ہمارے اخلاق اور آداب

ہذہ أخلاقنا                                                                                   ۱۶؍ ویں قسط:

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتیؔ /استاذ جامعہ اکل کوا

ادب مع القرآن:

            گزشتہ قسط میں آپ نے اسلامی اقدار میں سے ادب اور بالخصوص ادب مع اللہ کے متعلق کچھ معروضات ملاحظہ فرمائی تھیں، ادب مع اللہ کے بعد اب ادب مع القرآن کو ذکر کیا جارہا ہے، کیوں کہ قرآن کریم اللہ رب العزت کا مقدس کلام اور اس کی صفات حمیدہ میں سے ایک عظیم صفت ہے، یہ کلام الہی سراپا نور وہدایت، اور بشارت و خوش خبری ہے، اس کے عظیم وبرتر، مقدس ومنزہ، اور بے عیب و لا ریب ہونے کے لئے ذات باری تعالی کی طرف اس کی سچی نسبت ہی کافی ہے،نزولِ قرآن بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کا ایک عظیم نمونہ ہے، اس کتاب کے روحانی بوجھ اور تجلی کا عالم یہ ہے کہ اگر پہاڑوں پر نازل کردیا جائے تو سخت ترین پہاڑ بھی اسے برداشت نہ کرسکیں۔

            لہٰذا ایک سچے مسلمان کے لئے کتاب اللہ کے آداب و حقوق کو سمجھنا اور ان کے مقتضا پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔

ایمان وایقان بالقرآن:

             قرآن کریم کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ادب یہ ہے کہ ہم اسے خداوند عالم کی طرف سے نازل کردہ بے عیب ولاریب کتاب سمجھیں، اس میں کسی بھی قسم کے ادنی شک وشائبہ سے اپنے ذہن ودماغ کو کوسوں دور رکھیں، قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے کے سینکڑوں دلائل خود قرآن مقدس میں موجود ہیں، قرآن کریم نے بار بار اپنی صداقت کا برملا اعلان کیا ہے، اور اپنا کلام معجز، منزل من اللہ اور بے نظیر وبے مثیل ہونا متعدد بار چیلینج کے ساتھ دہرایا ہے، اور یہ چیلینج اور تحدّی تا قیامت ہرزمانے اور ہر جگہ کے لوگوں کے لئے عام ہے۔

تا قیامت معجزہ ہر سورت قرآن ہے

بہر منکر ہے تحدّی نفی تاکیدِ بَلَنْ

 استماع و انصات للقرآن:

             قرآن کریم کا دوسرا ادب یہ ہے کہ اسے بغور و بصد شوق سنا جائے، اس کی تلاوت کے وقت خاموشی، توجہ، اور یکسوئی کا مکمل لحاظ رکھا جائے، اسے اپنے محبوب و مطلوب، خالق و مربی، پروردگار کا پیاربھرا خط اور محبت نامہ تصور کیا جائے، قرآن کریم میں بھی اس ادب کی طرف بصیغۂ امر خصوصی توجہ دلائی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے:             {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ }(الاعراف: ۲۰۴)

            ترجمہ:  اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

            علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: جب قرآن ایسی دولت بے بہا اور علم و ہدایت کی کان ہے تو اس کی قرأت کا حق سامعین پر یہ ہے کہ پوری فکر و توجہ سے ادھر کان لگائیں، اس کی ہدایات کو سمع قبول سے سنیں اور ہر قسم کی بات چیت، شور وشغب اور ذکر و فکر چھوڑ کر ادب کے ساتھ خاموش رہیں تاکہ خدا کی رحمت اور مہربانی کے مستحق ہوں۔

حصول طہارت لمسّ القرآن:

            قرآن کریم کا تیسرا ادب یہ ہے کہ اسے پاک صاف ہوکر چھویا اور پکڑا جائے، ناپاکی کی حالت میں اسے مس نہ کیا جائے، اس ادب کو قرآن کریم نے سورہ واقعہ میں بیان فرمایا ہے، ارشاد الٰہی ہے:

            { لَّا یَمَسُّہُ إِلَّا الْمُطَہَّرُونَ }(79)

