کارٹون ! تسخیر اذہان وقلوب کے فتنوں میں اہم ترین فتنہ

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمیؔ

            ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ، اس میں ایک فتنہ ختم نہیں ہوپاتا کہ دوسرا اس سے بھی سخت دل فریب ، دل کش، خوش نما ، خوش رنگ ، ترقی وتہذیب کے لبادے میں لپٹا، روشن خیالی اور واہ واہی سے مزین ، زمانے کے قدم سے قدم ملاتا اور نام و نمود کی طرف لبھاتا گونگا اوربہرا سامنے آجاتا ہے اور مسلم قوم اس کی طرف  تعلیماتِ اسلام کو پس پشت ڈالتی ، احکامِ خداوندی کو پامال کرتی اور فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز کرتی ہوئی؛ ان یہودیوں ، صیہونیوں اورشیطان کے پجاریوں کی طرف لپکتی اور دوڑتی ہے ۔

            ان لوگوں نے تسخیر اذہان کا ہر حربہ اختیار کررکھا ہے ۔ خواہ جادو وسفلیات ہویا اس کی ترقی یافتہ شکل’’ ایم کے الٹرا ‘‘،’’مائیکرو چیپس‘‘، یا ویڈیو کے آڑ میں ’’شارٹ ویژن‘‘ کا حملہ یا گانے کے نام پر ’’بیک ٹریکنگ‘‘ کا زہر یا معمولی نظر آنے والے کارٹون، دلفریب کہانیاں یا عریانیت پرمبنی ناول۔

حدیث نبوی اور عصر حاضر:

            عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ یَکُوْنُ فِیْ ہٰذِہٖ الْأُمَّۃِ اَرْبَعُ فِتَنٍ اٰخِرُہَا الْفِنَائُ ۔‘‘

            ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اس امت میں خاص نوعیت کے چار فتنے ہوںگے ۔ ان میں آخری اورسب سے بڑا فتنہ راگ ورنگ اور گانا بجانا ہوگا۔

آخری زمانہ کا سب سے بڑافتنہ:

            اس حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چار فتنوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس سے مرادخاص قسم کے اور بڑے بڑے فتنے ہیں۔( جیسا کہ اس سے ماقبل کی حدیث میں بھی عرض کر چکا ہوں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار میں سے اس حدیث میں صرف ایک آخری فتنہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اور حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار فتنے ہوں گے، پہلے میں( لوگوں کا) خون حلال کر لیا جائے گا۔

            دوسرے میں خون اور مال حلال کرلیا جائے گا اور تیسرے میں خون بال اور شرم گاہیں حلال کرلی جائیں گی۔  (طبرانی فی الکبیر:۱۸/  و الاوسط: ۸/۱۰۹) اورنعیم بن حمادنے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی بات نقل کی ہے اور اس میں چوتھے فتنہ کا بھی ذکر ہے کہ وہ اندھا ،بہرا اور سب کو گھیر لینے والا ہوگا۔ (الفتن:۱ /۵۶) اس سے ان فتنوں کی ایک درجہ میں تعیین ہوگئی، جو پہلی حدیث میں مذکو رنہیں ہیں۔ پھر فرمایا کہ آخری فتنہ فناو تباہی کا ہو گا اور اس آخری فتنہ سے مراد دجال کا فتنہ ہے جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا اورنعیم بن حماد نے حضرت عمران کی حدیث میں چوتھے فتنے میں دجال کا اضافہ بھی کیا ہے۔ (الفتن:۱ /۵۴) اوربعض احادیث میں اس چوتھے فتنہ کے بارے میں ایک دوسری بات آئی ہے، وہ یہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد چار فتنے ہوں گے اور چوتھا فتنہ بڑاسخت اندھا اور سب پر حاوی ہونے والا فتنہ ہوگا، جس میں امت آزمائش کی وجہ سے اس طرح رگڑی جائے گی، جیسے چمڑا رگڑا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس زمانہ میں معروف کومنکر اور منکر کومعروف سمجھا جائے گا اور ان کے دل مرجائیں گے جیسے کہ ان کے بدن مرجاتے ہیں۔ (نعیم فی الفتن:۱/۳۱۳)

(بحوالہ:حدیث نبوی اور دور حاضر کے فتنے۔تخریج و تشریح:مفتی شعیب اللہ خان صاحب۔صفحہ:۱۹۴؍۱۹۵)

 ہمارا مستقبل کن ہاتھوں میں ہے ؟

            حدیث نبوی کو دیکھیں اوران کے ہتھکنڈوں کو جن کے ذریعے یہ ہمارے نوجوان، بل کہ کچے اذہان کے  ننھے منے بچوں کے ذہن ، دل ودماغ اور جسم سے کھیل رہے ہیں ۔ یہ ہمارے نوجوان اوربچے؛ جن کے ہاتھوں میں ہمارا اسلام اور مستقبل ہے ۔ یہ ان صیہونیوں ،شیطان ودجال کے پجاریوں اورٹٹؤوں کے رحم و کرم پر پروان چڑھ رہے ہیں ۔

