کرتا ہوں، تو در حقیقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے اپنے قصیدے کی مدح سرائی کرتا ہوں۔

شَرْفُ اللِّسَانِ بِذِکْرِ أَحْمَدَ سَیّدِیْ

فِبِذِکْرِہِ نُکْفَی الْہُمُوْمَ وَنَہْتَدِیْ

            سیدنا محمد مصطفی، احمد مجتبی، رسول مرتضی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک میری زبان کے لیے بڑے عز وشرف کی بات ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پاک سے رنج رغم اور پریشانیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور سیدھی راہ چلنے کی توفیق ملتی ہے۔

وَحَبِیْبُنَا أَوْصٰی، فَہَیََّاْ رَدِّدُوْا:

یَارَبِّ صَلِّ عَلَی الْحَبِیْبِ مُحَمَّدِ.

            ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں درود وسلام پڑھنے کی وصیت فرمائی ہے، تو آئیے’’یارب صلِّ علی الحبیب محمدِ‘‘کو ورد زبان اور حرزِ جان بناتے ہیں۔

 اللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ َوبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہ أجْمَعِیْن۔