گناہوں کا عادی ، خدا کا باغی

مولاناافتخار احمد قاسمیؔ بستویؔ؍استاذ جامعہ اکل کوا

            اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی گزرے ہیں، جن کا نام نامی حضرت ’’اغرّ مزنی ‘‘ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو، وہ صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنے کانوں سے سنا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ

             ’’ میرے دل پر بھی کبھی کبھی بادل سا چھا جاتاہے ،یہاں تک کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ عالی مقام میں ، میں بھی روزانہ سو بار استغفار کرتا ہوں۔ ‘‘

            بخاری شریف کے بعد سب سے معتبر حدیث کی کتاب مسلم شریف میںیہ حدیث وارد ہوئی ہے، جس کے الفاظ اس طرح ہیں : ’’ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : إنہ لیغان علی قلبي ، حتی استغفرا للہ فی الیوم مأۃ مرۃ ‘‘ مسلم شریف میں ’’ استحباب الاستغفار والاستکثارمنہ ‘‘ کاباب ہے۔ جس میں ’’ کتاب الذکر ‘‘ کے تحت ۲۷۰۲؍نمبر کی حدیث میں اللہ تعالیٰ کے سب سے آخری پیغمبر خاتم الرسل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں،جو گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں ۔ آپ کی ذات سے گناہوں کا صادر ہونا حد امکان سے بھی خارج ہے۔آپ ہی کے بارے میں کتاب الٰہی کا ارشاد ہے : ’’لیغفرلک اللّٰہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر‘‘ کہ اگر آپ سے کبھی کوئی بھول چوک ہوئی بھی تو آپ کے لیے پہلے ہی سے اللہ پاک کا ارشاد موجود ہے کہ اگلے پچھلے سب طرح کی بھول چوک کے معاملے ہماری طرف سے معاف ہیں ۔ ایسی برگزیدہ ، چیدہ وچنیدہ ہستی؛ جو سارے انبیا کے لیے مانندِ خورشیدِجہاں تاب ہے اور سارے نبی شعاعِ خورشیدِ عالم تاب ۔ ایسے نبی؛ جو مصدر ارواحِ انبیا و ارواحِ اولیا اورعام مومنین ہیں وہ فرماتے ہیںکہ دن بھر میں روزانہ میں خود سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں ۔

ہمارا حال :

            اس حدیث کی روشنی میں ہم مسلمان اپنا اپنا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ آج کا مسلمان از فرق تابہ قدم معاصی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ دن بھر میںاللہ کا صرف ایک حکم ’’ نماز کی ادائیگی ‘‘ کا ہے ،جسے مسلمان چوبیس گھنٹے میں صرف پانچ مرتبہ اداکرنے کی فرصت نہیں پاتا۔ نماز عاقل ، بالغ ہرمسلمان مردوعورت سب پر فرض ہے اور نماز کی ادائیگی سے کنارہ کشی معصیت اور گناہ کبیرہ ہے۔

مردم شماری :

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دیا کرو اور جب دس سال کے ہوجائیں تو ترک ِصلاۃ پر زدو کوب کرو۔

            آج حال یہ ہے کہ کسی بھی مسلم محلے میں مردم شماری کرلیجیے ۔ایک ایک گھر سے اوسطاً ۳؍۴؍ لوگوں پر مسجد میں حاضری دے کر جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کا حق ِلازم عائد ہوچکا ہے ، لیکن مساجد کی صفیں دو چار نمازیوں سے آباد ہوجائیں تو بھی بسا غنیمت حالاں کہ

روزِ محشر کہ جاں گداز بود

اولیں پرشس نماز بود

            ترکِ نماز کا وبال پوری امت کے خانوادوں پرتو ہے ہی وقت برباد کرنے کا وبال بھی ایک الگ معصیت ہے ۔

وقت کی اہمیت :

