کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی

مولانا افتخار احمد قاسمیؔ بستویؔ/ استاذ جامعہ اکل کوا

            اﷲ اپنی ذات و صفات میں لامحدود، لامتناہی، کا مل و مکمل اور حیرت انگیز ہے۔ اس کا ہر فیصلہ عقل کی کسوٹی پر کھرا اترتاہے، یہ اور بات ہے کہ کبھی بل کہ اکثر عقل ناقص اور نا مکمل ہوتی ہے۔ اس ذات ستودہ صفات کا  ایک ایک فیصلہ ایسا عام ہے کہ اس کی وسیع چادر تلے اس کے ماننے والے اور نہ ماننے والے اور دور و نزدیک سبھی لوگوں کو آناہے، وہ فیصلہ موت کا ہے، موت وہ ایسا کڑوا گھونٹ ہے ،جسے چار و نا چار ہر متنفس کو پینا ہے اور وہ ایسا پل ہے جو ایک محبوب کو اپنے محبوب سے ملانے کا کام کرتا ہے۔

            کیا پتہ تھا کہ ایساہی کچھ ا پنے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ ہم لوگ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کے اسٹاف کوارٹر کی مسجد’’ السلام‘‘ کے باہرقدرے گفتگو اور خیر خیریت کے لیے کبھی برائے نام کھڑے ہوجاتے ہیں، ہم پیشہ اساتذہ اور ہم وطن علمائے کرام سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے۔

            عصر کی نماز پڑھ کر مسجد’’ السلام‘‘ سے نکلے ہی تھے کہ جامعہ اکل کوا میں ضلع بستی کے سب سے قدیم استاذ حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئیؒ کے خلیفہ مولانا فاروق احمد صاحب قاسمیؒ کے اکلوتے فرزند مولانا عبد الرحمان مظاہری بستوی سے مسجد کے باہر ملاقات ہو گئی۔مولانا نے بلا تمہید خبر سنائی کہ آج ابھی (۲۵/اکتوبر ۲۰۱۸ء) مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ کا انتقال ہو گیا۔ بندے نے تعجب و حیرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ برجستہ پوچھا: کون مولانا عبدالرشید صاحب بستوی؟ کہنے لگے:ارے! وہی جو دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں آپ کے استاذ رہے ہیں۔ اتنا سننا تھا یقین مانیے میں تقریبا یخ بستہ سا ہوگیا، خبر کو ذہن و دماغ نے بالکل قبول نہ کیا، گھر پر جاتے ہی پہلے دیوبند اپنے برادر نسبتی مولوی محمد عثمان بستوی (متعلم دورۂ حدیث دار العلوم وقف دیوبند) کو فون کیا، انہوں نے بتایا: یہاں دیوبند میں شور تو ہے، معلوم کرکے بتاتاہوں کیا ماجرا ہے؟ لیکن جس خبر کے جھوٹی ہونے کی میں نے لاکھ کوشش کی اس نے مجھے غمزدہ کر کے ہی چھوڑا۔ میں نے اناﷲ و انا الیہ راجعون پڑھا اور سوچنے لگا کہ ہائے رے زندگی! تو کتنی بے وفا ہے! تو کتنی بے ثبات ہے!ابھی گذشتہ ہفتے جمعرات کو مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ یہیں ترکیسر گجرات میں آئے تھے۔ فلاح دارین نامی ایک مشہور و قدیم ادارے میں، ایک سیمینار میں مولانا عبد اﷲ کاپودرویؒ کی حیات و خدمات پر مقالہ پڑھنے کے لیے تشریف آوری ہوئی تھی۔ اکل کوا سے کل سو، سوا سو کلو میٹر دور، قریب ہی میں جا کر تم نے کیوں ملاقات نہ کر لی؟ زندگی کو ’’ظل زائل‘‘ ایک ڈھلتی چھاؤں سمجھتے ہوئے بھی تم نے ایسا قدم کیوں نہ اٹھایا؟اپنے ساتھ ہی محو کلام رہتے ہوئے میں خود سے کہتا رہا: آہ! مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ! آپ جب دار العلوم الاسلامیہ بستی تشریف لائے تھے تو اس وقت ادارے کی تعلیم کا دور شباب تھا، آپ نے آکر اس کی رونق میں چار چاند لگا دیا تھا، آپ جب آئے  تھے تو میں عربی دوم کا طالب علم تھا، ابھی آپ نے تدریس کے دور کا آغاز ہی کیا تھا۔ میں آپ کا سب سے پہلا شاگرد تھا، کیسے کیسے آپ نے ہم لوگوں کو خون جگر سے سینچنے کی کوشش کی تھی، وہ جوانی کا عالم، امنگوں کا سیلاب، صلاحیتوں کا بحر ذخار، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کی خصوصی شاگردی کا شرف، ہم طلبہ کو تو آپ کندن و اکسیر بنانے کا عزم جواں اور خلوص و للہیت کا تاج محل دل میں تعمیر کیے ہوئے ہم لوگوں کو کام کا عالم اور دین کا خادم بنانے کے لیے کیسے شب و روز شمع کی طرح پگھلتے رہتے، کبھی تو یہ کہہ کر حوصلہ د یتے    ؎

