حضرت مولاناسید عاقل صاحب سہارن پوری
(رحمۃ اللہ علیہ)
ناظم وشیخ الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور
مولاناسید محمد عاقل صاحب سہارنپوریؒ
رئیس الاساتذہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور
والد محترم مولانا الحاج حکیم محمد ایوب صاحبؒ ہیں۔ ۹؍ شعبان ۱۳۵۹ھ-۱۵؍ اکتوبر۱۹۳۷ء شب پنجشنبہ سہارنپور میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ خاندانی دستور کے مطابق قرآنِ پاک سہارنپور کی جامع مسجد میں حفظ کیا۔
آغازِ حفظ کی تاریخ ۲۳؍ صفر۱۳۶۶ھ (جنوری ۱۹۴۷ء) اور اختتام حفظ کی تاریخ ۹؍ ذی الحجہ۱۳۶۹ھ (۱۸؍ اکتوبر ۱۹۵۰ء) ہے۔
تکمیلِ حفظ کے بعد سب سے پہلی محراب ۱۳۷۲ھ میں اپنی مسجد موسومہ’’ مسجد ِحکیمان‘‘ میں سنائی، اس کے بعد مظاہر علوم میں داخلہ لیا۔ اور اول سے اخیر تک تمام تعلیم یہاں رہ کر حاصل کی۔ مظاہر علوم سے موصوف کی فراغت ۱۳۸۰ھ میں ہوئی۔
دورۂ حدیث کے اساتذہ مع تعیین کتب یہ تھے: بخاری شریف از حضرت شیخ ؒ، مسلم از مولانا منظور احمد خاں صاحب، ابوداؤد از حضرت مولانا محمد اسعد اللہ صاحبؒ، ترمذی و نسائی از مولانا امیر احمد صاحب کاندھلویؒ۔
مولانا محمد یونس صاحب جونپوری ؒ،مولانا شجاع الدین صاحب حیدر آبادی، مولانا اجتباء الحسن صاحب کاندھلوی، آپ کے دورۂ حدیث کے رفقاء ہیں۔
۱۳۸۱ھ میں فنون کی یہ کتا بیں آپ نے پڑھیں۔ اقلیدس، صدرا، رسم المفتی، در مختار، توضیح تلویح، مطول، شمس ِبازغہ، خلاصۃ الحساب، مسلم الثبوت۔
فنون کی جماعت میں آپ اول نمبر سے کامیاب ہوئے، جس پر آپ کو متعددکتابیں انعام میں دی گئیں۔
قوتِ مطالعہ، ذہانت و فطانت اور بلند پایہ علمی استعداد کی وجہ سے طلبہ ابتدا سے ہی مولانا سے متاثر تھے، چناں چہ جس زمانہ میں مظاہر علوم میں پڑھ رہے تھے اور وہاں کے اسا تذہ سے تحصیلِ علم میں مشغول تھے تو طلبہ مظاہر علوم کی جماعت نے اپنے طور پر ناظمِ مدرسہ سے درخواست کی تھی کہ!
’’ہم مولا نا عاقل صاحب سے باقاعدہ ہدیہ سعید یہ پڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘
طلبہ کی جانب سے ایک طالب علم کے حق میں اس قسم کی درخواست اس علمی خانوادہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا منفر د واقعہ ہے۔
حضرت شیخ ؒنے اپنے روز نامچہ میں اس واقعہ کو تحریر فرماتے ہوئے آخری سطور میں لکھا ہے کہ!
’’یہ پہلا سبق ہے جو عزیز موصوف کے یہاں مدرسہ کی جانب سے شروع ہوا، حق تعالیٰ شانہ علوم میں برکت فرمائے اور ترقیات سے نوازے‘‘
۳۰؍جمادی الثانی۱۳۸۱ھ سے آپ مظاہر علوم میں بلا معاوضہ معین مدرس مقرر کیے گئے، ایک سال بعد ماہ شوال۱۳۸۲ھ میں با قاعدہ استاذ بنائے گئے، اس سے پہلے سال میں یہ کتابیں زیر درس رہیں: شرح تہذیب، نور الانوار۔
ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے شوال۱۳۸۶ ھ میں استاذِ حدیث بنائے گئے اور مشکوٰۃ شریف آپ کے حوالہ کی گئی۔۱۳۸۷ھ میں استاذِ دورۂ حدیث منتخب ہو کر پہلی مرتبہ ابوداؤد شریف پڑھائی۔ تادمِ تحریر کم و بیش چالیس سال سے ابوداؤد کا یہ درس آپ کے یہاں ہو رہا ہے۔(آپ نے ۵۹ ؍سال تادم حیات کتب احادیث پڑھائیں)اس عرصہ میں سینکڑوں طلبہ آپ سے اپنا علمی نسب اور رشتہ تلمذ استوار کر چکے ہیں۔
حضرت مولانا امیر احمد صاحب کاندھلوی رئیس الاساتذہ مدرسہ کے انتقال کے بعد مظاہر علوم کا عہدۂ صدارت خالی تھا۔ اس لیے ماہ ذیقعدہ ۱۳۹۰ھ میں مولانا محمد عاقل صاحب مجلس شوریٰ کی قرار داد کے بموجب مظاہر علوم کے رئیس الاساتذہ نامزد ہوئے۔ بیعت و اصلاح کا تعلق حضرت شیخ ؒسے تھا۔ آپ کو حضرت کی جانب سے اجازت بیعت وخلافت بھی حاصل ہے ۔
فراغت کے بعد حضرت شیخ ؒکے تصنیفی و تالیفی سلسلہ میں معاون بنے، مباحث و مضامین کا تتبع اور اس کا املا آپ کے ذمہ کیا ، اس معاونت و اعانت کی ابتدا ’’لامع الدراری‘‘ جلدثانی سے ہوئی، اس کے بعد فضائلِ درود شریف، جز حجۃ الوداع و عمرات النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الابواب والتراجم وغیرہ کتب لکھی گئی تو ان میں آپ کا علمی و قلمی تعاون حضرت شیخ کے شامل حال رہا۔
ہندوستان کے زمانۂ قیام میں گوناگوں مشاغل اور مصروفیتوں، نیز مدرسہ کی تعلیمی و درسی خدمات کی بنا پر الابواب والتراجم کی تکمیل میں چوں کہ تعویق و تاخیر ہورہی تھی۔ اس لیے تکمیلِ کتاب کی غرض سے دو مرتبہ مستقلاً حرمین شریفین کا سفر کیا۔ حضرت شیخ ؒکے دوسرے داماد مولانا محمد سلمان صاحب بھی اسی کتاب کی ترتیب و تالیف کے سلسلہ میں مولانا موصوف کے ساتھ مدینہ طیبہ گئے۔
ایک طویل عرصہ تک ان دونوں حضرات نے مدینہ منورہ قیام کر کے اس کتاب کو مکمل کیا۔
(ماخوذ از: علمائے مظاہر علوم سہارنپور اور ان کی علمی وتصنیفی خدمات)