کونیات (Cosmology)

            کونیات حقیقت کی درجہ بندی، کائنات کی ابتداء، اس کی ترتیب ا ور ارتقاء کی تفہیم یا مطالعہ کا نام ہے۔ یہ علم آنٹولوجی میں ثابت شدہ حقائق کی درجہ بندی، ان درجات کی نوعیت اور انسانیت کے مقام کی تشریح کرتا ہے۔

            کونیات میں شامل ہونے والے مباحث کی فہرست وسیع ہے، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:

            کائنات کے ابتداء کی بحث: یہ مباحث کائنات کی ابتدا کے بارے میں مختلف نظریات اور عقائد کو جانچتی ہے۔ یہ موضوع فلاسفہ کے عقولِ عشرہ، مسلمانوں کے مطابق خدا کا عدم سے کائنات کو وجود میں لانا، فزکس میں بگ بینگ تھیوری، اساطیری تہذیبوں میں تخلیق کے افسانے یا وجود کی ابتدا کے دوسرے نظریہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

            کائنات کی نوعیت: کاسمولوجی کائنات کی بنیادی خصوصیات اور اجزا کا مطالعہ کرتی ہے۔ یہ خلا، وقت، مادے، توانائی، کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں، تاریک مادّہ، تاریک توانائی اور دیگر کائناتی مظاہر کی نوعیت پر غور کرتی ہے۔

            ارتقاء اور ساخت: یہ موضوع کائنات کے ارتقاء اور ساخت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس میں کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں کے نظاموں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ کائناتی ڈھانچے کی ترقی کے بارے میں مباحث شامل ہوتے ہیں۔

کائناتی قوانین اور اصول: کاسمولوجی میں کائنات پر حکمرانی کرنے والے قوانین اور اصولوں کی کھوج شامل ہے۔ اس میں سائنسی قوانین جیسے طبیعیات، فلکیات، نیز فلسفیانہ یا مذہبی اصول شامل ہیں جو وجود کی ترتیب اور ان کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں۔

کائنات میں انسان کا مقام: کاسمولوجی کائنات اس وسیع کائنات میں انسان کے مقام کی وجودی اور فلسفیانہ اہمیت کو حل کرتی ہے۔ یہ خلا، وقت اور کائنات میں ممکنہ دوسری زندگی کی شکلوں کے سلسلے میں انسانی وجود کی اہمیت پر غور کرتی ہے۔

کائنات میں حقیقت کی ترتیب: کاسمولوجی اس موضوع پر بھی بحث کرتی ہے کہ کائنات میں حقیقت کی ترتیب کیا ہے؟ سب سے اوپر کون سی حقیقت ہے اور دوسرے حقائق اس حقیقت سے کس طرح مربوط ہیں؟۔

            یہ ترتیب خدا، کائنات، معاشرہ، خاندان اور فرد کے درمیان پائے جانے والے ہر امور سے متعلق ہوتی ہے۔ کاسمولوجی، ورلڈ ویو کے حصے کے طور پر فرد کی زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ یہ سائنسی تحقیقات، فلسفیانہ غور و فکر، مذہبی عقائد، ثقافتی داستانوں اور افسانوں کو یکجا کرتی ہے، جو کائنات کو سمجھنے اور انسانیت کے مقصد اور تعلق کی تشریحات فراہم کرتی ہے۔

            قدیم اور جدید کاسمولوجی کے درمیان فرق بنیادی طور پر فلسفیانہ اور سائنسی نظریات میں ہے۔ قدیم دور میں کائنات کی تفہیم زیادہ تر فلسفیانہ عقلی نظریات پر مبنی تھی، جب کہ جدید دور میں سائنسی تحقیق اور تجربات نے کائنات کے مطالعے میں انقلاب برپا کیا ہے۔

