”کورونا وائرس“ اور اسلامی تعلیمات

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی

            ہم مسلمان ہیں ، لہٰذا ہمیں کسی بھی قسم کے حادثہ کے پیش آنے پریہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے ؟ تو آئیے پہلے کورونا کے بارے میں اسلام کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔

” کورونا وائرس“ اور اسلامی عقیدہ:

            ہر مسلمان کا عقیدہ اور ایمان یہ ہونا ضروری ہے کہ کائنات میں موٴثر بالذات اگر کوئی ہستی ہے ،تووہ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ دنیا کے تمام تغیرات اس کے قبضہٴ قدرت میں ہے، کوئی چیز اس کے حکم کے بغیر نہ نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان ۔ قرآن ِکریم کی بے شمار آیات اور بے شمار احادیث مبارکہ اس پر دال ہیں :

            سورہٴ توبہ میں ارشاد ہے : ” آپ کہہ دیجیے ! کہ ہرگز کوئی چیز ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ، مگر ہاں وہ چیز جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر کی ہو، وہی ہمارا پالنہار ہے اور مومنوں کو اسی پر توکل رکھنا چاہیے ۔“ (سورہٴ توبہ)

            لہٰذا ہمارے عقیدے کے اعتبار سے موت و حیات ، بیماری وشفا ، مصیبت اور نعمت ، عزت و ذلت کا مالک ِحقیقی اللہ کو ماننا ضروری ہے ۔

وبا کب اور کیوں آتی ہے ؟

            دنیا میں انسان پر مصائب آنے کی دو وجہ ہے :

            (۱) گناہ گار کو مصیبت میں مبتلا کرکے اللہ کی طرف رجوع کی دعوت دینے کے لیے ۔

            (۲) نیک آدمی کے صبر کا امتحان لینے یا رفع ِدرجات کے لیے ۔ اس لیے کہ یہ دنیا دارالابتلا ہے ، لہٰذا آدمی اپنا محاسبہ کرے ، اگر نیک ہے تو صبر سے کام لے ۔ اور گناہ گار ہے تو توبہ کرے۔ اور اجتماعی طور پر امت کے تمام افراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں ،فرائض کا اہتمام کریں ، ذکر ودرود کا عادی بننے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ گناہوں سے مکمل اجتناب کریں ۔

            دنیا میں اللہ کے عام عذاب کی بنیادی وجہ معصیت کی کثرت ہے ، جس سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور خالق کی ناراضگی جب شدت اختیار کرتی ہے تو اس طرح عام عذاب سے دنیا دوچار ہوتی ہے۔

            قرآن کریم میں ﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ﴾۔﴿وَماَ اَصَابَکُمْ مِّنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکْ﴾۔

            حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ٴاکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : ” اے جماعت ِمہاجرین ! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تم اس میں مبتلا ہوئے( اللہ تمہاری اس سے حفاظت فرمائیں!) جب کسی قوم میں بے حیائی اور فواحشات عام ہو جائیں گے ،تو اس کے مقابل اس قوم میں طاعون یعنی عام بیماری پھیل جائے گی اورایسی بیماریاں عام ہوں گی ، جس کا اس سے پہلے لوگوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ (ابن ماجہ)

            ایک اور روایت میں ہے کہ : ” جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوجائے گی تو موت عام ہوجائے گی۔“

            امام ابن حجر فرماتے ہیں: کہ وبا اور عام بیماری گناہوں کی سبب پھیلتی ہے۔

            حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ ہر بلا گناہ کی وجہ سے آتی ہے اور توبہ سے ٹلتی ہے۔

            معلوم ہو ا کہ مسلمان اس بات کو سمجھیں کہ یہ وبا ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہے ، لہٰذا سچی پکی توبہ کریں۔

            سورہ ٴانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

             ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ﴾(۴۲)﴿فَلَوْلَآ اِذْ جَاءَ ہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾(سورة الانعام:۴۲-۴۳)

