شفیع احمدقاسمی اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
کل کی پریشانی:
آج کل کے ترقی یافتہ اورمشینی زندگی کی بھاگ دوڑمیں،جس طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھیں تو ہرکوئی فکر مند دکھائی دیتاہے اورکسی نہ کسی طورسے ذہنی پریشانی کی کہانی لکھتا ہی نظر آتا ہے ۔ غورسے دیکھا جائے اور حالات کاصحیح ڈھنگ سے جائزہ لیاجائے ،تویہی انکشاف ہوگاکہ یہ پریشانی کسی اورچیزکی نہیں،بل کہ اُن کی سب سے بڑی پریشانی ”کَل“کی ہے ۔ہرشخص کوصرف ”کَل“کی فکرستارہی ہے اورآج اُسے اندرہی اندر گھُن کی طرح چاٹ رہی ہے اوریہی ”کَل“کی فکراُسے ہرپَل”بے کل“کیے ہوئے ہے ،جوکسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی اوریہ بھی یاد رکھ لینا چاہیے کہ اگریہی حالت ؛بہ دستورقائم رہی توکبھی بھی سکون کا سانس نہیں لینے دے گی۔ہم جتنابھی سکون ڈھونڈیں گے،اتناہی ہمارے سکون کی دنیاپُرسکون ہونے کے بجائے اورزیادہ بے سکون ہوتی چلی جائے گی۔ فقیر سے لے کر امیر تک، شاہ سے لے کروزیر اورصغیرسے لے کر کبیر تک؛ سب اِسی تشویش اور اَن جانے خوف میں مبتلا ہیں کہ پتا نہیں”کل“ کیاہوگا؟کل نہ سہی،”کل “کے بعد کی” کل “سہی!
نظراٹھاکردیکھ لیں:
باہرکسی بھی میدان کانقشہ آپ دیکھ لیجیے ۔ہرجگہ یہی ”صداقت“ اپنے بال وپرپھیلائے ہوئے نظر آئے گی۔ ہمہ وقت یہی سوچتے ہوئے ملیں گے کہ پتانہیں”کل“کاآنے والادن ہمارے لیے کیسا ہوگا اور کیا ہوگا ؟ معلوم نہیں کہ کل صبح کون سی خوش خبری یابدخبری کاسامنابے خبری میں کرناپڑے گا؟کچھ پتانہیں کہ زندگی کااونٹ کل کس کروٹ بیٹھے گا اور کون ساتماشادکھائے گا؟اِسی لیے ”کل “کی ایک روٹی اورنوالے کی فکر میں آج سائنسی ایجادات وانکشافات کی بہ دولت ترقی یافتہ دنیانہ جانے کیا کیاپاپڑبیلتی اورکس کس طرح کے حربے اور نِت نئے طریقے استعمال کرتی ہے؟کل کی فکر سے بے فکر اور آزاد رہنے کے لیے ہر طرح کی پریشانیوں کوگلے لگاتی اور جان توڑمحنتیں کرتی ہے؟ کیوں کہ دنیااِس بات کو بہ خوبی جانتی ہے کہ آنے والے ”کل“کی پریشانی سے چھٹکارا پانے کا یہی ایک راستہ ہے۔
ہرایک ہے پریشاں:
چناں چہ ہم اپنی معاشرتی زندگی کی راہوں میں دیکھتے ہیں کہ یہ سڑکوں کے کنارے لگے ریڑھی بان،پان مسالے کی دکان، رکشوں اور ٹھیلوں کی تان،تانگے ،بسوں اوردیگرسواریوں کی چلان، ہوائی جہازکی اڑان، سمندروں میں جہازران، دریاوٴں میں بادبان،قدم قدم پر ریستوران،ہوٹلوں میں رنگ برنگے پکوان،ڈاکٹرس، ماسٹرس،مدرسین اوردیگر ملازمان، میدانوں میں گلہ بان، کھیتوں اور کھلیانوں میں کسان اور مزدوروں کی تھکان۔ از صبح تاشام ؛ ہرایک ہیں پریشان! آخر کیوں؟ جواب یہ ہے کہ سب اِسی ”کل “کے خوف سے ہیں ہلکان وپریشان !