بر خود نظر کشا زتہی دامنی مرنج

درسینۂ تو ماہ تمامے نہادہ اند

کبھی یہ کہہ کر حوصلہ سے لبریز کر دیتے کہ    ؎

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

کبھی آپ حوصلہ کو مہمیز دیتے ہوئے یوں گنگناتے    ؎

پھل دار کے نصیب میں ہے پتھروں کی چوٹ

یہ حوصلہ نہیں ہے تو پھر بے ثمر رہو

            درس میں باقاعدہ وابستگی تو معلم الانشاء، القرأۃ الراشدہ حصہ سوم اور شرح ابن عقیل سے رہی، لیکن القرأۃ الواضحہ اول،دوم،سوم اور عربی اخبار پڑھانے کے لیے خارجی اوقات کے قیمتی لمحات کو ہم جماعت طلبہ پر بالخصوص بندے پر کیسے نچھاور کرتے رہتے تھے! اﷲ آپ کو غریق رحمت کرے، اعلی علیین اور بہشت بریں میں آپ کو جگہ نصیب کرے۔آمین!

            دار العلو م الاسلامیہ بستی میں آپ نے عربی زبان و ادب کے حوالے سے ایسا خوش گوار اور پر بہار ماحول بنا دیا تھا کہ عربی بول چال، عربی فہم اور عربی مضمون نگاری کا ہر چہار جانب چرچا تھا، وہی آپ کی تخم پاشی آگے چل کر تناور درخت بن گئی اور عربی زبان و ادب کا لگایا ہوا شجر اپنی شاخوں کے ساتھ آسمان علم سے باتیں کرنے لگا اور اسی تناور درخت سے ہر موسم میں برگ و بار آنے لگے جس سے امت فیض یاب ہوتی رہی۔

            ایک مرتبہ حضرت مولانا مرحوم نے خارج میں پڑھنے والے ہم چند طلبہ سے فرمایا: عربی زبان و ادب میں ترقی و بلند پردازی کے لیے انشا پردازی بہت ضروری ہے، اس کے لیے ’’دیواری پرچہ‘‘ نکالنا چاہئے، اس کے لیے آپ لوگ کمر ہمت باندھیے۔ خارجی اوقات میں مولانا مرحوم سے استفادہ کرنے والے طلبہ میں بندہ ہی سب سے چھوٹا اور سب سے چھوٹی جماعت ’’عربی دوم‘‘ میں پڑھنے والا تھا۔ میرے ساتھ خارج میں مولانا بستوی مرحوم سے کسب فیض کرنے والے طلبہ میں مولوی مبعوث قاسمی کرہی بستی اور مولوی امتیازاحمد قاسمی بلئی پوری (استاذ دارالعلوم الاسلامیہ بستی )تھے یہ دونوں اونچی جماعت عربی چہارم پنجم میںپڑھنے والے طلبہ تھے،انھوںنے ’’دیواری پرچے ‘‘ کی اصطلاح خوب سمجھی لیکن بندہ عربی دوم میں تھا ،ابھی اس نئی اصطلاح سے نابلد تھا ،جس کی وجہ سے اس اصطلاح کو سمجھنے سے یکسر قاصر رہا،لیکن نہ سمجھتے ہوئے بھی خوشی کا خوب اظہار کیا ۔

