ہذہ أخلاقنا ۱۹/ ویں قسط:
ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتی# /استاذ جامعہ اکل کوا
گزشتہ قسطوں میں ذات باری جل مجدہ، اس کی مقدس کتاب اور رسالت مآب پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کے بارے میں چند آداب وحقوق کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ اب عام مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور آپسی معاملات ومعاشرت کے چند حقوق و آداب ذکر کیے جاتے ہیں، جن کی بجاآوری اور رعایت پر اسلام نے بھر پور زور دیا ہے اور ان سے متصف ہونے کو مرد مومن کا شعار اور صدق ِایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ ان اخلاق و آداب کی پاسداری سے معاشرہ اور ماحول انتہائی خوش گوار اور امن وسلامتی کا گہوارہ بن جاتاہے اور ان سے بے اعتنائی اور ان کی پامالی کے نتیجے میں معاشرہ اور ماحول بے چینی، اضطراب اور انارکی کا شکار ہوجاتا ہے۔قرآن کریم نے بھی ان اخلاق و آداب کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور سنت مطہرہ کے دواوین بھی ان کی توضیح و تشریح سے بھرے پڑے ہیں۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پوری کی پوری زندگیاں ان آداب واخلاق کے عملی نمونوں کی روشن اور شاندار مثالیں ہیں۔
سلام کو عام کرنا:
ان آداب میں سے ایک بہت ہی مہتم بالشان ادب اور اسلام کا انسانیت کو دیا ہوا انمول تحفہ آپسی ملاقات کے وقت سلام کرنا ہے۔قرآن کریم نے بڑے لطیف پیرایہ اور پر شکوہ الفاظ میں سلام کے آداب کو بیان فرمایا ہے، ارشاد باری ہے: ﴿وَإِذَا حُیِّیتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ حَسِیبًا﴾ (سورہ النساء: 86).
اور جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس سے بھی بہتر طریقے سے سلام کرو یا (کم از کم) انہیں الفاظ میں اس کا جواب دے دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب رکھنے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ سے پہلے شفاعتِ حسنہ کی ترغیب اور شفاعت سیئہ کی مذمت بیان ہوئی ہے۔شفاعت حسنہ اخلاق کریمانہ کا ایک جزو ہے، اس سے مسلمان کی دلجوئی ہوتی ہے اور حقدار تک اس کا حق پہنچتا ہے۔ جب کہ شفاعت سیئہ میں نا انصافی اور دھوکہ دہی کا عنصر شامل ہے۔ ایک دوسروں کو سلام کرنا گویا کہ حق تعالیٰ کی جناب میں اس کے لیے سلامتی، رحمت اور برکت کی سفارش کرنا ہے۔ اسی مناسبت سے آپس میں سلام کو رواج دینے اور ایک دوسرے کو دعائیہ کلمات سے نوازے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔
علامہ عثمانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: کسی مسلمان کو سلام کرنا یا دعا دینا درحقیقت اللہ سے اس کی شفاعت کرنا ہے۔ تو حق تعالیٰ شفاعت حسنہ کی ایک خاص صورت کو جو مسلمانوں میں شائع ذائع ہے، صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ جب کوئی اے مسلمانو! تم کو دعا دے یا سلام کرے تو تم کو بھی اس کا جواب ضرور دینا چاہیے یا تو وہی کلمہ تم بھی اس کو کہو یا اس سے بہتر۔ مثلاً اگر کسی نے کہا السلام علیکم تو واجب ہے تم پر کہ اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہو اور زیادہ ثواب چاہو تو ورحمتہ اللہ بھی بڑھا دو اور اگر اس نے یہ لفظ بڑھایا ہو تو تم وبرکاتہ زیادہ کر دو۔ اللہ کے یہاں ہر ہر چیز کا حساب ہوگا اور اس کی جزا ملے گی سلام اور اس کا جواب بھی اس میں آگیا۔
فائدہ:اس سے شفاعت حسنہ کی پوری ترغیب ہوگئی اور شفاعت سیئہ کی خرابی اور مضرت معلوم ہوگئی۔ کیوں کہ جو شفاعت حسنہ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ ثواب دے گا اور جس کی شفاعت کی ہے اس پر اس کے ساتھ حسن سلوک اور مکافات کا حکم فرما دیا ،بخلاف شفاعت سیئہ کے کہ بجز معصیت اور محرومی کے کچھ نہ ملے گا۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے یہ بھی اشارہ ملا کہ لوگوں کے مقام ومرتبے اور معیارات کے لحاظ سے سلام کے اسلوب وانداز میں میں فرق پایا جاتا ہے۔ بڑوں اور بزرگوں کو سلام کرنے میں ان کے مقام ومرتبے کا اعتبار ضروری ہے۔ علما سے ملاقات کے وقت ان کی علمی رفعت وبلندی اور وقار کا خیال لابدی ہے، احبا و اصدقا کو سلام کرنے کا انداز دیگر ہوتا ہے اور عام لوگوں سے ملنے کا اس سے مختلف۔سلام کو رواج دینا باہمی رنجشوں، کدورتوں اور دوریوں سے گلوخلاصی پانے کا ایک بہترین اور سہل ترین طریقہ ہے۔
