کہاںچل دیے ہم سے منہ موڑکر

  ابوعا لیہ نازقاسمیؔ ، مدہوبنی ۔استاذجامعہ اکل کوا

یہ ایک زندہ حقیقت ہے :

دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز یہ کم نہ ہوں گے

چرچے یہی رہیں گے افسوس! ہم نہ ہوں گے

                موت برحق ،ایک اٹل حقیقت اورفیصلۂ خداوندی ہے،جس کاآج تک کسی نے انکار نہیں کیا ہے اورنہ ہی اِس کی گنجائش ہے ۔ یہی ایک ایسی زندہ حقیقت ہے،جس کواہل ایمان توکیا؛دنیاکی ہرقوم کے جبابرہ، فراعنہ، قیاصرہ اورنماردہ سبھی تسلیم کرتے ہیں اوراِس حقیقت کے آگے اپنی ہارمان چکے ہیں،کیوںکہ اِس کے علاوہ کوئی دوسراراستہ بھی نہیں ہے۔یہاںتک کہ دہریوںنے خداکی خدائی کاتوانکارکیاہے ،لیکن موت کوانھوںنے بھی تسلیم کیا ہے۔ دنیا میں جوبھی آیاوہ جانے ہی کے لیے آیا۔ہمیشہ باقی رہنے والی ذات صرف رب ذوالجلال کی ہے ، جو موت وحیات کا خالق اور قادرومختارہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں ارشادفرماتے ہیں: {کُلُّ شَیْئٍ ھَالِک’‘ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْن}

                ترجمہ:  اس کی ذات ِپاک کے سواہرچیزفناہونے والی ہے ۔اسی کاحکم ہے اوراسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔

کچھ لوگ زمانے میںایسے بھی ہوتے ہیں:

                لیکن کچھ جانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں، جواپنے روشن کارناموںاوریادوںکے ایسے گہرے اور انمٹ نقوش؛دلوں پر ثبت کرجاتے ہیںکہ مرکربھی ہرخاص وعام کے دل میںزندہ رہتے ہیںاور الیٰ یوم النشورزندہ رہیںگے۔ان کی تعلیمات وارشادات اورتنقیحات وتحقیقات کادریاہمیشہ بلاتفریق ِمشرب ومسلک اور مذہب وملت بہتارہتاہے اور ان کی تعلیمات لوگوںکی اجتماعی وانفرادی زندگی میںمینارۂ نوراورمشعلِ راہ کاکام دیتی ہیں۔ اُنھیں مردان باصفااوررجالِ کارمیںاستاذالاساتذہ ،سرتاج اولیا،مخدوم العلما،مفکرقوم وملت، نازش وطن، فخر گجرات، جامعہ فلاح دارین ترکیسر،ضلع سورت کے مہتمم،جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کواکے سرپرستِ ثالث حضرت مولاناعبداللہ صاحب کاپودروی بن اسماعیل بن حسین قاسم پٹیلؒ کانام بھی شامل ہے۔جوحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’کن فی الدنیا کانک غریب او عابرسبیل‘‘کے مصداق رہ کرفانی زندگی میں کل ۸۴۲،۳۰؍دن یعنی۸۷؍ سال،ایک ماہ۱۴؍ دن کی عمر پا کر ۱۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء مطابق۲۵؍ شوال المکرم ۱۴۳۹ھ بروز: منگل دوپہر تقریباً چار بج کر۲۰؍منٹ پر اِس دارالغبار سے نکل کر دار القرار میں قرار پا گئے ۔ (اناللہ واناالیہ راجعون)

                 جن کوکل تک ہم ’’دامت برکاتہم ‘‘اور’’مدظلہ العالی ‘‘کے حسین القاب سے یادکیا کرتے تھے ؛آج  مرحوم ومغفورلکھتے ہوئے کلیجہ منہ کوآرہاہے اورقلم کانپ رہاہے، لیکن لکھناہی پڑے گا ۔

آپ کی ولادت :

                برماکے ’’شان ‘‘اسٹیٹ نامی صوبہ کے ہیہو(Heho) شہرمیں ۱۱؍ رمضان المبارک ۱۳۵۲ھ، بروز: جمعہ کو ہوئی۔ آپ کی پیدائش پرخاندان میںخوشی ومسرت کی گویابرسات ہوگئی۔وجہ اِس کی یہ تھی کہ آپ سے پہلے ۵؍ بہنوںکی پیدائش ہوچکی تھی۔آپ کے والدمحترم برمامیںبڑے ہی علمانوازتھے اورعلما کے ساتھ ان کے خوش گوار تعلقات تھے،اس لیے علمائے کرام سے دعائیںکرواتے رہتے تھے۔یہاںتک کہ ایک مرتبہ بہ ذریعہ مراسلت حکیم الامت حضرت تھانویؒ(و: ۵؍ ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ ،بروز: بدھ ،بوقت: صبح صادق/ م: ۱۵؍ رجب المرجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۱۹؍ جولائی ۱۹۴۳ء ، بروز:پیر،رات۱۰؍ بج کر ۳۰؍ منٹ )سے بھی دعاکی درخواست کی تو جواب میں ارشاد ہوا کہ ’’دعاکرتاہوں‘‘۔