            آج ان لوگوں نے ان سب چیزوں کے ذریعہ ہم سے اسلامی اخوت، ایمانی قوت و حلاوت ، آپسی بھائی چارگی ، غیرتِ ایمانی ، ہماری تہذیب ہمارا معاشرہ اور سب کچھ چھین لیا ہے اور ایک جیتی جاگتی لاش بنا کر چھوڑ دیا ہے ،جسے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں ۔ اس کے دینی بھائیوں کو اس کے سامنے زندہ درگور کردیا جائے یا اس کی بہن کی آبرو کو پامال کردیا جائے ، اس کی مساجد و مدارس کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے یا اس کی جان سے زیادہ عزیز کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کی جائے؛ اسی پر بس نہیں اس کے معیارِ ایمان، جان سے بھی زیادہ عزیز، دین و دنیا کی سب سے عظیم دولت ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے ساتھ کھلواڑکیا جائے تو بھی اسے ملال نہیں، جبیں پر بل تک نہیں ؛توخون میں جولان کہاں سے آئے!! ۔

            یہ سب کیا ہے ؟ ان لوگوں کی تسخیری چالیں ہیں ۔ ہمارے نوجوان فلموں اور ویڈیوز میں کارٹون گانوں میں مگن؛ عورتیں سیر یلز اور ناٹکوں پر فدااوربچے کارٹون کے دلدادہ ۔ آہ ! اسلام کا مستقبل !

کارٹون کے پس پردہ کیا ہے ؟

            ان تمام تسخیرِ اذہان ہتھکنڈوں اور جالوں میں اہم ترین کارٹون ہے ۔ اس لیے کہ اس کے شکار ہمارے چھوٹے بچے ہیں ، جن کے اذہان ابھی کچے ہیں ، جو چیز ڈال دی جائے وہ پیوست اورپختہ ہوجاتی ہے ،اس کی فکر کا انمٹ حصہ بن کررہ جاتی ہے ۔

            میںاولاًدیگر چیزوں کو اجمالاً ذکر کروں گا اور پھرکارٹون بینی کو تفصیلاً؛ تاکہ ہم اپنے نونہالوں اور اسلام کے مستقبل کے سپہ سالاروں کو ان دشمنانِ اسلام کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں ۔ خود بھی آگاہ رہیں اوردوسروں کو بھی آگاہ کریں ۔اور اسے کسی دیوانے کی بَڑ سمجھ کر نظر انداز نہ کریں ؛ورنہ کل روزِ قیامت یہی بچے اللہ کے حضور آپ کے گریبان چاک کریںگے ۔

تسخیر اذہان کے آلے:

            ۱-  جادو سفلیات :  شریعت اسلامیہ میں نہیں ، بل کہ تمام مذاہب سماویہ میں یہ حرام اور ناجائز ہے ۔یہ اللہ کی نصرت و حمایت کے مقابلے شیطان اور شیطانی قوتوں کو ناجائز طریقوںسے خوش کرکے ان کی فانی طاقتوں کو حاصل کرنے کا نام ہے ۔ کائنات میں موجود مخفی رازوں کو دریافت کرنے کا ایک طریقہ سائنس ہے اور دوسرا طریقہ جادو ۔ ’یہود ‘دونوں میں سبقت حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش کررہے ہیں ، جو شخص اپنے ظاہر میں جتنا پلید اور باطن میں خبیث ہوگا، اس کو شیطان سے اتناہی قرب حاصل ہوگا اور شیطانی قوتوں کی جھوٹی تاثیر اتنا ہی اس کے ساتھ ہوگی ۔

            ۲-  ایم کے الٹرا:  یہ سادہ لوح اجنبی انسانوں کے ساتھ کھیلا جانے والا وہ کھیل ہے ، جس کی نگرانی ’’تھنک ٹنکس‘‘ سائنس داں اوریہودی سرمایہ دار کرتے ہیں ۔ ’’ رینڈ کارپوریشن‘‘ اس کا نگران ، ’’ ایون کیمرون‘‘ جیسے ذہین یہودی اس کے کوچ اور ’’راک فیلر‘‘ جیسا یہو دی اس کا اسپانسر ہے ۔