            دیواری پرچے کی تیاری خوب زور وشور سے شروع ہوگئی ،طلبہ میںہر جگہ اسی کا چرچا تھا،طلبہ کے لیے بالکل نئی چیز ، اس لیے خوشی کا ماحول ہر طرف دکھائی دیتا، حضرت مولاناؒ نے بڑی جماعت کے ان دونوں طلبہ سے مضامین طلب کر کے ، انہیں جانچ کر قابل اشاعت بنادیا،مجھ کو ایک عنوان پر مضمون لکھنے کا مکلف بنایا،میں نے بھی جیسے تیسے مضمون لکھ کر پیش کردیا،عربی دوم کاطالب علم ابھی مضمون کیا اور کیسے لکھے گا،لیکن مولانا نے پورا مضمون جانچا، خوشی کا اظہار فرمایا، حوصلہ دیا البتہ اس کو ایسا بنادیا کہ پورا مضمون اپنی تحریر سے بھر دیا ہرہر جملے کو اپنے خاص ادبی جملے میں تبدیل کردیا البتہ مجھے حوصلہ شکنی سے بچانے کے لیے ہر جملے میں میرا تحریر کردہ ایک آدھ لفظ ضرور باقی رکھا تاکہ مضمون میری طرف منسوب ہو اور اسے قابل اشاعت کرکے پر چے میں کتابت کے لیے حکم فرمایا۔پرچے کا نام ’’الضیاء‘‘رکھاگیا، دارالعلوم الاسلامیہ بستی سے ادارے کی تاریخ میں عربی دیواری پرچہ پہلی بار مولانا باقر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی اور مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ کی نگرانی میں نکلا اور اب تک نکل رہا ہے جو تاریخ میں واقعی سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

            دارالعلوم الاسلامیہ بستی میںسب سے پہلے ’’النادی العربی‘‘ کا قیام مولانا عبد الرشید صاحب قاسمی بستوی صاحبؒ ہی کی کوششوں سے عمل میں آیا۔خارجی اوقات میں ہم چند طلبہ کو جہاں حضرت مولانا ’’عربی ادب کی مشق وتمرین‘‘ کے لیے اپنا قیمتی وقت مرحمت فرماتے تھے،وہیں حضرت مولانا مرحوم نے ہم سب کو عربی تقاریر زبانی یاد کرنے اور اپنے پاس سے عربی تقریریں مرحمت فرمانے کا اہتمام کرتے ۔جمعرات کو بعد نماز مغرب اپنا ذاتی وقت خود اپنے حوصلے سے ہم سب کو عطا فرماتے،پوری تقریر شروع سے آخر تک خود سنتے جو طلبہ عشا تک کے اوقات میں تقریر نہ کرپاتے انہیں بعد نماز عشابھی وقت دیتے،وہ اپنا عربی خطبہ آپؒ کو عشا کے بعد سنانے کے لیے ان کے کمرہ میں جاتے اس طرح حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی نے دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں ہم طلبہ کے درمیان عربی زبان وادب کی روح پھونک دی تھی،جہاں پہلے ہی سے نحو،صرف ،منطق وفلسفہ اور حدیث وتفسیر اور فقہ وفتاویٰ کے لیے حضرت مولانا نثار احمد قاسمی بستوی مدظلہ حضرت مولانا مفتی افضل حسین صاحب قاسمیؒ حضرت مولانا ظہیر انور قاسمی مد ظلہ، حضرت مولانا محمد اسعد قاسمی مدظلہ اور مولانا باقر حسین صاحبؒ مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ بستی وغیرہ جیسے آسمان علم کے آفتاب ومہتاب موجود اپنی روشنی بکھیرنے میں مصروف تھے۔

            چند سال ہی دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں مولانا مرحوم کا قیام رہا،پھر حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کے ایما پر آپ کے ہمراہ بلگام کے قریب چند گڑھ مہاراشٹر کے ایک مدرسے میں تشریف لے گئے جہاں عربی ادب کا شعبہ قائم فرمایا، جامعہ اکل کوا کے ایک استاذ مولانا عالمگیرصاحب قاسمی اس زمانے میں مولانا عبد الرشید صاحب بستوی کے پاس عربی ادب کے لیے وہاں بھی گئے، لیکن مرحوم کا قیام وہاں زیادہ دنوں تک نہ رہ سکا۔بعد ازاں مولانا وحید الزماں کیرانوی نے حضرت الاستاذ مرحوم کو دیوبندہی میںاپنے دولت کدے پر دارالمؤلفین ادارے سے وابستگی کے لیے بلالیا اور’’ القاموس الوحید ‘‘کی ترتیب میں مصروف ہوجانے کا حکم فرمایا۔

