فقہ وفتاویٰ
مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی
صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
کعبة اللہ کا مجسمہ بنا کر اُس کے ارد گرد طواف کرنا!
سوال: ہماراشہر ڈونڈائچہ(ضلع دھولیہ، مہاراشٹر)جس کی آبادی تقریباً پندرہ ہزار (۱۵۰۰۰) مسلمانوں پر مشتمل ہے، یہاں اس سال یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح منا یا گیا کہ عین شاہراہ کے درمیان چوراہے پر کعبة اللہ شریف کے مماثل ایک(Statue)یعنی حرم شریف کی ہوبہوکاپی بنائی گئی، جس میں حجرِ اسود، مقامِ ابراہیم وغیرہ بھی بنایا گیا، جس کے ارد گرد، اطراف واکنافِ شہر کے مسلمان مرداور عورتوں نے طواف کیا اور زیارت کی، اس کے غلاف کو بہت ہی عقیدت مندی کے ساتھ چو ما گیا، اسی طرح (مصنوعی) حجرِ اسود کے بوسے لیے گئے، والینٹر(Voluntar) (رضاکار) لوگوں نے نذرانے جمع کیے، یہاں کی اکثر مساجد کے اماموں نے آآکر فاتحہ خوانی وغیر ہ کی، لوگوں نے ان کی مدح خوانی کی جنھوں نے یہ کام انجام دیا، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ:
کیا کعبة اللہ شریف کا اس طرح ڈھانچہ بنانااور اس کا طواف کرنا اور اس کے غلاف کو عقیدت سے چومنا، اور یہ کہنا کہ چلو ہمارا حج اور عمرہ ہوگیا اور اس پر مطمئن و خوش ہونا شرعاً جائز ہے ؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بیت اللہ؛ جس کی بنا وتعمیر معصوم نفوسِ قدسیہ کے ہاتھوں ہوئی اور جسے اللہ رب العزت نے اپنا بیت(گھر) اور شعائرِ دین میں سے قراردیا، ایسی کئی خصوصیات کا حامل ہے جو دنیا کے کسی بیت(گھر) کو حاصل نہیں ہوسکتیں، مثلاً:
۱- بیت اللہ کے قرب میں مقامِ ابراہیم کا واقع ہونا ۔(۱)
۲- اس میں داخل ہونے والے کا مامون اور محفوظ ہونا۔(۲)
۳- ساری دنیا کے باحیثیت، صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر اس کے حج کا فر ض ہونا۔(۳)
۴- اس کے گرد طواف کا نفل نما ز سے بہتر ہونا۔(۴)
۵- وہاں ایک نماز کی ادائیگی پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملنا۔(۵)
۶- اس کی طرف نظر کا عبادت ہونا وغیرہ۔(۶)
یہ وہ خصوصیتیں ہیں جو کعبة اللہ کے علاوہ کسی اور بیت کو کسی بھی طرح حاصل نہیں ہوسکتیں؛ لہٰذاکعبة اللہ کی شبیہ (Statue)بنانا اور اس کے ساتھ وہی تعظیم وتوقیر بجالانا جو کعبة اللہ کا حق ہے، اس کے غلاف کو حقیقی کعبة اللہ کے غلاف کی طرح عقیدت سے چومنا،اس کے گرد طواف کو عینِ طوافِ کعبہ سمجھنا، او ر اس میں نصب مصنوعی حجرِ اسود کا بوسہ لینا اور فاتحہ خوانی وغیرہ کرنا، اور یہ کہنا کہ اس کے طواف وزیارت سے ہمارا حج وعمرہ ہوگیا، انتہائی گمراہی اور زبر دست شیطانی دھوکہ کے ساتھ ساتھ کئی مفاسدِ دینیہ (دینی خرابیوں) کا ذریعہ، اور مقاصدِ شرع ومصالحِ عباد کے اِبطال کا سبب ہونے کی وجہ سے حرام اور گناہِ کبیر ہ ہے۔(۷)
اس سلسلے میں اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کی یہ قرار داد باتفاقِ فقہائے عصر موجود ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ”کعبہٴ مشرفہ کا مجسمہ بنانا اور اس کی خریدو فروخت کرنا ممنوع ہے، کیوں کہ یہ بہت سی برائیوں اورحرام تک پہنچنے کا ذریعہ ہے “۔(۸)
الحجة علی ما قلنا :
(۱) ما في ” القرآن الکریم “ : ﴿فیہ اٰیٰت بینٰت مقام إبراہیم﴾ ۔ (آل عمران : ۹۷)
ما في ” القرآن الکریم “ : ﴿واتخذوا من مقام إبراہیم مصلی﴾ ۔ (سورة البقرة : ۱۲۵)
(۲) ما في ” القرآن الکریم “ :﴿ومن دخلہ کان اٰمنا﴾ ۔ (سورة النساء : ۹۷)
