”کورونا“کے اسباب اور اس سے نجات کیسے؟مابعد” کو رونا“ اورہماری ذمہ داری

مولانا حذیفہ ابن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی 

            اللہ رب العزت نے انسان کو اس حیرت انگیز کائنات میں اشرف الخلائق بناکر پیدا کیا، کائنات کو اس کے لیے اور اسے اپنے لیے وجود بخشا، دنیا کی فانی زندگی کو اس کے لیے دارالعمل اورآخرت کو دار الجزاء بنایا ؛ البتہ آخرت سے قبل اچھے یا برے عمل کا کچھ نہ کچھ سزا اسے دنیاہی میں اللہ چکھاتے ہیں۔ کورونا کی وبا در اصل انسانوں کے اپنے برے اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔ ہم چوں کہ مسلمان ہیں، لہٰذا آئیے ماقبل” کورونا“ ،مابین ”کورونا“ اور مابعد ”کورونا“کے اسباب و احوال اور ہماری ذمہ داری پر کتاب و سنت کی روشنی میں نظرڈالتے ہیں۔

ماقبل ”کورونا“ اورہماری زندگی:

            دسمبر۲۰۱۹ء سے قبل کا زمانہ ہمارے لیے ماقبل ”کورونا“ کا دور ہے۔ اگر ہم اس پر نظر دوڑاتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ”کورونا“ کے ذمہ دار ہم سب ہیں، اب سوال پیدا ہوا ، وہ کیسے؟ تو آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں وبا کے اسباب پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

            اس دنیا کو اللہ رب العزت نے دار الاسباب بنایا،حضرت ِانسان کو اسباب اختیار کرنے کا مکلف بنایا اوردو طرح کے اسباب اس کے سامنے رکھ دیا۔ اسبابِ خیر اور اسباب ِشر؛ اگر انسان اسباب ِخیراجتماعی یا انفرادی طور پر اختیار کرتا ہے ،تو خیر کو اللہ کی جانب سے پاتا ہے اور اگراسباب شر کو اختیار کرتاہے، تو شرسے دو چار ہوتا ہے۔

حکیم الامت مجدد ملت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:

            دنیا میں انسان پر آنے والی بلاوٴں اور وباوٴں کے اسباب دوطرح کے ہوتے ہیں: ظاہری اور باطنی ۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا کا انسان صرف ظاہری اسباب پرنظر کرتا ہے اور باطنی اسباب کو فراموش کردیتا ہے۔جب کہ باطنی اسباب ہمارے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، لہٰذا ہمیں اسبابِ ظاہریہ وطبعیہ سے زیادہ اسباب ِباطنیہ کو جاننے کی فکر کرنی چاہیے اور اسباب ِباطنیہ کو کتاب و سنت ہی سے جانا جاسکتا ہے۔

            اممِ سابقہ کے واقعات میں ہمارے لیے ان گنت مثالیں موجود ہیں، جو اسباب ِباطنیہ کے ہولناک نتائج کی غمازی کرتی ہیں۔مثلاً قارون کا زمین میں دھنس جانا، اس کا ظاہری سبب کیا ہوسکتا ہے؟ ! کچھ بھی نہیں۔ باطنی سبب ہی ہے اور وہ ہے شریعت ِموسویہ کی مخالفت کاگناہ ۔ یعنی زکوٰة نہ دینا اور پھر موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچانا۔ اسی طرح قوم ِنوح ، قوم ِلوط، قومِ ہود، قوم ِثمود، قوم ِفرعون اور قوم ِشعیب کی ہلاکت کے لیے کیا ظاہری اسباب تھے؟ ! کوئی نہیں… باطنی سبب ہی تھا اور وہ نبی کی نافرمانی والا گناہ۔ تو آئیے ہم امت محمدیہ پر وبا کب اور کیوں آتی ہے، اس کے اسباب پر نظر کرتے ہیں:

ہماری زندگی پر گناہ کے ہولناک اثرات:

            رزق میں تنگی یا بے روز گاری : مسند احمد میں ہے کہ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گناہوں کی کثرت کی وجہ سے بندہ رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔“

            معلوم ہوا کہ گناہ کی کثرت آج ہماری بے روزگاری میں اضافہ کا باعث ہے۔

            ایک روایت میں ہے کہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: کہ جب اہل ِزمین میری اطاعت کرتے ہیں، تو میں خوش ہوتا ہوں اور جب میں خوش ہوتا ہوں، تو برکت نازل کرتا ہوں اور میری برکت کی کوئی حد نہیں۔ اور جب بندے میری نافرمانی کرتے ہیں، تو میں ناراض ہوتا ہوں اور جب ناراض ہوتا ہوں، تو لعنت بھیجتا ہوں اور میری لعنت کا اثر سات پشتوں تک جاری رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔آمین!

            قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ لوگوں کی بد اعمالی اور برے کرتوتوں کی وجہ سے زمین سے امن اٹھ جاتا ہے۔

پانچ کبیرہ گناہ کے پانچ بد ترین دنیوی انجام:

            سنن ِابن ماجہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ایک دن آپ نے مہاجرین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے جماعتِ مہاجرین! پانچ گناہوں سے تمہارے لیے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ ان میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔

            ۱-         جب کسی قوم میں بے حیائی عام ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ انہیں طاعون اور ایسی مہلک بیماریوں میں مبتلا فرماتے ہیں کہ ان کے باپ داداوٴں نے کبھی نہ سوچی ہوگی۔

            ۲-         جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، تو اللہ تعالیٰ انہیں قحط سالی ، سخت مشقت اورظالم حکمرانوں سے دوچار کرتے ہیں۔

            ۳-         جب کوئی قوم زکوٰة سے باز آجاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس پر بارش کو روک دیتے ہیں اگر بہائم نہ ہوتے تو بالکل بارش نہ ہوتی۔

            ۴-         جب کوئی قوم عہد شکنی کرتی ہے، تو اس پر دشمن کو مسلط کردیا جاتا ہے۔

            ۵-         جب کسی قوم کے حکمران کتاب اللہ کے علاوہ سے فیصلہ کرتے ہیں تو اللہ انہیں آپسی اختلاف سے دو چار کرتا ہے۔

بے حیائی کورونا کا بنیادی سبب :

            مذکورہ حدیث میں ذکر کردہ تمام پریشانیوں سے عالم اسلام ہی نہیں پورا عالم دو چار ہے، اس لیے کہ اجتماعی طور پر اکثریت ذکر کردہ تمام گناہوں میں مبتلا ہے۔ خاص طور پر بے حیائی اور اسی بے حیائی نے ”کورونا“ سے ہمیں دو چار کیا ہے، لہٰذا ویکسین سے زیادہ بے حیائی کو روکنے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرہم بے حیائی سے بچنے کی ویکسین لگاتے ہیں، تو ان شاء اللہ یہ وبا ٹل جائے گی، ورنہ یہ آسانی سے پیچھا چھوڑنے والی نہیں۔

            معجم طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے وارد ایک اور روایت میں مذکور ہے، جس معاشرے میں زنا عام ہوتا ہے، اللہ اس معاشرے کو موت یعنی وباکے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔

            اسی روایت میں ہے کہ سود کا شیوع گمراہی اورپاگل پن میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔

            حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے کہ جب کسی قوم میں زنا اور سود عام ہوجاتا ہے تو اللہ اسے ہلاکت میں مبتلا کرتے ہیں، یعنی جانی اور مالی نقصان بے حساب ہوتا ہے۔

            معلوم ہوا کہ وبا اورسخت عذاب کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:

            ۱- گناہوں کی کثرت۔ ۲- بے حیائی کا عام ہونا ۔ ۳- زنا کا عام ہونا۔ ۴- ناپ تول میں کمی ۔ ۵- زکوٰة نہ دینا۔ ۶- سود کا لین دین۔

            یہ وبا کے اسباب ہیں اور آج یہی سب معاشرہ میں عام ہے۔

کورونا کیسے ختم ہو سکتا ہے؟

            ۱- گناہوں سے توبہ: مسلمانوں کے لیے سب سے پہلا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے سچی پکی توبہ کریں اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کریں۔

            ۲- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر : معاشرے میں برائی کرنے والوں کو روکیں اور بھلائی کا حکم کریں ، اگر اس سے نجات چاہتے ہیں ۔

            ۳- گناہ گاروں سے ملنا جلنا بند کردیں:ان کی محفلوں میں شرکت نہ کریں۔

            ۴- استغفارکی کثرت کریں:اس لیے کہ استغفار تنگی سے خلاصی کا ذریعہ ہے۔

            ۵- اعمال صالحہ کی پابندی کرنے لگیں: خاص طور پر نمازو روزے کا اہتمام کثرت بلاوٴں کے ٹلنے کا کلیدی ذریعہ ہے ۔

            ۶- صدقہ وخیرات کی کثرت : یعنی اخلاص کے ساتھ خوب صدقہ خیرات کریں، اگر بلا کو ٹالنا ہے۔

            ۷- دعاوٴں کا اہتمام: بڑی سے بڑی مصیبت کو دفع کرنے کے لیے دعا مومن کاسب سے بڑا ہتھیار ہے۔

            حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دعا ہی ایک ایسی طاقت ہے، جو تقدیر کو بھی پلٹ سکتی ہے، مگر افسوس کہ آج مسلم معاشرہ دعا کو بھول چکا ہے۔

بلا کو دور کرنے کا دستور العمل:

            حکیم الامت مجددِ ملت حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ بلاوٴں کو ٹالنے کا خاص دستور العمل یہ ہے۔

            ۱- نمازوں کی مکمل پابندی کرنا، مسلمان معاشرے کے ہر فرد پر ضروری ہے ۔ صرف اپنی نماز پر اکتفا نہ کرے ، بل کہ خود بھی پڑھے اور اپنے اہل وعیال اور دوست و احباب اور متعلقین سب سے پابندی کروائے۔ سات سال کے بچہ سے لے کر ہرفرد پر نماز لازم کرو، نہ پڑھنے پر سزا دو اور ناراضگی کا اظہار کرو۔

            ۲- صدقہ وخیرات کی کثرت کرو اور جو لوگ ضرورت کے باوجود ہاتھ نہیں پھیلاتے ایسے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر صدقہ دو۔

            ۳- چلتے پھر زبان سے ”استغفر اللہ،استغفر اللہ “ کا ورد جاری رکھو اور اپنے گھر کے افرادکوبھی اس کا پابند بناوٴ۔

            ۴- ایسے حالات میں روزانہ صلوة التوبة کا التزام کرو اور رو رو کر اللہ سے معافی مانگو۔

            ۵- گناہوں سے اور خاص طور پر زنا سے مکمل اجتناب کرو ۔

             اپنے موبائل میں فلم بینی فحش سریلوں اور بے حیائی کے پروگرام کو دیکھنے سے اجتناب کرو، کیوں کہ بلا کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے نوجوان کانوں میں ہیڈ فون لگاکر گانا وغیرہ سننے کے عادی ہیں، انہیں اس سے روکو، اس لیے کہ یہی کورونا کا اصل سبب ہے۔

            ۶- اپنے اوپر جو لوگوں کے حقوق ہیں اسے مکمل ادا کرو، کسی عزیز اور رشتہ دار کا حق ہر گز مت دباوٴ، بہنوں کو وراثت میں ان کا حق دو ، کسی کی زمین ناحق دباکر نہ بیٹھو، اس لیے کہ یہ بھی عام بلاوٴں کے آنے کے اسباب میں سے ایک ہے۔

            ۷- دیانت داری اورامانت داری کی عادت بناوٴ، خیانت سے بچو، اس لیے کہ یہ بھی مصائب کے آنے کا سبب ہے۔

            ۸- سود اور انٹر یسٹ کے لین دین سے کلی اجتناب کرو، آج کل اس میں عام ابتلا ہے ۔اور سود خوری گھر اور معاشرہ میں مصائب کو لے کر آتی ہے۔

            ۹- رات کے وقت کھانے کے برتن کو کھلا مت چھوڑو ، اس پر کچھ نہ کچھ ڈھانپ دیا کرو، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ اس سے بھی بلا آتی ہے۔

            ۱۰- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی عادت ڈالو، اس لیے کہ برائی سے نہ روکنابھی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔

            ۱۱- شریعت نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے، اسے مکمل بجا لاوٴاور جن چیزوں سے روکا ہے،اس سے پورے طور پر باز رہو۔

            ۱۲- اذکار ِمسنونہ کا اہتمام کرو! خاص طور پر صبح وشام اور رات کے اذکار ِماثور، صبح سورہ ٴیٰس کی تلاوت ، ظہر میں سورہٴ فتح کی تلاوت ، عصر میں سورہٴ نبا اور مغرب میں سورہ ٴواقعہ ، عشاکے بعد سورہٴ سجدہ اور سورہٴ ملک کی تلاوت کا التزام کرو۔

            صبح و شام منزل کا اہتمام کرو! جس میں فضیلت اور دفعِ بلا والی آیات کو علما نے جمع کیا ہے۔

 غرض یہ کہ کورونا سے نجات کے لیے یہ روحانی نسخہ ذکر کیا گیا، مسلمانوں کو اس جانب خاص توجہ دینی چاہے۔

مابعد کورونا اور ہماری ذمہ داریاں:

            کورونا اگرچہ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، مگر اب ویسا خوف اور شدت بھی اس کی باقی نہیں اور ان شاء اللہ جلد ختم ہوجائے گا۔البتہ اس کا جانا اور لوٹ کر پھر آنا یہ ہمیں دعوت محاسبہ دے رہا ہے کہ ہم نے ابھی تک توبہ میں کوتاہی کی ہے۔

            اگر جلد ختم نہ ہوا تو اس سے بچنے کی تدابیر یعنی سوشل ڈسٹنس ، ماسک پہننے وغیرہ کے ساتھ ساتھ باطنی تدابیر جو اوپر ذکر کی گئی ، اس کو لازم پکڑ نے کی کوشش کریں تاکہ اللہ حفاظت فرمائے۔ اس لیے کہ سب کچھ اسی کی قدرت اور مرضی سے ہوتا ہے۔ اسے راضی کرلیں گے تو کام بن جائے گا ان شاء اللہ!

شکر:     اب تک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بیماری سے محفوظ رکھا، ہم اس پر اس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات ، نحمدک حمدا لا نحصی ثناء علیک الا کما اثنیت علی نفسک۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿مَایَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَ آمَنْتُمْ﴾ اللہ تعالیٰ تمھیں عذاب دے کر کیا کریگا؟ اگر تم شکر گزاری کرو اور ایمان لے آوٴ۔

            معلوم ہوا شکر گزاری سے عذاب ٹلتا ہے۔

             اس بیماری میں مبتلا ہوکر لاکھوں کی تعداد میں جوان بچے بوڑھے، مرد عورت اس دار فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اور اب بھی بہت سارے اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ جو انتقال کرچکے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جو بیمار ہیں، اللہ انہیں مکمل شفا کی نعمت سے نوازے۔ اور جو اس سے محفوظ ہیں اللہ آئندہ بھی انہیں اس سے اور ہرطرح کی مہلک بیماری سے محفوظ رکھے ۔ آمین یار ب العالمین!