            ایم ، کے سے مراد مائنڈ کنٹرول ہے ۔ اس میں لوگوں کے ذہنوں سے کھیلا جاتا ہے ، ان کی مرضی کے بغیر ان کے دماغوں کو مخصوص پیغام بھیجے جاتے ہیں ؛لہروں اور شعاؤں کے ذریعے تسلسل کے ساتھ بھیجے گئے پیغامات لوگوں کو ذہن کو رفتہ رفتہ بے خود کردیتے ہیں اور خود فراموشی کے عالم میں وہ سب کچھ کربیٹھتے ہیں، جو برادری ان سے چاہتی ہے۔

            ۳-  مائیکر وچیپس:   ایسی چیپس ایجاد ہوگئی ہے ، جس سے’’ ہائی فریکوئنسی مائیکرو بیمز‘‘ خارج ہوتی رہتی ہیں ۔ یہ جب کسی کے بدن میں چپکا دی جائے، تو اس کے دماغ میں آواز یں گونجنے لگتی ہیں اور وہ انسان روبوٹ کی طرح ہر حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔

            ۴-  شارٹ ویژن :  ٹی وی ویڈیوز کے ذریعہ آج مسلم روشن خیال لوگ اپنی معلومات میں اضافہ اورذہن کو وسیع کررہے ہیں ، لیکن آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ یہ بے ضرر دکھائی دینے والا آلہ آپ کے ذہن کو کس قدر ضرر اور مخرَّب کررہا ہے ۔ ہم جو متحرک تصویر اسکرین پر دیکھتے ہیں ،وہ ۱؍سیکنڈ میں ۴۵؍ فریمز یا فوٹو پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اب اس ایک سیکنڈ کے درمیان ۱؍ ساکن تصویر دکھائی جائے تو یہ سیکنڈ کا ۴۵؍ واں حصہ لیتی ہے ، جسے ہماری آنکھ تونہیں دیکھ سکتی ، لیکن ہمارالا شعور اور اندرونی طاقت اسے نہ صرف محسوس کرتی ہے ، بل کہ اس سے متاثر بھی ہوتی ہے ۔

            ۵- بیک ٹریکنگ :  ذہنوںکو گرفت میںلینے کی ایک تیکنک ’’ بیک ٹریکنگ ‘‘ ہے ۔

            موسیقی کے شائقین جو کچھ سنتے ہیں وہ ٹریک کا ’’فاروڈپلے ‘‘ ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ریورس میں’’ٹریک میسیج‘‘ چھپا ہوتا ہے اوریہ ہمارا شعور یعنی قوتِ سماعت گرفت نہیں کر پاتی، لیکن ہمارا لاشعور اسے قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ آپ’’ شیڈوز ‘‘ کیسٹ اسی طرح’’ پوپ سونگ‘‘ ’’راؤک سونگ ‘‘سننے والے نوجوانوں کی دیوانگی کو دیکھیں ۔ کیا چیز ہے جو ان کے اندرون و بیرون کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ شریعت نے یونہی گانے اور تصاویر وغیرہ کو تھوڑے ہی نہ حرام کیا! ۔ یہ تلبیسات ہیں اور شیطان کے حربے ہیں ۔

            یہ نہایت اہم معلومات ہے اسے تفصیل سے جاننے کے لیے آپ کو مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب کی ’’دجال:۲‘‘ ضرور پڑھنا چاہیے ۔ ہم علما سے درخواست کرتے ہیںکہ وہ ان چیزوں سے نوجوانوں کو آگاہ کریں اور اسلام کے مستقبل کو سنواریں اور محفوظ رکھیں۔

کارٹون کا ڈنک:

            اب ہم کارٹون کی طرف آتے ہیں …بہ ظاہر بے ضرر نظر آنے والے کارٹون اپنے اندر فساد عظیم لیے ہوئے ہیں؛والدین یہ سوچ کر ،کہ بچہ کارٹون ہی تو دیکھ رہا ہے کسی قسم کی پرواہ نہیں کرتے۔ ذیل میں کارٹون کی چند خرابیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے، ذرا غور کرنے سے ہر ذی شعور شخص ان خرابیوں کا اعتراف کرے گا۔

            خرابیوں کے بیان سے پہلے حال ہی میں کیا گیا ایک سروے پیش ہے، جس سے آگے بیان کیے جانے والے حقائق کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ سروے۰ ۵؍ والدین سے کیا گیا۔ سروے میں کیے جانے والے سوالات، بچوں کے رویے، ان کی عمر، ٹی وی دیکھنے کے دورانیے، ان کے حالات، ردعمل، کارٹون دیکھنے کے مطالبے، ٹی وی بند کیے جانے پر غصہ، والدین کا کارٹون پر اطمینان اور ان کے تجارتی فوائد جیسی باتوں پر مبنی تھے۔

            اس سروے سے حاصل شدہ اعداد و شمار یہ ہیں:

