ہذہ أخلاقنا ۲۰/ ویں قسط:
ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتی /استاذ جامعہ اکل کوا
اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق:
تمہید:
اسلام؛ زندگی کے تمام شعبوں کے آداب واخلاق اور حقوق کا جامع، ایک ہمہ گیر اور عالم گیر دین ومذہب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ِمبارکہ کے ذریعے اسلام اپنے آخری، کامل ومکمل اور ناقابل ِتنسیخ نسخے اور ایڈیشن کی شکل میں ستم رسیدہ دنیائے انسانیت کا دادرس اور مسیحا بن کر آیا۔ اسلام نے تمام لسانی، قومی، علاقائی اور طبقاتی تقسیم اور اونچ نیچ کو ختم کردیا۔ شرافت و کرامت اور عزت و رفعت کی میزان اکبر تقویٰ اور پرہیزگاری کو قرار دیا۔ قیصر وکسریٰ کے ظلم و استبداد تلے کچلے اور دنیا بھر کے ظالموں اور جابروں کے ستائے ہوئے لوگوں کو اسلام ہی نے اپنے دامن ِلطف وکرم میں امان اور پناہ دی اور یہ واضح کردیا کہ اسلام عدل وانصاف کا محافظ اور ظلم وجور کے خلاف تیغ بُرّاں ہے۔ اسلام مشرق ومغرب اور جنوب وشمال میں جہاں تک پہنچا، عدل ومساوات، اور حقوق انسانیت کا علم بردار بن کر گیا۔اس نے بلا تفریق رنگ ونسل اور قوم و مذہب؛ سب کو مساویانہ حقوق دیے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ”میثاق ِمدینہ “عمل میں آیا ،جو حقوقِ انسانی کا سب سے قدیم اور جامع دستور اور منشور ہے۔ پھر حجة الوداع کے خطبہ کے ذریعے دنیائے انسانیت کو انتہائی جامع، کامل ومکمل دستور اور آئین دیا گیا، جس میں تمام بنی نوع انسان کے لیے مساویانہ اور منصفانہ حقوق کا علیٰ رؤوسِ الاشہاد برملا اعلان کیا گیا۔اس جامع ومانع خطبہ کے سامعین نے شش جہات عالم میں ان حقوق کو عملی اور (Practicali) شکل میں پیش کیا۔ ہر ایک کے ساتھ صحیح معنی میں عدل وانصاف برتا گیااور بقول شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ:
”عدل کا مطلب ہے کسی شخص کے ساتھ بدون افراط و تفریط کے وہ معاملہ کرنا ،جس کا وہ واقعی مستحق ہے۔ عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑہ کو جھکا نہ سکے۔“
اسلام ایسے غیر مسلموں سے جو مسلمانوں کے ساتھ بر سر ِپیکار نہ ہو، احسان اور بھلائی کرنے سے نہیں روکتا،بل کہ اس کی ترغیب دلاتا ہے۔
علامہ عثمانی رحمہ اللہ سورة الممتحنة کے حواشی میں لکھتے ہیں :ایسے لوگ جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی، نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے نہ ان کو ستانے اور نکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے۔ اس قسم کے کافروں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا۔ جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلا دو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے؟
اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ اگر کافروں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسر ِپیکار ہے تو تمام کافروں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں۔ ایسا کرنا حکمت و انصاف کے خلاف ہوگا۔ ضروری ہے کہ عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جوان اور معاند و مسالم میں ان کے حالات کے اعتبار سے فرق کیا جائے۔
