ہذہ أخلاقنا     ہمارے اخلاق اور آداب    

                                                                                  ۲۱/ ویں قسط:

ترجمانی : مولانا الطاف حسین اشاعتی# /استاذ جامعہ اکل کوا

اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق:

            اس سلسلہٴ کلام کی سابقہ قسط میں آپ کے سامنے غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں کچھ تمہیدی باتیں پیش کی گئی تھیں، اس قسط میں ان شاء اللہ اختصار کے ساتھ اسے آگے بڑھا کر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

            سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ اسلام دنیا سے غیر مسلموں کو ختم کرنا نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ مشیت ِخداوندی کا تقاضا ہے۔ ہر زمانے میں اہل ِاسلام کے ساتھ غیر مسلم ان کے ملکوں میں بڑے امن و سکون اور جان و مال کے مکمل تحفظ کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں۔ اسلام حکمت و رافت اور نرمی و شفقت کے ساتھ ہر جگہ ہر زمانے میں توحید ِخالص اور دین ِبرحق کی دعوت ضرور دیتا رہا ہے اور آج بھی دے رہا ہے، مگر کسی غیر مسلم کو زبردستی تلوار کے زور پر، بندوق کی نوک پر اسلام میں داخل کرنے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں،اور اسلام کا دامن اس طرح کے اکراہ و اجبار سے پاک ہے۔

             قرآن کریم نے صاف صاف اعلان کردیا ہے:

            ﴿ لَااِکرَاہَ فِی الدِّینِ، قَد تَّبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ﴾

(البقرة:256)

            ترجمہ: ”دین میں زبردستی نہیں،ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔“

            قرآن ِکریم نے نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار ایک مبلغ اور داعی بنا کر پیش کیا ہے اور کئی مقامات پر یہ اعلان کیا ہے کہ آپ علیہ السلام ان پر مسلط نہیں کیے گئے کہ زبردستی ان لوگوں کو گریبان سے پکڑ کر دائرہٴ اسلام میں داخل کریں۔ جو چاہے اسلام قبول کرے،اور جو چاہے کفر پر برقرار رہے، تمہارے ذمے صاف صاف پیغام پہنچا دینا ہے۔

            الغرض ! اسلام اپنے متوازن اور معتدل عقائد ضرور پیش کرتا ہے ،لیکن کسی کو ان عقائد کے قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا، اس لئے کہ تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھنے والا مسلمان نہیں؛ بل کہ منافق ہوتا ہے اور اسلام کی نظر میں منافقت سب سے غلیظ اور بدبودار چیز ہے۔

            قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے آمادہ جنگ نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی سازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیر خواہی، مروت، حسن ِسلوک، رواداری اور محسنانہ برتاؤ کی تلقین ہے۔ ارشاد ربانی ہے:﴿ لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾۔

(الممتحنة:8)

            ترجمہ:” اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا، جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، اللہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔“

            اسلام میں پڑوسی کے حقوق کی ادائیگی کی بہت تاکید آئی ہے۔ یہ پڑوسی غیر مسلم ہو تب بھی اس کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے، اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے پر سخت وعید ہے۔

            مسلمانوں کو حکم ہے کہ ان کے ساتھ نرمی، مہربانی اور رحمت و شفقت کا معاملہ کریں۔ ان کے ساتھ سختی، درشتی اور غیض و غضب کا برتاؤ کرنے سے بچیں۔

            اسلام نے جن پانچ چیزوں کے تحفظ کے تاکیدی احکام دیے ہیں اور انہیں مقاصد ِشریعت میں شمار کیا ہے -یعنی دین، نفس، عزت و آبرو، مال اور عقل کی حفاظت و نگہداشت – ان میں غیر مسلموں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا ہے۔ غیر مسلم کو اپنے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی اجازت ہے، ناحق اسے قتل کرنا جائز نہیں، اس کا مال دبا لینا بالکل ناروا ہے، اس کی عزت و حرمت کی پاسداری لازم ہے۔