کورونا کے بعد اب ہم عبادات کیسے انجام دیں؟:

            کورونا کے زمانے میں متعدی مرض ہونے کی وجہ سے ظاہری تدابیر کا خیال رکھ کر شریعت ِمطہرہ نے ہمیں بہت ساری رخصتیں اور سہولتیں دی تھیں ۔مثلاً :گھر میں نماز باجماعت، گھر میں جمعہ، گھر میں تراویح، البتہ اب چوں کہ یہ بیماری قریب الزوال ہے، بعض ختم ہونے جارہی ہے، لہٰذا پہلے سے زیادہ پابندی کے ساتھ اجتماعی عبادتوں کو مسجد میں کرنا شروع کردیں۔ اس لیے کہ وہ سہولت محض عارضی تھی، دس ماہ کی وجہ سے ہم اس کے عادی ہوگئے ہیں، لہٰذا ہم مزید اس سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جوبالکل غلط ہے۔

             جہاں یہ مرض ختم ہوچکا اور مسجدیں کھل چکی ہیں وہاں گھروں میں سنت اور نفل نمازیں ادا کریں اور فرض نمازوں کے لیے مساجد کا رخ کریں اور اپنی مسجدوں کو آباد کریں اس لیے کہ مسجد کی ویرانی سے بستی پر ویرانی آتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔

            اچھے اچھے لوگوں کو دیکھا جارہا ہے کہ وہ معمولی معمولی بہانے سے گھر میں نماز جماعت سے ادا کر رہے ہیں، یہ عادت ختم ہونی چاہیے۔

            عامة المسلمین کے ساتھ ساتھ مقررین ، خطبا اور ائمہٴ مساجد کو بھی اس کے لیے محنت کرنی چاہیے کہ مسجد کیسے آباد ہو، نماز باجماعت در مسجد کے فضائل بیان کیے جانے چاہیے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مسجدوں کو آباد کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

اپنے بچوں کی دینی ودنیوی دونوں تعلیم کی فکر:

            کورونا کے طول پکڑنے سے ہمارے بچوں کی تعلیم بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اب ہمیں اس جانب خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے مدرسہ ،مکتب اور اسکول کی جانب پوری فکر کے ساتھ روانہ کریں، اس لیے کہ بچے تو نا سمجھ ہیں، وہ اپنا نفع ونقصان نہیں سمجھتے اور آرام طلبی اور گھر میں طویل عرصہ آزادی سے رہنے کی وجہ سے مدرسہ اور اسکول جانے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوں گے، مگر ہمیں ان کے مستقبل کوتابناک اور روشن بنانے کے لیے انہیں بھیجنا ہی پڑے گا۔

            بعض بڑی عمر کے طلبہ فیکٹریوں اور دکانوں پر کام میں لگ گئے ہیں اور دو پیسہ کمانے لگے ہیں۔ والدین بھی سوچتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا کام کررہا ہے، کام میں رہنے دو۔مگر یہ غلط فیصلہ ہے اس سے وہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے دنیا و آخرت میں بڑا خسارہ اٹھائیں گے، لہٰذا کام چھوڑ کر انہیں پہلی فرصت میں تعلیم کے لیے روانہ کریں ورنہ بعد میں بہت افسوس کرنا ہوگا۔

            طلبہ بھی خود اپنے لیے فکر کریں اور ماں باپ بھی، مقررین اور خطبا ٹیچر اور علما بھی گھر گھر جاکر سروے کریں اور ان کی ذہن سازی کریں۔

            ہندستان کے تناظر میں ویسے ہی مسلمان پہلے سے تعلیم میں پیچھے ہیں اور پیچھے ہوجائیں گے، لہٰذا اس کی خاص نوٹس لیں اوراپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کریں۔

 اس کے علاوہ بعض حضرات نے کچھ اور گوشوں سے مابعد ”کورونا“ پر روشنی ڈالی ہے، وہ بھی یہاں نقل کردئے گئے ہیں۔

مابعد کورونا کا اثر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے نظریات پر بہت گہرا ہوگا :

            سرمایہ داری نظام کے structures(ڈھانچے) جو ہیں ،ان پہ سوالات اٹھیں گے اورطبقاتی تقسیم میں شدت پیدا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

            اب بڑے بڑے نظریات؛ یعنی وہ نظریات جو جدید ذہن کی کل پونجی ہیں، جن سے جدیدیت بنی ہے، وہ نظریات اور وہ نظام جن سے جدید زندگی چل رہی ہے، یہ دونوں چیلنج ہوں گے، یہ بڑے بڑے سوالات کی زد میں آئیں گے۔ اسی طرح مختلف علوم کی authenticity (استنادی حیثیت)سے لے کران کی افادیت اور ان کی ضرورت تک پر سوالات اٹھیں گے۔ یہ ساری جو اکھاڑ پچھاڑ ہو گی، اس میں کچھ حصہ منفی ہو گا کچھ حصہ مثبت ہوگا۔لیکن ایک بات جوتقریباًہمارے خیال میں یقینی معلوم ہو رہی ہے۔وہ یہ کہ انسانوں میں نیچرل طبقاتی تصادم ؛یعنی امیر غریب کا تصادم۔یہ قوموں کی سطح پر بھی اور معاشرتی، انفرادی سطح پر بھی شدت پکڑے گا اور جو مورچے غیر آباد تھے وہ پھر سے آباد ہوں گے۔

 مسلمانوں کے لیے دعوت کا سنہری موقعہ :

            یہاں اسلام جو مذہب برحق ہے،اس کو ہم اپنے ذہن اور اپنے اخلاق کی پرورش کا ذریعہ بنانے کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں اور مذہب کی اخلاقی اور علمی ابدیت کے نئے avenues (مواقع) مذہب سے سردست دور رہنے والے طبقات کی جانب کھول بھی سکتے ہیں۔ یعنی تبلیغ کے مواقع بہت ٹھوس انداز میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم مثبت پہلو ہے، جس سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے کہ جب سائنس دانوں کے کہنے پر ایک نادیدہ کورونا وائرس کو آپ ماننے پر آمادہ ہوگئے تو خالق و مالک کو ماننے میں آپ کو اب کیا دشواری ہے!!!

سیاسی اقتصادی اور نظریاتی میدانوں پر مابعد کورونا کے اثرات کیا ہوں گے؟

            اس عالمگیر وبا نے انسان اور کرہٴ ارض کے مستقبل کے حوالے سے کچھ ایسے سوالات اٹھا دیے ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آزادی، ترقی،گلوبلائزیشن، ٹیکنالوجی، طبقاتی تقسیم، کارپوریشن، پاور سٹرکچر یعنی ہمارے زمانے میں جو پاور سٹرکچرز ہیں، یہ سب ایک جارحانہ تنقید کی زد میں آئیں گے۔اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کا جو نتیجہ، یاد ہے ناوہ”ہنٹنگٹن“ کی جو کتاب ہے جو بہت زیادہ چلی۔تو اس پس منظر میں کہہ رہا ہوں کہ تہذیبوں کے درمیان جو تصادم کا نتیجہ ایک تیقن اور گھمنڈ کے ساتھ اہلِ مغرب نے یا امریکہ نے طے کر لیا تھا، قوی امکان ہے کہ وہ بڑ ی حد تک پلٹ جائے گا۔مغرب؛خصوصاً امریکہ کی بالا دستی کی تکمیل کا مسلسل عمل”گمانِ غالب ہے کہ رک جائے گا اور ایک تہذیب یا ملک کی بالادستی کا تصور ہی خاصا بدل جائے گا۔