 قدیم کاسمولوجی

قدیم یونانی کاسمولوجی: قدیم یونان میں کاسمولوجی کی بنیاد زیادہ تر فلسفیانہ نظریات پر رکھی گئی تھی۔ افلاطون اور ارسطو کے نظریات نے کائنات کی تفہیم میں اہم کردار ادا کیا۔ افلاطون نے ٹائموئس(Timaeus) میں کائنات کے تخلیق کی تفصیل دی، جہاں اس نے ایک عقلی اور معقول اصول کے تحت کائنات کی تخلیق کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔

ارسطو کا نظریہ: ارسطو نے کائنات کی ساخت اور اس کی حرکت کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ اس نے اپنی Metaphysics میں کائنات کے دائمی اصولوں اور اس کی تغیر پذیر ساخت کی وضاحت کی۔ ارسطو نے یہ بھی کہا کہ کائنات ایک”غیر متحرک حرکت دینے“کی مدد سے چل رہی ہے، جو کہ تمام چیزوں کی حرکت کا بنیادی سبب ہے۔

مسلم فلاسفہ کی کاسمولوجی: اسلامی فلسفہ میں بھی کاسمولوجی کی تفہیم اہمیت رکھتی ہے۔ اسلامی فلسفہ میں، علامہ ابن سینا اور فارابی جیسے فلسفیوں نے ارسطو کے نظریات کو ترقی دی اور کائنات کی تخلیق اور اس کی ساخت کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں حالاں کہ مسلم متکلمین کا سمولوجی کی طبیعاتی مباحث جیسے: چاند، سورج اورستارے وغیرہ کو مذہبی نقطہٴ نظر سے تشریح کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ امام غزالی نے تہافت الفلاسفہ میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔

جدید کاسمولوجی:

سائنسی کاسمولوجی:جدید دور میں کاسمولوجی کا مطالعہ،سائنسی طریقہٴ کار اور تحقیقات پر مبنی ہے۔سائنسدانوں نے کائنات کی تخلیق،اس کی ساخت اور اس کی ترقی کے بارے میں جدید تظریات پیش کیے ہیں۔

بگ بینگ تھیوری: بگ بینگ تھیوری، جو کہ جدید کا سمولوجی کا ایک اہم نظریہ ہے،کہتی ہے کہ کائنات کی ابتدا ایک عظیم دھماکے سے ہوئی۔اس نظریے کے مطابق کائنات ایک نقطہ سے پھیلنا شروع ہوئی اور آج بھی پھیل رہی ہے۔

کائناتی ارتقاء: اسٹیفن ہاکنگ اور دیگر سائنسی محققین نے کائنات کی ارتقائی تفصیل دی ہے،جہاں انہوں نے بتایا کہ کائنات کی ابتدائی حالت اور اس کی ترقی کو مختلف فیزوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

اصول اضافیت:آئن اسٹائن کا نظریہٴ اضافیت نے کائنات کے سائنسی مطالعے میں انقلاب برپا کیا۔ اس نظریے نے وقت اور جگہ کے مابین تعلق کو واضح کیا اور کائنات کی ساخت کے بارے میں نئی تحقیق فراہم کی۔

بلیک ہولز اور تاریک مادہ: جدید کا سمولوجی میں،بلیک ہولز(black holes) اور تاریک مادہ(dark matter)جیسے تصورات نے کائنات کی تفہیم کو مزید گہراکیا ہے۔یہ تصورات بتاتے ہیں کہ کائنات میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو براہِ راست نظر نہیں آتیں لیکن ان کی موجود گی کا اثر دیکھا جاسکتاہے۔

خلاصہ کے طور پر مغربی افکار کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے :”جدیدیت اور مابعد جدیدیت“

جدیدیت کی کوخ سے نکلنے والے گمراہ کن نظریات:

            (۱) Humanism انسان محوری، یا انسان پرستیت یعنی انسان کو اصل اور اساس قرار دینا،جدیدیت نے انسان کو اتنا بلند مقام دیا کہ اس کو خدا کی جگہ رکھ دیا اب حق وباطل، صحیح و غلط، خیر وشر، سعادت وشقاوت سب کا ملاک و معیار انسان ہے اس لئے پارلمنٹ بنایا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنی مرضی سے قانون بنائیں۔