اجازت طلبی:
آداب معاشرت میں سے ایک اہم ادب ؛استیذان اور اجازت طلبی کا ادب ہے۔ اس میں بھی فرق مراتب اور موقع محل کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔سورہ نور میں بڑی تفصیل اور اہتمام کے ساتھ ان آداب کو بیان فرمایا گیا ہے اور شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ نے اپنے مختصر اور لطیف رسالے ”من أدب الأسلام ” میں بہت عمدہ انداز میں ان آداب کو ذکر فرمایا ہے، طلبہ کرام سے اسے زیر مطالعہ رکھنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔
دوستی اور رفاقت:
آداب واخلاق میں دوستی، رفاقت اور صحبت کے آداب کی رعایت بھی خوش گوار زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ دوست دوست کا آئینہ دار ہوتا ہے، دوست کی صفات کی جھلک اس کے دوست میں نظر آتی ہیں۔بل کہ آدمی کی پہچان اس کے ہمنشیں اور مصاحب سے ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” الرَّجُلُ عَلَی دِینِ خَلِیلِہِ فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلُ(الترمذی)
آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی کا معیار بہت ہی واضح اور واشگاف الفاظ میں بیان فرمادیا:
عنْ أَبی سعیدٍ الخُدْرِیِّ، عن النبیِّ ﷺ قَالَ: لا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلا یَأْکُلْ طعَامَکَ إِلَّا تَقِیٌّ.(رواہ أَبُو داوٴد والترمذی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم صرف مومن کو اپنا مصاحب اور دوست بناؤاور تمہارا کھانا صرف پرہیزگار شخص ہی کھائے۔
دوست کیسا ہو؟:
دوستی اور رفاقت کا معیار اولین ایمان اور تقویٰ سے متصف ہونا ہے تاکہ ایمان اور تقویٰ کی پاکیزہ صفات اس کی طرف بھی سرایت کریں۔
سچے اور مخلص دوستوں کے اخلاق اور اوصاف یہ ہونے چاہیے کہ جب ایک دوسرے سے ملیں تو خوشی، مسرت اور بشاشت کے آثار چہروں پر ہویدا ہوں۔سلام اور مصافحہ سے استقبال ہو، گفتگو ہو تو انتہائی خوب صورت، سلجھی ہوئی، تکلف سے کوسوں دور، ایک دوسرے کی بات کو ہمہ تن گوش ہوکر سنیں، کسی معاملے میں اختلاف ہوجائے تو آدابِ اختلاف کی پوری رعایت کریں، رازوں کی پاسداری کریں، امانت کی نگہداشت کریں، خیانت سے اجتناب کریں، کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں، محبت میں خلوص اور للہیت ہو، خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہوں، عیب جوئی اور عیب گوئی سے سے دوری اختیار کریں، عذروں کو قبول کریں، جو معاملہ ایک دوسرے سے پوشیدہ رکھا جائے تو اس کے بارے میں سوال نہ کریں، دوران گفتگو کسی کی بات نہ کاٹی جائے، ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش ہو، ایذا رسانی سے بچتا ہو، علمی مزاج اور دینی مذاق کے حامل ہوں، نکتوں اور لطیفوں کا تبادلہ خیال ہو، ظرافت، خوش طبعی اور بذلہ سنجی سے متحلی ہو، عیبوں کی پردہ پوشی ہو، لغزشوں کی معافی ہو، ایک دوسرے کے عیوب کو ناصحانہ انداز میں دور کرنے کے لیے کوشاں رہیں، دوست کی عدم موجودگی میں اس کی عزت وآبروکی حفاظت کی جائے، اس کی غیبت نہ کی جائے نہ سنی جائے، خوشی اور مسرت کے مواقع پر اس کومقدم اور شریک کار رکھا جائے اورغمی کے مواقع پر اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کی جائے، اس کی تسلی اور دلجوئی کا سامان مہیا کیا جائے، دوستی اور محبت؛ خالص اللہ کی رضاجوئی کی خاطر ہواور مفاد پرستی کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔
(جاری ………)