ابوعالیہ نازقاسمیؔ، مدہوبنی/جامعہ اکل کوا
اپنی کہانی اپنی ہی زبانی:
’’اپنابیان حسنِ طبیعت نہیںمجھے‘‘
لیکن جناب!میںبھی کیاکروں؟میرے ساتھ کچھ ایسی مجبوری ہے کہ ’’ بن کہے کچھ رہابھی نہیںجاتا‘‘ ۔ لوگ ہیںکہ وہ میری عظمت کوسلام ہی نہیںکرتے،میری قدرجانتے نہیںیاجانتے ہیںتوپھرمانتے نہیں۔اِس لیے مجھے اپنا تعارف کرانا ضروری معلوم ہوتاہے ۔تولیجیے پیش خدمت ہے :
اللہ جل شانہ نے جن چارچیزوںکواپنے دستِ مبارک سے پیداکیاہے،اُس میںمیںبھی شامل ہوں۔ جب بلدالامین میںصادق الامین کی ذاتِ بابرکات پرروح الامین کی معرفت خالق الامین نے پہلی وحی کانزول کیا تو وہاںبھی میری عظمتِ شان کے ترانے { اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ}کے الفاظ میں گائے گئے ۔میرے نام سے قرآن پاک میںرب رحمن نے ایک مکمل سورت نازل فرمائی ہے ۔میںنے آخری کتاب؛ قرآنِ مقدس میں چار مقامات پرواحدوجمع کی شکل میں رہتی دنیاتک کے لیے جگہ پائی ہے ۔اب ہوسکتاہے کہ آپ کے دل میںمجھ سے ملاقات کی آرزوشدت سے پیدا ہورہی ہوگی،ملنے کی تمنااور بے تابی آپ کوماہیٔ بے آب کررہی ہوگی۔ آپ کومجھ سے ملنے میں پریشانی بھی ہوسکتی ہے اور میںکسی کوپریشان ہوتے دیکھنا نہیںچاہتا،اِس لیے میںخودہی اپنا پتا بتلا دیتا ہوں کہ درمیانِ آسمان وزمین مجھ سے۳۰؍ وادیوں میں کہاں کہاں ملاقات ہوسکتی ہے؟آپ اپنی آسانی اور راحت کے لیے سب سے پہلی فرصت میں میراپتانوٹ کر لیجیے:
میرامستقل پتا:
(۱)ن وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ۔(سورۃالقلم:۱)(۲) اَلَّذِیْ عَلَّمَ بِالَْقَلَمِ۔(سورۃالعلق:۴) (۳) اِذْ یُلْقَُوْنَ اَقْلَامَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ۔(سورۃآل عمران:۴۴)(۴)وَلَوْاَنَّ مَافِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ۔(سورۃ لقمان: ۲۷)
اب آپ کی بھلائی اِسی میںہے کہ اِن مذکورہ چارمقامات کے علاوہ مجھے کہیںبھی تلاش کرنے کی فضول اوربے کار کوشش نہ کریں،ورنہ توکام یابی دورسے سلام پیش کرے گی اورناکامی ونامرادی آگے بڑھ کر آپ کا پُرتپاک استقبال کرے گی۔میںازراہِ خیرخواہی اورہمدردی آپ کوپہلے سے آگاہ کررہاہوں۔ورنہ تواِس مطلبی دنیا میںکون کسی کوپوچھتاہے ؟یہاںتوہرکوئی اپنے مطلب کایاریاپھردل کابیمارنظرآتاہے ۔اِس لیے اگربعدکی شاہ راہِ زندگی میںکہیں ٹھوکر لگے تو ’’پھرنہ کہناکہ خبرنہ ہوئی‘‘ ۔
اللہ کی بڑی نعمت:
میںوہی ہوںجس کے بارے میںحضرت قتادہؒ نے فرمایاکہ قلم اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔اگریہ نہ ہوتاتونہ کوئی دین قائم رہتا،نہ دنیاکے کاروباردرست ہوتے ۔اور میں وہی ہوں جس کی ثنا خوانی کرتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کابہت بڑاکرم ہے کہ اُس نے اپنے بندوںکواُن چیزوںکاعلم دیا، جن کووہ نہیںجانتے تھے اوراُن کوجہل کی اندھیری سے نورِ علم کی طرف نکالااورعلمِ کتابت کی ترغیب دی،کیوںکہ اُس میںبے شماراوربڑے منافع ہیں،جن کااللہ کے سوا کوئی احاطہ نہیںکرسکتا۔تمام علوم وحِکَم کی تدوین اوراولین وآخرین کی تاریخ ،اُن کے حالات ومقالات اوراللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتابیں؛سب قلم ہی کے ذریعے لکھی گئیںاوررہتی دنیاتک باقی رہیںگی۔اگرقلم نہ ہوتو دنیاودین کے سارے ہی کام مختل ہوجائیں۔
