اول: کفر اور اس کی اقسام کی معرفت کی اہمیت:
نصوصِ کتاب وسنت اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ایمان اس وقت تک صحیح اورقابلِ قبول نہیں، جب تک اس میں دوچیزیں نہ ہوں اور وہ دونوں اس شہادت کا معنی ہیں، لا اله الا اللہ (یعنی اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں)۔
وہ دو چیزیں یہ ہیں کہ اللہ تعالی کی توحید کا اقراراورکفر و شرک اور اس کی تمام قسموں سے برائت کا اظہار۔
دوم: کفر کی تعریف:
لغت میں کسی چیز کے چھپانے اوراس پرپردہ ڈالنے کو کفر کہتے ہیں۔
اور شرعی اصطلاح میں: اللہ تعالی پرعدمِ ایمان کو کفر کہتے ہیں۔
چاہے وہ تکذیب کے ساتھ ہویا تکذیب کے بغیر صرف شک وشبہ پرمبنی ہویا پھر حسد یا تکبریا کسی ایسی خواہش کے پیچھے لگ کر جو کہ رسالت کی اتباع سے دور کرے۔
اللہ تعالی نے جن اشیاء پرایمان لانا فرض قرار دیا ہے، جو شخص بھی اس میں سے کسی بھی چیزکا انکار کرے؛ حالاں کہ وہ اس کے پاس پہنچ چکی ہو، چاہے وہ انکاردل کے ساتھ یا دل کے علاوہ صرف زبان کے ساتھ ہویا پھردل اور زبان دونوں کے ساتھ ہو، یا کوئی ایسا عمل کرے، جس کے متعلق نص میں آیا ہو کہ اس کا کرنے والا ایمان سے خارج ہے تو یہ شخص کافر ہے۔ (دیکھیں مجموع الفتاوی ابن تیمیہ۔ (12/335) اور الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم۔ (1/45)
اور ابن حزم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب” الفصل “میں کہا ہے کہ:
جس کے متعلق یہ صحیح طورپرثابت ہو کہ اس کی تصدیق کے بغیرایمان ہے ہی نہیں، اس کا انکارکرنا کفر ہے، اور جس کے متعلق یہ دلیل وارد ہو کہ یہ بات زبان سے نکالنی کفر ہے، اس کا کہنا اورزبان سے ادا کرنا بھی کفر ہے اورایسا عمل کرنا، جس کے متعلق یہ دلیل ثابت اورصحیح ہو کہ اس کا کرنا کفر ہے، تو وہ کام کرنا بھی کفر ہے۔
سوم: کفر اکبر جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہے، کی قسمیں:
1۔ کفر انکار اور تکذیب:
یہ کفر کی ایسی قسم ہے جس کا تعلق بعض اوقات تو دل کی تکذیب سے ہوتا ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کے قول کے مطابق یہ کفارمیں بہت ہی قلیل ہے۔
اور بعض اوقات یہ تکذیب زبان یا اعضاء سے ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ باطنی طورپرعلم ہونے کے باوجود حق کو ظاہری طورچھپانا اوراس کی اطاعت نہ کرنا، مثلا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہودیوں کا کفر۔
اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے:فَلَمَّا جَآئَہُم مَّا عَرَفُوا کَفَرُوا بِه۔ِ(البقرة :89)
تو جب ان کے پاس وہ آ گیا جسے وہ جانتے تھے توانہوں نے اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا۔
اور یہ بھی ارشاد فرمایا:وَإِنَّ فَرِیقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُونَ۔( البقرة :146)
اوربیشک ان میں سے ایک گروہ حق کو جاننے کے باوجود چھپاتا ہے۔
اس لئے کہ تکذیب اس وقت تک ثابت ہی نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ حق کو جانتے ہوئے رد نہ کرے۔ اس لئے اللہ تعالی نے اس بات کی نفی کی ہے کہ کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنا حقیقی اورباطنی طورپرنہیں بلکہ صرف زبان کے ساتھ ہے۔
تو اللہ تعالی نے اسی چیز کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: فَإِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُونَکَ وَلَٰکِنَّ الظَّٰلِمِینَ بِایَٰتِ اللَّہِ یَجْحَدُونَ۔( الانعام:33)
بیشک یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے، لیکن یہ ظالم تواللہ تعالی کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔
اور اللہ تعالی نے فرعون اوراس کی قوم کے متعلق ارشاد فرمایا: وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ أَنفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا۔( النمل :14)
اورانہوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے، صرف ظلم اورتکبرکی بنا پرانکار کیا۔
اور کفر کی اس قسم کے ساتھ کفرِ استحلال بھی ملحق ہے، یعنی اسے کسی چیز کے بارہ میں یہ علم ہو کہ شریعت اسلامیہ نے اسے حرام قراردیا ہے، اس کے باوجود وہ اسے حلال جانے، تواس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تکذیب کی اوراسی طرح جسے یہ علم ہو کہ شریعت اسلامیہ میں یہ حلال ہے، لیکن وہ اسے حرام قرار دے۔
2۔ کفر اعراض اور استکبار:
جس طرح کہ ابلیس کا کفر ہے۔
اس کے متعلق اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے: فَسَجَدُوٓا إِلَّآ إِبْلِیسَ أَبَیٰ وَسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَٰفِرِینَ۔(البقرة :34)
سوائے ابلیس کے، اس نے انکاراورتکبر کیا اوروہ کافروں میں سے ہو گیا۔
اور جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: وَیَقُولُونَ اٰمَنَّا بِا للَّہِ وَباِ لرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلَّیٰ فَرِیقٌ مِّنْہُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِکَ وَمَآ أُولَٰٓئِکَ باِ لْمُؤْمِنِینَ۔ (النور:47)
اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی اوررسول پر ایمان لائے اور فرماں بردار ہوئے، پھران میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھرجاتا ہے، یہ ایمان والے ہیں (ہی) نہیں۔
تو جو عمل سے منہ پھیرے اس سے ایمان کی نفی کی گئی ہے، اگرچہ وہ قولی طورپر یہ کہتا بھی رہے، تو اس سے پتہ چلا کہ کفر اعراض یہ ہے کہ: حق کو ترک دینا، نہ تواس کا علم حاصل کرنا اور نہ ہی اس پرعمل کرنا، چاہے وہ قولی یا عملی یا اعتقادی طورپرہو۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: واَلَّذِینَ کَفَرُوا عَمَّآ أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ۔(الاحقاف:3)
اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں، منہ موڑ لیتے ہیں۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں، جس نے بھی قولی طورپراس سے اعراض کیا، مثلا جو یہ کہے کہ میں اس کی پیروی اوراتباع نہیں کرتا۔
یا پھر فعل کے ساتھ اعراض کرے، مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو حق لائے ہیں، اسے سننے سے اعراض کرے یا بھاگے، اوریا پھر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے ؛تاکہ وہ اسے سن نہ سکے، یا اسے سن تولیا لیکن دل سے ایمان نہ لا کراعراض کرے اوراعضاکے ساتھ عمل نہ کرے تو اس نے کفراعراض کا ارتکاب کیا۔
3۔ کفر نفاق:
یہ ایسا کفر ہے کہ دل میں عدم ِتصدیق ہو، وہ عمل نہ کرے لیکن لوگوں کو دکھانے کے لئے ظاہری طور پراطاعت گزاری کرے، جس طرح کہ ابن سلول اور دوسرے سب منافقین کا کفر تھا۔
جن کے متعلق اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ اٰمَنَّا باِ للَّہِ وَباِ لْیَوْمِ لَْاٰخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِین۔َ یُخٰدِعُونَ اللَّہَ واَلَّذِینَ اٰمَنُوا وَمَا یَخدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ۔( البقرة :8-9)
اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی پراورقیامت کے دن پرایمان رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں، وہ اللہ تعالی کو اورایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں مگر سمجھتے نہیں۔
4۔ کفر ِشک وشبہ:
یہ کہ حق کی پیروی اوراتباع کرنے میں تردد اورشک کا شکارہو یا پھر اس کے حق ہونے میں شک و شبہ کا شکار ہو۔
اس لئے مطلوب تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں، اس کے متعلق یقین ہو کہ وہ حق ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو، تو جس نے بھی یہ کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں، وہ حق نہیں ہے تو اس نے کفر ِشک یا کفر ِظن کا ارتکاب کیا۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَآ أَظُنُّ أَن تَبِیدَ ہَٰذِہ أَبَدًا وَمَآ أَظُنُّ السَّاعَةَ قَآئِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنقَلَبًا قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَہُوَ یُحَاوِرُہ أَکَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَکَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّٰیکَ رَجُلًا لّٰکِنَّا ہُوَ اللَّہُ رَبِّی وَلَآ أُشْرِکُ بِرَبِّیٓ أَحَدًا۔(الکہف:35-38)
اور وہ اپنے باغ میں گیا اور تھا وہ اپنی جان پرظلم کرنے والا، کہنے لگا کہ میرا یہ خیال نہیں ہے کہ یہ کبھی کسی وقت بھی تباہ برباد ہو جائے گا، اورنہ میں قیامت کو قائم ہونے والی خیال کرتا ہوں، اوراگر (بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقینا میں (اس لوٹنے کی جگہ) اس سے بھی زیادہ بہتر پاؤں گا، اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس (معبود) سے کفرکرتا ہے، جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا، لیکن میں تو عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہی اللہ میرا پروردگار اوررب ہے، میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروں گا۔
خلاصہ:
کفر ایمان کی ضد اورمخالف ہے، جو کہ بعض اوقات دل کی تکذیب کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دل کی تصدیق کے منافی ہے۔
اور کبھی کفر دل کا عمل ہوتا ہے، جس طرح کہ اللہ تعالی یا اس کی آیات یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض، تو یہ حب ِایمانی کا مناقض ہے، جو کہ دلی اعمال کو مؤکد کرتی اوراس کے لئے اہم ہے۔
اورایسے ہی بعض اوقات ظاہری قول کے ساتھ بھی کفر ہوتا ہے، جس طرح کہ اللہ تعالی کو برا کہنا اور گالی نکالنا۔
اور بعض اوقات ظاہری عمل بھی کفر ہوتا ہے، مثلا بتوں کو سجدہ اورغیر اللہ کے لئے ذبح کرنا۔
جس طرح ایمان دل، زبان اوراعضاء کے ساتھ ہوتا ہے، اسی طرح کفر بھی دل، زبان اوراعضاء کے ساتھ ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں کفر اوراس کی انواع و اقسام سے بچائے اورمحفوظ رکھے اورہمیں ایمان کی زینت سے نوازے اورہمیں ہدایت یافتہ اورہدایت کی راہ دکھانے والا بنائے۔ آمین۔