            اب حضرت مولانا بستوی ’’القاموس الوحید‘‘کی ترتیب وتالیف میں مولانا عبد القدوس نیرانوی کے ہمراہ دیوبند ہی میں قیام پذیر ہوگئے۔

            ان دنوں احقر کی جماعت دارالعلوم الاسلامیہ بستی سے عربی ششم کی تکمیل کے بعد دیوبند پہنچ چکی تھی، اب احقر دیوبند میں تھا، حضرت الاستاذ کی خدمت میں روزانہ بعد نمازِ عصر دارالمؤلفین کی بالائی منزل پر حاضرہوتا، مولانا بستوی کے طعام کا کوئی باضابطہ نظم دارالمؤلفین دیوبند کی طرف سے نہ تھا،اس لیے استاذ محترم نے بندے سے فرمایا کہ کھانے کے نظام کے لیے دوپہر اور شام کو آپ کچھ کریں۔ استاذ محترم کی اس بات کو حکم اور سعادت سمجھتے ہوئے اسے بسر و چشم قبول کیا اور بندے کا اب روزانہ یہ معمول ہوگیا کہ دارالعلوم میں عربی ہفتم میں پڑھتاتھااور مولانا مرحوم کی خدمت کی یہ سعادت حاصل تھی کہ روزانہ دوکان سے آٹا خرید کر دارالعلوم کے مطبخ میں لے جاکر ایک روپیے روٹی پکانے کی اجرت ادا کرکے اس آٹے کو دے کر دو روٹیاں حاصل کرتا اور کسی ہوٹل سے گوشت کاسالن خرید کر دوپہر اور شام کو پابندی سے حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی ؒ کی خدمت میں دارالمؤلفین کی عمارت میں اوپر کی منزل میں پہنچا آتا، جہاں حضرت الاستاذ مولانا عبد القدوس نیرانوی کے ساتھ ’’القاموس الوحید‘‘ کی ترتیب میں منہمک رہتے۔

            آتے جاتے ،کبھی زینے پر چڑھتے اترتے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ ،استاذ مولانا عبدالرشید بستویؒ سے آمنا سامنا اور گفتگو بھی ہوجاتی(حضرت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ اس وقت دارالعلوم دیوبند سے سبک دوش ہوچکے تھے)دیوبند کے قیام میں تا انتظام ثانی ایک طویل عرصے تک حضرت الاستاذ گرامی قدر کی خدمت میں طعام رسانی کی یہ خدمت بندے کے لیے ایک بہت بڑی سعادت سے کچھ کم نہ تھی۔

            دارالعلوم دیوبند میں احقر نے ہفتم،دورہ اور تکمیل ادب کے پورے تین سال رہ کر اساتذۂ دارالعلوم میں مولانا نعمت اﷲ صاحب کی ’’فیض المنعم‘‘ کی ترتیب میں اور حضرت الاستاذ مولانا عبد الرشید صاحب بستوی کی بالخصوص خدمت میں آتاجاتا تھا۔مختلف مشورے، گوناگوں علمی جواہر ریزے، انواع واقسام کی گفتگو اور اس سے لطف اندوز ی کا موقع ملتا رہا۔

            اسی دوران، حضرت الاستاذ مرکز المعارف ہوجائی آسام کی دیوبند برانچ سے بھی وابستہ رہے۔ اور مولانا مزمل حسین آسامی کی رفاقت میں ’’امام محمد قاسم نانوتویؒ‘‘ کی فلسفہ اور علم کلام کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب ’’تقریر دل پذیر‘‘ پر بھی تسہیل و حاشیہ نویسی کا بہت اہم کام انجام دیا جو مولانا بدر الدین اجمل قاسمی آسامی کے ایما پر شروع ہوا۔

            مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ کا مولانا نانوتویؒ کی کتاب ’’تقریر دل پذیر‘‘ پر حاشیہ آرائی اور تحقیق و تدقیق کا یہ کام آئندہ لوگوں کے لیے حضرت نانوتویؒ کی کتابوں کے مطالعے کے لیے مہمیز بنا، اس وقت امام محمد قاسم نانوتویؒ کی کتب سے استفادہ، ان کی تسہیل، ان کے مضامین کی ترویج، اس کی وقعت و اہمیت کو جاننے سمجھنے اور مولانا نانوتویؒ کے تصنیفی و تقریری کاموں کو بروئے کار لانے کے لیے اکیڈمیوں کی تاسیس بھی عمل میں آ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت الاستاذ مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ کا تقریر دل پذیر پر کام اپنی نوعیت کا پہلا قدم تھا ،جس نے اب لوگوں کو امام نانوتویؒ کے علوم کے بحرذخار سے علمی موتیاں چننے پر آمادہ کیا ہے اور اسی کار ِخیر کا ثواب جہاں موجودہ کام کرنے والوں کو مل رہا ہے (جن میں ایک بڑا نام مولانا حکیم فخر الاسلام مظاہری الٰہ آبادی کا بھی ہے) وہیں مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ کے نامۂ اعمال میں بھی وہ ساری نیکیاں تھوک کے حساب جمع ہو رہی ہوں گی۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

            ’’اضافیات‘‘ کا خاصہ ہے کہ جہاں ’’فوق‘‘ کا ذکر ہوتا ہے، وہیں ’’تحت‘‘ کا بھی ذکر ہوتا ہے، جہاں رات کا بیان آئے گا وہیں توضیح میں دن کا بھی تذکرہ کرنا پڑے گا۔ اسی طرح جہاں استاذ کا ذکر آئے گا وہیں شاگرد کا بھی ذکر آہی جائے گا، اسی لیے حضرت الاستاذ کی خوبیاں ذکر کرنے میں بندے کا ذکر آنا در حقیقت اسی اضافی امر کی مجبوری کے تحت ہے ورنہ ذکر حقیقت میں استاذ محترم ہی کا مطلوب ہے۔

            چناں چہ ۱۹۹۴ء میں بندہ دیوبند سے فارغ ہو کر دہلی چلا آیا ، جہاں مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر جوگا بائی ایکسٹینشن بٹلہ ہاؤس اوکھلانئی دہلی میں داخل ہو کر ’’تین سالہ اسپیشل انگلش کورس فور علما‘‘ سے مربوط ہوگیا۔ اس دوران دیوبند دلی سے برابر رابطہ رہا، آمد و رفت، حضرت مولانا مرحوم سے دیوبند میں ملاقات، مولانا کی قیمتی نصیحتوں سے فیض یابی اور خود حضرت الاستاذ کی دیوبند سے دہلی مرکز المعارف میں بھی آمد ہوتی رہتی تھی۔

            مرکز المعارف سے فراغت کے بعد جب بندہ۱۹۹۷ء میں جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر میںتدریس کے لیے آگیا، تو حضرت الاستاذ مولانا مرحوم ایک بار غالباً ۱۹۹۹ء میں باضابطہ اکل کوا تشریف لائے،اور ہمارے درمیان دودن تک قیام رہاجس میں اصل میزبان تو بندہ ہی رہالیکن سب سے زیادہ سر گرم عمل حضرت مولانا ولی اﷲ ولی قاسمی بستوی سابق استاذ جامعہ اکل کوا اور مفتی محمد اسلم پرتاپگڈھی سابق استاذ جامعہ اکل کوا رہتے تھے،مولانا مرحوم کے اخلاق کریمانہ کہیے کہ جب دیوبند واپس ہوئے تو تشکر وامتنان پرمشتمل سب کے نام ایک ایک مکتوب گرامی بھی ارسال فرمایا،اس سے حضرت استاذگرامی قدر کے حسن اخلاق ،حسن سیرت اور حسن ضابطہ کے ساتھ مردم سازی و خردہ نوازی کی سیرت پربھی سیر حاصل روشنی پڑتی ہے۔