(معارف القرآن :ج ۸/ص۷۸۶)
میری اہمیت کے ترانے گنگنانے والے:
٭میری اہمیت کا ترانہ عتابی اِس طرح گنگناتے ہیں:’’اَلْأَقْلَامُ مَطَایَاالْفَطَنِ‘‘یعنی قلم ذکاوت وفطانت کی سواری ہے۔٭ میری فضیلت ابن ابی داؤد ؒ کی زبانی سنتے چلیے۔ فرماتے ہیں:’’اَلْقَلَمُ سَفِیْرُالْعَقلِ وَ رَسُوْلُہٗ وَلِسَانُہٗ الْأَطْوَلُ وَتَرْجَمَانُہُ الأفْضَلُ‘‘یعنی قلم ؛عقل کا پیغام رساں،زبانِ گویااورکامیاب ترجمان ہے۔ ٭سنیے بقول طریح بن اسماعیل ثقفی میں وہ ہوں، جس سے عقل دانش کا پتا لگایا جاتاہے کہتے ہیں :’’عُقُوْلُ الرِّجَالِ تَحْتَ اَسْنَانِ أقْلَامِہَا‘‘یعنی باعظمت انسانوںکی عقل اُن کے قلم کے دندانوںسے وابستہ ہے۔ ٭عبدالحمید کہتے ہیں: ’’اَلْقَلَمُ شَجَرَۃٌ ؛ثَمْرُہَاالألْفَاظُ،وَالْفِکْرُبَحْرٌ؛لُؤلُؤۃُ الْحِکْمَۃُ ،وَفِیْہِ رَيُّ الْعُقُوْلِ الظَّمِیْئَۃِ‘‘یعنی قلم ایسادرخت ہے؛جس کاپھل الفاظ ہیں۔اورفکروہ دریاہے ؛جس کے موتی حکمت ودانائی اور تشنہ عقلوںکے لیے اس میں سامانِ سیرابی ہے۔٭میںہی ہوں، جس کے آنسو کسی کے مسکرانے کا سبب بنتے ہیں۔٭ عتابی کہتے ہیں:’’بِبُکَائِ الأقْلَامِ تَتَبَسَّمُ الْکُتُبُ‘‘یعنی قلم کے آنسوبہانے سے چہرۂ کاغذ پر فرحت وشادمانی کی لہردوڑجاتی ہے ۔(الفہرست لابن الندیم:ص۲۱)
اور میں ہی ہوں جو کسی کے رونے کا سبب بھی بن جاتا ہوں۔اِس لیے مجھ سے ذراسنبھل کراورسوچ سمجھ کر ہی ملاکیجیے گا تو عافیت میںرہیے گا۔
بڑے افسوس کی بات ہے:
علمائے سلف وخلف نے ہمیشہ تعلیمِ خط وکتابت کابڑااہتمام کیاہے،جس پراُن کی تصانیف کے عظیم الشان ذخائرآج تک شاہدہیں۔افسوس ہے کہ ہمارے اِس دورمیںعلماوطلبانے اِس اہم ضرورت کوایسا نظر انداز کیا ہے کہ سیکڑوںمیںدوچارآدمی مشکل سے تحریرِ کتابت کے جاننے والے نکلتے ہیں۔فالی اللّٰہ المشتکیٰ۔ (معارف القرآن :ج ۸/ص۷۸۶)
میرے تابندہ(اَنمٹ) نقوش:
میںنے اسلام وایمان کی بڑی خدمت کی ہے۔ بڑے بڑے انقلاب پیداکیے ہیں۔اِسی لیے ہر دور میں اقوامِ عالم نے میری عظمت کا لوہا مانا ہے اورہردل پرمیری عظمت کاپرچم لہرایاہواہے۔جنابِ عالی! اگریقین نہیںآتاتوتاریخ کاسینہ چیرکردیکھو؛ پسینہ چھوٹ جائے گا ۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ {قُلْ سِیْرُوْافِی الْاَرْضِ} پھربھی ابن بطّوطہ اورکولمبس کی طرح ساری دنیاکی خاک چھاننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ صرف سرزمینِ ہندستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تومعلوم ہوجائے گاکہ ارشادِرحمانی،اعلانِ ربانی اورآیتِ قرآنی کی زبانی {وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ } کافریضہ میںنے بہ حسن وخوبی نبھایاہے:
٭میںنے ۱۸۰۳ء میںشاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے ہاتھوں ’’ہندستان دارُالحرب ہے‘‘کافتویٰ قلمبند کرکے انگریزوںکی نخلِ تمناپربم گرایا،اہلِ وطن کے قلوبِ خوابیدہ میں آزادی کے حصول کا جذبہ بیدار کیا۔
٭میںنے۱۰۱۴ھ میں شیخِ سرہندحضرت مجددالفِ ثانیؒ کے دستِ اقدس سے مغل تاجدارجلال الدین اکبرکے قائم کردہ ’’دینِ الٰہی ‘‘ کوبے بنیادکیا۔
٭میںنے۱۲۸۰ھ میں امت کی دست گیری کے لیے’’اظہارالحق‘‘نام کی کتاب؛ بانی مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ مولانارحمت اللہؒ بن خلیل الرحمن کیرانویؒ کے ہاتھوںلکھ کرپادری فنڈر کے مشن’’تبلیغِ عیسائیت ‘‘پربریک لگایا۔
٭میںنے ۱۲؍ربیع الثانی۱۲۹۲ھ مطابق۷؍ مئی ۱۸۷۶ء کومولاناقاسم نانوتویؒ کے ذریعے’’ اِنتصار الاسلام‘‘ نامی کتاب لکھ کرچانداپور ضلع شاہجہان پورمیں پنڈت دیانندسرسوتی کو ذلت آمیزشکست کامزاچکھایا۔
٭میںنے ۱۸۸۰ء میںاُس وقت ؛جب کہ انگریزوںکی پیداوارجھوٹی نبوت کادعویدارسرزمینِ قادیان (پنجاب) سے غلام احمدقادیانی کی شکل میں نمودارہوا۔خودکومسیحِ موعودبتایا،کبھی مہدی بتلایا،کبھی انبیا سے افضل ہونے کا ڈھونگ رچایااورکبھی خودکومریم بنایا۔(قارئین ہنسیے گانہیں،کیوںکہ آپ کے پاس ہنسنے کا لائسنس نہیںہے ۔)کسی مریدنے کہاکہ مرزاصاحب! مریم توایک عورت تھی اوراُس کوہرمہینے ۔۔۔۔آتاتھا،توکہنے لگا کہ کبھی کبھی مجھے بھی آجاتاہے ۔بہرحال میںنے اُسے بھی نہیںبخشااوراُس کی جھوٹی نبوت کاپردہ چاک کیا۔
٭میںنے ۱۹۱۱ء میںبہارکے فتنۂ قادیانیت کے ارتداد کوخانقاہ رحمانی مونگیرمیںمولانامحمدعلی مونگیریؒ کے ہاتھوں’’تحفۂ رحمانی‘‘کی شکل میں دھول چٹائی۔
٭میںنے ہی۸،۹؍رمضان المبارک۱۳۳۴ھ مطابق۹،۱۰؍ جولائی ۱۹۱۶ء کو شیخ الہندمولانامحمودالحسن دیوبندیؒ کے ہاتھوں ’’تحریک ریشمی رومال ‘‘ چلایا۔اگریہ تحریک کام یاب ہوجاتی توملک کی قسمت کاپانسہ ہی پلٹ جاتااور ہندستان کی قسمت کانقشہ ہی کچھ اورہوتا۔
٭میںنے اقوامِ عالم کے درمیان سیکڑوں علوم وفنون پرکتابیں لکھ کرعلم کی روشنی کودنیامیں پھیلایا، جہالت کی دیوی کوبھگایا،کتب خانوںکوسجایا،قوموں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا، اُن کی قسمت کوچمکایااورثریٰ سے ثریا پرپہنچایا۔
میری گودمیںپلے ہوئے:
میںنے انگنت اُدبااوراتنے اہل قلم پیداکیے ہیں،جن کاشمار’’لاتعد ولاتحصیٰ‘‘ کے ضمن میں آتا ہے، جنھوںنے امت کواورکتب خانوںکوعظیم الشان سرمایہ فراہم کیا ہے۔میںآپ کی معلومات کے لیے مختصر طور پر چند ہستیوںسے ملاقات کرا دینا ضروری سمجھتاہوں،اِس لیے دل تھام کراُن سے مل ـلیجیے تاکہ کبھی شکایت کا موقع نہ رہے۔حکیم الامت حضرت تھانویؒ،مولانااحمدرضاخان بریلوی،مجنوںگورکھ پوری،بیدَل رام پوری،سالک دھام پوری،شیمہ رضوی ، شورش کاشمیری، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا حسین آزادؔ،مولانا مناظر احسن گیلانی، حسرت موہانیؔ، مولاناشبلی نعمانی، عشرت رحمانی،شمیم کرہانی،عندلیب شادانیؔ، مخفی کہستانی،مولاناخالدسیف اللہ رحمانیؔ، پروفیسر اختر شیرانی،حیدربیابانی، مولانامحمدولی رحمانی، حیرت بدایونیؔ،خواجہ حسن نظامی، خوشترگرامی،ساغرنظامی،منشی پریم چند، علامہ راشد الخیری،ؔ عبد الحلیم شررؔ لکھنوی، خدیجہ مستور، کنہیالال کپورؔ،ہاجرہ مسرور،راجندر سنگھ بیدیؔ، قرۃ العین حیدر، تسنیم سلیم چھتاری، پنڈت برج نارائن چکبستؔ، مولانا عبد الماجددریا بادیؒ، مولاناعلی میاں ندویؒ، رگھوپتی سہائے عرف فراق گورکھپوری،ابو الخیال فرضیؔ، عبادت بریلوی، رام پرکاش راہی،مفتی شعیب اللہ خا ن مفتاحیؔ، گوپی چند نارنگ، رشید حسن خاں،کلیم احمد عاجزؔ،مولانا نور عالم خلیل امینی، ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی اورمولاناحذیفہ وستانویؔ وغیرہم ۔
تلواراورقلم کارشتہ:
تلواراورقلم کارشتہ بھی صدیوںپرانا؛لیکن سوکن جیساہے ۔دونوںہی نے اپنے جوہرزمانے کودکھائے اور اپنی فتح ونصرت کے پرچم لہرائے ہیں۔قلم کامقام بھی اپنی جگہ مسلَّم ہے،اِس سے انکارنہیںکیاجاسکتا۔جیساکہ ایک عربی شاعرابوالحاتم بستیؒ نے اِس کااظہارکیاہے۔’’کہ جب قسم کھائیں بہادرلوگ کسی دن اپنی تلوارکی او ر اُس کو شمار کریںاُن چیزوںمیں،جوانسان کوعزت وشرف بخشتی ہیں،توکافی ہیـ لکھنے والوںکاقلم اُن کی عزت وبرتری کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے کیوںکہ اللہ نے قسم کھائی ہے قلم کی‘‘۔(معارف القرآن :ج ۸/ص:۵۳۱)
تلوارنے اگرکسی ملک کوزیرِ اثرکیاہے تومیںنے دل کی دنیاکوزیروزبرکیاہے ۔ اگر تلوارنے دستِ جلاد میں جا کرکسی کی گردن اڑائی ہے تومیںنے منصِف اورجج کے ہاتھوںمیںپہنچ کرگردن بچائی ہے ،اِس لیے اب بات سمجھ میںآئی ہے کہ میری عظمت میںاونچائی ہے۔
اگرمیںپھسل گیا:
قارئین:رخصتی سے پہلے میری ایک نصیحت بھی پلّے باندھ لیجیے گاکہ دنیامیںتین چیزیںایسی ہیں،جنھیں بہت سوچ سمجھ کر اٹھاناچاہیے ، اُن میںسے ایک میرانام بھی شامل ہے۔یادوسرے لفظوںمیں؛میرانام بھی بدنام ہے ۔کیوںکہ اگرمیںپھسل گیاتو’’حق بہ حق دار رسید‘‘ کا جنازہ نکل سکتا ہے اور انصاف کی جگہ ظلم وناانصافی کا بازار بھی گرم ہوسکتاہے ۔اس لیے اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے؟
ایک رازکی بات:
اب میں اپنی کہانی سناتے سناتے تھک چکاہوںاورمیںمحسوس کررہاہوںکہ آپ بھی اُکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں،اِس لیے آپ سے رخصت ہوناچاہتاہوں۔لیکن چلتے چلتے آج میںآپ کوایک ایسی رازکی بات بتا دیتا ہوں،جواَب تک کسی کومعلوم نہیںہے۔مہربانی کرکے کسی کوبتلائیے گا نہیں۔وہ راز یہ ہے کہ کبھی کبھی میں ہاسپیٹل اور نرسنگ ہوم میںپہنچ کر علاج شروع ہونے سے پہـلے ہی ڈاکٹروں کے ہاتھوں دستخط کرکے ایڈوانس میں قبرستان کاٹکٹ بھی بُک کروادیتاہوں۔