            جس مذہب کے ماننے والوں کا ماضی میں یہ حال تھا کہ اپنے اوقات کی حفاظت کے لیے ضروری امور مثلاً کھانے پینے میں بھی زیادہ وقت صرف کرنا گوارانہ کرتے تھے ، بعض اکابرِ امت تحصیل علم کی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت کو صرف کرنے اور کھانے میں زیادہ وقت خرچ نہ کرنے کی تدبیر یہ کرتے تھے کہ صرف ستو پانی میں گھول کر پی لیتے اورمصروف کتب بینی اور مشغولِ تحصیلِ تفسیر وحدیث ہوجاتے ۔ ایسے لوگ اب کجا؟

ع  اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

            وقت برباد کرنا ، غیبت کرنا ، بکواس اور فضول گوئی ، رشوت ، کذب بیانی ، نفرت ، کینہ ، بغض و عداوت ، لڑائی جھگڑا، ظاہری وباطنی گندگی اور اس طرح کے بے شمار گناہوں میں آج مسلم سماج سرسے پاؤںتک ڈوبا ہوا ہے ، لیکن استغفار اور توبہ کی توفیق نہیں ہوتی ۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے تمام گناہوں سے معافی کے اعلان کے باوجود آپ دن بھر میں سوسو مرتبہ استغفار کریں ۔ اللہ سے ڈریں ۔اور ہم ہیں کہ گناہوں کے دلدل میں سرسے پاؤں تک پھنسے اور ڈوبے ہونے کے باوجود غفلت شعاری کے عالم میں پڑے خوابِ خرگوش میں مست ہیں۔

گناہ سے بچنے کا طریقہ :

            حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے گناہ سے بچنے کا طریقہ ’’ ہمت ‘‘ کو بتلایا ہے کہ آدمی ہمت اور عزم سے کام لے کہ فلاں کام میں ہرگز نہیں کروںگا ۔ یہ بات عقلی بھی ہے کہ ایک کام جب کرسکتا ہے وہ کام اس کے اختیار اورقدرت میں ہے تو اس کام سے باز رہنا بھی اس کے اختیار سے باہر نہیں ہوسکتا ۔ تمام گناہوں سے بچنے کا سب سے مؤثر اور آزمودہ طریقہ ہمت سے کام لینے کے سوا کچھ نہیں۔

            کتنے ایسے افراد کو آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ شراب کے عادی ہیں۔ لاکھ اس بات سے ان کو ڈرایا جاتاہے کہ شراب پینا حرام ہے ’’ الخمر جماع الاثم‘‘  شراب پھر بھی ان سے نہیں چھوٹتی ۔ شراب گویا ان کی گھٹی میں پڑی ہے ۔ اسی طرح آپ نے کتنے ہی ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ سگریٹ پی کر پورا پورا پیکٹ ختم کردیتے ہیں ۔ پیسے بھی پھونکتے ہیں ، دل اور سینہ بھی جلاتے ہیں اورصحت وعافیت کی زندگی کو ملیا میٹ کرتے رہتے ہیں ۔

            لیکن جب انہوں نے عزم کیا ، ہمت باندھی تو شراب یک لخت چھوٹ گئی ۔شراب نوشی کے قریب جانا ان کے لیے گوارا نہیں۔سگریٹ ہمت و جوش میں کسی ہم نشیں کے سامنے ایک بار بجھا دیا تو بیس سال ہوگئے سگریٹ کی بو بھی سونگھنا پسند نہیں کیا۔

گناہوں کا وبال :

            آج اسلامی معاشرہ بھی گناہوں کے دلدل میں گھٹنے تک نہیں سینے اور گردن تک پھنسا ہوا ہے ۔ حالاں کہ گناہ خداسے بغاوت کے مترادف ہے ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ گناہوں کا عادی خدا کا باغی ہوتاہے ۔ اور بغاوت کی سزا دنیا میں بھی پھانسی اور قتل سے کم نہیں ہوتی ۔ اب ہم اندازہ لگائیں کہ اللہ رب العزت اپنے باغیوں اور مجرموں کو کیا سزا دیںگے؟اللہ عزیز ہیں ، غالب وقہار ہیں ، جبار وحکیم ہیں ، ان کی گرفت ایسی ہے کہ قرآن ’’ ان بطش ربک لشدید ‘‘ کا اعلان کررہا ہے ۔ اور ان کا رحم ایسا ہے کہ حضرت حمزہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ کو ایمان کی توفیق دے دیتاہے ۔