            ترجمہ:  اس قرآن کو وہی لوگ چھوسکتے ہیں جو پاک صاف ہوں۔

            علامہ عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس قرآن کو نہیں چھوتے مگر پاک لوگ، یعنی جو صاف دل اور پاک اخلاق رکھتے ہیں،  وہ ہی اس کے علوم و حقائق تک ٹھیک رسائی پا سکتے ہیں،  یا اس قرآن کو نہ چھوئیں مگر پاک لوگ، یعنی بدون وضو کے ہاتھ لگانا جائز نہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔

            جب قرآن کریم کو چھونے کے لئے ظاہری پاکی کا اتنا اہتمام ہے، تو باطنی پاکیزگی کا اہتمام کتنا ہونا چاہیے، وہ عیاں ہے۔

تلاوت قرآن بالترتیل و التجوید:

             قرآن کریم کا چوتھا ادب یہ ہے کہ اسے ترتیل و تجوید کے ساتھ ویسا ہی پڑھا جائے جیسے وہ نازل ہوا، تلاوت میں حروف کو ان کے مخارج سے صحیح ادا کرنے پر دھیان دیا جائے، اثنائے تلاوت مدّات، غنّات اور وقوف کی مکمل رعایت کی جائے، اور خالص عربی لہجوں میں تلاوت کی جائے، عجمی راگ کو تلاوت قرآن سے دور ہی رکھا جائے، اپنی فطری آواز میں سنوار کر پڑھا جائے، بلاوجہ دوسروں کی  نقالی نہ کی جائے، کیوں کہ اس میں دکھلاوے اور ریاکاری کا عنصر غالب ہے۔بزرگان سلف اس ادب قرآنی کی بہت رعایت کرتے تھے،اس کی خلاف ورزی کرنا ان کی غیرت ایمانی وقرآنی کو چیلنج کرنا تھا.علم قرأت، عربیت اور نحو کے مشہور امام ابو عمرو بن العلا بصری رحمہ اللہ ایک مرتبہ کسی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے، اس نے لحناً سورۂ زلزال کی پہلی آیت کو یوں پڑھا{إذا زَلْزَلَتِ الأَرْض زَلْزَالَہا} امام موصوف سے ادب قرآنی کی خلاف ورزی برداشت نہ ہو پائی، فورا اپنی جوتی اٹھائی اور چل دئیے۔ اگر ہم آج اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کتنے بڑے پیمانے پر اس ادب قرآنی کا قتلِ عام ہورہا ہے، بہت سی مساجد میں دہائیوں سے امامت کرتے آرہے ائمہ حضرات کس انداز اور لب ولہجے میں قرآن پڑھ رہے ہیں، کسی کے پاس پانی پتی لہجہ ہے تو کسی کے پاس اپنا خانہ زاد! الامان والحفیظ! اور انہیں اس صریح بے ادبی کا احساس تک نہیں، اس سے چار قدم آگے مدارس میں پڑھنے پڑھانے والے  بہت سے طلبہ اور مدرسین تجوید وترتیل کا مطلق لحاظ نہیں کرتے، وہ ث کی جگہ س، ذ کی جگہ ز، ظ اور ض کی جگہ ز یا داد پڑھتے ہیں،بعض ت کو تھ پڑھ کر اپنے مجود ہونے کا پتہ دیتے ہیں، اور وقوف کی رعایت میں تو اور ہی برا حال ہے، کبھی مضاف الیہ کو چھوڑ کر مضاف پر وقف ہوتا ہے،تو کبھی صفت کو چھوڑ کر موصوف پر، کبھی پہلی رکعت میں فعل فاعل اور دوسری میں مفعول بہ آتا ہے، مگر انہیں اس طرف توجہ کی بالکل توفیق نہیں ہوتی۔

تدبر قرآن:

             قرآن کریم کا پانچواں ادب یہ ہے کہ انسان آیاتِ قرآنیہ میں غور وفکر کرے، اور اس کے معانی ومفاہیم میں تدبر کرے، بسا اوقات پڑھنے والا ہمہ تن تلاوت میں مشغول ہوتا ہے، لیکن غور وفکر نہیں کرتا، جبکہ تلاوت کا مقصد ہی تدبر ہے، اسی وجہ سے ترتیل ضروری قرار دی گئی ہے، کیونکہ ٹھہر ٹھہر کر  پڑھنے سے سوچنے کا موقع ملتا ہے اور غور وفکر میں آسانی ہوتی ہے۔