             جوابدہ لوگوں میں سے۰ ۵؍ فیصد کے بچوں کی عمر ۹-۵ سال تھی ؛جب کہ ۳۰ فیصد کے بچوں کی عمر۱۰ – ۲۱ سال تھی۔

            ۸۰؍ فیصد لوگوں کا جواب یہ تھا کہ ان کے بچے کم از کم۲؍ گھنٹے اور ۱۵؍ فیصد کا کہنا یہ ہے کہ ان کے بچے ۳؍گھنٹے سے زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں۔

            ۹۰؍ فیصد والدین اپنے بچوں کو پرامن سمجھتے ہیں۔

            ۰ ۸؍ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ ان کے بچے کارٹون دیکھتے وقت اس میں مگن ہو جاتے ہیں۔ ۰۰ ۱؍ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ ان کے بچے پر تشد د کارٹون دیکھ کر جارحانہ رویہ اپناتے ہیں۔

            ۷۵؍ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ ان کے بچے کارٹون کرداروں کے استعمال کردہ چیزوں اورایسی چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں ،جس میں ان کرداروں کا لیبل لگا ہو۔

             ۰ ۷؍ فیصد والدین کا کہنا یہ ہے کہ بچوں کو کارٹون سے روکنے پر ان بچوں کو شدید غصہ آجاتا ہے۔

            ۱۰۰؍ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ ان کے بچوں کو کارٹون کے ذریعے کارپوریٹ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

THE SIMPSONSنامی کا رٹون کا فریب:

            The Simsons ’’سمسانس‘‘ امریکہ میں دکھائی جانے والی کارٹون سیریز کا نام ہے ، جسے سب سے لمبے عرصے سے دکھائی جانے والی سیریز کا ایوارڈ حاصل ہے ۔ جس کی ۳۰؍ سے زائد سیریز اور ۶۵۰؍ سے بیشتر ایپیسوڈ ہوچکے ہیں ۔

            جسے Matt groeing ’’میٹ گروئنگ‘‘ نامی فری میسن شخص چلاتا ہے ، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کارٹون سیریز میں آئندہ سالوں میں ہونے والی چیزوں کو کئی سال قبل ہی دکھا دیا جاتا ہے ؛جو یہودی صیہونی سازش کی اہم کڑی اور دیگر لوگوں کو چیلنج ہے ۔ ان کا ہر کام پری پلاننگ سالوں پہلے ہوجاتا ہے ، اس کی تاریخ، افراد مقامات، سب فکس اور طے ہوتے ہیں ۔

            اس سیریل میں دکھائی گئی چند چیزوں کو میں آپ لوگوں کے درمیان ذکرکروںگا ۔

Voter machine Foulity  ۔ووٹر مشین گھوٹالہ:

            ۲۰۰۸ء ہی میں دکھا دیا گیا تھا کہ Obama کو ڈالے جانے والا ووٹ Mecain کوپڑ رہا تھا ، ٹھیک ۴؍ سال بعد 2012 میں ایسا ہی ہوا ۔

            2007 میں اس کارٹون میں ماں بولتی ہے کوئی بھی کال مت کرو ، امریکہ ہر کسی کا کال Record کرتا ہے ۔2003 میں N.S.Aمیں کام کرچکا ، امریکن سائنٹسٹ ’’ ایڈورڈ ‘‘ نے یہ پول کھولا ۔

            Ebolavirus  1997 میںایک ماں اپنے بچے کواس کے متعلق کہانی سناتی ہے، جس کا نام تھا ’’Curious gerge and the Ebola ‘‘ پھر 2014 افریقہ میں یہ کہانی ایک ڈراؤنی حقیقت بن کر سامنے آتی ہے۔

            اسی طرح دیگر بہت ساری چیزیں : Fifa  اسکنڈل جو2015 میں ہوا ، اس کارٹون سیریز میں 2014 میں ہی بتادیا گیا ۔

            9/11 نائن الیون سوچی سمجھی سازش۔ اس سیریل میں 1997 میںہی اس کار ٹون میں دکھا دیا گیا اور خود انہوں نے مسلمانوں کو دہشت گر دثابت کرنے کے لیے ان کی طرف منسوب کر دیا ۔ یہ ہے اصل دہشت گردی۔

             2015میں ہی  امریکہ کا پورامیپ نقشہ دکھا یا گیا ، جس میں کون کون سے علاقے میں Trump ٹرمپ کو ووٹ اورسیٹ آئے گی بتا دیا گیا اور 2016 میں ویساہی ہوا ۔

            ایسی بہت ساری چیزیں ہیں ، جو اس سیریز میں بتائی جاتی ہیں اور دوسرے تمام کارٹون سیریلز بھی اپنے اندر ایک گمراہ کن حقیقت رکھتے ہیں ، جس سے یہ مسلم امت غافل ہے ۔

            احقر کے ۲؍ بھائی جامعہ انجینئرنگ میں پڑھتے ہیں ، جن پر جامعہ کے دینی ماحول کا بڑا اثرہے ۔ ان سے کہہ کر میں نے ان چیزوں کو محمد بن اسحاق اور عامر بن اسحاق نامی ۲؍ حیدرآبادی نوجوان کے T.B.V Team Youtube  چینل سے حاصل کیا ۔

            ضرورت ہے کہ ہم نوجوانوں کو ان کاموں میں لگا ئیں اور امت کو ان سازشوں سے بچائیں ۔

            اب ہم آپ کو ’’کارٹون بینی ،ویڈیو گیم اور مسلمان بچے‘‘از:مفتی محمد شہزاد شیخ کراچی سے کارٹون کے متعلق اہم ترین باتیں پیش کرتے ہیں۔

کارٹون دیکھنے کی چند بڑی خرابیاں یہ ہیں:

             1-  وقت کا ضیاع:  وقت کس قدر قیمتی چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنِ کریم میں کئی ایک مقامات پر زمانے اور وقت کی قسم کھائی گئی ہے جیسے اور{والعصر} ،{والفجر}جب کہ ہم اس قدر اس کے ساتھ بے وقعتی کارویہ اپناتے ہیں۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ٹی وی اور ویڈیو کا کلچر، بچوں پر بہت برااثر ڈالتا ہے نیز بچوں کی فطری ذہانت اور سادگی کو زنگ لگاتا ہے۔ بعض گھرانوں میں ٹی وی مسلسل کھلا رہتا ہے خواہ کوئی دیکھ رہا ہو یا نہیں؛ نیز ٹی وی کو بچوں کو مشغول رکھنے کا وقت گزاری کا ایک اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ اس سے پڑنے والے برے اثرات مندرجہ ذیل ہیں:

            بچے کا وقت دوسروں کے ساتھ میل جول اور کھیل کود میں گذرنا چاہیے تھا، جس سے بچے کا ذہن در اصل تیز ہوتا اور اس کے ذہن کی نشو نما ہوتی ،وہ وقت بچہ ویڈیو اسکرین کے سامنے گذار کر ضائع کر دیتا ہے اور وہ فائدہ حاصل نہیں کر پاتا ؛جو کہ لوگوں سے ملاقات اور چیزوں کو براہ ر است برت کر حاصل کر سکتا تھا۔

             بچے کا جو وقت اہم مہارتوں کے حصول کا تھا، جس میں وہ زبانی اور تخلیقی، فنی اور سماجی صلاحیتوں میں مہارت حاصل کرتا، اس کا وہ وقت ٹی وی دیکھنے میں ضائع ہو جاتا ہے؛ جب کہ بچے کی زندگی کے ابتدائی دو سال ان صلاحیتوں کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔

             ہم جہاں خود وقت کا استعمال نہیں کرتے ہیں بچوں کو بھی وقت ضائع کرنے کا عادی بناتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم بچوں کی تربیت کی ذمہ دار ی خود سنبھالتے، انہیں اپنا قیمتی وقت دیتے، ہم انہیں ٹی وی کے آگے بڑھاکر، کارٹون چینل لگا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف یہ کہ دیگر بڑی خرابیوں کو جنم دیتا ہے، بل کہ بذاتِ خودضیاع ِوقت کے ضمن میں ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

۲-  پرتشددرویہ:

            کارٹون دیکھنے والے بچوں پر کی جانے والی نفسیاتی تحقیق سے تین اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں:

            ۱-  ایسے بچے بے حس ہو جاتے ہیں اور انہیں دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر کوئی احساس نہیں ہوتا۔

            ۲-  ایسے بچے جو مسلسل تشد د کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ تشدد سے عام طور پر بے خوف اور اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔

            ۳-  اور پھر ایسے بچے خود تشد د مزاج ہو کر اس راہ کو اپنا لیتے ہیں۔

            (AAP)American Academy of Pediatricsنے اپنے پالیسی بیان میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ:

             یہ بات اب پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میڈیا میں پیش کیا جانے والا تشدد، حقیقی زندگی میں پائے جانے والے تشدد کی ایک اہم وجہ ہے، جس کے خلاف والدین اور ماہر ین اطفال کو قدم اٹھاناچاہیے۔

            (AACAP)American Academy of Child and Adolescent Psychiatry  نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جو بچے ایسے پروگرام دیکھتے ہیں، جن میں تشدد کو حقیقت کے قریب سے قریب تر کر کے دکھایا جاتا ہے وہ اس بات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز ایسے بچے اپنے مسائل کا حل تشدد کی راہ میں تلاش کرتے ہیں۔

۳-جسمانی ، ذہنی اور تعلیمی نشونماسے عدم توجہ:

            اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے ایسی تفریح طبع کو پسند کرتا ہے جس میں جسمانی ورزش ہو؛ کیوںکہ جس قدر جسم مضبوط اور چست ہوگا تو اسی قدر ذہن بھی تیز ہو گا ؛تاکہ انسان کی صلاحیتیں علم و عمل میں بھر پورلگ سکیں۔

            جسمانی ورزش سے خوب تھکاوٹ ہوتی ہے، پسینہ آتا ہے، اور پھر بھوک بھی خوب لگتی ہے۔ آج کل ماؤں کی عموماً شکایت یہی ہوتی ہے، کہ بچے کھانا نہیں کھاتے۔ اگر غور کیا جائے تو ٹی وی کے آگے گھنٹوں بیٹھے رہنے اور اس میں منہمک ہو جانے سے جسمانی حرکت تو ہوتی ہی نہیں۔ اب جب جسم تھکے گا ہی نہیں تو پہلے کا کھایا ہوا کھانا ہضم نہیں ہو گا، جس کے نتیجے میں اگلے کھانے کے وقت بھوک نہیں لگے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مائیں اپنا فرض نبھانے کے لیے صحت مند غذا کے بجائے فاسٹ فوڈ کا سہارا لے لیتی ہیں، جو بچے کی صحت کے لئے مزید نقصان کا باعث بنتا ہے نتیجہ بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہوتا ہے۔

            مسلسل ٹی وی دیکھنے سے بچوں میں بینائی کی کمزوری کی شکایات بہت بڑھ گئی ہیں۔ جہاں ابھی کچھ زمانے پہلے ،صرف بڑی عمر میں جا کر بینائی متا ثر ہوا کرتی تھی، اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے نظر کی عینک لگاتے ہیں۔ نیز انہماک کی وجہ سے مسلسل ایک حالت میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے سے کم عمر ہی میں سر درد اور جسم درد کی شکایت کرتے ہیں؛ مگر ہم بڑے ان کی اس بات پر یقین نہیں کرتے اور یہ کہ کر ٹال دیتے ہیں کہ بچپن میں کیسا درد؟ وغیرہ وغیرہ۔

            میڈیکل رسالے Pediatrics کے اپر یل۰۰۴ ۲ کے شمارے میں ایک رپورٹ شائع کی گئی، جس کے مطابق کم عمر بچوں کو ٹی وی دیکھنے سے۷؍ سال کی عمر میں توجہ کی کمی کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔

            نیز اسی تحقیقی رسالے کے ایک اور شمارے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکہ کے ملکی سروے کے مطابق ۱۶-۸ سالہ بچوں میں۵ ۲ فیصد بچے ہر روز کم از کم۴؍ گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں اور ایسے بچے وزن کی زیادتی کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔

            نیز مسلسل ٹی وی دیکھنے کی عادت سے بچے کا ذہن سُن ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے بچہ عملی میدان میں اقدام کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے؛ جس کے نتیجے میں وہ دانشورانہ قوتِ فیصلہ، تجزیاتی سوچ اور تخیلاتی قوت میں خاطر خواہ نقصان اٹھاتا ہے۔

            دسمبر۱۹۹۷ء میں’’ پوکیمون‘‘ نامی کارٹون کی ایک قسط نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ اس کارٹون کو دیکھنے کے بعد بچوں میں دورے پڑنے کی شکایات موصول ہوئیں۔ بچے کا وہ وقت جو کتب بینی اور مطالعہ کی صلاحیت کو پروان چڑہانے میں گزرناچاہیے تھاوہ ٹی وی دیکھنے کی نذر ہو جاتا ہے۔

۴- ناچ گانا:

            کارٹون کے ضمن میں بچوں کو گانا سنے اور ناچنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ ناچنا، گانا شریعت ِاسلامیہ میں بہت مذموم بتلایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:{و من الناس من یشتري لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ}۔

             ترجمہ: اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہو گا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔

            مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

            آیت مذکورہ میں{لہو الحدیث}کے معنی اور تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔

             حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت جابر کی بھی ایک روایت میں اس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے۔ (رواہ الحاکم  وصحہ البیہقی فی الشعب و غیرہ)

            جمہور صحابہ و تابعین اور دیگر مفسرین کے نزدیک{لہو الحدیث} عام ہے، تمام ان چیزوں کے لیے جو انسان کو اللہ کی عبادت سے غفلت میں ڈال دیں، اس میں غنا ور مزامیر (موسیقی اور آلاتِ موسیقی) بھی شامل ہیں اور بیہودہ قصے کہانیاں بھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں،اور امام بیہقی نے اپنی سنن میں{لہو الحدیث} کی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ اس میں فرمایاکہ:لہو الحدیث ہو الغناء وأشباہہ یعنی {لہو الحدیث} سے مراد گانا اور اس سے مشابہ دوسری چیزیں ہیں (یعنی جو اللہ کی عبادت سے غافل کر دے)۔