            (۲) Rationalism عقلانیت یاعقل پرستی ہے۔ جدیدیت نے دنیا والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ انسان کی عقل میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ صحیح اور غلط کو سمجھ سکے، اس بنا پر ہمیں کوئی دوسرا بتانے والے کی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے اس نعرہ کے ذریعہ وحی الٰہی کا انکار کیا درحقیقت عقل انسانی بغیر وحی الٰہی کے ہدایت کے شیطانیت اور گمراہی ہے۔

            (۳) Individualism انفرادیت، جدیدیت کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ اس نے فردکو اصل و اساس قرار دیایعنی فردی زندگی کو اجتماعی زندگی پر مقدم کیا۔ 

            (۴) Human rights انسانی حقوق پر توجہ کرنا اور دھوکہ دینا

            (۵) Democracy دموکراسی اور جمہوریت پر زور دینا،جدیدیت نے سیاسی میدان ڈموکراسی کو پیش کیا،سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: ”government of the people, by the people, for the people” یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔

            (۶) Anti-traditionروایت پسندی کی مخالفت، جدیدیت اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ”روایت پسندی“ Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں، اس نے تمام قدیم اور ماضی کے افکار، عقائد اور ادیان و مذاہب کا انکار کردیا۔

            (۷) Secularism لادینت، ضد مذہبیت، مخالف دین، یعنی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے دین کو حذف کرنا اور دین کو صرف اور صرف نجی زندگی تک محدود کرنا، جو آخرکار دین کی مخالفت اور حذف دین کا سبب بھی بنا ہے۔

            (۸) Utilitarianism افادیت پسندی، نظریہ افادیت پسند ی کا جوہر دراصل اس نظریے کا لطف اور تکلیف کا تصور ہے۔ افادیت پسندی کا فلسفہ ہر اُس چیز کو اچھا سمجھتا ہے جو خوشی میں اضافہ اور تکلیف میں کمی کرتی ہے۔ یہ نتائج پر مبنی فلسفہ ہے۔ اگر کسی عمل کا نتیجہ خوشی کو بڑھانے اور تکلیف کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے تو اس عمل کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ نظریہ افادیت پسندی بنیادی طور پر لذت پسندی کا فلسفہ ہے۔ نظریہ افادیت پسندی کی تاریخ کا سراغ قدیم یونانی فلاسفر ایپی کیورس تک لے جاتا ہے، لیکن ایک مکتبہ فکر کے طور پر نظریہ افادیت پسندی کا سہرا اکثر برطانوی فلاسفر جیریمی بینتھم(Jeremy Bentham) کے سر جاتا ہے۔ مجموعی طور پر افادیت پسندی کا فلسفہ جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے اس زندگی کو تکلیف سے پاک بنانے پر مرکوز ہے۔ سطحی طور پر یہ ایک قابلِ تعریف مقصد معلوم ہوتا ہے۔ کون نہیں چاہے گا کہ تمام دنیا کے لوگوں کے دکھوں کو دور کیا جائے؟ اس نظریہ پر اعتراض یہ کیاجاسکتا ہے کہ انسان کے مطابق اچھے سے مراد خوشی ہے اور برے سے مراد ناخوشی ہے اس بنا پر ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز جو ایک شخص کے لیے خوشی کا باعث ہو وہ دوسرے شخص کے لیے خوشی کا باعث نہ ہو۔اس وقت نظریہ افادیت کیسے انکی مشکل کو حل کریگا۔

