از : حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی (رئیس جامعہ اکل کوا)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام﴾
معزز حاضرین! آج ہم سب ہندستان کے ایک عظیم سپوت خادم الاسلام خادم المسلمین ، خادم الہند جناب مرحوم احمد پٹیل صاحب کے وصال پر نماز جنازہ کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے یہاں جمع ہونے کو اورنماز پڑھنے کو ان کے لیے صدقہٴ جاریہ بنائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک عمر دی ہے،اور اس کی ایک لمٹ رکھی ہے اور اس کے پاس سب لکھا ہواہے کہ کون کتنے سال جیئے گا اور کیا کرے گا؟
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بھی عمر لکھی تھی، وہ ستر اکہتر سال کی عمر پوری کرکر، ایسا بڑا کام کرکے چلے گئے کہ جسے آنے والی دنیا کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس:
موت تو سب کو آنی ہے، لیکن جس شخص نے خدمت خلق کیا ہے ،اس کے پیچھے اس کے کاموں کے بولنے والے ،اس کے کاموں کی قدر کرنے والے، اس سے محبت کرنے والے لوگ ہوں گے،وہ اس کے لیے ایصال ثواب کریں گے۔ اس کے لیے دعائے مغفرت کریں گے۔
احمد پٹیل اور قرآن:
قرآن کریم اللہ کی مقدس کتاب ہے، اور اس کی تعلیم کے لیے اللہ نے ہمیں حکم فرمایا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ“
تم میں بہتروہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور قرآن کو سکھائے۔
احمد پٹیل صاحب بھی ”پیرامن “ کے مکتب کے ایک شاگرد رہے ہیں اور یہاں انہوں نے قرآن پڑھا اور اس قرآن کے ساتھ ان کو شغف زندگی کے اخیری لمحے تک رہا۔ کئی برسوں سے وہ رمضان میں مجھ سے قرآن سیکھنے کے لیے بہترین قاری بلواتے رہے۔
الحمدللہ ہر سال میں اور میرے مرحوم دوست وہ بھی وفات پاگئے مولانا عبد اللہ جھانجھی صاحب ہم دونوں مشورہ کرکے ان کے لیے رمضان میں تروایح کے لیے انتظام کرتے تھے۔اور میرے لیے ضروری تھا کہ میں ان کے ختم قرآن کی مجلس میں شرکت کروں۔ تو ان کا قرآن کے ساتھ یہ شغف تھا۔ اپنے سارے کاموں کو چھوڑ کر پہلے قرآن کی تلاوت کا معمول تھا اور یہ عمل ان کے اندر ان کی والدہ کی تربیت سے آیا تھا۔
والدین کی تربیت بچوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے:
ماں باپ کی تربیت موت تک چلتی ہے۔ ہم نے ان کے والدہٴ مرحومہ کو بھی دیکھا۔میری ان سے سسرالی رشتہ داری ہے، لہٰذا میرا یہاں آنا جانا ہوتا تھا۔مرحوم احمد پٹیل صاحب کی والدہ بہت نیک خاتون تھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھا ۔
مکاتب قرآنیہ کی اہمیت:
آج ہمیں یہ سبق بھی لینا ہے کہ ہم بھی اپنی اولاد کو قرآن کریم کے ساتھ وابستہ کریں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ان دیہاتوں میں مکاتب ِقرآنیہ کا بہترین نظام ہے اور الحمدللہ مقامی لوگ ان مدرسوں میں اپنے بچوں کو بھیجتے بھی ہیں اور یہ چیز آپ کو ہندستان کے دوسرے صوبوں میں نہیں ملے گی۔ آپ آندھرا پردیش چلے جائیں، چھتیس گڑھ چلے جائیں اور دوسرے صوبوں میں ۔ کرنا ٹک چلے جائیں آپ کو کہیں یہ نظام نہیں ملے گا، جو ہمارے علاقے میں مکاتب مدارس کا نظام ہے۔ یہ مکاتب قرآنیہ ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ مکاتب کی تعلیم کے ساتھ اسکولی نظام ہے۔ابھی میں ہمارے یہاں کے ایک شخص سے بات کر رہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں بھی کوئی اچھا میڈیکل کالج ہو، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بچے سائنس سے بھاگتے ہیں۔
ایم ،بی ،بی ایس کالج اور احمد پٹیل:
احمد پٹیل صاحب اورہماری کئی مرتبہ بات چیت ہوئی، آپ کو پتہ ہے کہ الحمدللہ جامعہ اکل کوا نے M.B.B.Sمیڈیکل کالج قائم کیا اور اس میں سب سے بڑا تعاون ہراعتبار سے احمد پٹیل صاحب کا رہا،جو ان کے لیے صدقہٴ جاریہ ہے۔ احمدپٹیل صاحب نے جامعہ کا بہت کام کیاہے۔ ہمارے لیے اسٹیٹ گورنمنٹ کی پرمیشن N.O.Cلینا آسان کام نہیں تھا۔
میں احمد پٹیل صاحب کے پاس گیا، اور کہا کہ مہاراشٹر گورنمنٹ کا N.O.C ابھی تک نہیں آیا ہے، تو انہوں نے فوراً فون اٹھاکر C.M کو لگایا اور کہا کہ مولانا وستانوی کے M.B.B.S کالج کا کیا ہوا، کہا کہ ہوگیا، ارے کیا ہوگیا؟ مولانا میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں؟ کل آپ ان کو N.O.Cبھیج دیجیے ، مجھے کہا کہ مولانا سیدھے ممبئی چلے جاوٴ، ان کے ایک فون پر ہمیں مہاراشٹر گورنمنٹ سے N.O.Cمل گیا۔
صدقہٴ جاریہ:
اب وہ تو یہ نیک کام کرکے چلے گئے، اب زندگی بھر جتنے ڈاکٹربنیں گے سب کی نیکی احمد پٹیل صاحب کے کھاتے میں جائے گی۔
احمد پٹیل کی عظیم سوچ:
مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ کو آج یہ بھی بتادوں کہ احمد پٹیل کی سوچ اور فکر تھی کہ ہمارا سماج تعلیم سے جڑے، ہمارا سماج تجارت کے ساتھ جڑے، ہمارا نوجوان کا روبار کے ساتھ جڑے ہمارا نوجوان بیکاری سے بچے۔ہمارا نوجوان ماں باپ کا فرماں بردار بنے۔ دیکھیے! انہوں نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی کہ میں میرے ماں باپ کے ساتھ ہی رہوں گا، میری قبر ان کے ساتھ ہی بنے گی، ان کی تمنا تھی اور کیسی بڑی تمنا کہ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی رہوں یہ ہمارے لیے سبق ہے۔
ان کے لیے تو عزت وہاں تھی کہ دلی کے بڑے قبرستان کے اندر دفن ہوتے، سارا دلّی امنڈ پڑتا ، لیکن ان کی وصیت کو پوری کرنے کی کوشش کی گئی، اللہ تعالیٰ نے کوشش کام یاب کی اور آج ان کا جنازہ ہمارے درمیان ہے اور ہم ابھی ان کے لیے جنازے کی نماز پڑھیں گے۔
اپنی اولاد کی اچھی تربیت یہ امت کو اچھا مستقبل دے گا:
ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کرنی پڑے گی۔ احمدپٹیل صاحب اپنے ماں باپ کی تربیت کا ثمرہ تھے۔ یہ آپ کے سامنے ہے، کہ انہوں نے زندگی کے اخیر لمحے تک قرآن شریف کو نہیں چھوڑا۔ آپ ان کے گھر والوں سے بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ان کے معمولات میں کیا چیزیں تھیں؟ احمد پٹیل صاحب جن کے پاس ایک منٹ کی فرصت نہیں، لیکن نماز چھوڑتانہیں، تلاوت چھوڑتا نہیں اور اپنے معمولات کو پابندی سے کرنا۔ اس کے بعد دنیا بھر کے کام کرو۔
رمضان میں ختم قرآن کے موقع پر ملاقات اور امت کی فکریں:
رمضان کے مہینے میں ختم قرآن کی مجلس سے پہلے میں اور مولانا عبد اللہ مرحوم (اللہ ان کو غریق رحمت کرے) ان کے پاس جاتے، تو پٹیل صاحب بہت دیر تک ہمارے ساتھ بات چیت کرتے اور خوش ہوتے تھے اور وہی ان کی فکر تھی کہ سماج کو تعلیم سے جوڑو ، ہماری قوم جہالت سے نکلے، ہماری قوم کاروبار میں لگے۔ مسلمانوں کی ایکنومک ٹھیک ہو، یہ ان کی سوچ تھی ؛چناں چہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک نہیں ہزاروں لوگوں کو ملازمتوں پر لگا یا ۔
جب آپ کہیں جائیں گے تو معلوم پڑے گا کہ ، پٹیل صاحب نے مجھے نوکری دلادی، پٹیل صاحب نے میرا یہ کام کردیا اور انہوں نے کہا کہ ﴿لا نسئلکم علیہ اجرا ان اجری الا علی اللہ ﴾ انہوں نے کسی سے بدلہ نہیں چاہا۔ ہاں ان کی طبیعت عجیب تھی، ان کے مخالف کے ساتھ بھی وہ ہاتھ ملا کر بات کرتے تھے۔ دنیا میں کون ہے؟!جس کی کوئی مخالفت کرے اور وہ انتقامی جذبہ نہ رکھے؛ لیکن انتقامی جذبہ ان کی طبیعت میں نہیں تھا۔ پٹیل صاحب کی طبیعت میں انتقام تھا ہی نہیں، دشمن بھی ن کے پاس گیا، اس کے ساتھ بھی ان کا خندہ پیشانی سے ملنا جلنا ، بات چیت کرنا،کوئی کام ہوسکا تو فوراً کردینا۔کسی کو فون کردیا ، کسی کو لیٹر دے دیا۔ تو ہمارے اور آپ کے لیے ان کی زندگی ایک آئیڈیل ہے۔