۵- عریانیت کافروغ:

            دین اسلام میں ستر و لباس کی اہمیت کو بہت اجاگر کیا گیا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لیے ستر کی الگ الگ حدود مقرر کی ہیں، جس سے کم لباس زیب تن کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے کہ:

            {یبنی اٰدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواٰتکم وریشاًولباس التقویٰ ذلک خیر، ذلک من اٰیت اللہ لعلہم یذکرون}۔

            ترجمہ: اے آدم کے بیٹے اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے، اور جو خوشنمائی کا ذریعہ بھی ہے اور تقوی کا جو لباس ہے، وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ سب اللہ کی نشانیوں کا حصہ ہے، جن کا مقصد یہ ہے کہ لوگ سبق حاصل کریں۔

            جبکہ کارٹون میں مؤنث کردار کو جو لباس پہنا ہوا دکھایا جاتا ہے، وہ شرم و حیا سے نہایت ہی گرا ہوا ہوتا ہے۔ والدین اس طرف دھیان نہیں دیتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو کارٹون ہی ہے کوئی حقیقت تو نہیں۔

            یاد رکھیے! اگر آج ستر و لباس کی اہمیت دل و دماغ میں نہ بیٹھی تو پھر آئندہ آنے والا وقت بہت بھیانک صورت اختیار کر لے گا۔

            {ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنوا لہم عذاب الیم فی الدنیا والاخرۃ واللہ یعلم وانتم لا تعلمون}

            ترجمہ: یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔

۶-طلسماتی کرداروں کا ان پر حاوی ہونا:

            چونکہ عمومی کارٹون طلسماتی کرداروں پر مشتمل ہوتے ہیں، جس میں کارٹون کردار کو عام انسانوں سے ہٹ کر غیر معمولی طاقت و صلاحیت کا مالک دکھایا جاتا ہے، اس لئے بچے اس کردار کے کارنامے دیکھ کر اس سے بہت مرعوب ہو جاتے ہیں۔ پھر خود کو اس مقام پر تصور کر کے اپنے اندر بھی اس نوعیت کی طاقت کی امید باندھتے ہیں۔ بہت سے کارٹون کردار اچھلتے کودتے، اونچائی سے کود کر غوطہ لگاتے اور بنا چوٹ کھائے زمین پر پہنچتے نظر آتے ہیں۔ نیز اسلحہ چلنے اور دھماکہ ہونے کے باوجود اس کا ان پر کوئی اثر نہ ہونا، بچے کے دماغ پر بہت برا اثر مرتب کرتا ہے۔

            ٹام اینڈ جیری  Tom-Jarryبہت ہی مشہور کارٹون اس کی بڑی مثال ہے، جس میں یہ غیر حقیقی کردار لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے کو مختلف گھر یلو و دیگر چیزوں سے مارتے دکھائے جاتے ہیں، جو بظاہر بڑا مزاحیہ لگتا ہے ،مگر کم عمر بچہ ان کرداروں کو شوق سے دیکھ کر نا دانستہ طور پر نقصان دہ سرگرمیاں سیکھ جاتا ہے اور ان کو اصل زندگی میں اپنانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس سمیت دیگر کلاسیکی کارٹونوں پر کئی ممالک میں پابندی لگادی گئی تھی۔

۷- ہندوانہ عقائد پر مبنی کارٹون:

            غیر مسلم ممالک، اپنے مذہب کی تعلیمات کو بچوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے اپنے مذہب کی کتابوں میں موجود کہانیوں کو کارٹون کی شکل میں پیش کرتے ہیں، مثلاً کرشنا، ہنومان اور چھوٹا بھیم کو کارٹون کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ ذیل میں ان شخصیات کے بارے میں کچھ تذکرہ کیا جاتا ہے، جس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا۔

            کرشنا: ’’ کرشنا‘‘، ہندؤوں کے منجملہ خداؤں میں سے ایک خدا کا نام ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق، ’’کرشنا‘‘ نے ’’ار جن ‘‘کو مخاطب کر کے جو منظوم کہانیاں پیش کیں، وہ آج ’’بھگوت گیتا‘‘ کے نام سے ہندؤوں کے مذہبی لٹریچر کا ایک اہم حصہ ہے۔ جس میں ہندووں (کورؤں اور پانڈوؤں) کی لڑائیوں کا تذکرہ ہے اور ’’کرشنا‘‘ کو ’’وشنو ‘‘(ہندؤوں کا خدا) کا آٹھواں اوتار بتایا گیا ہے۔