            (۹) Liberalism مطلق آزادی، لبرالزم وہ مکتب فکر یا روش زندگی ہے، جس میں انسانوں کی فردی آزادی پر سب سے زیادہ زور دیا جاتاہے یہ مکتب فکر استبداد اور آمریت (authoritarianism) کے مخالفت کرتی ہے چاہے وہ استبداد حکومت کی جانب سے ہو یا کسی دین و مذھب یا سیاسی پارٹی کی جانب سے ہو یہ مکتب ان کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے اور انسان کو ہر طرح کی بندش سے آزاد قرار دیتی ہے۔

            (۱۰) Relativism ”نسبیت “یعنی تمام حقیقت ہر فرد سے نسبت رکھتی ہے۔اس نظریہ کے تحت انسان کاہرقول وفعل، رفتار و کرداراسکی بنسبت اچھا اور برا ہے شاید کسی دوسرے کے لئے وہ قول و فعل برا ہو جو اس کے لئے اچھا ہے۔

            (۱۱) Globalization عالمگیریت یا جہان سازی، لُغوی طور پر اِس سے مُراد علاقائی یا مقامی مظاہر (phenomena) کو عالمگیر بنانے کا عمل ہے۔ِاس کی وضاحت کچھ یُوں کی جاسکتی ہے کہ ”ایک ایسی عملیت جس سے ساری دُنیا کے لوگ ایک معاشرے میں متحد ہوجائیں اور تمام افعال اکٹھے سر انجام دیں“۔

جدیدیت اور اسلام کا موقف:

            دین اسلام کی بنیاد وحی الٰہی پر قائم ہے اور اس کے سرمدی اصول غیر متبدل اور ناقابل تغیر ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ وحی الٰہی کی بنیاد پر ترتیب پانے والا معاشرہ نہ تو غیر مہذب ہوتا ہے اور نہ پسماندہ۔ مفکرین یورپ کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ کونسی چیز ہو، جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا جائے؛ چنانچہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نئی سے نئی تھیوری و فلسفہ پیش کرتے ہیں گذشتہ صدی ”جدیدیت“ کی صدی تھی۔

            جدیدیت اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے، جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ”روایت پسندی“ Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں، اس کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات، آفاقی صداقت، مقصدیت اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی کو کم کر دیا جائے۔ اسلام کی نظر میں یہ خطرناک موڑ ہے کہ انسان اصول و مقاصد پر عدم یقینی کی کیفیت میں مبتلاء ہو جائے۔

            علامہ اقبال نے خود اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرکم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا

 مابعد جدیدیت سے جنم لینے والے گمراہ کن نظریات

            مابعد جدیدیت (Post-Modernism): ما بعد جدیدیت،جدیدیت کا ردِعمل تھا جدیدیت کی اس ہمہ گیر فکری استبداد نے وہی صورت حال پیدا کردی،جو عہدِ وسطیٰ کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے ردِ عمل میں جدیدیت(Modernism)کی تحریک برپا ہوئی تھی۔جدیدیت کے استبداد کالازمی نتیجہ شدید ردِ عمل کی شکل میں رونما ہوا اور یہی ردِ عمل ما بعد جدیدیت (Post-Modernism)کہلاتا ہے۔ اور مابعد جدیدیت کے کچھ خصوصیات ہیں۔

            (۱ ) نظریہٴ اضافی (Relativism): مابعد جدیدیت سب سے پہلے حتمی سچائی کو ختم کرنے اور ہر چیز (بشمول تجرباتی علوم اور مذہب) کو کسی فرد کے اعتقادات اور خواہشات سے نسبتی قرار دیتا ہے یعنی حقیقت کوئی ثابت اور دائمی چیز نہیں ہے ؛بلکہ نسبی اور اضافی ہے جو زمان و مکان، دین و مذہب، عقیدہ و افکار، قوم و ملت کے لحاظ سے الگ الگ ہوتی ہے یعنی ”یہ آپ کے لئے سچا ہوسکتا ہے لیکن میرے لئے نہیں۔” مسلمان کے نزدیک یہ چیز حقیقت ہے اور ہندو کے نزدیک دوسری چیزحقیقت ہے اوردیگر مذاہب کے نزدیک کچھ اور چیزیں حقیقت ہیں خلاصہ دنیا میں کوئی چیز حتمی اور ثابت نہیں ہے بلکہ نسبی اور اضافی ہے جسکو یہ لوگ نظریہ اضافی (Relativism)سے یاد کرتے ہیں۔