حسن صورت چندروزہ حسن سیرت مستقل

اس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں اس سے خوش ہوتاہے دل

            جس زمانے میں ہمارے رفیق درس اور دورۂ حدیث شریف کے ترجمان مفتی محمد اسلم قاسمی پرتاپگڈھی کے ساتھ بندے نے عربی تقریروں کا مجموعہ لکھنا شروع کیاتھااور اس کا ایک حصہ ’’خطب سہلۃ‘‘کے نام سے منظر عام پر آکر قبول عام حاصل کرچکا تھاتو دوسرے حصے کی تیاری کے لیے مفتی محمد اسلم صاحب کے ساتھ بندے کا سفر دیوبند ہواتھا ،جہاںمولانا اشرف علی سدھارتھ نگری سے بھی ملاقات ہوتی تھی، جو ہمارے ہم سبق اور مولانا مرحوم کے گاؤں کے آس پاس کے رہنے والے تھے۔اس وقت رمضان میں دارالعلوم دیوبند میں دس دن تک مہتمم صاحب سے اجازت لے کر قیام کیا تھا،جس کا مقصد’’خطب سہلۃ‘‘ حصہ دوم کی تصنیف کا کام تھااور یہ طے کیا گیاتھاکہ روزانہ کچھ تقریریں حضرت مولاناعبد الرشید صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی نظرسے گزار دینا چاہئے، اس کام کے لیے حضرت الاستاذ سے گفتگو کی گئی، آپ کے گھر پر حاضری دے کر اجازت لی، استاذ گرامی نے بسر و چشم بڑی خندہ پیشانی سے منظوری دی اور گھر پر کھانے کی ضیافت سے بھی نوازا اور روزانہ دس دن تک از خود دار العلوم کے احاطے میں دارالحدیث قدیم کے سامنے والے پارک میں سخت سردی میں دھوپ کے سہارے بیٹھ کر عربی کی ایک دو تقریریں جانچ کر تصحیح فرماتے، اس طرح پوری کتاب کے لیے حضرت الاستاذ کی خدمت سے رمضان شریف میں دس دن تک استفادہ رہا اور پوری کتاب تیار ہو کر ’’خطب سہلہ‘‘ حصہ دوم کے نام سے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔

            اکل کوا میں بندے کی تدریس کا آغاز سن ۱۹۹۷ء سے ہوا ہے۔ ادھر حضرت الاستاذ دار العلوم دیوبند کے باقاعدہ استاذ ہو چکے تھے ہم لوگوں نے مبارکبادی کا خط بھی آپ کو دیوبند لکھا تھا، پھر آپ مستقل معہد انور دیوبندکے علیا کے استاذ اور بخاری شریف جلد ثانی کے استاذ اور شیخ ثانی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

            مہاراشٹر میں بالاپور نامی ایک شہر میں حضرت مولانا مرحوم کے ایک رفیق درس مولانا محمد اسلم صاحب بستوی ایک بڑا ادارہ چلاتے ہیں اور دورۂ حدیث شریف تک کی تعلیم کا با ضابطہ نظم ہے۔ مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ اس مدرسے میں ختم بخاری کی تقریب میں تشریف لایا کرتے تھے۔

            ایک بار اسی طرح ختم بخاری کی تقریب میں بالاپور مولانا اسلم صاحب کے مدرسے میں تشریف لائے تھے۔ اور ختم تقریب کے بعد جامعہ اکل کوا بھی آنے کا عزم فون پر ظاہر فرمایا تھا، لیکن جس دن بندے سے بات ہوئی، اسی دن جامعہ اکل کوا میں سالانہ تعطیل ہو رہی تھی اس لیے اس موقع پر حضرت الاستاذؒ اکل کوا دوبارہ نہیں آسکے اور اب کبھی نہیں آ سکیں گے۔ اب تو آنکھوں سے ایسے اوجھل ہوئے کہ ہمیشہ کے لیے نادیدہ ہو گئے، لیکن اﷲ کی ذات سے قوی امید ہے کہ حضرت الاستاذ کا دیدار اب جنت ہی میں ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ نے جو نقوش؛ علم و عمل کی راہ میں چھوڑے ہیں ان پر ہم سب کو چلنے کی توفیق نصیب فرمائے اور آپ کی قبر کو جنت کی ایک کیاری بنائے۔آمین !       

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نور رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے