ہمارے اخلاق اور آداب

ہذہ أخلاقنا                                                                                   ۱۵؍ ویں قسط:

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتیؔ /استاذ جامعہ اکل کوا

            ادب کااسلامی اخلاق میں وہی مقام ومرتبہ ہے، جو جسمِ انسانی میں دل ودماغ کا ہے،اگر اسلامی قدروں سے ادب کو نکال دیا جائے تو باقی تمام چیزیں رسمی اوربے معنی رہ جائیں گی۔

لفظِ ادب کی گیرائیت:

             لفظ ادب اپنا ایک وسیع دائرہ اور مفہوم رکھتا ہے، جس کی متعدد اقسام اور انواع ہیں۔ بعض کا تعلق خالق سے ہے اور کچھ کا مخلوقِ خدا سے،ہر ایک کی حد بندی، پاسداری اور رعایت ہمارے دین حنیف کا طرۂ امتیاز ہے۔ تو آئیے آئندہ سطور میں ہم ادب کے وسیع تر مفہوم کو کتاب و سنت اور لغت و عرف کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی:

            لغت میں لفظ ’ادب‘ کے معنی لوگوں کو جمع کرنے یا انہیں دعوتِ طعام پر مدعو کرنے کے ہیں۔

            ’’آدِبٌ‘‘  لوگوں کو دعوت طعام دینے والے کو کہا جاتا ہے۔ ادب کو ادب اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کا اس کے مستحسن اور پسندیدہ ہونے پر گویا اجماع و اتفاق ہے۔

            لغت کی مشہور ومعروف کتاب ’’معجم لسان العرب ‘‘میں ابن منظور رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’إنہ سمي أدب لأنہ یأدب الناس إلی المحامد وینہاہم عن المقابح ‘‘

(ادب کو ادب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اخلاقِ حسنہ کی طرف بلاتا اور افعالِ قبیحہ سے روکتا ہے)۔

            ادب ہر ایسی صفت کا نام ہے ،جو انسان کو گناہ میں پڑنے سے روکے اور باز رکھے۔

التأدُّب:  ایسا مناسب اور معقول برتاؤ جو کریمانہ اخلاق سے ہم آہنگ ہو۔

التأدیب:  فضائل اور کمالات کی تعلیم دینا اور اس سے روگردانی کرنے والوں کا مواخذہ اور گرفت کرنا۔

ادب علما کی نگاہ میں:

            ادب کے  بارے میں علما کا فرمان ہے: ’’ ہو الکلام الجمیل الذی یترک فی نفس سامعہ أو قارئہ أثرا قویا…وہو العمل بمکارم الأخلاق۔‘‘(ادب ایسے خوب صورت معنی خیز کلام کو کہا جاتا ہے،جو اپنے سامع یا قاری پر گہرا اثر چھوڑے اور وہ مکارم اخلاق کا خوگر بن جائے۔

ادب قرآن کریم کے آئینہ میں:

             ادب کی اس مختصر لغوی اور اصطلاحی تعریف کے بعد آئیے بالترتیب سب سے پہلے کلام اللہ کی روشنی میں ادب کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن کے اوامر ونواہی سراپا ادب ہیں:

             علما اور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ قرآن کریم کے اکثر اوامر و نواہی اور انبیا علیہم السلام کے اقوال وافعال ادب ہی کے دائرے میں آتے ہیں؛نیز علما کے رجحان کے مطابق قرآن کریم میں ادب کی متعدد قسمیں ہیں:  جن میں سب سے مقدم اور سب سے عظیم تر ’’ادب مع اللہ ‘‘اور ’’ادب مع القرآن‘‘ ہیں۔ اللہ کے ساتھ معاملات کو بطریق احسن ادا کرنے کو اسلام میں ’’الادب مع اللّٰہ ‘‘(اللہ کے ساتھ ادب) کا نام دیا جاتا ہے۔ادب مع اللہ کا سب سے بڑا اہم اور مہتم بالشان تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ رب العزت کی توحید خالص کا قائل ہو۔اللہ جل شانہ سے شدید محبت کرے اور اس کے اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کرے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب مع اللہ:

            واقعہ معراج کے تناظر میں مہمانِ رب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:{ مَا زَاغَ البَصَرُ وَ مَا طَغٰی} (النجم:۱۷)ترجمہ: نہ آپ کی نگاہ بہکی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔

            یعنی آنکھ نے جو کچھ دیکھا، پورے تمکن و اتقان سے دیکھا، نہ نگاہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر دائیں بائیں ہٹی نہ مبصر سے تجاوز کر کے آگے بڑھی۔بس اسی چیز پر جمی رہی جس کا دکھلانا منظور تھا۔ بادشاہوں کے دربار میں جو چیز دکھلائی جائے اس کو نہ دیکھنا اور جو نہ دکھلائی جائے اس کو تاکنا دونوں عیب ہیں اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں سے پاک تھے۔(تفسیر عثمانی)۔

            اس آیت کریمہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کریم جل جلالہ کے ساتھ کمال ادب کا بڑے حسین پیرائے میں تذکرہ ہے، جیسا کہ مفسر عثمانی رحمہ اللہ نے واضح فرمادیا ہے کہ بارگاہ ایزدی کے سب سے بڑے رمزشناس پیغمبر اعظم اور محبوبِ خلاقِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ مبارک دائیں بائیں بالکل ملتفت نہ ہوئی، بل کہ اپنے محور مقصود پر ہی ٹکی رہی ۔

            امام الانبیا، محبوب کبریا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر گام پر اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ کمال ادب کتاب وسنت کی دسیوں نصوص میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ آپ علیہ السلام کی دعاہو کہ مناجات، قول ہو کہ فعل ہر ایک میں ادب مع اللہ کی جھلک شامل ہے۔

 خلیل الرحمن علیہ السلام کا کمال ادب:

             قرآن مقدس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ذکر مبارک کے ضمن میں سورہ شعرا کی یہ آیات کریمہ ملاحظہ فرمائیں: {الَّذِی خَلَقَنِی فَہُوَ یَہْدِینِ(۷۸) وَالَّذِی ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ(۷۹) وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِ}

            ترجمہ: جس نے مجھے پیدا کیا ہے اوروہی مجھے رستہ دکھاتا ہے۔اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے۔

            ان آیات کریمہ پر غور فرمائیں اور ابراہیم علیہ السلام کے اپنے پروردگار کے ساتھ کمال ادب کا نظارہ کریں۔ ابراہیم علیہ السلام نے امورِ اربعہ: پیدا کرنے، ہدایت دینے، کھانا کھلانے اور شفا بخشنے کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف فرمائی، اور بیماری -جس میں بہ ظاہر شر ہے – کی نسبت اپنی طرف فرمائی، اور فرمایا’’إِذَا مَرِضْتُ ‘‘(جب میں بیمار پڑتا ہوں) یہ نہیں فرمایا ’’ إِذَا أَمْرَضَنِیْ ‘‘ (جب مجھے بیماری دیتا ہے)، کیوں کہ اس میں بہ ظاہر بے ادبی نظر آتی ہے۔

انبیا علیہم السلام اور ادب مع اللہ:

             اگر ہم آیاتِ قرآنیہ میں بنظر عمیق غور کریں تو ہمارے سامنے حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیا علیہم السلام کے حالات میں ایسی سیکڑوں مثالیں نظر آئیں گی، جو ان بزرگوں کے اپنے رب کے ساتھ کمال ادب اور غایت تواضع پر شاہد عدل ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات اور ان کی دعائیں، مناجاتیں اور اوامر الٰہیہ کی کمال درجے کی بجاآوری قرآنی صفحات پر ادب مع اللہ کی بین دلیلیں ہیں۔

آدم علیہ السلام اور ادب مع اللہ:

             آدم علیہ السلام ہبوط ارضی کے بعد؛ جس لجاجت ،عاجزی اور مسکنت سے بارگاہ خداوندی میں سربسجود ہوئے، اور جن الفاظ میں دعا اور التجا فرمائی، وہ ادب مع اللہ کی اپنی مثال آپ ہے ۔ارشاد ہے :

            { رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَo (۲۳)

             بار الٰہا! ہم اپنے آپ پر زیادتی کر بیٹھے، اگر آپ ہمارے گناہوں کی معافی فرماکر ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم خسارے میں پڑ جائیں گے۔ابوالبشر آدم علیہ السلام کی عجز و مسکنت بھری اس صدا میں جناب الٰہی کا غایت ادب، اپنی عبدیت، نیازمندی اور خشیت الٰہی کا جو دریا موجزن ہے،اسے اہل قلوب ہی سمجھ سکتے ہیں۔

کلیم اللہ اور ادب مع اللہ:

             موسی علیہ السلام کی صرف اس دعا: {رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ }(القصص:۲۴)

            (اے میرے رب! آپ جس بھلائی سے بھی مجھے نواز دیں میں اس کا سخت محتاج ہوں)۔

            پر غور کرلیں تو ان کے ادب مع اللہ کی جھلک روز روشن کی طرح عیاں دکھائی دے گی۔

داؤد وسلیمان علیہما السلام اور ادب مع اللہ:

             حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو حق تعالیٰ نے جو مقام ومرتبہ، بادشاہت وسلطنت اور جاہ و حشمت عطا فرمائی تھی، وہ صفحات قرآنیہ کا ایک روشن باب ہے، مگر اس تمام کر وفر اور جاہ وجلال کے باوجود ان دونوں بزرگوں کی صرف دعاؤں اور مناجاتوں پر غور کر لیجیے ادب مع اللہ کا ایک سنہرا اور روشن ورق کھلا ہوا نظر آجائے گا، چیونٹی کی گفتگو سن کر سلیمان علیہ السلام پر احساس ِنعمت اور ادب مع اللہ کی کیا کچھ کیفیت طاری ہوئی ہوگی، اسے الفاظ کا جامہ پہنانا اور قرطاس پر منتقل کرنا کسی بشر کے بس کی بات نہیں،اس لیے فقط محسوس کرلیا جائے:

            { رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَیٰ وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَأَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ }(۱۹)

            ترجمہ: اے میرے رب ! مجھے توفیق مرحمت فرما کہ میں تیرے ان احسانات کا شکر ادا کروں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر فرمائے ہیں۔ اور یہ کہ میں ایسے نیک کام کروں جو آپ کو پسند ہوں، اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما۔

            پھر تخت بلقیس کو اپنے سامنے موجود دیکھ کر تشکر وامتنان کے جذبات سے معمور، ادب مع اللہ کی کیف و مستی سے سرشار حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس جملے پر غور کیجیے۔

            {ہَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی أَأَشْکُرُ أَمْ أَکْفُرُصلے وَمَن شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ صلے وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ رَبِّی غَنِیٌّ کَرِیمٌ}o (۴۰)

            ترجمہ: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔ اور جو کوئی شکر کرتاہے، وہ اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے، جو کوئی ناشکری کرے، سو میرا رب بڑا بے پروا، بڑے کرم والا ہے۔

            ادب مع اللہ کے باب میں بارگاہ خداوندی کے رمزشناس حضرات انبیا علیہم السلام کے احوال کی یہ چند جھلکیاں ہمیں بھی ان کی اقتدا واتباع کی رغبت دلاتی ہیں، اور رب العزت والجلال کے ساتھ کمال ادب پر آمادہ کرتی ہیں۔ اللہ ہم تمام کوبا ادب بانصیب بنائے اور بے ادب بن کر بد نصیبی سے محفوظ ومامون رکھے۔آمین!