            لیکن سچائی کی اضافیت کا نظریہ اسلامی نقطہ نظر سے ایک باطل نظریہ ہے۔ اسلام اس بات کا قائل ہے کہ عقل انسانی کے ذریعے مستنبط حقائق یقینااضافی ہیں اور شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک حقائق کا سر چشمہ وحی الٰہی ہے وہ حتمی اور قطعی ہیں۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ”بے شک اللہ وہ ہے، جس سے نہ زمین کی کو ئی چیز مخفی ہے نہ آسمان کی “ اور ایک جگہ فرماتا ہے:”جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے“

            اس طرح جو حقائق علم حقیقی کے سر چشمہ یعنی اللہ تعالٰی کی جانب سے وحی الٰہی یا اس کے پیغمبر کی منصوص سنت کی صورت میں ظہو ر پزیر ہوئے ہیں وہ حتمی صداقت (Absolute Truth) ہیں۔

            (۲) ردِ تشکیل کا نظریہ: ما بعد جدیدیت کے نزدیک جمہور یت،ترقی،آزادی، مذہب، خدا، اشتراکیت اور اس طرح کے دعووٴں کی وہی حیثیت ہے جو دیو مالائی داستانوں، الف لیلوی قصوں اور عقیدوں کی ہے۔ اس لئے انہوں نے ان تمام دعوؤں کو مہابیانیوں (mega narratives) کا نام دیا۔جدیدیت کے مفکرین کا خیال ہے کہ انہوں نے بہت سی’سچائیاں‘ تشکیل دی ہیں اور چاہے مذہب ہو یا جدید نظریات، ان کی بنیاد کچھ خود ساختہ سچائیوں پر ہے اسلئے جدیدیت کے دور کی تہذیب، علم وغیرہ انہی مفروضہ سچائیوں پر استوار ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان تشکیل شدہ سچائیوں کی رد تشکیل (Deconstruction) کی جائے، یعنی انہیں ڈھا دیا جائے۔ چنانچہ ادب، فنونِ لطیفہ،آرٹ، سماجی اصول و ضابطے ہر جگہ ان کے نزدیک خود ساختہ سچائیاں اور عظیم بیانیے ہیں،جن کی رد تشکیل ضروری ہے؛ تاکہ ما بعد جدیدی ادب،فنونِ لطیفہ وغیرہ میں ایسے ’غلط مفروضوں‘ کا عمل دخل نہ ہو۔

            (۳) پلولرالیسم (Pluralism) کی تائید:مذہبی معاملات میں وحدتِ ادیان کا نظریہ بہت قدیم ہے۔ما بعد جدیدیت نے اس طرزِ فکر کو تقویت دی ہے۔ اب دنیا بھر میں لوگ بیک وقت سارے مذاہب کو سچ ماننے کے لئے تیار ہیں اس لئے اس عہد کو لادینیت کے خاتمے کا عہد (Age of DE Secularization)بھی کہا جاتاہے۔ایک شخص خدا پر بھروسہ نہ رکھتے ہوئے بھی روحانی سکون کی تلاش میں کسی مذہبی پیشوا سے رجوع کرسکتا ہے۔ آج اسے کسی ہندو بابا کے ہاں سکون ملتا ہے تو کل کوئی عیسائی راہب اسے مطمئن کر سکتا ہے۔ یہ ما بعد جدیدیت ہے۔