اسلام کی محبت وعداوت دونوں نپی تلی ہیں۔ اسلام محبت یا عداوت کے جوش میں حد سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ہمارے ملک ِعزیز ہندستان پر بھی سرزمین ِحجاز سے طلوع ہونے والے آفتاب کی مقدس کرنیں پڑیں اور اہلیان ہند نے بھی ہزاروں سال ذات پات اور چھوت چھات کی چکیٴ ظلم میں پسنے کے بعد اس ابر ِرحمت کے سائے میں راحت اور سکون کی سانس لی اور اس مخزنِ نور وہدایت سے اپنی استعداد کے مطابق فائدہ اٹھایا۔ بہت سوں نے اس کی روشنی سے اپنے تاریک دلوں کو روشن کیا اور بہت سے کفر وشرک کی گھٹاٹوپ ظلمتوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ہندستان کی اکال الامم کہلانے والی سرزمین تہذیبِ حجازی کو اپنے اندر تحلیل نہ کرسکی بل کہ کسی نہ کسی درجے میں اس کا اثر ضرور قبول کیا۔صدیوں تک دنیا کے بیشتر علاقوں کی طرح اس وطن عزیز پر بھی بڑے طمطراق اور جاہ وجلال کے ساتھ اسلام کا سورج ضوفشاں رہااور اپنی عدل گستری اور انصاف پروری کا برابر مظاہرہ کرتار ہا؛ یہاں تک کہ مسلمانوں کی شومئی قسمت اور بداعمالیوں کی وجہ سے سنت مداولہ کے تحت بہت سے علاقوں سے یہ مبارک کرنیں گویا روٹھ ہی گئیں۔ مسلمانوں کے اقتدار و استخلاف کا آفتاب لب بام آگیا اور دنیا کی زمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
مگر دنیا کے قانون مسلم سے نہیں چارہ
مسلمانوں کے تخلف و ادبار سے دنیائے انسانیت نے جو رنج و الم اور دکھ اٹھائے ،پچھلی چند صدیوں کی تاریخ ان کی دلخراش اور ہولناک داستانوں سے لبریز ہے۔ہندستان سے سامراج کے ہاتھوں اسلامی عظمت واقتدار کے خاتمے کے بعد اس سر زمین نے بھی جو غم سہے اور یہاں جو خوف کی ہولیاں کھیلی گئیں وہ بھلائے نہیں بھولتیں۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ مرثیہ خواں ہیں:
سرزمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے
ذرّے ذرّے میں لہُو اسلاف کا خوابیدہ ہے
پاک اس اُجڑے گُلستاں کی نہ ہو کیوں کر زمیں
خانقاہِ عظمتِ اسلام ہے یہ سرزمیں
سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار
نظمِ عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چُکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
ہندستانی ایک عرصے تک انگریز کے پنجہٴ ظلم وجبر میں غلام رہے ہیں۔ غلامی اپنے دیرپا اور گہرے اثر چھوڑتی ہے، جن کا مٹانا بڑا مشکل اور وقت طلب ہوتا ہے۔ غلامی کے زمانے میں قوموں کے مزاج بدل جاتے ہیں اور ان کے اخلاق وکردار کا دیوالیہ نکل جاتا ہے:
تھا جو ناخُوب بتدریج وہی خُوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
سامراج کے اثر سے ہندی مسلمان بھی متاثر ہوئے۔ مسلمانوں کی اکثریت؛ اسلام کے ہمہ جہتی اخلاق وآداب اور حقوق بھلا بیٹھی، خواہ ان کا تعلق مسلمانوں سے ہو یا غیر مسلموں سے۔ اب وقت نے پھر کروٹ بدلی ہے اور ہندی مسلمان ایک دوراہے پر آکھڑے ہوئے ہیں۔یہ سمجھنے اور محاسبے کا وقت ہے۔ ذلت وادبار کے اسباب پر غور کرکے ان سے چھٹکارا پانا اور عزت ورفعت کے اسباب کو معلوم کرکے انہیں بروئے کار لانا ضروری ہے:
نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
یہی آئینِ قدرت ہے ، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گام زن ، محبوبِ فطرت ہے
ہمیں اپنی زندگی کے تمام تر دینی، اخلاقی، معاشرتی اور سماجی شعبوں پر نظر کرکے اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور انہیں ایک ایک کرکے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ہمارے وطن عزیز ہندستان میں ہمیں ملک کی غیر مسلم اکثریت کے ساتھ کن اخلاق وآداب سے پیش آنا چاہیے اور ہم پر ان کے کیا حقوق لازم ہیں انہیں جاننے اور ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ہم آج ذلت و نکبت اور پستی و انحطاط کے جس مقام پر کھڑے ہیں، ہمیں وہاں لانے میں ایک بڑا کردار ہمارے اڑوس پڑوس میں رہنے والی ملک کی اکثریت کے ساتھ ہمارے ناروا سلوک اور ہمارے ذمہ ان کے تئیں اسلامی اخلاق و آداب اور حقوق کی پامالی کا بھی ہے۔ تو آئیے !کتاب وسنت کی روشنی میں برادران وطن کے تئیں ہم اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کو جاننے ،سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (جاری…)