                ۱۹۳۵ء میںجب کہ حضرت کی شیرخوارگی کاہی زمانہ چل رہاتھا،یعنی دوڈھائی سال ہی کی عمرتھی کہ والد صاحب نے برماکی سرزمین کو خیر باد کہااورکاپودراکو اپنا مسکن بنا لیا۔         

ابتدائی تعلیم اورپہلے استاذ:

                ضلع بھروچ کے انکلیشورتحصیل میںآنے والے گاؤں’’کاپودرا‘‘ میںحافظ ابراہیم بن اسماعیل ملّا ؒعمر واڑی؛ کے پاس الف باسے لے کر قرآن مجیدکی تکمیل ہوئی ؛پھراردوقاعدہ ،تعلیم الاسلام ،بہشتی ثمرکے دوحصے اور چہل سبق تک کے اسباق اُنھیںکے پاس ہوئے ۔گاؤںکے ہی اسکول میںپانچویںتک کی تعلیم حاصل کی۔

جامعہ تعلیم الدین میںداخلہ:

                ۱۹۴۴ء میںہوا۔وہاںپررہ کرمولانامحمدداؤد کفلیتویؒ اورمولاناعبدالحی بن مفتی اسماعیل بسم اللہؒ سے درجہ فارسی کی بسم اللہ کی ۔

                عربی اول مولاناعبدالحی بسم اللہ ڈابھیلی ؒسے پڑھا۔عربی دوم میںنورالایضاح ،مختصرالقدوری،علم الصیغہ، بحر الادب ( مصری) اورتیسیرالمنطق وغیرہ کتابیںحضرت مولاناابراہیم ڈابھیلی عرف صوفی صاحبؒ سے پڑھیں۔

دارالعلوم دیوبندکاسفر:

                عربی دوم سے فراغت کے بعد۱۹۴۹ء میںازہرہنددارالعلوم دیوبندکے لیے اِس حال میںرخت سفر باندھاکہ والدصاحب کی رضامندی اُس میں شامل نہیںتھی؛بہرحال وہاںپہنچ کرکنزالدقائق وشرح جامی کے درجہ میںداخلہ ہوا۔دوسرے سال شرح الوقایہ کی تکمیل کی ۔لیکن صحت کاتوازن غیرمتوازن ہونے کی وجہ سے والد صاحب اوردیگررشتہ داروںکی رائے پردوبارہ تعلیم الدین ڈابھیل آگئے ۔یہاںپراُس سال عربی چہارم میںکوئی طالب علم نہ تھا،اس لیے عربی سوم یا پنجم میںداخلے کی رائے ہوئی اورخرابیٔ صحت کی وجہ کر عربی پنجم میںداخلہ ہوگیا ۔ ہدایہ اولین اور دیوان المتنبی مولانامحمدپانڈورسملکیؒ کے سپردہوئی اورحسامی ومختصر المعانی مولانا عبد الرؤف پشاوریؒ کے پاس ہوئی۔اگلے سال مشکوٰ ۃ شریف اورشرح عقائدمولاناعبدالرؤف پشاوریؒ شاگردِ مولانا حسین احمدمدنیؒ کے پاس،جلالین مولانا عبدالجبارصاحب اعظمیؒ اورہدایہ آخرین مولانا فضل الرحمن صاحب ؒکے زیرتدریس رہی ۔

تکمیل دورۂ حدیث شریف:

                ۱۹۵۲ء میںبخاری شریف جلداول اورترمذی شریف مولاناعبدالجبارصاحب اعظمیؒ،بخاری جلدثانی ، مسلم شریف مکمل اور طحاوی شریف مولانا عبدالرؤف پشاوری ؒکے پاس اورابوداؤدمولانافضل الرحمن صاحبؒ کے پاس مکمل کی اوراس طرح آپ کاتعلیمی سفر۱۹۵۳ء میںجامعہ تعلیم الدین ڈابھیل سے سندفراغت کی تحصیل کے ساتھ پوراہوگیا۔

دوبارہ دارالعلوم کارخ:

                پھر۱۹۵۹ء۱۹۶۰ء میںتکمیل کے مقصدسے دارالعلوم دیوبندمیںدوسال قیام کیا۔علامۂ وقت فخرالدین مرادآبادیؒ سے بخاری کا سماع کیا۔وہیںپر مبعوثِ جامعہ ازہر شیخ محمود عبدالوہاب محمود طنطاوی مصریؒ سے عربی زبان وادب اور قواعدنحویہ کی بعض کتابیںپڑھیں۔پھرسہارن پورمیںحضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاصاحبؒ ؒسے ’’مسلسلات‘‘ کی سماعت فرما کر اجازت حدیث حاصل کی ۔

                ۱۹۶۰ء کے بعدکے اوراق؛دیگرقلم کاروقلمی شہ سوارحضرات کھولیںگے،قارئین وہاںسے استفادہ کریں۔ہم صرف ان کی بلندیٔ درجات کی دعاکے ساتھ رخصت کی اجازت لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے لطف عمیم سے اُن کی قبرمبارک کو’’ روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘  کامصداق بنائے ۔آمین!

اکابر جو میرے دنیا سے گذرے

انہیںجنت میں اعلیٰ مرتبہ دے

جو ہیں موجود ان کی عمر یارب

برائے خیر وبرکت تو بڑھادے

اللٰہم اغفرلہم وارحمہم وسکنہم فی الجنۃ النعیم