 جدیدیت کے مابعد جدیدیت اور اب نیو کولونیزم neo-colonialism کے دور کے آغاز کا خطرہ منڈلانے لگا ہے ۔اور ساتھ ساتھ دوسری طرف جو ہے کمزور معیشتیں،وہ اپنی بقا کے لیے غلامی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتی ہیں اور عہدِ جدید سے پہلے کی استعماری یعنی colonial روایت کا مختلف صورتوں میں احیا۔ بھائی سچ کہہ رہا ہوں کہ جیسے سامنے نظر آ رہا ہے۔ یعنی ایک neo-colonialism (نواستعماریت) کی تشکیل ہو گی اور اس میں مضبوط معیشت اور کمزور معیشت کا تعلق آقا اور غلام کا سا ہو گا۔ اب صرف یہ کہ استعماری قوتیں بدل جائیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ اب چینی استعمار پھیلے یا جوبھی ہے۔ جس طرح دوسری جنگِ عظیم نے مغرب کے بنیادی تصورات اور اجتماعی نفسیات میں بہت سی جوہری، بنیادی تبدیلیاں کر دی تھیں۔ کورونا وائرس بھی عالمی سطح پر لگتا ہے کہ اسی نوع کے تغیرات کی بناء ڈال سکتا ہے۔ جیسا کہ میں شروع میں کہہ رہا تھا کہ ان ممکنہ تغیرات میں کچھ مثبت ہو سکتے ہیں اور کچھ منفی۔ تو مثبت تغیرات و تبدیلیوں کی امید باندھی جا سکتی ہے ان میں سے چند یہ ہوں گی:

1- انسانی وحدت کا موجبِ عمل احساس یعنی اسلامی

            وحدت کے مقصود کو سامنے رکھ کر وحدتِ انسانی کی تعمیر کا جو پیغام ہے، اس کی ماہیت، اہمیت او ر افادیت کو سمجھنا دنیا کے لیے آسان ہو جائے گا۔ اللہ نے ہدایت کے اصول پر وحدتِ اسلامی طلب فرمائی ہے۔ فطرت اسلامی کے اصول پر وحدتِ انسانی طلب فرمائی ہے۔ اور ان میں ربط اور نسبت اور تعلق وہی ہے جو نظامِ ہدایت اور نظامِ فطرت إسلامی میں ہے کہ فطرت اسلامی نظامِ ہدایت کے تابع آنا ہے۔ یعنی ہدایت مقصود ہے، فطرت کو اس مقصود کی طرف سفر کا زادِ راہ بنانا ہے۔ تو پوری بات یہ ہے کہ اللہ ہماری اجتماعیت کو وحدتِ إسلامی کے دائرے میں لا کر اس دائرے میں توسیع کا عمل شروع کرنے کا حکم دیتا ہے۔ وہ توسیع جو وحدتِ انسانی کو وحدتِ اسلامی میں ڈھال دے تو دونوں تصورات interactive (باہم متعامل) ہیں کہ وحدتِ انسانی کا تصور نہیں ہو گا تویہ ثابت ہوگاکہ اسلام عالم گیر دین نہیں ہے۔جب کہ اسلام ہی عالمگیر دین ہے اور انسانی تمام مشکلات کا حل صرف اور صرف اسلام کے سایہ عاطفت ہی میں ہے۔یہ قیامت تک رہنے والا واحد دین ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ وحدتِ انسانی تو well established (معروف مسلمہ) ہے۔ اب انسانیت کو بندگی بناؤ یا اپنی انسانیت کو بندگی اورعبدیت بناؤ اور اس وحدتِ انسانی کےgiven (عطا کردہ) مظہر کو وحدتِ اسلامی میں منقلب کر کے دکھاؤ۔ یہ اسلام ہے۔ یہ اب آسان ہو جائے گا۔ لگتا ایسا ہے اور اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔

            2۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک خاص طرح کی مذہبیت میں غیرِ محارب (جنگ نہ کرنے والے) غیر مسلم کے لیے بھی ایک سنگ دلی کا سا رویہ ہے۔ ایک بے حسی کا سا رویہ ہے۔ ہم لوگ خود اپنی اس دینی کمی کو دور کرنے کا مزاج اور ماحول حاصل کر لیں گے کہ نہیں غیر مسلم کی تکلیف بھی محسوس کرنی چاہئے اور اس تکلیف کو رفع کرنے میں اگر میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہوں تو وہ ایک دینی احساسِ ذمہ داری اور امید ِاجر کے ساتھ مجھے ادا کرنا چاہیے۔ ایک تو یہ بات ہو گئی اور دوسرے یہ کہ سائبر ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ جو باہمی مغائرت ہے، جو ہم لوگ ایک دوسرے کےغیر بن گئے ہیں، یعنی ہماری ایک دوسرے کے ساتھ معاشرت، اپنائیت کے اصول پر نہیں رہ گئی،بل کہ مغائرت کے اصول پر کھڑی ہو گئی ہے۔ ہر آدمی جو ہے وہ اپنے بالکل ہی غیر مؤثر اور بالکل کاٹھ کباڑ حصے سے دوسرے کے ساتھ متعلق ہے۔ یعنی تعلق کے جو بنیادی جذبات و احساسات، تعلق کی بنیادی اہمیتیں، تعلق کے احساس پر پیدا ہو جانے والی ایک زندہ معاشرت، یہ سائبر ٹیکنالوجی نے غارت کر کے رکھ دی ہے۔ اس کو میں کہہ رہا ہوں کہ یہ مغائرت پیدا کی ہے۔ اس غیریت اور اس مغائرت سے نکل کر انسان کی معاشرتی فطرت کی بحالی کا امکان، ان شاء اللہ تازہ ہو جائے گا۔یعنی ہم لوگ ایک دوسرے سے ایک مشین کے دو پرزے بن کر نہیں ملاکریں گے۔پھرہم گویاایک جذبے اورایک organic association (نامیاتی تلازمے) اور relationship (نسبت) کے ساتھ دوبارہ ایک دوسرے سے متعلق ہونے کا امکان حاصل کریں گے۔

            3۔ اسی طرح تیسرا(نکتہ) یہ ہے کہ ترقی اور طاقت کے موجودہ تصورات میں چھپے ہوئے غیر انسانی پن کے خلاف عالم گیر اتفاقِ رائے کی پیدائش ممکن ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک خواب سا ہے۔ اب اس کی تفصیل میں کیا جانا کہ ترقی جو ہے، اس کا معبود بنا کر اس کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے پجاریوں میں سے چند ایک ہی ایسے ہیں جن کو اس کے قدموں پہ بوسہ دینا نصیب ہوتا ہے۔ اس بت کے چرن چھونے نصیب ہوتے ہیں، باقی سب کے لیے تو وہ بت غائب ہے۔ وہ جیسے بالغیب تعلق ہے باقی لوگوں کا ترقی کے بت سے۔ بس ترقی کرنی ہے، ترقی کرنی ہے، اس آدمی کو کیچڑ ہی میں رہنا ہے مگر ترقی کرنی ہے۔ اس آدمی کو آدمیت کے تنزل والے احوال میں رہنا ہے مگر ترقی کرنی ہے۔ اسے اپنی آدمیت اور انسانیت کی قیمت پر بھی ترقی کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ ایک عجیب طرح کا جذبہٴ ترقی پیدا کر دیا گیا ہے۔ اور اسی طرح طاقت ہے، طاقت میں جو چھپی ہوئی destruction (ہلاکت) ہے یعنی جدید سائنس نے طاقت کے جتنے ٹولز(آلات) بنائے ہیں، naked power (ننگی طاقت)کے، وہ بہت زیادہ نہ صرف یہ کہ destructive (مہلک) ہیں۔یعنی ان کی destruction (ہلاکت خیزی) کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ بل کہ یہ سرمایہ داری نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں کہ اسلحہ بلا ضرورت بنانا، بلا ضرورت بیچنا، مطلب، اسلحے کی انڈسٹری دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ اور ایک عالمِ تجرید میں ہے، وہ ہتھیار بنائے جا رہے ہیں جو استعمال نہیں ہو رہے۔ہتھیار بیچے جا رہے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح طاقت کا دوسرا پہلو ہے اقتدار کی terms (اصطلاحوں) میں طاقت کہ حاکم اور محکوم والی نفسیات، کم از کم تیسری دنیااور خصوصاً اسلامی دنیا میں امید ہے کہ بدلے گی۔

4- ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے حساسیت اور ذمے داری میں اضافہ

            میرا خیال ہے، یہ بھی ممکن ہے کیوں کہ انسانوں کی اکثریت نے گویا یہ چشم دید مشاہدہ کر لیا ہے۔ براہ راست تجربہ کر لیا ہے کہ ماحولیات کی ضروری حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے اب جیسے بیماریاں اور عالم گیر effect (اثرات) رکھنے والی بیماریوں کی آمد کا دروازہ کھلتا جا رہا ہے۔ تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب ہم فطرت کے ساتھ، ماحولیات کے ساتھ، ایک ذمہ دارانہ اور آدمی جیسا تعلق پیدا کریں۔کیوں کہ ظاہر ہے جب میں اپنے ساتھ آدمی جیسا تعلق نہیں رکھتا، جب میں اپنے لیے آدمی جیسا تشخص نہیں رکھتا، جب کہ میرامزاجِ وجود آدمیوں جیسا نہیں رہ گیا۔جب کہ میرے ذہن کی working(فعالیت) جو ہے وہ ذہنِ انسانی کی standard working (معیاری فعالیت) نہیں رہ گئی۔ جب میں خود اس سے مغائرت اختیار کرتا چلا جاؤں گااور خود سے ایک جارحانہ اور مخاصمانہ مغائرت، کہ اپنی آدمیت کے ڈھکے چھپے اور کونے کھدرے میں موجود امکانات کو بھی kill (ہلاک) کرنے پر خوشی کے ساتھ ترقی کے عنوان سے کمر بستہ ہوں، تو ظاہر ہے کہ باہر کی دنیا سے تعلق میں تو وہ حساسیت بدرجہ اتم نہیں رہ جائے گی، جو اپنے سے تعلق میں درکار ہوتی ہے۔ اپنے کو بھی میں نے خلاء میں بدل دیا۔ ماحول کو بھی dustbin (کوڑا دان) بنا دیا بل کہ زہر کے کنوئیں کھود دیے۔تو اس کا ظاہر ہے کہ ہمیں اب تاوان دینا پڑ رہا ہے اور اس وائرس نے اس realization(تفہیم) میں شدت پیدا کر دی ہے کہ ہمیں عالمِ فطرت اسلامی کے ساتھ اپنے تعلق کی موجودہ ظالمانہ روش کو روکنا ہو گا۔

            میر ے ذہن میں ایک اور عجیب بات آتی ہے۔ اس وقت عجیب لگ رہی ہے ،لیکن ممکن بھی نظر آ رہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پوسٹ کورونا صورت حال میں، عالمی صورت حال میں، مذہبی ذہن کے اعتماد میں اضافہ ہو جائے گا اور موجودہ احساسِ پسپائی جو طاری ہے اس میں کمی آ جائے گی۔ ان شاء اللہ!اس وائرس نے زندگی کو خدا کے حوالے کے ساتھ دیکھنے کا ایک اٹل مطالبہ کر دیا ہے کہ خدا کے بغیر دنیا اور زندگی کو دیکھو گے، تو اسی طرح کے نقصانات اٹھاؤ گیجن نقصانات سے نکلنے کا یا جن نقصانات سے حفاظت کی اور جن نقصانات کو اٹھانے کے بعد انھیں اپنے لیے مفید بنا لینے کا کوئی دروازہ تم پر کھلا نہیں رہ جائے گا، خدا کو مانے بغیر۔ یہ خدا ہی کو ماننا تو ہے نا کہ جو میرے لیے تکلیف اور نقصان کو بھی مفید بنا دیتا ہے۔ خدا کو مانے بغیر، تکلیف اور نقصان کی افادیت اول تو پیدا نہیں ہوتی۔شعور میں نہیں آتی اور اگر ہو بھی جائے تو وہ بہت خود غرضانہ ہوتی ہے اور بہت کم عمراور بہت سطحی ہوتی ہے۔ اس وائرس نے، بہرحال مذہبی ذہن کو پراعتماد کر دیا ہے اور وہ جو ترقی، طاقت اور ٹیکنالوجی وغیرہ کی یلغار کے آگے احساسِ پسپائی میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا، وہ احساسِ پسپائی ان شاء اللہ احساسِ تشکر میں بدل سکتا ہے۔ کیوں کہ اس وائرس میں کوئی توجیہ اس وائرس کی، جو تصورِ انسان کی تصدیق کرنے والی جو قوت ہے، وہ قوت مذہبی ذہن کے ساتھ ہی علم میں آ سکتی ہے۔ مذہبی ارادے کے ساتھ ہی تصرف میں آ سکتی ہے۔ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

            اسی طرح اگلا نکتہ جو میری سمجھ میں آیا، وہ یہ ہو گاکہ طبقاتی تقسیم کے سرمایہ دارانہ اصول پر علمی تنقید اور عملی انحراف کا وسیع البنیاد آغاز ہو جائے گا۔ اب سرمایہ داری نظام نے جس طرح لوگوں کو dehumanize (غیرانسانی) کر دیا، جس طرح کا یہ ظالمانہ نظام ثابت ہو چکا ہے۔ اور ابھی مزید ثابت ہو گا جب اس وائرس کی دوائیں مارکیٹ میں آئیں گی یا جب معیشتی تصادم قوموں میں پیدا ہوگا، تو وہ اور واضح ہو جائے گا۔ انسان نے گویا اس وائرس کی شکل میں سرمایہ داری نظام کا اصل چہرہ بھی دیکھ لیا ہے۔ اب اس سے انحراف اور اس پر تنقید کا ایک عالم گیر سطح پر آغاز ہو جانا، عین ممکن ہے۔

            تو اس کے بعد ایک اور مثبت تبدیلی جو foresee (پیش بینی) کی جا سکتی ہے،جس کی اللہ کے فضل سے امیدرکھی جا سکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں مصنوعی طریقے سے postmodern conditions (مابعد جدید صورت حال) کی درآمد کی راہ میں مضبوط رکاوٹوں کی تعمیر شروع ہو سکتی ہے۔ یعنی مسلمان ملکوں میں جو طفیلچی بن کے رہ گئے ہیں مغرب کے اور یہ خاص طور پر feminist ideas (تانیثی تصورات) وغیرہ اور بھی بہت سارے، تو ہم زبردستی مصنوعی طور پر اپنے یہاں postmodern conditions (مابعد جدید صورت حال) درآمد کر رہے تھے جس کا سب سے بڑا جو مظہر تھا وہ feminism (تانیثیت) تھا۔ اب ان شاء اللہ، ایک روک کھڑی ہوجائے گی، اس وائرس سے۔ اس وائرس نے اللہ کو ایک تہذیبی حساسیت کے ساتھ یاد دلا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ اب ایسی رکاوٹیں تعمیر ہو جائیں گی جنھیں feminism (تانیثیت) جیسے postmodern ideas (مابعد جدید تصورات) پھلانگ نہیں پائیں گے۔ اس کے علاوہ ایک بہت مثبت تبدیلی کی توقع ہے۔