            آج ہمارا معاشرہ گناہوں کے وبال کی زد پر ہے۔ خدا کی رحمت سے دوری ہمارے گناہوں کا وبال ہے ۔ پورا معاشرہ گناہوں کی وجہ سے باغی ہوچکا ہے ، دین کی بات ، اللہ و رسول کے احکام اور آخرت کی فکر سے ہمارا دل دور بھاگتا ہے۔بے چینی پیدا ہوتی ہے ، حالاں کہ یہ صفت تو کفار و مشرکین کی بیان کی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں خداوند ذوالجلال کا ارشاد ہے :

            {واذا ذکر اللّٰہ وحدہ ا شمازت قلوب الذین لا یومنون باللہ والیوم الآخر}(الاحزاب)

            کفار و مشرکین کا یہ حال ہے کہ جب خدائے وحدہ لا شریک کا ذکر ان کے سامنے چھیڑ دیا جاتا ہے تو ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں۔ ان کے چہروں کا رنگ فق ہوجاتا ہے ۔ ان کی رونق جاتی رہتی ہے۔ یہی حال آج اہل اسلام کا ہوچکا ہے ، جو بندگان خدا، خدا سے دوری بنائے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں ، ان سے خدا کے قرب کی با ت کہو تو راہ ِفرار اختیار کرنے کی شکلیں سوچنے لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا استعمال :

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع ‘‘ اس حدیث کو امام مسلم ؒ نے مقدمہ مسلم میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمایا ہے کہ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ بھی سنے اسے بیان کرنا شروع کردے۔‘‘

            اس حدیث میں یہ بتایا جارہا ہے کہ ہر سنی ہوئی بات کو بلا سمجھے بوجھے اور بلاتحقیق کیے کہ درست ہے یا نا درست بیان کرنا صحیح نہیں ۔ اگر کوئی آدمی اس طرح کی تحقیق کیے بغیر لوگوں کو بتلاتا اور اسے بیان کرنا شروع کردیتا ہے تو اس کا یہی عمل اس بات کے لیے کافی ہے کہ وہ شخص ’’ جھوٹا ‘‘ ہے ۔

            اس حدیث کے پس منظر میں آج معاشرے کا حال دیکھئے۔ ہم لوگ سوشل میڈیا کا کس قدر غلط استعمال کررہے ہیں ۔ہر شخص اس بات پر تُلاہوا ہے کہ جو بھی بات ، جوبھی پیغام اس کے موبائل پر آتا ہے وہ اسے اپنے گروپ کے افراد کو بتانا اپنا فرضِ منصبی، بل کہ عملا ًہر فرض سے بڑھ کر فرض سمجھتا ہے ۔ اس کی تحقیق کرنا اور اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا پتہ لگانا تو دور کی بات؛ کبھی کبھی یا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی آیا ہوا میسج / پیغام پڑھتا ہی نہیں اور اسے اپنے احباب کی بزم ِمدح سرائی میں بھیج کرثواب کاحق دارہوجاتا ہے۔

            اس طرح یہ شخص حدیث کی روشنی میں جھوٹا ثابت ہورہا ہے ۔ اور گروپ کے سبھی شرکا اگر ایسا کرتے ہیں تو سبھی جھوٹے ثابت ہوتے ہیں کہ شاید نہیں؛ یقینا ہر ہر شخص تو کسی نہ کسی بزم کا سودائی ہوتا ہی ہے۔ اس نوعیت سے ہر فرد جھوٹ کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کم سے کم مدد گار ثابت ہوجاتا ہے۔ {لا تعاونوا علی الاثم والعدوان } اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ پھر بھی اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا اور پورا معاشرہ جھوٹ اور گناہوں سے بھر جاتا ہے۔

