ہمارے اخلاق اور آداب

ہذہ أخلاقنا                                                                                   ۱۷؍ ویں قسط:

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتیؔ /استاذ جامعہ اکل کوا

قرآن کریم کے اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب:

             قرآن کریم کا چھٹا ادب یہ ہے کہ اس کے نزول کے تقاضوں اور مقاصد کو پورا کیا جائے، مامورات کو بجا لایا جائے، اور منہیات سے گریز کیا جائے، حدود اللہ کی پاسداری کی جائے، ان سے سرمو انحراف نہ کیا جائے، قرآن کریم کو اپنی خوائشات نفسانیہ کا تابع نہ بنائے، بلکہ اپنی خوائشات کو قرآن کے تابع کردے، قرآن کریم کی اسی تفسیر اور معانی و مطالب کی پیروی کرے جو اسلاف کرام سے منقول وماثور ہوں، آیات قرآنیہ کو اپنے خودساختہ مفہوم پر محمول نہ کرے، اور متجددین، اہل قرآن،اور منکرین حدیث کی آرا و افکار پراگندہ کی طرف بالکل التفات نہ کرے، کیوں کہ یہ لوگ قرآن کریم کی تحریف معنوی کے جرم عظیم میں مبتلا ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں سے بیزاری کا اظہار فرمایاہے، اور اپنی امت کو ان کے شر وفتنے سے بچنے اور ان کے دامِ فریب سے ہوشیار رہنے کی تلقین فرمائی ہے.

 قرآن کریم کی تعلیم وتعلم:

            کتاب اللہ کا ساتواں ادب یہ ہے کہ اسے سیکھنے سکھانے اور اس کی نشر واشاعت کا اہتمام و انتظام کیا جائے، مسلمانوں کا کوئی گھر اور کوئی چھوٹا بڑا فرد تعلیم قرآن سے محروم نہ رہے، کچھ لوگوں کو  مکمل تعلیمات قرآنیہ کے حصول کے لئے وقف کردیا جائے، ان کی ضروریات کا تکفل کیا جائے، بقیہ طبقے کو قرآن کریم سے کم از کم اتنا روشناس کردیا جائے کہ وہ بآسانی صحت کے ساتھ اس کی تلاوت کرسکیں، اور اس کے تقاضوں کو سمجھ سکیں، اور اس کے بنیادی حقوق وآداب کو اجمالی طور پر سیکھ کر انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔

اہل قرآن کی تعظیم وتکریم:

             قرآن کریم کا آٹھواں ادب یہ ہے کہ اہل قرآن،قرآن کریم کے وابستگان، اس کی تعلیم وتعلم اور نشر واشاعت میں مصروف حضرات کا اکرام واحترام کیا جائے، ان کی اہانت و تحقیر سے بچا جائے،ان کی نصرت کی جائے، ان کی حوصلہ افزائی، اور پشت پنائی کی جائے،  انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھیں، انہیں ہر مجلس اور ہر گام پر مقدم رکھا جائے، خواہ وہ ناظرہ قرآن کی خدمت پر مامور ہوں یا حفظ، یا ترجمہ وتفسیر، یا من جملہ علوم قرآن وحدیث، حدیث پاک میں انہیں اللہ رب العزت کے خاص اور مقرب بتایا گیا ہے، ارشاد نبوی ہے:

             أَہْلُ الْقُرْآنِ،أَہْلُ اللَّہِ وَخَاصَّتُہُ  (ابن ماجۃ، وأحمد).

             بل کہ ان کے اکرام کو اللہ تعالی کا اجلال و اکرام قرار دیا ہے۔

             ارشاد عالی ہے:إِنَّ مِنْ إِجْلالِ اللَّہِ تَعَالَی: إِکْرَامَ حَامِلِ الْقُرآنِ غَیْرِ الْغَالي فِیہِ والجَافي عَنْہ(باعمل حامل قرآن کا اکرام کرنا اللہ رب العزت کا اکرام وتعظیم کرنا ہے)(ابو داؤد)۔

            جسے کسی سے محبت ہوتی ہے اسے اس کے دوست واحباب اور محبین سے بھی محبت ہوتی ہے، لہذا جسے اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی، اسے ضرور قرآن اور اہل قرآن سے محبت ہوگی، ورنہ وہ اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا اور ناقص ہوگا۔

            ان آداب قرانیہ کی رعایت سے ہمیں ان شاء اللہ قرب خداوندی نصیب ہوگا، جب قربِ خداوندی نصیب ہوگیا تو تلاوت کا مقصود بھی حاصل ہوگیا۔ 

آداب صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم :

            قرآن کریم کے بعض آداب و حقوق کے بعد صاحبِ قرآن، رسالت مآب پیغبر آخر الزمان صلوات اللہ وسلامہ علیہ کی ذات مبارکہ کے آداب و حقوق کے بارے میں خامہ فرسائی کرنے کی جسارت کی جارہی ہے، کیوں کہ ہمیں جو بھی دینی اور دنیوی نعتیں میسر ہیں، یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی مرہونِ منت ہیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات تلے ہمیشہ دبے رہیں گے، ہمیں اسلام قرآن اور معرفت ربِ منان آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے طفیل ہی حاصل ہوئی۔

             نبوت ورسالت محمدیہ پر ایمان کامل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا حق یہ ہے کہ ہم آپ کو اللہ کا سچا اور آخری نبی مانیں، آپ کی نبوت ورسالت پر ایمان لائیں، تا قیامت پوری کائنات کے لئے رسول برحق تسلیم کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطلب آپ کی نبوت ورسالت کی دل سے تصدیق کرنا، اور زبان سے اس کا اقرار کرنا ہے، اور جو شریعت آپ لے کر آئے اسے آخری، غیر منسوخ، غیر محرف، نا قابل تبدیل اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے قابل عمل ماننا بھی ایمان بالرسالت میں داخل ہے. آپ کے صادق وامین اور نبی برحق ہونے کے دلائل وبراہین کتاب وسنت کے علاوہ نباتات، جمادات اور حیوانات، زمین وآسمان، بر وبحر ہر جگہ ظاہر اور رونما ہوئے، اس لئے آپ کی نبوت ورسالت کے تئیں ادنی شبہ بھی آدمی کو اسلام سے خارج اور ابدی خسارے کا سزاوار بنا دیتا ہے.۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت:

             آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ادب اور حق آپ سے سچی اور خالص محبت کرنا، محبت کئے جانے کے تمام اسباب اور وجوہات آپ کی ذات والا صفات میں بدرجہ اتم موجود ہیں، آپ جمال وجلال اور کمالات ظاہری اور باطنی کا بہترین سنگم تھے، اور خزانہ قدرت الہیہ کے گراں مایہ در فرید تھے، مداح رسول حضرت نفیس الحسینی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے

جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے

اے ازل کے حسیں، اے ابد کے حسیں

تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

بزم کونین پہلے سجائی گئی

پھر تری ذات منظر پر لائی گئی

سیدالاولیں، سید الآخریں،

تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا

اِس زمیں میں ہوا، آسماں میں ہوا

کیا عرب کیا عجم، سب ہیں زیرِ نگیں

تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی

تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی

تیرے انفاس میں خلد کی یاسمیں

تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

مصطفیٰ مجتبیٰ، تیری مدح وثنا

میرے بس میں، دسترس میں نہیں

دل کو ہمت نہیں، لب کو یارا نہیں

تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں

کوئی ہے! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں

توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں

تجھ سا کوئی نہیں، تجھ سا کوئی نہیں

            جب آپ اتنے اوصاف کمال کے مالک ہوئے، تو بالیقین ذات خداوندی کے بعد عقیدت اور محبت کے سب سے زیادہ سزاوار ہیں۔

            ایک حدیث صحیح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

            { لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ }

            تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اسے اپنی اولاد، ماں باپ، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

            آپ کی محبت کی سب سے بڑی دلیل آپ کی پیروی کرنا، اور آپ کے طریقوں اور سنتوں کا احیا کرنا ہے، مشہور معاصر عربی شاعر عبدالرحمن عشماوی اپنے فرماتے ہیں:

سلہم عن الحب الصحیح ووصفہ

 فلسوف تسمع صادق الأخبارِ

إحیاء سنتہ حقیقۃ حبہ

فی القلب فی الکلمات فی الأفکارِ

            ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آپ علیہ السلام کی محبت اور عقیدت کے اوصاف معلوم کرو، وہ اپنی سچی محبت کے عملی واقعات تمہارے سامنے پیش کریں گے،اپنے اقوال، افعال، اور افکار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنا ہی در حقیقت ان سے سچی محبت کی علامت اور دلیل ہے۔

  (جاری ………)


درخواست برائے ایصال ثواب:

            جامعہ کے شعبۂ تجوید و قرأت کے قدیم استاذحضرت قاری افضل الحسن صاحب کی والدہ محترمہ ۱۶؍محرم الحرام۱۴۴۱ھ مطابق۱۶؍ستمبر۲۰۱۹ء کواس دارفانی کوہمیشہ کے لیے خیربادکَہ گئیں۔مرحومہ بڑی دین دار،پرہیزگار،قرآن واذکار پڑھنے کی پابند،خوش مزاج وملنسار،مہمانوںکااکرام اورضرورت مندوںکی بڑی خیرخواہ تھیں۔

            اسی طرح جامعہ کے شعبۂ عا  لمیت کے استاذ مفتی عبد الغفور صاحب کی والدہ محترمہ بھی اللہ کی رحمت میں پہنچ گئیں۔مرحومہ بھی بڑی نیک سیرت اورپابند شریعت تھیں۔اللہ تعالیٰ مرحومات کی بال بال مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔قارئینِ شاہراہ سے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی درخواست ہے ۔