            دعا ہے اور خواہش بھی ہے کہ با اثرمذہبی طبقات میں تعلق باللہ کی مسلسل نگہداشت اور پرداخت کے لیے فطری طور پر درکار احساسات کی تجدید ممکن ہے جنھیں نظر انداز کرتے رہنے کی وجہ سے، یعنی تعلق باللہ کے لیے احساسات کو ہم نظر انداز کر تے رہے تو وہ نظر انداز کرتے رہنے کی وجہ سے ان مقتدا و مقتدر مذہبی طبقات کے ایک حصے کے اندر انسان اور فطرت سے محبت کا وہ مادہ کمزور پڑ چکا تھا۔ جس کی بدولت خیر اور جمال کی فطری، اخلاقی اور روحانی اقدار نمو پاتی ہیں اور دین کی مطلوبہ معاشرت وجود میں آتی ہے۔ ہمارا جو بہت بڑا بحران اور اللہ کو غضب ناک کر دینے والا جو ایک رویہ اور مزاج تھا، وہ یہ تھا کہ ہمارے وہ مذہبی طبقات جو با اثر ہیں یعنی با اثری کے موجودہ وسائل رکھتے ہیں۔مطلب کوئی بہت امیر ہے، کوئی بہت بڑا خطیب ہے، کوئی بہت بڑا واعظ ہے، کوئی حاکموں کی وجہ سے حکومت والے اختیارات رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی جو بہت following (پیروکار) رکھنے والے مذہبی طبقات جو ہیں۔یہ دیکھی ہوئی بات ہے کہ ان کی اکثریت میں تعلق باللہ ایک زندہ جذبے اور احساس اور آدمی کو ہر وقت حالتِ استغفار میں رکھنے والی فضا میں نہیں رکھتا۔ تو یہ لوگ خدا کو، جس کا نام لیتے رہتے ہیں، اسی کو بھولے ہوئے ہیں۔جب خدا کے نام کو استعمال کر کے خدا سے غفلت کو اپنا شعار بنالیا جائے تو پھر ان بے چاروں کے اندر انسان اور فطرت سے محبت کا کیا امکان رہ جائے گا۔ پھر تو انسان اور فطرت کی کوئی حیثیت ہے خدا کے سامنے۔ جب یہ خدا کے ساتھ ہی سچے نہیں رہے تو باقی باتیں بعد میں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی تعلیم و تعلم، مذہبی تربیت اور مذہبی تبلیغ و دعوت کے ادارے جو ہیں وہ معاشرتی نتائج پیدا کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوپائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تعلق باللہ میں زندگی کی بدولت اور تعلق باللہ میں سچائی کے تقاضے کے طور پر بندے میں عالم میں، معلم مبلغ سب میں، انسان اور فطرت سے محبت کا وہ مادہ ضرور نمو پائے گا جس کی وجہ سے فطرت کو وہ جمال کا مظہر بنانے میں جدوجہد کرے گا اور معاشرت کو خیر کا مظہر بنانے میں کاوشیں کرے گا۔ کون کہتا ہے کہ یہ میرے اور آپ کے ایمانی فرائض نہیں ہیں؟ کون کہتا ہے کہ یہ مسلم نفسیات کا لازمہ نہیں ہے کہ وہ خیر کو مدارِ تعلق اور جمال کو اثاثہٴ فطرت بنائے۔ اور انہی کی بنیاد پر، ظاہر ہے کہ جو نیچرل اخلاقی اور روحانی قدریں ہیں وہ حالتِ نمومیں رہتی ہیں۔ اور انہی کی بدولت یعنی پیڑ اور آدمی کے ساتھ، دونوں کے ساتھ، اللہ سے تعلق کی روشنی میں سچا ہونے کے نتیجے میں، دین کی مطلوبہ معاشرت وجود میں آتی ہے۔ جہاں بین الانسانی ماحول میں بھی آلودگی نہیں ہے۔ جہاں انسان اور نیچر کے تعلق سے پیدا ہونے والے ماحول میں بھی pollution (آلودگی) نہیں رہتی۔

            بہت امید ہے۔بل کہ امید بھی رکھنی چاہیے اوردعا بھی کرنی چاہیے۔ اور اپنے بس بھر کوشش سے بھی دریغ نہ کرنا چاہیے کہ ہم آگے آنے والی دنیا میں، جن مثبت تبدیلیوں کو تجزیے کی روشنی میں یا خواہش کے زور پر دیکھ رہے ہیں وہ واقع بھی ہو جائیں۔اللہ کرے۔

            یہ سب تبدیلیاں اگر کسی بھی سطح پر اپنی ضرورت کو realize ہی کروا دیں تو ان شاء اللہ، ہم نے گویا اس آفت، اس مصیبت اس آزمائش میں سے سرخروئی کے ساتھ نکلنے کا جیسے راستہ ڈھونڈ لیا۔ ہم گویا کہ جب کورونا ختم ہو جائے گا تو اگر ان میں سے کچھ قدریں ہم سے متعلق ہیں اگر وہ ہم میں پیدا ہو گئیں۔ ان میں سے جو احساسات ہمیں لازماً درکار ہیں، اگر وہ حاصل ہو گئے تو ہم اللہ کے فضل اوراس کی رحمت سے قوی امید رکھنے کے اہل ہو جائیں گے کہ ہم اس آزمائش میں کام یاب ہو گئے ہیں۔ اور اگر یہ سب ہم میں نہ ہوا، تو یہی آزمائش جو ہے یہ یہاں نہ سہی، آخرت میں عذاب ثابت ہو گی۔