کل کبھی نہیںآ تی:
یوں سمجھ لیجیے کہ یہ”کل“کسی معشوق کی زلفِ درازیاطولِ شبِ فراق سے کچھ کم پیچیدہ اورجان لیوا نہیں ہے۔اِس ”کل“ کاسلسلہ یوں ہی اپنی رفتارسے آگے کی طرف چلتااوربڑھتارہتاہے اوربالآخرایک ایسی ”کَل“ بھی ہماری چارروزہ زندگی کی فصل بَہارمیں دخل اندازہوجاتی ہے کہ اس کے بعدفکر کرنے والے کے واسطے کبھی ”کَل“ ہوتی ہی نہیں۔ اِس طرح سے ایک کہاوت ”کل نہ آئی کبھی اورنہ آئے گی کل“ اپناخوب صورت جلوہ دکھا کر ہنستی کھیلتی زندگی کا سارا کھیل آنِ واحد میں ختم کر دیتی اور بوریابسترلپیٹ کراُس دنیا میں پہنچادیتی ہے، جہاں ”کل“ کی حقیقت اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گی۔
بے باک انسان:
اِس آخری”کَل“ کی بہت کم لوگوں کوفکرہوتی ہے اوراکثریہ بھی دیکھنے میںآ تاہے کہ جنھیں کچھ فکرلاحق ہوتی ہے اور دلوں میں اُس کے خوف کابسیراہوتاہے وہ بھی اِس کی فکرسے اتنے سراسیمہ اورخوف زدہ نہیں ہوتے، جتنے دنیاوی ”کَل“ کے تعلق سے خوف کھاتے ،واویلاکرتے اورشورمچاتے نظرآتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آنے والے کل کے تعلق سے یہاں پربالکل بے خوف،بے باک اورنڈر؛بلکہ آزادہندستان نظرآتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی بھول کربھی ہمارے چہروں پر کسی قسم کے تردداورپریشانی کی ہلکی سی لکیربھی نہیں دکھائی پڑتی۔ ہمارے کانوں پر ایک جوں تک نہیں رینگتی۔ آخر ایسا کیوں؟ اِس کی اہم اور بنیادی وجہ وہی ہے،جسے قرآن کریم اِن الفاظ میں بیان کرتا ہے: ﴿یَعْلَمُوْنَ ظَاھرًا مِّنَ الْحَیوةِ الدُّنْیَا وَھمْ عَنِ الْاخِرَةِ ھُمْ غفِلُوْنَ۔﴾یعنی وہ دنیاوی زندگی کے ظاہر (مقاصد) کو تو سمجھتے ہیں اور آخرت کا زادِ راہ مہیا کرنے سے غافل ہیں۔
لوگوں کی ظاہرپرستی:
لوگ زندگی کی ظاہری سطح کوتوجانتے ہیں۔یہاں کے آسائش وآرائش،کھاناپینا،پہننااوڑھنا،بونا جوتنا، پیساکمانا،مزے اڑانا؛بس یہی اُن کے علم وتحقیق کی جولانگاہ ہے۔اِس کی خبرہی نہیں کہ اِس زندگی کی تہہ میں ایک دوسری زندگی کارازبھی چھپاہواہے،جہاں پہنچ کراِس دنیوی زندگی کے بھلے برے نتائج سامنے آئیں گے۔
ضروری نہیں کہ جوشخص یہاں خوش حال نظرآتاہے،وہاں بھی خوش حال ہی رہے۔بھلاآخرت کا معاملہ تودور ہے، یہیں دیکھ لو کہ ایک شخص یاایک قوم کبھی دنیامیں عروج حاصل کرلیتی ہے ،لیکن اُس کاآخری انجام ذلت وناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔(گلدستہٴ تفاسیر:ج۵/ص۴۳۱)