            ہنومان:   ہندو مذہب میں ’’ہنومان‘‘ کو بڑا مقام حاصل ہے۔ ہندو مت کی بڑی کتاب، ’’رامائن‘‘ کے مطابق، لنکا کے علاقے میں ’’رام‘‘ نے ’’ہنومان‘‘ ہی کی مدد سے اپنی بیوی ’’سیتا ‘‘کو،’’ راون‘‘ کی قید سے آزاد کرایا تھا۔

            چھوٹا بھیم:   یہ کردار بھی بچوں کی توجہ کا اہم مرکز ہے۔ چھوٹا بھیم، ایک ہند و تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’’مہابھارت‘‘، جو ہندووں کی ایک اور مقدس کتاب ہے، اس میں بھیم سین کے نام سے ایک انتہائی طاقتور شخص کا تذکرہ ہے، جو کورووں اور پانڈؤوں کی لڑائیوں میں کرشنا کی مدد کرتا نظر آتا ہے۔

            یہ کارٹون جب مسلمان بچے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اس کارٹون میں پیش کیے گئے مذہبی طلسماتی کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یقینا ایک مسلمان بچے کے لیے اپنی اس کم عمری میں کسی دوسرے مذہب کی شخصیت سے اس طرح متاثر ہو جانا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیز یہ کردار بچوں کے ذہن پر اس قدر سوار ہو جاتے ہیں کہ بچوں کے روز مرہ استعمال کی چیزوں مثلا بیگ،  مگ و غیر ہ پران کی تصاویر لگا کر فروخت کیا جاتا ہے۔

۸- سور کی شکل کے کارٹون:

            وہ کارٹون جو جانوروں کی شکلوں پر مبنی ہوتے ہیں اب ان میں غیر محسوس انداز سے بلی، شیر، چوہے،بطخ اور دیگر جانوروں کے ساتھ ساتھ سور کی شکل کے کارٹون بھی سامنے آرہے ہیں، جیسے ’’پور کی پِگ‘‘۔

             ہمارا معاشرہ، جس میں ایک وہ وقت تھا کہ جب اس جانور کا نام لینا تک پسند نہیں کیا جاتا تھا، اب صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو نادانستہ انتہائی غیر محسوس انداز میں اس حرام جانور سے روشناس کراتے ہیں۔ ایک سازش کے تحت، ان بچوں کے دلوں سے اس جانور سے نفرت کے جذبات کو کم کیا جارہا ہے، تا کہ یہ بچے اپنی آنے والی نسلوں کو ان جذبات سے بھی نہ دے سکیں اور پھر وہ نسل یا پھر اس سے اگلی نسل حرام خوری میں مبتلا ہو جائے۔

۹- نازیباحرکات:

            دین اسلام میں حیاو پاکدامنی کے حصول پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حیا کو ایمان کا جز قرار دیا ہے؛ اسی حیا کی بدولت انسان اپنے ستر و لباس کا بھی خیال رکھتا ہے، اپنی گفتار اور عمل و کردار میں بھی محتاط رہتا ہے؛ اسی کی بابت مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور عورتوں کو بن سنور کر کھلے بندوں گھومنے سے منع کیا ہے اور جب یہ حیانہ رہے، تو انسان شتر بے مہار ہو جاتا ہے اور اس کا خمیازہ معاشرے کوبھگتنا پڑتا ہے۔

ارشاد نبوی ہے کہ:’’الایمان بضع وستون شعبۃ، والحیاء شعبۃ من الایمان‘‘

            ترجمہ: ’’ایمان کے ساٹھ سے کچھ اوپرشعبے ہیں، اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔،،

            نیز ارشاد نبوی ہے کہ’’:ان مما ادرک الناس من کلام النبوۃ الاولی اذالم تستحی فاصنع ما شئت ‘‘ ترجمہ: ’’سابقہ نبوی تعلیمات سے جو کچھ لوگوں نے حاصل کیا اس میں ایک یہ ہے کہ: جب تم حیادار نہ ہو تو پھر جو چاہے کرتے پھرو۔‘‘

            چنانچہ بوس و کنار ایک حقیقی مرد و عورت کریں یا پھر دو کارٹون کردار، بہر حال ایک نازیبا اور شرم و حیا سے فروتر حرکت ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ والدین جو اپنے بچوں کو کسی فلم یا ڈرامے میں اس طرح کی نازیبا حرکات کے منظر سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، مگر کسی کارٹون میں اس طرح کی حرکات پر ان کے کانوں پرجوں بھی نہیں رینگتی۔ یاد رکھیے! یہ بچے کچے ذہن کے مالک ہیں، اگر آج انہیں اس طرح کے کارٹون سے نہ روکا گیا توان کا کل بہت خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔

            اللہم انی اعوذبک من الفتن ماظہر منہاوما بطن۔