﴿وإذ جعلنا البیت مثابة للناس وأمنًا﴾ ۔ (سورة البقرة : ۱۲۵)
﴿وإذ قال إبراہیم رب اجعل ہذا البلد اٰمنًا﴾ ۔ (سورة إبراہیم : ۳۵)
﴿وإذ قال إبراہیم رب اجعل ہذا البلد اٰمنا﴾ ۔ (سورة البقرة : ۱۲)
﴿أو لم یروا أنا جعلنا حرمًا اٰمنًا﴾ ۔ (سورة العنکبوت : ۶۷)
(۳) ما في ” القرآن الکریم “ : ﴿وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا﴾ ۔ (آل عمران : ۹۷)
(۴) ما في ” البحر العمیق في مناسک المعتمر والحاج إلی بیت اللّٰہ العتیق “ : عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسو ل اللّٰہ ﷺ : ” إن اللّٰہ تعالی ینزل کل یوم ولیلة علی البیت عشرین ومائة رحمة ، ستون للطائفین ، وأربعون للمصلین ، وعشرون للناظرین “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي ہذا الحدیث دلالة علی فضل الطواف علی الصلاة ۔
(۱/ ۱۶۶ ، ۱۶۷ ، ۱۷۱ ، فضل الکعبة ، الباب الأول في الفضائل ، فضل الطواف والحث علیہ)
(۵) ما في ” صحیح البخاري “ : عن أبي ہریرة أن رسول اللّٰہ ﷺ قال :” صلاة في مسجدي ہذا خیرٌ من ألف صلاة فیما سواہ إلا المسجد الحرام “ ۔ (۱/۱۵۹ ، کتاب التہجد ، فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة ، صحیح مسلم : ۱/۴۴۶ ، کتاب الحج ، فضل الصلاة بمسجدي مکة والمدینة)
(سنن النسائي : ۲/۲۶ ، کتاب مناسک الحج ، فضل الصلاة في المسجد الحرام)
ما في ” البحر العمیق “ : وفي السراج الوہّاج شرح القدوري : إن الصلاة في الکعبة بمائة ألف صلاة ، کذا ذکرہ في باب الصلاة في الکعبة ۔ (۱/۱۵۰ ، الباب الأول في الفضائل المسجد الحرام والصلاة فیہ)
وما فیہ : عن ابن الزبیر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ ﷺ : ” صلاة في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاة فیما سواہ من المساجد إلا المسجد الحرام ، وصلاة في المسجد الحرام أفضل من مائة صلاة في مسجدي “۔ (۱/ ۱۴۸ ، الباب الأول في الفضائل المسجد الحرام والصلاة فیہ)
(۶) ما في ” البحر العمیق “ : روي عن النبي ﷺ أنہ قال : ” النظر إلی البیت الحرام عبادة “۔ أخرجہ ابن الجوزي ۔ وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال : ” النظر إلی الکعبة محض الإیمان “ ۔ رواہ الجندي ۔ وعن سعید بن المسیب قال : ” من نظر إلی الکعبة إیمانًا وتصدیقًا خرج من الخطایا کیوم ولدتہ أمہ “ ۔ وعن عطاء قال : ” النظر إلی البیت الحرام عبادة ، فالناظر بمنزلة القائم الدائم المخبت المجاہد في سبیل اللّٰہ “ ۔ رواہما الأزرقي ۔ وعن ابن السائب المدني قال : ” من نظر إلی الکعبة إیمانًا وتصدیقًا تحاتت عنہ الذنوب کما یتحات الورق من الشجرة “ ۔ أخرجہ ابن الجوزي ۔ (۱/۱۹۵ ، ۱۹۶ ، الباب الأول في الفضائل ، فضل النظر إلی الکعبة)
(۷) ما في ” المقاصد الشرعیة للخادمي “ : إن الوسیلة أو الذریعة تکون محرمة إذا کان المقصد محرمًا، وتکون واجبةً إذا کان المقصد واجبًا ۔ (ص/۴۶)
ما في ” اعلام الموقعین “ : وسیلة المقصود تابعة للمقصود وکلاہما مقصود ۔ (۳/ ۱۷۵)
(۸) ما في ” فقہ النوازل “ : وثیقة رقم (۲۷) الموضوع : تصنیع وتسویق مجسم للکعبة المشرفة ۔ الخلاصة : یمنع تصنیع وتسویق مجسم للکعبة المشرفة ؛ لأن ذلک یفضي إلی شرور ومحظورات ۔ المصدر : المجمع الفقہ الإسلامي بمکة المکرمة ۔ التاریخ : شعبان /۱۴۱۲ہ ۔ (۲/۱۰۷) فقط
واللہ أعلم بالصوا ب
کتبہ العبد: محمد جعفر ملی رحمانی ۔۲۵/۵/۱۴۲۹ھ
الجواب صحیح : مفتی عبدالقیوم۔ ۲۵/۵/۱۴۲۹ھ
(فتویٰ نمبر: ۸۰-رج:۱)