اِسی حقیقت کوسمجھانے کے لیے ”معارف القرآن“میں مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں:”یہ لوگ دنیا کی زندگی کے ایک پہلوکوتوخوب جانتے ہیں کہ تجارت کس طرح کریں؟کس مال کی کریں؟کہاں سے خریدیں؟ کہاں بیچیں اورکھیتی کس طرح کریں؟کب بیج ڈالیں،کب کاٹیں؟تعمیرات کیسی کیسی بنائیں؟سامانِ عیش وعشرت کیاکیامہیاکریں؟لیکن اسی حیات کادوسراپہلو؛جواُس کی حقیقت اوراُس کے اصلی مقصدکوواضح کرتا ہے کہ دنیا کا چندروزہ قیام درحقیقت ایک مسافرانہ قیام ہے۔انسان یہاں کامقامی آدمی(National)نہیں، بلکہ دوسرے ملک؛آخرت کاباشندہ ہے؛یہاں کچھ مدت کے لیے ویزاپرآیاہواہے۔اس کااصلی کام یہ ہے کہ اپنے وطنِ اصلی کے لیے یہاں سے سامانِ راحت فراہم کرکے وہاں بھیجے اوروہ سامانِ راحت؛ایمان اورعمل صالح ہے۔ اِس دوسرے رخ سے بڑے بڑے عاقل کہلانے والے بالکل غافل اورجاہل ہیں“۔(ج:۶/ص۷۲۲)
کسی دن ڈوبیں گے ضرور:
اِس لیے یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ جو لوگ یہاں پررہ کردنیاوی کل کی فکربالکل بھی نہیں کرتے اورکل کو ایک اورکل پرٹالتے رہنے کی بیماری میں مبتلا ہیں،اُن کوبھی غافل ہی کہناچاہیے۔ایسے ہی موقع کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:”أَلنَّاسُ نِیَامٌ فَإِذَامَاتُوْاإِنْتَبِہُوْا“کہ ابھی توسبھی لوگ سورہے ہیں،جب مریں گے تب پتا چلے گا؛ کیوں کہ غفلت کادبیزپردہ اُن کی عقل پربھی پڑا ہواہے،جوایک نہ ایک دن اُنھیں لے کر ہی ڈوبے گا۔ ایسے لوگ؛ جنھیں اللہ تعالیٰ کے اوپرکامل بھروسااورتوکل ہے،وہ کل کے انتظام کی تدبیر ضرور کیا کرتے ہیں اوراپنی ممکن حد تک اُسے کام میں بھی لاتے ہیں۔
کیوں کہ ارشادِباری تعالیٰ:﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔﴾ہمارے سروں پر طاقت ووسعت سے زیادہ کرنے کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ایک اورجگہ پر ارشاد ہے:﴿ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔﴾اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے،وہ تمھیں کسی پریشانی میں نہیں جھونکتا۔
ہمارے ہادیٴ برحق محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِگرامی اِس بارے میں یہی ہے کہ:” اونٹ کو کھلا نہ چھوڑو، درخت سے باندھ دو اور درخت سے باندھ کریہ امید رکھوکہ اللہ تعالیٰ اسے رسی تڑاکر بھاگنے نہیں دے گا“۔
”سَمِعْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یَقُوْلُ:قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، أَعْقِلُہَا وَأَتََوَکَّلُ، أَوْأُطْلِقُہَا وَ أَتَوَکَّلُ؟ قَالَ:أَعْقِلْہَا وَ تَوَکَّلْ۔ “ (ترمذی:ج۲/ص:۷۸)
توکل کاسب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ آدمی اسباب اختیارکرے ،مگراُن پرتکیہ نہ کرے ۔پھریہ بات ہے کہ اسباب اختیارنہ کرے اوراللہ پربھروساکرے ،پھراس کے بعدتوکل کاکوئی درجہ نہیں۔یعنی اسباب اختیار کرنا اوراُن پربھروساکرناتوکل نہیں،بلکہ توکل کے منافی ہے۔اورحدیث کاحاصل یہ ہے کہ تدبیراورتوکل میں منافات نہیں،اِس لیے دونوں کواختیارکرناضروری ہے۔(تحفة الالمعی:ج۶/ص:۲۸۹)
دونوں برابرہیں:
