’گناہ“اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی خلاف ورزی، احکامات کی عدم ِتعمیل کانام ہے،اللہ تعالیٰ کی ذات کبریائی کے سامنے توانسان کی ہرغلطی ہی بہت بڑی غلطی اورسنگین جرم ہے،گویاہرگناہ اپنی ذات کے لحاظ سے بڑاگناہ ہے،لیکن قرآن پاک اوراحادیث ِمبارکہ میں گناہوں پروعیداور ممانعت کے انداز میں تبدیلی کی بناپرگناہوں کی دوقسمیں ذکرکی گئی ہیں،صغیرہ اورکبیرہ۔صغیرہ اورکبیرہ گناہوں کی کوئی قطعی تعداد نہیں، مختلف احادیث کوسامنے رکھتے ہوئے علما نے مختلف تعداد ذکر کی ہے۔تعریف کی حد تک جس گناہ پرمجرم کے لیے رحمت سے دوری(لعنت)مذکورہو،وعیدسنائی گئی ہویاجس پرعذاب وسزایا حدکاذکرہووہ کبائرہیں ۔ اسی طرح جو گناہ جرأت و بیباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس گناہ پرمداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، خواہ اس پروعید، لعنت یا عذاب وسزا وارد نہ ہو۔
تفسیربیان القرآن میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”گناہ کبیرہ کی تعریف میں بہت اقوال ہیں جامع ترقول وہ ہے، جس کوروح المعانی میں شیخ الاسلام بازی سے نقل کیا گیاہے کہ جس گناہ پرکوئی وعید ہو یاحد ہو یا اس پر لعنت آئی ہو یا اس میں مفسدہ کسی ایسے گناہ کے برابر یا زیادہ ہو، جس پروعید یاحد یالعنت آئی ہو یاوہ براہ تہاون فی الدین صادر ہو وہ کبیرہ ہے اوراس کا مقابل صغیرہ ہے اور حدیثوں میں جو عددوارد ہے اس سے مقصود حصر نہیں، بلکہ مقتضائے وقت ان ہی کا ذکر ہوگا۔“
نیزمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے تفسیرمعارف القرآن میں مذکورہ مسئلہ پرتفصیلی کلام فرمایاہے ذیل میں وہ نقل کیاجاتاہے:
گناہوں کی دو قسمیں:
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں، کچھ کبیرہ، یعنی بڑے گناہ اورکچھ صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ۔اوریہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص ہمت کر کے کبیرہ گناہوں سے بچ جائے تواللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ان کے صغیرہ گناہوں کو وہ خود معاف فرما دیں گے۔کبیرہ گناہوں سے بچنے میں یہ بھی داخل ہے کہ تمام فرائض و واجبات کوادا کرے؛ کیوں کہ فرض و واجب کا ترک کرنا خودایک کبیرہ گناہ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ جو شخص اس کا اہتمام پورا کرے کہ تمام فرائض و واجبات ادا کرے اور تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لے، تو حق تعالی اس کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ کردیں گے۔
گناہ اور اس کی دو قسمیں صغائر، کبائر:
آیت میں کبائر کا لفظ آیا ہے، اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گناہ ِکبیرہ کسے کہتے ہیں؟ اوروہ کل کتنے ہیں؟ اورصغیرہ گناہ کی کیا تعریف ہے؟ اوراس کی تعداد کیا ہے؟علماء امت نے اس مسئلہ پرمختلف انداز میں مستقل کتابیں لکھی ہیں۔
گناہِ کبیرہ اورصغیرہ کی تقسیم اوران کی تعریفات سے پہلے یہ خوب سمجھ لیجیے کہ مطلق گناہ نام ہے ہر ایسے کام کا جو اللہ تعالی کے حکم اورمرضی کے خلاف ہو، اسی سے آپ کو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ یعنی چھوٹا کہا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی چھوٹا نہیں اللہ تعالی کی نافرمانی اوراس کی مرضی کی مخالفت ہر حالت میں نہایت سخت و شدید جرم ہے اوراس کی مرضی کی مخالفت کبیرہ ہی ہے،کبیرہ اورصغیرہ کا فرق صرف گناہوں کے باہمی مقابلہ اورموازنہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اسی معنی میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ:”کل مانھی عنه فھو کبیرة “یعنی جس کام سے شریعت اسلام میں منع کیا گیا ہے، وہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔
خلاصہ: یہ ہے کہ جس گناہ کو اصطلاح میں صغیرہ یا چھوٹا کہا جاتا ہے، اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں ہیں کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب میں غفلت یا سستی برتی جائے اوران کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جائے، بلکہ صغیرہ گناہ کو بیباکی اور بے پرواہی کے ساتھ کیا جائے، تو وہ صغیرہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔
البتہ گناہوں کے مفاسد اورنتائج بد اور مضر ثمرات کے اعتبار سے ان کے آپس میں فرق ضروری ہیں، اس فرق کی وجہ سے کسی گناہ کو کبیرہ اور کسی کو صغیرہ کہا جاتا ہے۔
گناہ کبیرہ:
گناہ کبیرہ کی تعریف قرآن و حدیث اور اقوال ِسلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پرلعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ ِکبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیر میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اورنتائجِ بدکسی کبیرہ گناہ کے برابریا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ صغیرہ جرأت و بیباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
ابن عباس کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی توآپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔
امام ابن حجر مکی نے اپنی کتاب ”الزواجر ”میں ان تمام گناہوں کی فہرست اورہرایک کی مکمل تشریح بیان فرمائی ہے ،جو مذکور الصدر تعریف کی رو سے کبائر میں داخل ہیں، ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چار سوسڑسٹھ تک پہنچی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بعض نے بڑے بڑے ابوابِ معصیت کو شمار کرنے پر اکتفا کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے بعض نے ان کی تفصیلات اورانواع واقسام کو پورا لکھا تو تعداد زیادہ ہوگئی، اس لیے یہ کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات میں بہت سے گناہوں کا کبیرہ ہونا بیان فرمایا اور حالات کی مناسبت سے کہیں تین، کہیں چھ، کہیں سات، کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے ہیں، اسی سے علماء امت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد میں انحصارکرنا مقصود نہیں، بلکہ مواقع اور حالات کے مناسب جتنا سمجھا گیا اتنا بیان کردیا گیا۔
بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں بھی جو سب سے بڑے ہیں تمہیں ان سے باخبر کرتا ہوں، وہ تین ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ساجھی ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔
اسی طرح بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا کہ:تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالاں کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے، پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ تو فرمایا کہ تم اپنے بچہ کو اس خطرہ سے مارڈالو کہ یہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا، تمہیں اس کو کھلانا پڑے گا، پھر پوچھاکہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایاکہ: اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرنا، بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور پڑوسی کے اہل وعیال کی حفاظت بھی چوں کہ اپنے اہل وعیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لیے یہ جرم دوگنا ہو گیا۔
صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی ماں باپ کو گالی دینے لگے؟ فرمایا کہ ہاں! جو شخص کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے اس کے نتیجہ میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو یہ بھی ایسا ہی ہے؛ جیسا کہ اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دی ہوں، کیوں کہ یہی ان گالیوں کا سبب بنا ہے۔
اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک اور قتلِ ناحق اور یتیم کا مال ناجائز طریق پر کھانے اور سود کی آمدنی کھانے اورمیدان جہاد سے بھاگنے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بیت اللہ کی بے حرمتی کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔
بعض روایات حدیث میں اس کو بھی کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی شخص دارالکفر سے ہجرت کرنے کے بعد پھر دارالہجرة کو چھوڑ کر دارالکفر میں دوبارہ چلا جائے۔
دوسری روایات حدیث میں ان صورتوں کو بھی گناہ ِکبیرہ کی فہرست میں داخل کیا گیا ہے، مثلاً: جھوٹی قسم کھانا، اپنی ضرورت سے زائد پانی کو روک رکھنا دوسرے ضرورت والوں کو نہ دینا، جادو سیکھنا، جادو کا عمل کرنا اور فرمایا کہ شراب پینا اکبر الکبائر ہے، اور فرمایا کہ شراب پینا ام الفواحش ہے، کیوں کہ شراب میں مست ہوکر آدمی ہر برے سے برا کام کر سکتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ: سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی پرایسے عیب لگائے ،جس سے اس کی آبرو ریزی ہوتی ہو۔
ایک حدیث میں ہے، جس شخص نے بغیر کسی عذر شرعی کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کردیا تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، مطلب یہ ہے کہ کسی نمازکو اپنے وقت میں نہ پڑھا، بلکہ قضاکرکے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا۔
بعض روایات حدیث میں ارشاد ہے کہ: اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے اوراس کے عذاب و سزا سے بے فکر و بے خوف ہو جانا بھی کبیرہ گناہ ہے۔
ایک روایات میں ہے کہ:وارث کو نقصان پہنچانے اوراس کا حصہ میراث کم کرنے کے لیے کوئی وصیت کرنا بھی کبائر میں سے ہے۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: رسول کریم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خائب و خاسر ہوئے اور تباہ ہو گئے اور تین دفعہ اس کلمہ کو دہرایا حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ محروم القسمتہ اورتباہ و برباد کون لوگ ہیں؟ توآپ نے جواب دیا: ایک وہ شخص جو تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند یا کرتہ اورعباء کو ٹخنے سے نیچے لٹکاتا ہے۔ دوسرے وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے احسان جتلائے۔ تیسرے وہ آدمی جو بوڑھا ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہو۔ چوتھے وہ آدمی جو بادشاہ یا افسر ہونے کے باوجود جھوٹ بولے۔ پانچویں وہ آدمی جو عیال دار ہونے کے باوجود تکبر کرے۔ چھٹے وہ آدمی جو کسی امام کے ہاتھ پر محض دنیا کی خاطر بیعت کرے۔
اور صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ: چغلی کھانے والا جنت میں نہ جائے گا۔
اور نسائی و مسند احمد وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ:چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے: شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا، جنات شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتانے والا، دیوث، یعنی اپنے اہل وعیال کو بے حیائی سے نہ روکنے والا۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ: اللہ تعالی کی لعنت ہے اس شخص پر جو کسی جانورکو اللہ کے سوا کسی کے لیے قربان کرے۔“(معارف القرآن، سورہ نساء، آیت:31۔ جلد:2 صفحہ:383 تا 387)