            حدیث میں آتا ہے کہ جھوٹ اور دروغ گوئی کی ایک بدبو ہوتی ہے ،جس کو محسوس کرکے رحمت کے فرشتے ایک میل دور بھاگ جاتے ہیں ۔ موجودہ حالات میں اگر اس کو عقلی ترازو سے تولا جائے تو ہر شخص کے جھوٹ سے رحمت کے فرشتے ایک میل دور چلے جاتے ہیں اور پورا معاشرہ جھوٹ کے دلدل میں پھنسا ہے تو رحمت کے فرشتے تو ہمارے معاشرے کا رخ بھی نہیں کرتے ہوںگے۔ کیوں کہ ہر طرف دروغ گوئی کی بدبو پھیلی ہوئی ہے جو رحمت کے فرشتوں کو ہمارے معاشرے میں آنے ہی نہیں دیتی ۔

            اس لیے سماج کو گناہوں سے بچانے کے لیے سوشل میڈیا کو بہت دانش مندی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ بل کہ کہنا چاہیے کہ یہ سوشل میڈیا آگ کی مانند ہے ،جس کو استعمال کرنے والا مثبت اور منفی یا ایجابی وسلبی دونوں جہتوں میں اسے استعمال کرسکتا ہے ۔ اگر آگ کو استعمال کرکے معزز حضرات کو دعوتِ طعام پر مدعو کرلیا اور اس آگ کو کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا تو یہی قابل تعریف عمل ہے اور اگر آگ سے کسی دوست ودشمن کا گھر جلا رہا ہے تو نہایت گھناؤنی حرکت اور قابلِ مذمت فعل ہے ۔

            چھری کسی بچے کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو وہ اپنی انگلی خود ہی کاٹ سکتا ہے۔ اور چھری کسی سمجھ دار کے ہاتھ میں ہوتو پھل فروٹ کاٹنے کے لیے استعمال ہوگی ۔ ایجابی پہلو میں ایجابیات اور سلبی پہلو میں سلبیات کا ایک ذخیرہ موجود ہے ۔ اسی طرح موبائل اور سوشل میڈیا کا حال ہے ۔ نوجوان اور نئی پود کے ہاتھ میں اسے دینا ایسا ہے جیسے آگ کو چھپر جلانے میں استعمال کرنے والا اور چھری کو بچے کے ہاتھ میں دے دینا سنگین نتائج کا پیش خیمہ ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کو صاف ستھرا بنانے کے لیے سب سے پہلا اور ضروری کام یہی کرنا پڑے گا کہ آدمی بذات خود احکام خداوندی کے انکار سے خود کو بچائے ، عمل سے نہ بھاگے ۔ گناہوں کے سمندر میں نہ ڈوبے ۔ بغاوت ونافرمانی کا کوئی موقع نہ آنے دے۔

توبہ و استغفار :

            ہاں! اگر پُر عزم اور باہمت ہونے کے باوجود تسویل شیطانی اور تسویل نفس سے گناہ سرزد ہوجائے تو اسے چنگاری تصور کرے۔ چھوٹی چنگاری اور بڑی چنگاری کی بحث میں نہ پڑے کہ ہر دو اس کے بستر کو خاکستر بنادینے میں پوری طرح مؤثر ہیں۔

            گناہ کو قرآن میں آگ کہا گیا ہے ۔ {یا یہا الذین امنوا قوا انفسکم واہلیکم نارا } اس لیے آگ سے بچنے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ کا نظام بنایا ہے ۔ ارشاد ہے : {یا یہا الذین امنوا توبوا الی اللہ توبۃ النصوحا } بڑے گناہوں کے لیے توبہ ضروری ہے اور چھوٹے گناہ نیکیوں سے معاف ہوتے رہتے ہیں ۔ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کے درمیان کے گناہ کو دوسرا جمعہ معاف کرانے کا سبب بنتا ہے ۔ ایک نمازسے دوسری نماز کے درمیان جوگناہ سرزد ہوجاتے ہیں تو دوسری نماز ان گناہوں کے معافی کا سبب بن جاتی ہے۔

            اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صالح معاشرہ میں رہنے والا، خود کو صالح اور دوسروں کو اسلامی احکام میں رچا بسا دیکھنے والا بنائے اور ان الحسنات یذہبن السئیات کے تقاضے پر کاربند رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین !