سوال: میں پلمبر ہوں، اور یہ کام کرتے ہوئے سو لیشن میرے ہاتھوں پر لگ جاتا ہے، اور اس کو نکلنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے ، یعنی دو سے تین نمازوں کا وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ ہاتھوں پر ـلگا رہتا ہے ، اور اس کی تہہ جمی رہتی ہے ، جس کی وجہ سے وضو کا پانی چمڑی تک نہیں پہنچ پاتا ، اس لیے سوال یہ ہے کہ میرا وضو صحیح ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ اگر وضو صحیح ہو جاتا ہے، اور میری نماز ہوجاتی ہے، تو کیا میں امامت کرسکتاہوں؟ اورمیرے پیچھے لوگوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق : ہاتھوں پر لگا ہوا سولیشن اگر چاقو وغیرہ آلات کے بغیر آسانی سے چھڑایا جا سکتا ہے، تو اسے چھڑا ئے بغیر وضو کرنا، نماز پڑھنا اور امامت کرناصحیح نہیں ہے(۱)، اور اگر اسے چاقووغیرہ کے بغیر،بلامشقت زائل کرنا ممکن نہیں ہے ، تو پھر حرج کی وجہ سے اسے چھڑائے بغیر وضو کرنا، نماز پڑھنا اورامامت کرنا صحیح و درست ہے۔ (۲ )
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الفتاوی التاتار خانیۃ ‘‘ : الغسل إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن غسلہ من بدنہ مرۃ واحدۃ ، حتی لو ترک شیئًا یسیرًا لم یصبہ الماء لم یخرج من الجنابۃ ، وکذا في الوضوء ۔ (۱/۸۱ ، کتاب الطہارۃ ، الفصل الثالث في الغسل ، بدائع الصنائع : ۱/۲۶۷ ، کتاب الطہارۃ ، فصل في أحکام الغسل)
ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ‘‘ : ولا بد من زوال ما یمنع وصول الماء للجسد کشمع وعجین ۔ (ص/۱۰۲ ، کتاب الطہارۃ ، فصل لبیان فرائض الغسل)
ما في ’’ تنویر الأبصار مع الدر والرد ‘‘ : (ویجب) أي یفرض (غسل) کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ ۔
(۱/۲۸۵ ، کتاب الطہارۃ ، الباب الثاني في الغسل)
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والصرام والصباغ ما في ظفرہما یمنع تمام الا غتسال ، وقیل کل ذلک یجزیہم للحرج والضرورۃ ، ومواضع الضرورۃ مستثناۃ عن قواعد الشرع ۔ کذا في الظہیریۃ ۔
(۱/۱۳، کتاب الطہارۃ ، الباب الثاني في الغسل ، الفصل الأول فيفرائضہ ، الفتاوی التاتارخانیۃ :۱/۸۴ ، کتاب الطہارۃ ، الفصل الثالث في الغسل)
(مستفاد فتاوی فریدیہ : دارالعلوم حقانیۃ ، اکواڑہ ، خٹک: ۲/۵۲) فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد : محمد جعفرملی رحمانی (فتویٰ نمبر :۹۱۸)