            اللہ رب العزت قرآن ِکریم میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

            ﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا

(بنی إسرائیل:70)

            ترجمہ:” اور ہم نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔“

            اس آیت ِکریمہ میں تمام انسان شامل ہیں، خواہ وہ دائرہٴ اسلام میں داخل ہوں یا دائرہ اسلام سے خارج ہوں، ہر ایک مکرم اور محترم ہے، ہر ایک کی عزت نفس کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے اور بلاوجہ کسی کی اہانت اور ہتک ِعزت بہت بڑا گناہ اور زمین میں فساد مچانا ہے۔

            صلح ِحدیبیہ کے زمانے میں حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی والدہ حالت ِشرک میں ان کے پاس مدینہ آئیں، حضرت اسما رضی اللہ عنہا نے آپ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ:

            ”إِنَّ أُمِّی قَدِمَتْ وَہْیَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُ أُمِّی

             میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور وہ مجھ سے صلہ رحمی اور حسن ِسلوک کی متمنی ہیں، کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کر سکتی ہوں؟

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” نَعَمْ صِلِی أُمَّکِ“۔

(مسلم)

            ”ہاں! اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرو۔“

            اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ غیر مسلم رشتے داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور محسنانہ برتاؤ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں شامل ہے۔

            ایک حدیث میں آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے:

            ” مَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا لَمْ یَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِیحَہَا لَیُوجَد مِنْ مَسِیرَةِ أَرْبَعِینَ عَامًا“۔

(بخاری)

            ”جس نے کسی معاہد (جو مسلم ملک میں ایگری مینٹ کرکے رہ رہا ہو) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگے گا، جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے۔“

            ان آیات اور احادیث کی روشنی میں آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہوگی کہ اسلام میں بے ضرر کفارکے ساتھ رواداری اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا کس قدر پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔

            لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ اعلیٰ اسلامی اخلاق سے پیش آئے، اپنے قول و فعل سے انہیں تکلیف نہ دے، ہر طرح کی ایذا رسانی سے انہیں بچائے رکھے، ان کے ہدایت اور راہ ِراست پر لانے کی کوشش کرے، بوقت ضرورت ان کی حاجت براری کرے، ان میں سے جو کمزور اور لاچار ہوں ان کی مدد کرے، بھوکوں کو کھانا کھلائے، پریشان حال لوگوں کی داد رسی کرے، ان کے فقرا و مساکین کی طرف بھی صدقات نافلہ وغیرہ کے ذریعے دست تعاون بڑھائے، ان کی خبر گیری،مزاج پرسی اور تعزیت کرے۔ بعض علما نے ان کی تعزیت کے لئے یہ الفاظ لکھے ہیں: ”أَخْلَفَ اللہُ عَلَیْک خَیْرًا مِنْہُ، وَأَصْلَحَک“۔

(الرد علی الدر)

             اللہ تمہیں اس سے بہترین بدل عطا فرمائے اور تمہاری اصلاح فرمائے۔

            اس طرح ایک مسلمان غیر مسلموں کے تئیں اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق کی ادائیگی بھی کرسکتا ہے اور بڑی خاموشی اور حکمت کے ساتھ اپنے اخلاق کے ذریعے اپنے پاکیزہ دین کی دعوت بھی پیش کرسکتا ہے۔

            یہاں یہ بات ملحوظ بھی رہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کرنے میں مداہنت کا شکار ہونا، ان کے مشرکانہ اعمال میں شریک ہونا، ان سے دلی محبت کا تعلق رکھنا، ان کے ساتھ محسنانہ برتاؤ کرنے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو زک پہنچانا قطعًا جائز نہیں، بل کہ ہر حال میں اسلامی حدود کی پاسداری ضروری ہے۔

            اللہ رب العزت ہم سب کو سمجھنے اور عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔(جاری……)