            ترجمہ: ”اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کے پاس پیغمبر بھیجے، پھر ہم نے (ان کی نافرمانی کی بنا پر) انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں گرفتار کیا، تاکہ وہ عجز و نیاز کا شیوہ اپنائیں۔(۴۲)پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تھی، اس وقت وہ عاجزی کا رویہ اختیار کرتے؟ بلکہ ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، شیطان نے انہیں یہ سجھایا کہ وہی بڑے شاندار کام ہیں۔“(۴۳)

متعدی امراض کے شرعی احکام:

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے عذاب جان کر صرف توبہ پر اکتفا کیا جائے یا اس کے لیے تدابیر اختیار کی جائیں ، تو اسلام اس بارے میں تدابیر ظاہر یہ کہ اختیار کرنے کا ہمیں مکلف کرتا ہے ، اس لیے کہ حدیثِ پاک میں ہے کہ :” جب کسی جگہ طاعون یعنی متعدی مرض پھیل جائے ، تم وہاں نہ جاوٴ اور اگر تم اس وبا زدہ علاقے میں ہو تو وہاں سے راہِ فرار اختیار نہ کرو۔“

(بخاری ومسلم)

 اس سے معلوم ہواکہ وبا سے بھاگنا نہیں چاہیے اور نہ ہی گھبرانا چاہیے، اس لیے کہ خوف یہ بیماریوں کی جڑ ہے ۔

            ہم مسلمان ہیں ، ہمارا تقدیر پر ایمان ہے کہ اچھی ہو یا بری اللہ کی جانب سے ہے ۔ اس میں ہمارے لیے خیر ہے ، لہٰذا خوف میں مبتلا نہ ہوکر اطمینان رکھنا چاہیے ؛اگر خدا نخواستہ اس سے دوچار بھی ہوں گے تو حدیث میں خوش خبری ہے: ”شہید الطاعون شہادة لکل مسلم“۔

(بخاری)

            ایک اور روایت میں ہے کہ ” طاعون مومن کے لیے رحمت ہے ۔“

(بخاری)

جہاں بیماری داخل ہوگئی ،وہاں سے نہ بھاگے:

            حدیث کے مطابق یعنی جس بستی یا علاقہ میں یہ بیماری ہو ، وہاں نہ جائے اور جو وہاں ہو، وہ وہاں سے نہ بھاگے ، ایسی صورت میں اگر وہ اس بیماری سے دوچار نہ بھی ہو تب بھی اسے شہید کا اجر مل جائے گا ان شاء اللہ !

حکومت کے قوانین کی پاسداری کریں:

            اسلام نے کسی وبا کے موقع پر حکومت کو اس سے بچنے کی تدابیر کے لیے عارضی طور پر پابندی کی اجازت دی ہے ؛ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس پر عمل کریں ۔ مثلاً:

… مساجد میں جماعت کی تقلیل۔ امام موٴذن اور دو تین افراد کے علاوہ کوئی مسجد میں نہ جائے۔

… اسی طرح اپنے گھر سے باہر نہ نکلیں ؛البتہ ضرورت ہوتو حکومت کی طرف سے متعین کردہ وقت میں نکلیں ۔

#…جمعہ بھی گھر پر ادا کرلیں ، اگر تین سے زائد افراد ہوں اور کوئی خطبہ دینے پر قادر ہو تو جمعہ ورنہ انفراداً ظہر کی نماز ادا کریں۔ ان شاء اللہ آپ کو جمعہ کا ثواب گھر پر پڑھ کر بھی مل جائے گا۔

”کورونا “ کے زمانے میں کیا کرنا چاہیے :

            (۱)…گناہوں سے اجتناب کا اہتمام سب سے مقدم ہو ۔

            (۲)…نمازوں کا اہتمام ، چاہے گھر پر ہی کیوں نہ ہو۔

            (۳)…صدقہ خیرا ت اپنی وسعت کے مطابق۔

            (۴)…درود وسلام کی کثرت۔

            (۵)…استغفار کی کثرت ۔

            (۶)… تلاوت ِقرآن کی کثرت ۔

            (۷)…اذکار ِمسنونہ کی پابندی۔

            (۸)…صفائی کا پورا خیال ۔

            (۹)…ہوسکے تو روزہ رکھیں۔

            (۱۰)…ڈاکٹروں کی ہدایت پرعمل کریں۔