            اب اس میں جو اس کی پیشگی تیاریاں ہیں۔ ہم نے تو کچھ ایک تصویر سی فرض کر لی ہے اور وہ فرض کرنا ہمیں اچھا بھی لگ رہا ہے۔ اور اچھا اس لیے لگ رہا ہے کہ ہم جوامکانات اپنے طور پہ دیکھ رہے ہیں، ان امکانات کو دیکھنا اللہ کو بھی پسند ہے۔ ان امکانات کو لیکن صرف دیکھنا نہیں،بل کہ ان امکانات کی پیدائش کے لیے اپنے باطن اور اپنے ماحول کی زمین کو سازگار بنانا بھی ضروری ہے۔ اس ممکنہ پیش منظر میں، ہمیں یعنی مسلمانوں کو جو ہے، یہ وہ بات میں آخر میں کہنا چاہ رہا ہوں جس کے لیے یہ سب باتیں چھیڑیں کہ ہمیں سنجیدگی اور ذمے داری سے اور ایک جذبہٴ بقا؛ یعنی بقائے ایمانی کے جذبے کے ساتھ یہ عزم کرنا ہو گا کہ ہم چیزوں کو اپنے worldview(اندازِ جہاں بینی) میں رکھ کے دیکھیں گے۔ ہمیں یہ کرنا ہی کرنا ہے کہ چیزوں کوWest(مغرب) نے جس انتشار اور جس ہوا پرستی کے سانچے میں ڈھال رکھا ہے، ہم ان تمام سانچوں کو توڑیں گے۔ ہم ان تمام توہمات کا ازالہ کریں گے جنھیں سائنس وغیرہ فلسفے وغیرہ کے عنوان سے لوگوں کے لیے واجب الیقین بنا دیا گیا ہے۔یہ بہت بڑا دجل ہوا ہے۔ اب ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا۔ عزم کرنا ہو گاکہ ہم چیزوں کو، ذہن کے تمام موضوعات کو، حالات کے تمام پہلوؤں کو، علم کے تمام گوشوں کواپنے worldview (اندازِ جہاں بینی) میں رکھ کر دیکھنا ہے اور ان کے نفع و ضرر کا تعین یعنی چیزوں کے نفع و نقصان کا تعین جو ہے، وہ فائدے نقصان کے اس اصولی تصور کے تحت کرنا ہے کہ جو بالکل محکم اور بلا تاویل انداز سے قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ مطلب وہ ہمارے تصورات نہیں ہیں وہ قرآن و سنت کے نصوص سے مستنبط ہیں۔ جیسے آج کی مجلس کی رعایت سے جو ہے اگر ذرا سے فلسفیانہ اسلوب میں کہا جائے تو ہم گویا یہ عزم کرنے کے مکلف ہیں، پابند ہیں اور ذمے دار ہیں کہ انفس و آفاق اور ان کے تمام احوال و حوادث کی جو actual construct ہے، یعنی واقعیتی (واقعاتی)ساخت، اس کو اچھی طرح ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں ایمانی perspective (تناظر)سے دیکھیں گے۔ یعنی بخار کا جو فوری سبب ہے اس سبب کو مانیں گے۔خراب معیشت کے جو فوری اسباب ہیں ان اسباب کو بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔ لیکن خراب معیشت اور اچھی معیشت کے درمیان فرق اور حکم، ہم اپنے ایمانی perspective (تناظر) کو بنائیں گے۔ ہم اپنے فائدے نقصان، عروج و زوال، ترقی و تنزل، سب کا فیصلہ اپنے ایمانی perspective (تناظر) سے کریں گے۔ اور انسان و دنیا کو ان کے فوری، واقعاتی اور تاریخی سیاق و سباق میں رکھتے ہوئے انھی مستقل definitions (تعریفات) سے منسوب رکھیں گے، جو ہمارے دین نے بالکل، مطلق اور حتمی انداز کے ساتھ ابدی طور پر طے کر دیے ہیں۔ جن میں مداخلت کی یا جن میں غلط فہمی کی یا جنہیں minimalize (گھٹانے/محدود) کرنے کا ہر عمل گویا دین کا انکار ہوگا۔

            ایک تو یہ بات ہو گئی کہ اپنے ورلڈ ویو کو بحال کریں۔ دین نام ہے اس عینک کا، جو اپنے اندر جھانکتے ہوئے یا اپنے باہر دیکھتے ہوئے کبھی نہیں اتارنی۔ ہماری ساری بینائی کا نظام، اس عینک کے تابع ہے۔کورونا وائرس سے پہلے جو ہے نا، میں نے تو نہیں دیکھا۔کسی عالم گیر وبا کا تجربہ نہیں تھا۔ ہمارے تناظر میں یہ وبا، قیامت کی یاددہانی ہو سکتی ہے یعنی ہم اپنا worldview(اندازِ جہاں بینی) apply(اطلاق) کریں اسے دیکھنے میں، تو یہ وبا قیامت کی یاددہانی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں کے لیے ایک ابتدائی وارننگ ہو سکتی ہے کہ سنبھل جاؤ، سدھر جاؤ۔ اور ایسی آزمائش ہو سکتی ہے جس میں کام یابی اس سیارے پر انسانی بقا کے لیے ضروری ہے۔ مطلب، کسی بھی پہلو سے ہم دیکھ لیں۔ یہ تینوں پہلو ہمارے ایمانی perspective (تناظر)سے نظر آئیں گے۔ تو گویا ایک کثیر الجہات علامت کی حیثیت رکھنے والی اس وبا کے بارے میں، یعنی کورونا وبا کے بارے میں ہمارا موقف کونیاتی بھی ہے یعنی cosmological بھی ہے اوروجودیاتی بھی ہے۔ یعنی ontological اور نفسیاتی یعنی psychological بھی ہے۔ اور ہم پڑھ ہی چکے ہیں پہلے کہ فلسفہ انھی تینوں (جہات) میں تھا پہلے۔ یعنی ہمارا موقف، ہمارا ایمانی موقف، ہمارا principle perspective(بنیادی تناظر) کلی نوعیت کا ہے۔ اور اس میں ہونے کے تمام احوال اور جاننے اور جانے جا سکنے یعنی علم اور معلومیت کے سب اطوار کا احاطہ ہو جاتا ہے۔ جو ہے، جو ہونا چاہیے، جو نہیں ہے، جو جس طرح جانا گیا، جس طرح جانا جا سکتا ہے۔یعنی گویا شعور اور وجود کی تمام ضرورتوں کی حتمی اور شافی تکمیل ہے اس موقف میں۔ تو یہ مؤقف جس worldview(اندازِ جہاں بینی) پر قائم ہے۔worldview (اندازِ جہاں بینی) کسے کہتے ہیں؟ بنیادی سوالات کا، ناقابل تغیر سوالات کا، ناقابل تغیر جواب دینا۔ اسے کہتے ہیں worldview(اندازِ جہاں بینی)۔ ہمارا بھی worldview(اندازِ جہاں بینی) ہے اور worldview(اندازِ جہاں بینی) کی عام تعریف پر اس سے سب مانوس ہیں۔ جو بھی worldview(اندازِ جہاں بینی) کا نام لیتے ہیں وہ اسے جانتے ہیں۔ تو ہمارا ایمانی worldview(اندازِ جہاں بینی) بھی اسی definition(تعریف) پر ہے کہ وہ بھی ان بنیادی سوالات کا جواب دیتا ہے۔یعنی وجود کیا ہے اور اس کی غایت کیا ہے؟ علم کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ آپ اس پہ اگر ثابت قدم ہو جائیں ناکہ انھی دو سوالات میں زندگی بھی ہے، موت بھی ہے، وجود بھی ہے، عدم بھی ہے۔ سب کچھ اسی میں آ گیا ناکہ وجود کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ اور علم کیا ہے اور اس کی غایت کیا ہے؟ یعنی وجود ہے، تو کیا ہے اور کس لیے ہے؟ علم کیا ہے اور کس لیے ہے؟ بس یہ پورا سوال ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اگر وجود کسی غایت کے تابع ہے، تو علم بھی لازماً کسی مقصد کے لیے ہوگا۔ اس بات پہ غور کیجیے گا۔ یہ بات یاد رکھیے گا کہ اگر وجود کا کوئی مقصد ہے، توعلم کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو گا۔ کیوں کہ علم تابع وجود ہوتا ہے۔

            تو اب اس کا جو اگلا نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ وجود کیا اور علم کیا ہے؟کا جواب عقل کے ذمے ہے اور ان دونوں کی غایت کیا ہے؟اس کا جواب وحی نے دیا ہے اور وحی ہی دے سکتی ہے۔ عقل اپنی ذمے داری پوری کرتی ہے، تو مختلف علوم پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی کیا کے جواب میں مختلف علوم پیدا ہوتے ہیں، جو سب falsifiable (لائق خطا) بھی ہیں۔ جو ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں اورغلط بھی ۔ ٹھیک ہوں یا غلط ہوں، ان کی ایمانی افادیت برقرار رہتی ہے۔ اور وحی کا فراہم کیا ہوا جواب مان لیا جائے تو بندگی کی نفسیاتی اور تہذیبی تشکیل کرنے والے اخلاق بھی وجود میں آ جاتے ہیں۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کوتاہی یہ ہے کہ علم واخلاق ہم دونوں میں پسماندہ ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہم دونوں میں پسماندہ ہیں اور اس پسماندگی کا سبب ہی یہ ہے کہ دیننہ ontological perspective (وجودیاتی تناظر)رہا، نہ knowledge perspective (علمی تناظر) رہا۔ کچھ بھی تو نہیں۔ کہاں مانا وانا، بس ایسے ہی۔ ہم بہرحال دونوں میں پسماندہ ہیں اور اس پسماندگی کو realize (جان) بھی کر لیں تو اس سے نکلنے کے وسائل رکھتے ہیں، نہ صلاحیت۔ یعنی مان بھی لیں کہ ہم اللہ کے ساتھ سچے نہیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی دھوکے بازی کر رہے ہیں۔ یعنی مان بھی لیں۔ چلو، مان لیا۔ کسی نے منوا لیا۔ لیکن یہ ماننا بھی ہمارا بالکل بے نتیجہ رہ جاتا ہے۔