ہمیں احمد پٹیل پیدا کرنا ہے:
دوسرا احمد پٹیل ہم اپنے اندر پیدا کرسکتے ہیں۔ جیسے ان کی ماں نے اپنی اولاد کی تربیت کی، ان کے لیے دعا کی،ان کی ماں کی دعا کی برکت ہے۔اتنے بڑے منصب پر جانے کے بعد بھی دین سے دور نہیں ہوئے،ہمیشہ دین سے وابستہ رہے۔
مرکز نظام الدین اور احمد پٹیل:
مرکز نظام الدین سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ مرکز میں سوئی گرتی تھی ان کو علم ہوجاتا تھا، مرکز کے ہر کام میں آگے۔ حضرت جی کا قافلہ ان کو کہیں جانا ہے، ان کو پاسپورٹ دے دیا، فوراً سکہ لگ گیا، مجھے بھی یاد ہے کہ میراغیر ملکی سب سے پہلے سفر ہوا پاکستا ن کا۔ حضرت جی شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ فیصل آباد میں مقیم تھے، تو یہاں سے ہمارے مفتی عبد اللہ مرحوم جو اللہ کو پیارے ہوگئے، مفتی بیمات صاحب وہ بھی میرے استاذ ہیں، وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور دوسرے بڑے بڑے دس علما تھے اور میں ایک چھوٹا سا طالب علم تھا، مجھے کہا گیا کہ ویزا نہیں ملے گا، مرکز سے فون آیا کہ ویزا نہیں ملر رہا ہے؛ پٹیل صاحب کوفون کیا تو کام ہوگیا۔ شام کو سب کا ویزا پاس ہوکر آگیا۔ ایسے کتنے قصے ہوں گے پٹیل صاحب کے۔ ان کی زندگی پرآپ لکھنا چاہیں تو آپ لکھتے ہی رہیں گے؛چناں چہ ہم لوگ پڑوس میں گئے، یہ ان کی برکت تھی میرا دنیا کا پہلا سفر پڑوس کا ہواحضرت شیخ الحدیث صاحب کی خانقاہ میں۔
آخری بات:
میں پھر وہی بات کہوں گا کہ اپنے مکاتب کو مضبوط کرو، اپنے گاوٴں کی اسکولوں کو منظم کرو اور ہمارا بچہ صرف ساتویں تک نہیں دسویں نہیں بارہویں اور سائنس تک ہمارا بچہ جانا چاہیے۔
میں نے ابھی ایک صاحب سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ گجرات میں بھی ایک میڈیکل کالج ہوجائے لیکن مجھے فکر ہے کہ میں کالج کھول لوں گا، لیکن ہمیں بچے نہیں ملیں گے۔ یہ میں نے ان سے کہا کہ آپ جہاں جہاں جیسے جماعت کے ساتھی تبلیغ میں محنت کرتے ہیں ویسے آپ ماسٹروں کی جماعت نکالو کہ امت تعلیم کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑے ، جب یہ امت تعلیم کے ساتھ جڑے گی تو اللہ خود بہ خود احوال ٹھیک کردیں گے۔ ”کورونا“ کی اس مصیبت کے اندر جو حالات ہیں آپ سب اس سے دوچار ہیں ، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان حالات نے ہماری آنکھوں کو کھول دیا ہے کہ ہمیں اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے؟ جس چیز کی ضرورت ہے اس کی طرف ہمیں جانا پڑے گا ۔ اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اورالحمدللہ ہمارے بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن ماں باپ کی سوچ ان کو پڑھانے کے تعلق سے ہونی چاہیے۔
جنازے میں تین صف کی فضیلت:
بہر حال یہ دو چار باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے کہہ دی، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جس کے جنازے کے اندر اتنے آدمی ہو جاوے کہ تین صف ہوجائے، حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” غفرلہ“ اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ تو یہاں الحمدللہ کئی صفیں بن رہی ہیں اور یہاں سے جانے کے بعد بھی ان کا ہمارے اوپر حق ہے کہ ان کے لیے ایصال ِثواب کریں۔ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