آج دولت واقتدارکے نشے میں بینک بیلنس،مِل پلاٹ اورکوٹھی بنگلے کے چکرمیں؛دین اورآخرت سے غافل ہو جانا اورجہالت کے نشے میں”دنیاوی کل“سے غافل ہوجانا؛انجام (Result)کے اعتبارسے دونوں ہی برے اوربرابر ہیں۔البتہ کل کاانتظام اورکل کی تدبیرکردینے کے بعدپریشانی کے بھنورمیں ہچکولے کھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے ”أَلسَّعْیُ مِنِّیْ “کی مکمل کہانی لکھ دی ہے،اب آپ کاکام پورا ہو گیا۔اب آپ کا کام صرف یہی رہ گیاہے کہ ”وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّہِ“ پر یقین کرکے اُس پرکامل طور پر جم جائیں۔ آپ نے صحیح انتظام اوردرست تدبیرکی ہے تو پھراللہ تعالیٰ سے اچھی امیدبھی رکھنی چاہیے اورخواہ مخواہ کی کش مکش میں پڑ کر اپنے دماغ کو خراب نہیں کرتے رہنا چاہیے۔اِس لیے اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ اپنے ذہن ودماغ کو خللِ دماغی کی آماجگاہ اوراُس کامرکزنہ بننے دیں۔ یہاں پر ہمیں جناب حیرت شملوی مرحوم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے، جسے آپ کی تسلی کے لیے پیش کررہے ہیں۔
اب سوچ میں بیٹھا ہوں کہ کل کیا ہو گا
اِس سے بڑھ کر بھی کسی سر میں خلل کیا ہو گا
دماغی حالت بہترہے:
میں اِس تحریرکے توسط سے اپنے قارئین کی جس کل کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کررہاہوں،اُس کی سوچ میں بیٹھنایااُس پرغوروفکرکے گھوڑے دوڑاناکسی طرح کی خلل دماغی نہیں ہے،بلکہ اُن کے صحت مند دماغ ہونے کی علامت اورپہچان ہے۔یہاں نفع ہی نفع ہے،کسی نقصان کااندیشہ بھی نہیں۔اِس لیے اگر آپ اِس سوچ میں بیٹھنے لگیں گے تویہ اللہ جل شانہ کا بڑا ہی فضل اور لامتناہی کرم ہو گا۔ ایسی سوچ اورفکرکے راستے سے دنیااور عقبیٰ؛ دونوں ہی جگہوں پر ”کل“کے درست ہوجانے کا قوی امکان ہے،جسے بہرحال نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ اِس لیے فرصت نکال کریہ ضرورسوچیے کہ دنیاکی کل کا توہم کچھ نہ کچھ خیال کرکے اس کے علاج کی تدبیرڈھونڈہی لیتے ہیں، لیکن عقبیٰ کی کل کے لیے ہم لوگوں نے کیاتیاری کر رکھی ہے یا کیاتیاری کررہے ہیں؟لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر ہم لوگ” پھرکبھی“،”بعدمیں“،”آئندہ“ یااِسی طرح کی دیگر کتابیں لکھنے لگتے ہیں۔
یہ بھی رہے دھیان:
اللہ تعالیٰ اِسی حقیقت شناسی کی عکاسی کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں:﴿یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْنَفْسٌمَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔﴾اِس آیت کریمہ میں یہی مطالبہ دہرایاگیاہے کہ انسان آج کے چکر میں ہی گھَن چکراورہچکولے نہ کھاتے رہیں،بلکہ ”کل“بروزحشرکی عظیم الشان اوراولین وآخرین کے اجتماع گاہ میں حاضری دینے کے لیے کیاتیاری کررکھی ہے،اِس کابھی خیال کرتے ہیں اورممکن حدتک اپنی کوششوں میں لگے ہیں۔اِس لیے کہ بہ حیثیت مسلمان؛اُن کی شانِ عالی شان یہ ہے کہ وہ”کل“(آخرت)کو بھی دھیان میں رکھتے اور اُس کوخیالات کی دنیامیں بساتے ہوئے زندگی جینے کی کوشش کرتے ہیں اورغفلت ولاپروائی سے دور بھاگتے ہیں۔ کیوں کہ آج کی سُستی وکاہلی اور لاپروائی کل (آخرت)کی بڑی مصیبت سے ہمیں چھٹکارا نہیں دلائے گی، اس لیے بے وقوفوں کی جنت میں نہ رہا کریں ،یہی ہماری عقل مندی کی شان ہے ۔
