مولانا سلیمان اختر(استاذ جامعہ اکل کوا)
ایمانی صفات اور خصلتیں:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
”تم مومنین کو آپس میں رحم کا معاملہ کرنے،ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور آپس میں نرمی کے ساتھ پیش آنے میں ایسا پاوٴ گے؛ جیسا کہ بدن کا کوئی عضو درد کرتاہے تو بدن کے باقی اعضا بھی اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری اور بخار کے اس تعب دردمیں سارا جسم شریک رہتاہے۔“
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!گناہ(کی حقیقت)کیا ہے؟آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: جو چیز تمہارے سینے میں کھٹکے اس کو چھوڑ دو!(کیوں کہ یہ اس کے گناہ ہونے کی علامت ہے)،اس نے عرض کیا کہ پھر ایمان کی حقیقت کیا ہے؟آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو اپنی برائیوں سے غم اور صدمہ ہو اور اپنی نیکیوں کی وجہ سے خوشی اور فرحت ہو تو ایسا شخص موٴمن ہے۔
موٴمن جھوٹانہیں ہوسکتا:
حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا موٴمن بزدل ہوسکتاہے؟فرمایا:ہاں ہوسکتاہے۔
پھر عرض کیا گیا کہ کیا موٴمن بخیل ہوسکتاہے،فرمایا:ہاں ہوسکتاہے۔
پھر عرض کیا گیا کہ کیا موٴمن جھوٹا ہوسکتاہے؟فرمایا:نہیں موٴمن جھوٹانہیں ہوسکتا۔
حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:”ایمان یمنی ہے اور کفر(مدینہ کے)مشرق میں ہے۔عاجزی وانکساری بکریاں چرانے والوں میں ہے اورغرور گھوڑے اور اونٹ رکھنے والوں میں ہے۔
حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے!تم میں کوئی شخص بھی اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین ،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔“
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ:
تم میں کوئی شخص بھی اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
”ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کونسی خصلت سب سے بہتر ہے؟آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:(اسلام کی سب سے بہترین خصلت یہ ہے کہ)دوسروں کو کھانا کھلائے اور تم سلام کرو اس کو بھی، جس کو تم پہنچانتے ہو اور اس کو بھی جس کو تم نہیں پہچانتے ہو۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:”لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم!)کس کا اسلام سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ “
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا،جب تک کہ اس کی خواہشات اس دین کے تابع نہ ہو جائیں ،جس کو میں لیکر آیاہوں۔“
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
جو شخص اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور اللہ ہی کے لیے بغض وعداوت رکھے اور اللہ ہی کے لیے خرچ کرے تو اس نے یقینا اپنے ایمان کو کامل کیا۔
حضرت ابو ھریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان(کی تکلیف )سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،اور موٴمن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان اور اپنے مال کو مامون سمجھیں۔
”شعب الایمان“میں بیہقی نے حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں:
”اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت وعبادت میں اپنے نفس سے جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے تمام چھوٹے اور بڑے گناہوں کو ترک کردیا۔“
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاکہ:”ایمان کی اعلیٰ صفات کونسی ہیں؟“آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:”ایمان کی اعلیٰ صفات یہ ہیں کہ“تمہاری محبت بھی اللہ ہی کے لیے ہو اور بغض وعداوت بھی اللہ ہی کے لیے ہو۔اور تم اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھو۔“
انہوں نے پوچھا:اے اللہ کے رسول!”اس کے علاہ ایمان کی اور صفات“کیا ہیں؟آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو اور جس چیز کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے اس کو دوسروں کے لیے بھی نا پسند کرو۔
حدیث شریف میں ہے:
”ایسا موٴمن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتاہے، پھر ان کی طرف سے تکلیف پہنچنے پر صبر کرتاہے،یہ اس موٴمن سے افضل ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ میل رکھتاہے اور نہ ان کی تکلیف پر صبر کرتاہے۔
حدیث شریف میں ہے:
”موٴمن نہ تو بہت زیادہ طعنے دینے والا ہوتاہے،نہ بہت زیادہ لعنت و ملامت کرنے والا ہوتاہے اور نہ ہی بہت زیادہ بے ہودہ گوہوتاہے۔
حدیث شریف میں ہے:موٴمن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔
حدیث شریف میں ہے:جس شخص نے تین کاموں سے ناک بھوں نہ چڑھایا وہ (کامل)موٴمن ہے:
(۱)اہل وعیال کی خدمت کرنا۔
(۲)فقراء کے ساتھ بیٹھنا۔
(۳)اپنے خادم کے ساتھ ملکر کھانا۔
یہ افعال ان موٴمنین کی علامات ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جن کے وصف بیان فرمائے ہیں:
”اولئٰک ھم الموٴمنون حقا“۔یعنی یہی پکے موٴمن ہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
”ایک موٴمن دوسرے موٴمن کے لیے آئینہ کی طرح ہے اور موٴمن ،موٴمن کا بھائی ہے، اس پر اس کی جائے داد وغیرہ کو روک کررکھتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی حفاظت کرتاہے۔
احادیث شریفہ کا مطالبہ:
فائدہ: بتوفیقہ تعالیٰ گزشتہ سطور میں، جن مبارک احادیث کا ذکر آیاہے،ان میں ایسے اعمال کا بیان ہے، جو ایک موٴمن کے ایمان کو درجہٴ کمال تک پہنچانے میں نہایت موٴثر ہوتے ہیں۔
ایمان ایک ایسا جو ہر ہے، جو خود تو دل میں ایسے چھپا رہتاہے ؛جیسے پھول میں خوشبو ،مگر اس کی شادابی و رونق موٴمن کے بدن پر اس کا اثر ظاہری اعمال کی صورت میں پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہوتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان اعمال واخلاق کا آپس میں ایسا ربط خفی پیدا فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بھی نیک عمل پر استقامت کے ساتھ دوام اختیار کرلیتاہے اور اس عمل کو حسن وخوبی کے ساتھ انجام دینے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتا ،تو اس ایک عمل کی برکت سے دیگر اعمال کی ادائے گی نہایت سہل ہوجاتی ہے۔
مثلاً ایک حیا والے عمل کو ہی لے لیجیے!جب ایک موٴمن میں وہ وصف اوج ِکمال کو پہنچتاہے، تو اس کی برکت سے گناہوں سے بچنا نہایت آسان ہوجاتاہے۔حقوق العباد کی ادائیگی،لوگوں کی مال وجان،عزت وآبرو کی حفاظت،اہل وعیال اور ماتحتوں سے حسن سلوک کا اہتمام پیدا ہوجاتاہے۔
اگر اہل ایمان ان ایمانی تقاضوں پر پورا اتریں اور اپنے آپ کو ان اوصاف کا مظہر بنالیں تو پھر ہمارے معاشرے میں جو بددیانتی اور فساد کا تعفن بپا ہے،فحاشی اور عریانی کا جو سیلاب امنڈ رہاہے․․․لوٹ مار اور رشوت ستانی کا جو بازارگرم ہے ،اپنے پیٹ کا جہنم اور حرص وہوس کی آگ بجھانے کے لیے دوسروں کے اموال کو جو شیر مادر کی طرح ہضم کیا جارہاہے․․․کمزوروں پر ظلم وستم کے جو پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں؛الغرض ہر قسم کی برائیاں خواہ وہ عبادت میں کوتاہی کی صورت میں ہوں یا معاملات میں،اخلاقی ہوں یا معاشرتی،ایک دم سے کافور ہوجائیں گی۔
اللہ کرے ہر موٴمن اپنے مرتبہ ومقام کی لاج رکھتے ہوئے، اپنی صورت وسیرت کی تعمیر منشا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کرنے میں مستعد ہوجائے۔
ایمانی اوصاف حاصل کرنے کا طریقہ:
یہاں یہ بات ذکر کردینا مناسب ہے کہ مذکورہ بالااحادیث میں وارد ایمانی خصلتیں دو طرح کی ہیں۔
بعض ایسی خصلتیں ہیں جو غیر اختیاری ہیں، ان کے پیدا کرنے میں بندے کے کسی فعل کو دخل نہیں ہے۔ جیسے: رقیق القلب(نرم دل)ہونا،حیا دار ہونا وغیرہ وغیرہ۔
اور بعض ایمانی خصلتیں ایسی ہیں جن کا حاصل کرنا بندے کے اختیار میں ہے، بندہ اپنے ارادہ و عمل کے ذریعے ان صفات سے آراستہ ہوسکتاہے؛ جیسے اپنے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچانا،حرص و طمع چھوڑ دینا،لعنت وملامت سے باز رہناوغیرہ وغیرہ․․․۔
اگر ایمان پر محنت کو جاری رکھا جائے اور ان اعمال کو بجالانے کے ساتھ ،جن کا ذکر پچھلے ابواب میں ہوچکا ہے، اگر ایمان کو تروتازہ رکھنے کی کوشش کی جائے تو پہلی قسم کی خصلتیں بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔
دوسری قسم کی خصلتوں کے حاصل کرنے کے لیے اپنے اختیار وہمت سے کام لیتے ہوئے،ایک ایک خصلت پر جہد ِمسلسل کی ضرورت ہے ،جب کسی ایک خصلت میں رسوخ ہوجائے اور اس کا بے تکلف صدور ہونے لگے تو دوسرے وصف کو لیکر اسی طرح محنت کرے؛چند دنوں کی محنت میں ایک کامل موٴمن بن جائیں گے،اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ شخصیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ِنظر امتی کی صورت میں ثمربار ہوگی۔
ایسے حضرات جو اپنے اندر محنت ومشقت اور اپنے نفس کی خواہشات کو پامال کرنے کی ہمت نہیں رکھتے،ان کے لیے سہل ترین اور کیمیا اثر تدبیر یہ ہے کہ وہ ایسے اہل اللہ ،خاصانِ خدا کی صحبت و معیت کو لازم پکڑلیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ان خصائل ایمانیہ سے متصف فرمایا ہے، رفتہ رفتہ ان حضرات کے عالی اخلاق غیر شعوری طور پر ان کے ہم نشین کے قلب میں سمو نے لگیں گے،ان کی برکت سے نہ صرف نفس کی مخالفت آسان ہوجاتی ہے؛ بل کہ خواہشات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں ایک گونہ لذت حاصل ہو جاتی ہے۔