حج کعبہ بھی گیا، گنگا کا اشنان بھی

راضی رہے رحمٰن بھی، خوش ہو شیطان بھی

            لیکن اسلام پلورالیسم نظریہ کو قبول نہیں کرتا ہے؛ بلکہ اسلام سارے ادیان کو سچ نہیں جانتا ہے بلکہ” ان الدین عنداللہ الاسلام“ خداوند کے نزدیک اسلام پسندیدہ دین ہے اور دوسری جگہ فرماتا ہے ”ھذا صراطی مستقیم “یہ میرا راستہ مستقیم ہے۔اس کے علاوہ باقی راستوں کوسبل الشیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس بناپر دنیا کو صحیح معنی میں اسلام ہی نجات دے سکتا ہے۔

            (۴) اخلاقی اقدار کی آفاقیت کا انکار: انکی نظرمیں خوش بختی، بدبختی، نیکی، بدی،خیر اور شر نسبی اور اضافی ہے یہ زمان، مکان، مذہب،ملت کے حساب سے الگ الگ ہوتا ہے اس لئے عفت،ازدواجی وفاداری اور شادی کے بندھن ما بعد جدیدیوں کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ان کی نظر میں شادی مرد و عورت کے درمیان بھی ہو سکتی ہے اورمرد مرد و عورت عورت کے درمیان بھی۔کوئی چاہے تو اپنے آپ سے بھی کر سکتا ہے۔مرد اور عورت شادی کے بغیر ایک ساتھ رہنا پسند کریں تواس پر بھی ان کے ہاں کوئی اعتراض نہیں۔

عمر بھرہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب

دھُول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

            لیکن اسلام میں بہت سے اخلاقی اقدار ہے جو آفاقی ہے پیغمبر اسلام نے فرمایا: ”الحلال بین و الحرام بین“اسلام میں بہت سے اخلاقی اقدار ہے جو ہرزمان اور مکان کے لئے ہے۔ اس بناپر ہم مابعد جدیدیت پر نیک نیتی سے نظر نہیں ڈال سکتے ہیں بلکہ مابعدجدیدیت عظیم فتنہ ہے۔

آ سماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

 اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائیگی

پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائیگی

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمہٴ توحید سے

خلاصہ

            اداریہ تفصیل سے لکھنے کی ضرورت محسوس کی اور اس میں خاص،طور پر ایمان، اسلام، نفاق، بدعت، فسق، گمراہی اور مغربی ایمان سوز افکار و نظریات کا تعارف پیش کیا گیا، اس لیے کہ عربی میں کہا گیا ہے ”و بضدھا تتبین الأشیاء“ اضداد کو جاننے سے حقیقت واضح ہوجاتی ہے؛ لہذا ایمان اور اس کے اضداد کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا محض اللہ کی توفیق سے اور اگلے صفحات پر عصری اسلوب میں اسلام کے بنیادی عقائد کو بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ !

            اللہ ہمیں ایمان پر ثابت قدمی نصیب فرمائے ہر قسم کی گمراہی سے ہماری حفاظت فرمائے اور اللہ رب العزت ہم سے راضی ہوجائے۔ آمین یارب العالمین !

            علماء خطباء طلبہ اور تراویح پڑھانے والے تمام حفاظ سے مودبانہ التماس ہے کہ اداریہ کا مطالعہ فرمانے کی زحمت اٹھائیں اور رمضان المبارک میں امت پر عقیدہ کی خوب محنت کریں۔اس میں بیان کیے جارہے عقائد کی مساجد میں تعلیم کریں فتنہ ارتداد کو روکنے کے لیے امت کو عقیدہ تفصیل کے ساتھ بتانا ضروری ہے ہم ایک ”تحفظ عقائد ایپلیکیشن“ بھی تیار کررہے ہیں اس پر عقائد پر معتبر مواد بھی ہوگا اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال آئے یا کوئی آپ سے سوال دریافت کرے اور آپ کے علم میں نہ ہو تو ان شاء اللہ جوابات کا اہتمام کیا جائے گا اللہ ہم سب سے راضی ہو جائے۔ آمین یارب العالمین!