ایک خوش نمادھوکا:
ہماری چارروزہ زندگی میں”کل“کالفظ بھی ایک خوش نمااورحسین دھوکاہے،جوانسان کووقت برباد کرنے کی شرم،ندامت اورکفِ افسوس ملنے سے بچاتارہتاہے ۔کہاجاتاہے کہ انسان کی زبان میں کوئی بھی لفظ ایسانہیں ہے،جو”کل“کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں،حماقتوں،بے پروائیوں،وعدہ خلافیوں،نادانیوں،خشک امیدوں،غفلتوں اوراتنی بربادہونے والی زندگیوں کے لیے جواب دہ ہو۔کیوں کہ اُس کاآنے والا”کل“کبھی آتا ہی نہیں اورصبحِ قیامت تک اِس کی امیدبھی نہیں رکھی جاسکتی۔اِس لیے جہاں تک ممکن ہوکسی بھی کام کوکل کے بھروسے پرنہیں چھوڑناچاہیے۔کیوں کہ”کل نہ آئی کبھی اورنہ آئے گی کل“
سانس اورآس کارشتہ:
کیوں کہ یہاں کی چندروزہ زندگی کی ”کل“توآج کی پُرفریب اوردل کش امیدوں کے سہارے یا پھر ”جب تک سانس، تب تک آس “ والی کہاوت کے سہارے ہی سہی!بہرحال کسی نہ کسی طرح گزررہی ہے اور اِن شاء اللہ گزرتے گزرتے ایک دن یہاں سے گزرہی جائے گی۔ اِس لیے کہ یہ بات ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ سانس تو ایک دن رک جاتی ہے،لیکن زندگی اپنی رفتارسے ہرپَل چلتی ہی رہتی ہے،یہ کسی بھی مقام اور اسٹیشن پر ایک سیکنڈ کے لیے بھی ٹھہرنے والی نہیں ہے ۔
انتظارمت کرو:
خالق کائنات نے اپنی کتابِ لازوال؛قرآن کریم کی سورة النحل میں﴿فَاِذَا جَآءَ اَجَلُھُم لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ۔﴾ فرماکراِسی حقیقت کوسمجھایاہے کہ جب کسی آدمی کی موت کاوقت آجاتا ہے توایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں ملتی، چہ جائیکہ کل تک کے لیے چھٹی یاکسی ضروری کام کو نمٹانے کاوقت مل جائے تو پھر”کل“کا خیالی پلاوٴ پکانے کاکوئی راستہ نہیں بچتا،کیوں کہ اِس سے کسی پیٹ کاجہنم سردنہیں ہوتا۔ اُس وقت تو چھٹی کی بھی چھٹی ہوجائے گی، پھر ہمیں چھٹی کیوں؟کب اورکیسے مل سکتی ہے؟اگرہم ذخیرہٴ احادیث کی ورق گردانی کریں اور حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہادیٴ برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے جوفرمایاہے اُسے پڑھ لیں گے تواِن شاء اللہ بہت فائدہ ہوگااورآخرت کی ”کل“کے بارے میں سوچنے اورغورکرنے کا راستہ بھی آسان ہو جائے گا۔ فرماتے ہیں کہ: ” إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَحَدَّثْ نَفْسَکَ بِالْمَسَاءِ ، وَإِذَا أَمْسَیْتَ فَلَا تَحَدَّثْ نَفْسَکَ بِالصَّبَاحِ “(ترمذی:ج ۲/ص:۵۹)
یہ حدیث ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ جب شام ہو جائے توصبح کے انتظار میں نہیں رہناچاہیے اور جب صبح ہوجائے تو شام کے ہونے کا انتظار نہیں کرناچاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کی شام کے انتظار میں زندگی کی گاڑی کسی موڑ پر اٹک جائے اورزندگی ہی کی شام ہوجائے۔
اخلاق وایثارکے بادشاہ :
کیوں کہ جوسچے اورپکے مسلمان ہوتے ہیں،جنھیں”کل“(قیامت)کی فکرہوتی ہے ،وہ ایک دوسرے کی دل آزاری نہیں؛بلکہ دل داری کرتے ہیں،وہ کبھی ناپ تول میں کمی نہیں کرتے، کسی کو موقع پاکرلٹتے نہیں،اچھی چیزوں میں کبھی بری چیزیں نہیں ملاتے، چور بازاری اوردھوکاوفریب سے ہمیشہ دوری بنائے رکھتے ہیں،وہ دوسروں کوالو بنا کر اپنا الو سیدھا نہیں کرتے،دوسروں کی جیب پرڈاکہ ڈال کراپنی تجوری نہیں بھرتے،ایسے لوگ ”رام رام جپنا،سارامال اپنا“کا وردنہیں کرتے ،وہ رشوت کی گرم بازاری میں رشوت نہیں لیتے اورنہ دے کر اپنے کاموں کابگڑ جانا بڑی خوش دلی سے گوارا کر لیتے ہیں،وہ اپنے فائدے پر دوسرے مسلمان بھائی کے فائدے کو ترجیح دیتے اور ”خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ“ کامصداق ہوتے ہیں۔اس لیے کہ وہ قناعت واِستغنا، خلوص و پیار اور اخلاق وایثار کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں؛ کیوں کہ وہ فقر اور خاک نشینی کی عظمت سے واقف ہوتے ہیں، جسے وہ کسی قیمت پر کھونے کی غلطی نہیں کرتے۔اِس لیے کہ اُن کی نظرمیں”شہرت کی بلندی بھی پَل بھر کا تماشا“ ہوتی ہے۔
اوپرسے بگلا:
مسلمان چاہے دنیاکے کسی بھی کونے میں اورجس حال میں بھی رہیں۔خوش حال رہیں یابدحال وبے حال رہیں، لیکن وہ اپنی اسلامی شان اوردینی اخلاق واَقدار سے دست بردارنہیں ہوتے ۔وہ مرجانا تو پسند کر لیں گے ، لیکن اسلامی اقداراورشان پرآنچ ہرگز نہیں آنے دیں گے۔وہ کسی صورت میں بھی ”اندر کچھ اورباہرکچھ“کی روِش نہیں اپناتے۔وہ ”اوپر سے بُگلااور اندر سے کالا کوا“ نہیں ہوتے ۔”منھ پررام رام،بغل میں چھری“اُن کی فطرت نہیں ہوتی۔گرگٹ کی طرح رنگ نہیں بدلتے،وہ کبھی نوٹ کی چوٹ پرروبوٹ نہیں ہوتے۔ہمیشہ دورنگی سے دور اوریک رنگ ہوتے ہیں۔
اُن کے بول ؛بہت اَن مول ہوتے ہیں:
وہ صرف گفتار کے غازی نہیں،بلکہ کردارکے بھی غازی ہواکرتے ہیں۔اُن کے رفتاروگفتار اور اعمال وکردار سے ہرطرف ایمان وایقان کی سدابَہارخوش بو بکھرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی زندگی کامطالعہ کریں اور جائزہ لیں تویہی معلوم ہوگاکہ وہ صرف ڈھول کے خول نہیں ہوتے ،بلکہ اُن کے بول ؛بہت قیمتی اور اَن مول ہوتے ہیں۔وہ جوکچھ بولتے ہیں،موقع محل کے اعتبارسے بہت سوچ سمجھ کر اورناپ تول کر بولتے ہیں۔ وہ کرتے وہی ہیں،جواُن کی زبان سے برآمدہوتا اور اعمال وکردارکے آئینے سے چھلکتاہے۔وہ کبھی میدان زندگی میں دوہرامعیارِ زندگی نہیں اپناتے۔ اُن کے یہاں ”خالی چناباجے گھنا“ جیسی کہاوت کاکوئی گذر نہیں ہوتا۔ ”کم بختو! جو ہم کہتے ہیں وہ کرو،ہم جو کرتے ہیں وہ مت کرو“کاراستہ ہمیشہ کے لیے اورہرچہارطرف سے بند رہتا ہے۔ ایسے لوگ”بات لو ہم سے،بھات ہمارے باپ سے“کی کتاب نہیں لکھتے ۔اِس لیے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے قرآن کریم کی وہ آیت کریمہ: ﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ۔﴾ہردم موجودرہتی ہے ۔