            بہت سے لوگ یہی کہتے ہیں، مانتے ہیں۔ ہماری اکثریت مانتی ہے نا کہ ہم علم میں بھی کم تر ہیں اور اخلاق میں بھی اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ سچے نہیں ہیں۔ آپ سروے کر لیجیے۔ننانوے فیصد مسلمان اس بات کو ماننے والے ہوں گے۔مطلب انھوں نے realize کر لیا ہے۔ لیکن یہrealization (واقفیت) ایک بانجھ realization (تفہیم) ہے ایک بے نتیجہ realization(سمجھ بوجھ) ہے۔ کیوں کہ اس پسماندگی سے نکلنے کے نہ ہمارے پاس وسائل ہیں، نہ صلاحیت اور نہ جذبہ ہے۔ایک عجیب طرح کے چکرمیں ہم پھنس گئے ہیں۔ کیوں کہ ہم وہ چیز مان لیتے ہیں جس کو ماننے کا ہمیں کوئی دنیاوی نقصان نہ ہو یا بعض غیر اہم چیزوں کی طرح مان لیا کہ ہم اللہ کے ساتھ سچے نہیں ہیں۔ غیر اہم سی چیز ہے۔چلو، مان لیا۔ لیکن سچے نہیں ہیں، سے جو اس realization (تفہیم) سے زلزلہ پیدا ہونا چاہیے، وہ تو پیدا ہو گا ہی نہیں۔ کیوں کہ سچے ہو جاؤ، تو بھی کیا۔ نہ ہو، توبھی کیا۔ ہم رہتے اس فضاء میں ہیں۔ لاکھ مانتے رہیں۔ کیا ہوتا ہے؟

            اس میں جوحاصل کلام ہے کہ اس وبا کو جسمانی طور پر خطرہ مانتے ہوئے، ایمانی طور پر اپنے ایمانی وجود کے لیے پیغامِ صحت بنا لو۔ آزمائش کا پورا فلسفہ ہی یہ ہے کہ آزمائش کی سختیوں میں رہتے ہوئے، وہ سختیاں جھیلتے ہوئے، اسے اپنی روحانی راحت اور سعادت کا یقینی ذریعہ بنا کے دکھاؤ۔ آزمائش اس لیے ہوتی ہے۔ آزمائش اس لیے تھوڑی ہوتی ہے کہ کڑوی ہے تو میں کہوں میٹھی ہو۔ اس سے تھوڑی آزمائش کا حق ادا ہو گایا ڈائیلاگ بولنے سے تھوڑی آزمائش کا حق ادا ہو گا۔ آزمائش کا حق ادا جن بھی صورتوں میں ہوگا ان میں عاجزی اور خشیت الٰہی مشترک ہوگی۔ ایک جھکا ہوا، اللہ سے ڈرا ہوابندہ ہی آزمائش سے سرخرو ہو سکتا ہے اور یہی بندہ ہی ا للہ کی توفیق سے اس لائق ہوتا ہے کہ وہ اس عارضی تلخی کو دائمی شیرینی میں بدل دے۔ اب آپ سمجھواب ہماری زندگیوں میں باہر سے نازل ہونے والی عارضی تلخی کا یہ سب سے بڑا تجربہ ہے۔ تو اس سب سے بڑے تجربے کو اپنے لیے درکار سب سے بڑی مٹھاس کے حصول کا وسیلہ بنانا چاہئے یا نہیں۔یہ ہمیں دیکھنا ہے۔ ایک اخلاقی تجدید تو ہو ہی جائے گی۔اگر ہم ذرہ بھر بھی اللہ کے ساتھ تعلق میں انتہائی غیر سنجیدگی کے ساتھ بھی مخلص ہیں تو ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایک واجب التسلیم حالت میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے اخلاقی بہتری کے دروازے مجھ پر کسی بار بار دستک کے بغیر کھل گئے ہیں۔ اس میں یہ نعمت چھپی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری جو اس میں افادیت اس میں built in(خلقی) ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس سے اپنے ذہن کو نمو پانے کا وہ موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ اپنے ذہن کو حالتِ کمال کی طرف رجوع کرنے کی وہ طاقت فراہم کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے ایمان اپنے basic perspective(بنیادی تناظر) کے ساتھ اپنے مستقل perspective (تناظر) اور متحرک تفصیلات کے ساتھ ذہن کی تربیت اور پرورش کرتا ہے۔ذہن کو اچھا بنا لو، طبیعت کو اچھا بنا لو۔ ارادے کو اللہ کی طرف یکسو کر لو، اعمال کو دنیا میں productive(زرخیز) ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی productivity (زرخیزی) کے دائرے کو آخرت تک کھینچ کے لے جاؤ۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ ایمان سے سیرابی کی حالت میں رہنے والے اور دنیا کے حقائق اور mechanics (میکانیات) پر ایک قادرانہ قدرت رکھنے والے ذہن کے بغیر۔اس میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے۔ دنیا کو تصرف میں لاؤ، اس وائرس کا علاج سوچ کراور آخرت کو تصرف میں لاؤ ۔اس وائرس سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ میں تعلق باللہ سے حاصل شدہطمانیت کی قوت سے لڑ کر۔تو آج بھئی ہم نے مولانا روم کی اس نصیحت پر عمل کیا۔ ذرا ٹھیٹ لفظی انداز میں بھی کہ

چند خوانی حکمتِ یونانیہ

حکمتِ ایمانیہ را نیس خواں

یا

حکمتِ ایمانیہ را حمد خواں

            کب تک یونانی فلسفہ پڑھتے رہو گے، ایمان والوں کی حکمت بھی سیکھو۔

کورونا کے بعد ہم مسلمانوں کا فریضہ کیا ہوگا؟

            اپنی اخلاقی اور علمی برتری کے جو معروف ذرائع ہیں وہ establish (قائم) کرنے پہ توجہ دینی چاہیے اور اپنے اندرتعلق مع اللہ کے فطری آداب کی خلاف ورزی کے نتیجے میں انسانوں کے ساتھ ضروری محبت کے مادے میں جو کمزوری پیدا ہو گئی ہے اس کمزوری کا فوری ازالہ کرنا چاہیے۔ پھر اس کے بعد خادمانہ انداز میں انسانیت کی ممکنہ نئی وحدت کی تشکیل میں اپنا دینی کردار ادا کرنا چاہیے۔

 کورونا کے بعد پہلا جو paradigm شفٹ ہو گا وہ اسی سوال کے دباؤ سے ہو گا کہ انسان آخر ہے کیا؟!!

ہم آج تک انسان کو misread (غلط پڑھنا) کرتے رہے۔ ہم آج تک انسان کو dehumanize (غیرانسانی) کرتے رہے۔