مل کرسوچتے ہیں:
توآئیے!میں بھی سوچوں اورآپ سبھی مل کرسوچیے کہ کل عقبیٰ میں میرے اورآپ کے ساتھ کیامعاملہ اور کیسا سلوک ہونے والاہے؟کیاہم نے دنیاکے خوب صورت پردے پرسچے اورپکے مسلمانوں والاکردارپیش کیا ہے یانہیں؟عمل کی وادی میں اترکردیکھیں کہ ہم مندرجہ بالاپیغام کی کسوٹی پرکچھ بھی پورے اترتے ہیں؟اِسے سوچ کرہی میرادل لرزتااورکانپنے لگ جاتا ہے۔ کیوں کہ ہماری زندگی کے کشکول میں کردارکچھ نہیں،صرف گفتارہی گفتارہے۔اِس لیے فقط رحمتِ الٰہی کا ہی آسراباقی ہے،وجہ اس کی یہی ہے کہ قرآن کریم کی آیت: ﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْءٍ۔ ﴾ ڈھارس بندھارہی اوردل کو سامانِ تسلی فراہم کررہی ہے۔آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ میری رحمت جملہ اشیاسے بڑی ہے ،میری رحمت سے باہرنکلی ہوئی کوئی بھی شے نہیں ہے ۔یہاں پرارشادِ رب العباد ملاحظہ کیجیے:﴿ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْْءٍ مِّنْ عِلْمِہ اِلَّا بِمَا شَآءَ۔﴾اس کی بے پایاں رحمتوں نے ہر چیز کا احاطہ کررکھاہے اوراسی کے ساتھ دہلی کے ایک اُمی شاعر ”مرزافخرو“ کایہ شعربھی بار بار زبان قلم پر دستک دے رہا ہے کہ اسے بھی کاغذکے سینے پر سجایا جائے تو میں آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں ۔
میں سر جھکا کے سوئے جہنم چلا ہی تھا
کچھ رحم آ گیا میرے پرور دگار کو
یہاں تک پہنچ کراب دعاکرتے ہیں کہ الٰہی!ہمارے دلوں میں بھی یہی کیفیت پیدافرماکراُسے مرتے دم تک باقی رکھنا۔ اگر اتنی کیفیت بھی حاصل ہوجائے تو غنیمت اورتیرابڑاہی فضل وکرم ہے۔خداوندکریم کی شان کریمی کے صدقے اور طفیل میں اُن کی بارگاہ سے اتنی کیفیت بھی اگرآج کی موجودہ نسل کے نوجوانوں کی جھولی میںآ جائے تواُن کا کرداربن سکتاہے اوراُن کی زندگی کی گاڑی سیدھی پٹری پردوڑسکتی ہے۔اِس وقت ہم یہاں پر اپنی بات نہیں کر سکتے، کیوں کہ ہم تو بچپن سے چل کرپچپن کے لپیٹے والے ؛فی الحال اس شعرکے سچے اور پکے مصداق ہیں کہ
اے حسن توبہ آں زماں کر دی
کہ تُرا طاقتِ گناہ نماند
مطلب یہ ہے کہ اے حسن#!جب تجھ میں گناہ کرنے کاحوصلہ اوردم خم باقی نہیں رہاتوتمھیں توبہ کرنے کی سوجھنے لگی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کودنیاوی کل کے چکرسے نکال کراُس کل(آخرت) کی فکرکاتھوڑاساحصہ مرحمت فرمادے توسرمحشرکی رسوائی سے بیڑاپارہوجائے گا۔ وماذالک علی اللہ بعزیز۔